توہین رسالت کا انجام

توہین رسالت کا انجام

حضرت عروہ بن زبیرؒ بیان کرتے ہیں کہ مکہ کے پانچ معمر سردار رسول اکرم ﷺ کو بہت زیادہ تکلیفیں دیتے، تمسخر کرتے۔
ان میں سے ایک تو اسود بن مطلب بن اسد تھا جسکی کنیت ابوزمعہ تھی۔ اسکی ناقابل برداشت ایذاؤں اور طنز و مذاق کی وجہ سے آپ ﷺ نے اس کے لئے بددعا کی کہ اے اللہ تو اس کو اندھا کردے اور اس کے جگر گوشے کو اس کی گود سے چھین لے۔ دوسرا اسود بن عبدیغوث بن وہب تھا ، تیسرا ولید بن مغیرہ بن عبداللہ، چوتھا عاص بن وائل بن ہشام اور پانچواں حارث بن طلاطلہ بن عمرو تھا۔
ایک دفعہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے جبریل علیہ السلام آئے اور کھڑے ہو کر رسول اکرم ﷺ کو اپنے ساتھ کھڑا کرلیا۔ اتنے میں (تمسخر کرنے والے رسول اکرم ﷺ کو دیکھ آموجود ہوئے) اسود بن مطلب قریب سے گذرنے لگا تو حضرت جبریل علیہ السلام نے اس کے چہرے پر ایک قسم کا سبز پتہ پھینکا وہ اسی وقت اندھا ہوگیا۔ اسود بن عبدیغوث قریب آیا تو اس کے پیٹ کی طرف جبریل علیہ السلام نے اشارہ کیا جس سے وہ استسقاء کا مریض بن گیا اور پیٹ پھول کر آخر اسی مرض سے مرگیا۔ ولید بن مغیرہ قریب سے گذرا اس کے ٹخنے کے نیچے کئی سال پرانا زخم تھا اور اس کا واقعہ یہ تھا کہ ایک دن وہ (ولید) اپنا تہبند ٹحنوں کے نیچے لٹکائے قبیلۂ خزاعہ کے ایک آدمی کے پاس سے گذرا جو اپنے تیر تراش رہا تھا ایک تیر ولید کے تہبند میں الجھ گیا اور اس سے اس کے ٹخنے پر خراش آئی جو انتہائی معمولی سی تھی۔
حضرت جبرئیل علیہ السلام نے اس کے اس زخم کی طرف اشارہ کیا زخم پھر سے تازہ ہوگیا اور وہ اسی زخم کے درد شدید سے تڑپ تڑپ کر بلاک ہوا۔ عاص بن وائل گذرنے لگا تو حضرت جبریل علیہ السلام نے اس کے پاؤں کے نیچے کی جانب اشارہ کیا اس کے بعد وہ وہاں سے طائف کی طرف اپنے گدھے پر سوار ہو کر روانہ ہوا اس کا گدھا ایک جھاڑی کے پاس پہنچ کر بیٹھ گیا تو عاص کے پاؤں میں ایک کانٹا چبھا جو اس کی موت کا سبب بن گیا۔
حارث بن طلاطلہ آپ کے پاس سے گذرا جبریل علیہ السلام نے اس کے سر کی جانب اشارہ کیا تو فوراً اس کے سر میں پیپ بھر گئی اور وہ مرگیا۔
اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت میں اس طرح ہے کہ رسول اکرم ﷺ کئی سال خفیہ طور پر دین کی تبلیغ کرتے رہے لوگوں کو کھلم کھلا کچھ نہیں بتا رہے تھے یہاں تک کہ یہ آیت اتری:
’’فاصدع بما تؤمر‘‘
’’آپ کو جو کچھ بتایا جائے اس کو کھلے عام بیان کر دیجئے‘‘
یعنی مکہ مکرمہ میں دین کو کھول کر بیان کیجئے کھلے عام بیان کیجئے آپ کے اور قرآن کے تمسخر اور مذاق اڑانے والوں کو اللہ نے ہلاک کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اور وہ (تمسخر کرنے والے) پانچ تھے۔ جبریل علیہ السلام آیت مذکورہ کو لے کر اترے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ پانچوں اب تک تو زندہ ہیں۔ مگر اللہ کا وعدہ تھا کیسے خلاف ہوسکتا تھا چنانچہ چوبیس گھنٹے کے اندر اللہ نے ان پانچوں کو ہلاک کردیا۔ ان میں سے ایک تو عاص بن وائل سہمی تھا وہ آیت بالا کے نزول کے دن جو کہ بارش کا دن تھا اپنی سواری پر بیٹھ کر باہر نکلا اس کے ساتھ اس کا ایک بیٹا بھی تھا جو سیر و تفریح کے ساتھ کچھ کھانا بھی چاہتا تھا۔ اس کو لے وہ پہاڑوں کے درمیان ایک گھاٹی میں داخل ہوا اور پھر جیسے ہی زمین پر قدم رکھا وہ چیخ اٹھا کہ مجھے ڈس لیا۔ لوگ جمع ہوگئے مگر تلاش بسیار کے باوجود کسی چیز کا سراغ نہ ملا ادھر اس کا پاؤں سوجھ کر اونٹ کی گردن جیسا ہوگیا اور وہ وہیں پر ہلاک ہوگیا۔
دوسرا حارث بن قیس سہمی تھا اس نے اس دن تازہ مچھلی کھائی تو سخت پیاس لگی وہ مسلسل پانی پیتا رہا یہاں تک کہ اس کا پیٹ پھٹ گیا اور یہ کہتا ہوا واصل جہنم ہوا کہ مجھے محمد کے رب نے مارا ہے۔
تیسرا ان میں اسود بن مطلب بن حارث تھا اس کا ایک بیٹا تھا جس کا نام تھا زمعہ۔ وہ اپنے باپ کا بڑا فرمانبردار تھا جب بھی وہ سفر کے لئے نکلتا اپنے والد کو تفصیل بتادیتا کہ فلاں فلاں جگہ جاؤں گا اور پھر واپس فلاں دن فلاں وقت آؤں گا۔ اور جو تفصیل وہ بتا کے جاتا کبھی اس کے خلاف نہیں ہوتا۔ ادھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسود کے لئے یہ بد دعا کردی تھی کہ اللہ اس کو اندھا کردے اور اس کی گود سے اس کے جگر گوشے کو چھین لے۔ تو جبریل علیہ السلام تشریف لائے ہاتھ میں سبز رنگ کا پتہ تھا اسود کی طرف اس کو پھینکا وہ اسی وقت اندھا ہوگیا۔ اس کے بعد وہ اپنے ایک غلام کو ساتھ لے کر بیٹے کی واپسی کے دن راستے سے اس کو لے آنے کے لئے نکلا ایک درخت کی جڑ کے پاس بیٹھا جبریل علیہ السلام آپہنچے اور اس کو سر سے مارنے لگے اور اس کے چہرے پر کانٹے چبھونے لگے اس نے مدد کے لئے اپنے غلام کو پکارا تو وہ آیا اور کہنے لگا کہ کوئی کچھ کرتا مجھے تو نظر نہیں آرہا آپ خود ہی اپنا سر پیٹ رہے ہیں اس حالت میں وہ جہنم رسید ہوا اور مرتے وقت کہنے لگا کہ مجھے محمد کے رب نے ہلاک کیا ہے۔
اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ زندہ رہا یہاں تک کہ جنگ بدر میں اس کا بیٹا قتل ہوا اور اللہ نے اس کے لخت جگر کو اس کی گود سے چھین لیا اس کے بعد وہ (اسود) بھی مرگیا۔
چوتھا ان میں ولید بن مغیرہ مخزومی تھا وہ بنو خزاعہ کے ایک آدمی کے تیروں کے پاس سے گذرا جو بنو خزاعہ کے اس آدمی نے دھوپ میں ڈال رکھے تھے اس نے ان تیروں کو روندا تو ایک تیر ٹوٹ گیا اور اس کے کپڑے میں لگ گیا جو اس کی رگ میں پھنسا اور اس کو ہلاک کردیا۔
ان میں پانچواں اسود بن عبدیغوث تھا وہ باہر گیا تو اس کو ایسی گرم لو لگی کہ وہ بالکل کالا اور حبشی جیسا ہوگیا جب وہ اس حالت میں گھر لوٹا تو گھر والے اس کو پہچان نہ سکے اور اس کے منہ پر دروازہ بند کردیا اس حالت میں وہ تڑپ تڑپ کر یہ کہتا ہوا مر گیا کہ مجھے محمد کے رب نے مارا ہے۔ اس طرح ان تمام مذاق اڑانے والوں کو اللہ تعالی نے ہلاک کردیا اور ہر ایک کو دوسرے سے مختلف طریقے سے ہلاک کیا۔ (دلائل النبوۃ لابی نعیم ۱؍۲۶۸۔۲۷۱ السیرۃ النبویۃ لابن ھشام ۲؍۴۰۸۔۴۱۰ (صفحہ مسلسل) المنمق ص ۳۱۰۔۳۱۱ تفسیر القرطبی ۱۰؍۴۱۔۴۲)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم میں جو ارشاد باری تعالی ہے کہ:
انا کفیناک المستھزئین (الحجر: ۹۵)
ترجمہ: تحقیق ہم تیری طرف سے تجھے تمسخر کرنے والوں کو کافی (اور بس) ہیں۔
سور رسول اکرم ﷺ سے تمسخر کرنے والے ولید بن مغیرہ، اسود بن عبدیغوث الزہری، قبیلہ اسد بن عبدالعزی کا ابوزمعہ اسود بن مطلب، حارث بن عیطل السہمی اور عاص بن وائل یہ پانچ رؤساء تھے۔ ایک مرتبہ حضرت جبریل امین تشریف لائے تو رسول اکرم ﷺ نے ان کے بارے میں شکوہ کیا اور ولید کو دکھادیا تو جبریل علیہ السلام نے اس کے پاؤں کی رگ کی جانب اشارہ کیا آپ ﷺ نے پوچھا کہ آپ نے یہ کیا کیا؟ جبریل امین کو اسود کی طرف اشارہ کر کے بتایا تو جبریل علیہ السلام نے اس کی آنکھوں کی جانب اشارہ کیا۔ آپ ﷺ نے پوچھا: آپ نے ایسا کیوں کیا؟ جبریل نے فرمایا: آپ اس کے شر سے بھی محفوظ ہوگئے۔ آپﷺ نے جبریل کو ابوزمعہ کی طرف اشارہ کر کے بتایا جبریل نے اس کے سر کی جانب اشارہ کیا آپ ﷺ نے پوچھا: آپ نے یہ کیا کیا؟ جبریل نے فرمایا: آپ ﷺ اس کے شر سے بھی محفوظ ہوگئے۔ اس کے سر یا پیٹ کی جانب اشارہ کیا اور آپ سے فرمایا کہ اس کے شر سے بھی آپ محفوظ ہوگئے۔
آپ ﷺ کے پاس سے عاص گذرا، آپ ﷺ نے اس کی طرف اشارہ کر کے بتایا تو جبریل علیہ السلام نے اس کے پاؤں کی ایک طرف اشارہ کیا اور آپ ﷺ سے فرمایا کہ اب آپ اس کے شر سے بھی محفوظ ہوگئے ہیں۔ اس کے بعد ولید قبیلہ خزاعہ کے ایک آدمی کے پاس سے گذرا جو اپنے تیر میں پر لگارہا تھا تو تیر اس کے پاؤں میں لگ گیا اور رگ کٹ گئی۔ اسود بن مطلب اندھا ہوگیا۔ اسود بن عبدیغوث کے سر کے اندر زخم پیدا ہوگئے جس سے وہ ہلاک ہوگیا، حارث بن عیطل کے پیٹ میں زرد پانی جمع ہوگیا یہاں تک کہ اس کے منہ سے پاخانہ نکلنے لگا اور اسی سے اس کی موت واقع ہوئی۔ اور عاص کے سر میں کانٹا چبھ گیا تو سر میں پیپ بھر گئی اور اسی سے وہ جہنم واصل ہوا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ وہ طائف کی طرف اپنی سواری کے گدھے پر سوار ہو کے روانہ ہوا تو ایک جگہ اترتے وقت اس کے پاؤں میں کانٹا چبھ گیا اور اسی سے وہ جہنم رسید ہوا۔ یہ حدیث صحیح ہے (السیرۃ النبویۃ للامام الذھبیؒ ۱؍۱۸۳ المطبوع فی اول سیر اعلام النبلاء)

عبرت انگیز واقعات۔ ص: ۴۵۔ ۵۰
تالیف: مفتی محمد عبدالغنی مدظلہم العالی ( استاذ جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں