سلام اس پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی

سلام اس پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی

ایک بار آپ صلی الله علیہ وسلم اپنی ازواج سے کسی قدر ناراض ہو گئے اور چند دنوں کے لیے کنارہ کشی اختیار کی، ان ازواج میں حضرت عمررضی الله عنہ کی صاحب زادی حضرت حفصہ رضی الله عنہا بھی تھیں، حضرت عمر رضی الله عنہ کو ازواجِ مطہرات اور خصوصاً اپنی صاحب زادی کا یہ رویہ ناگوار ہوا، انہوں نے پہلے حضرت حفصہ رضی الله عنہا کو تنبیہ فرمائی، پھر خدمت اقدس میں حاضر ہوئے، آپ صلی الله علیہ وسلم ایک معمولی چھوٹے سے بالا خانہ میں مقیم تھے، حضرت عمر رضی الله عنہ نے جب اس کمرہ پر اچٹتی ہوئی نگاہ ڈالی تو دیکھا کہ جسم مبارک پر صرف ایک تہبند ہے، ایک بچھونا ہے، جس پر بستر تک نہیں ہے، جسم اقدس پر رسیوں کے نشان ہیں، تکیہ ہے، لیکن درختوں کی چھالوں سے بھراہوا، ایک معمولی سا مشکیزہ چھپر سے لٹک رہا ہے او رگھر کے ایک کونہ میں تھوڑی سی جَورکھی ہوئی ہے، یہی آپ صلی الله علیہ وسلم کا سب کچھ ہے ، یہ وقت تھا کہ جزیرة العرب میں دور دور تک اسلام کی دعوت پہنچ چکی تھی، روم وایران اور یمن ومصر کے درمیان عرب کے وسیع علاقے پر آپ صلی الله علیہ وسلم کی حکم رانی کا تخت بچھ چکا تھااور صرف زمین ومکان ہی پر نہیں، بلکہ دل ودماغ پر بھی آپ کی حکومت قائم تھی … اس کے باوجود بے سروسامانی کا یہ عالم تھا، حضرت عمر رضی الله عنہ آبدیدہ ہو گئے اور کسی قدر دکھ کے ساتھ عرض کیا کہ قیصر وکسریٰ تو دنیا کا لطف اُٹھائیں او رعیش وعشرت میں مگن ہوں اور الله کے رسول کا یہ حال ہو کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے بدن پر ایک تہبند اور جسم پر کھجور کی چھال کینشانات ہوں، حضرت عمر رضی الله عنہ کی یہ بات آپ صلی الله علیہ وسلم کو پسند نہیں آئی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم کو یہ پسند نہیں کہ وہ دنیا کا عیش وآرام حاصل کریں اور ہم آخرت کا؟(ابن ماجہ، باب ضجاع آل محمد، ابواب الزھد،حدیث نمبر4153)

یہ فقیری اور درویشی اس شخص کی ہے، جس کی زندگی میں پورا جزیرة العرب اس کا جاں نثار اور فدا کار ہو گیا تھا اور اعداد وشمار کی زبان میں ہر دن 274 مربع میل کا علاقہ اس کی دعوت حق پر لبیک کہہ رہا تھا ” صلی الله علیہ وسلم“ کچھ اسی پر موقوف نہیں، بلکہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی پوری زندگی اسی فقیرانہ شان کا مظہر تھی، جس دن آپ صلی الله علیہ وسلم کی وفات ہوئی، اس دن آپ صلی الله علیہ وسلم کے گھر میں چراغ کے لیے تیل تک موجود نہیں تھا اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی زرہ مبارک تھوڑے سے جو کے عوض یہودی کے یہاں گروی رکھی ہوئی تھی ۔(بخاری:1/341)

ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی الله عنہا راوی ہیں کہ مہینوں ایسے گذر جاتے کہ گھر میں کھجور او رپانی کے سوا کھانے کو کئی چیز میسر نہیں ہوتی۔ (زادا لمعاد:1/148)

فاقہ مستی کی تلخ کامی بھی معمول بن چکی تھی، جب فاقوں کی کثرت ہوتی اور کم زوری کا احساس ہوتا تو پیٹ پر پتھرباندھ لیتے، ایک بار ایک صحابی رضی الله عنہ نے اپنی بھوک کے اظہار کے لیے پیٹ سے کپڑا اُٹھا یا، پیٹ پر ایک پتھر بندھا ہوا تھا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے شکم مبارک سے دامن اٹھایا تو دو دو پتھر بندھے تھے۔

فاقہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے لیے کوئی اتفاقی یا غیر معمولی بات نہیں تھی، حضرت عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ بسا اوقات آپ صلی الله علیہ وسلم تشریف لاتے ، دریافت فرماتے کہ کچھ کھانے پینے کی چیز ہے؟ معلوم ہوتا کہ کھانے کی کوئی چیز نہیں، تو فرماتے کہ پھر آج روزہ کی نیت کر لیتا ہوں۔ (مسلم:1/364) ایک دفعہ آپ صلی الله علیہ وسلم حضرت ابوبکر رضی الله عنہ اور حضرت عمر رضی الله عنہ سخت فاقہ کی حالت میں تھے، بھوک کی شدت تھی، آپ صلی الله علیہ وسلم اپنے دونوں رفقا کے ساتھ ایک انصاری صحابی رضی الله عنہ کے یہاں تشریف لے گئے، وہ گھر پرموجود نہ تھے، لیکن جلد ہی آگئے اور تواضع کے لیے بکرا ذبح کیا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے رفقا کے ساتھ تناول فرمایا، پھر فرمایا فاطمہ رضی الله عنہا کے یہاں بھی فاقہ ہے اور صاحب خانہ کی اجازت سے کچھ ان کے لیے بھی بھیج دیا۔ ( مسلم:2/176) بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ فاقہ کی وجہ سے گفت گو دشوار ہو جاتی، صحابہ محسو س کرتے اوراپنے گھر مدعو کرتے، غزوہ خندق کے موقعہ سے حضرت جابر رضی الله عنہ نے یہی کیفیت دیکھی اور اپنے گھر مد عو فرمایا۔ ( بخاری:2/588)

آپ کا گھر بھی سادگی کا موقع تھا،چھوٹے اور تنگ کمرے، حجرہ عائشہ کو دیکھ آج بھی اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے، چھتوں کی اونچائی صرف آٹھ فٹ تھی، کروفر کا اظہار آپ صلی الله علیہ وسلم کو ذرا بھی پسند نہ تھا، ایک بار تشریف لائے تودیکھا کہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا نے مصور کپڑے کا پردہ لٹکایا ہوا ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ناگواری کا اظہار فرمایا اور حضرت عائشہ رضی الله عنہ نے اسے پھاڑ کرتکیوں کا غلاف بنا دیا، (جامع الفوائد:1/314)

ایک دفہ اپنی لخت ِجگر حضرت فاطمہ رضی الله عنہا کے گھرگئے ،دیکھا کہدیوار پر از راہ آرائش پردے لگائے گئے ہیں، آپ صلی الله علیہ واپس ہو گئے، حضرت فاطمہ رضی الله عنہا کو ناگواری کا علم ہوا تو ہٹا دیا، تب پھر آپ تشریف لائے۔ (جمع الفوائد:1/315)

آپ صلی الله علیہ وسلم خود جس حال میں رہتے تھے، اپنے اہل وعیال کو بھی اسی حال میں رکھتے تھے، ازواج مطہرات کے یہاں ہفتوں چولہا سلگنے کی نوبت نہیں آتی تھی، ایک دفعہ مالِ غنیمت میں بہت سارے غلام اور باندی آئے ہوئے تھے اور مسلمانوں پر تقسیم کیے جارہے تھے، حضرت فاطمہ رضی الله عنہا بھی ایک خادم کی خواہش مند ہوئیں، ان کے ہاتھ اور کمر پر چکی پیستے اور مشکیزہ اٹھاتے اٹھاتے نشان پڑ گئے تھے، گھر میں کوئی کام کرنے والا نہیں تھا، سارے کام خود ہی کرنے پڑتے تھے، مگر آپ صلی الله علیہ وسلم نے خادم دینے کے بجائے ارشاد فرمایا:

کیا تم کو اس سے بہتر چیز نہ دوں؟ پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کو سوتے وقت 33دفعہ سبحان الله اور33 دفعہ الحمدالله اور34 دفعہ الله اکبر پڑھنے کی تلقین فرمائی اور بس۔

سیم وزر اور دنیا کا ساز وسامان آپ صلی الله علیہ وسلم کو کھٹکتا تھا، ایک دفعہ ایک ضرورت مند آیا اور مدد کا طلب گار ہوا، آپ کے پاس دینے کو کچھ نہیں تھا، لیکن عادت مبارکہ تھی کہ سائل کو بھی واپس نہیں فرماتے، اس لیے الله تعالیٰ کے بھروسہ اس کو بٹھا لیا، اسی طرح دوسرا ور تیسرا سائل آتا رہا اور آپ صلی الله علیہ وسلم ان کو بٹھاتے رہے، الله کا کرنا ایسا ہوا کہ ایک صاحب آئے اور چار اُوقیہ چاندی آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں ہدیہکی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک ایک اُوقیہ تینوں کو مرحمت فرما دیا اور کسی اور ضرورت مند کانتظا رکرتے رہے، اتفاق سے کوئی حاجت مند شخص نہیں آیا اور چاندی آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس رہ گئی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اسے اپنے سرہانے میں رکھ لیا، لیکن پوری رات آپ صلی الله علیہ وسلم بے چین سے رہے اور بے سکون کروٹیں لیتے رہے، بے قرار ہو کر بار بار اٹھتے اور نماز ادا فرماتے، ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی الله عنہا نے اس کیفیت کا سبب دریافت کیا، تو چاندی نکال کردکھائی اور فرمایا کہ یہی میری بے قراری کا باعث ہے، ڈر لگتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ چاندی میرے پاس رہے اور اسی حال میں خدا کا بلاوا آجائے۔

آپ صلی الله علیہ وسلم کے رہن سہن اور طور طریقہ سے قدم قدم پر درویشی ٹپکتی تھی، کپڑے اتنے معمولی اور موٹے ہوتے کہ دوسروں کے لیے پہننا بھی دشوار ہوتا۔ (زاد المعاد:1/141)

کھانے کا حال یہ ہوتا کہ جو میسر آجاتا، ہنسی خوشی تناول فرماتے، ایک بار سرکہ مل گیا، جسے لوگ معمولی سمجھتے تھے، تو فرمایا کہ سر کہ تو بہترین سالن ہے۔ (ابن ماجہ، الأمتدام بالخل،حدیث نمبر:3318)

کھانے کی بیٹھک بھی تواضع اور فروتنی کا مظہر تھی ، خود ارشاد فرمایا کہ میں اس طرح کھاتا ہوں،جس طرح کوئی غلام کھاتا ہے۔ ”انا أکل کما یأکل العبد․“(زادالمعاد:4/221) کوئی امتیاز بالکل پسند نہ تھا، اپنے رفقا کے ساتھ ایک ہی برتن میں تناول فرمالیتے، حجة الوداع کے موقعہ پر زمزم کے پاس تشریف لائے اور زمزم نوش فرمانے کی خواہش کی، زمزم پر حضرت عباس رضی الله عنہ اور ان کے خانوادے کی ذمہ داری تھی، وہی اپنے بچوں کے ساتھ پانی کھینچتے اور حجاج کو پلاتے، حضرت عباس رضی الله عنہ نے اپنے فرزند حضرت فضل سے فرمایا کہ تمہاری والدہ کے پاس صاف برتن میں علیحدہ زمزم رکھا ہوا ہے، اس میں سے حضور کے لیے لاؤ، یہاں جو پانی تھا، اس میں ہر شخص کا برتن اور ہاتھ پڑتا تھا، لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس امتیاز کو پسند نہیں فرمایا اور اسی برتن میں سے پانی پینے کو ترجیح دی۔ (بخاری:1/221)

گھر یلو زندگی میں بھی آپ کے یہاں درویشی کا رنگ چھایا ہوا تھا، حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے دریافت کیا گیا کہ گھر میں آپ کی کیا مصروفیت رہتی تھی؟ تو فرمایا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم گھر کے کام کاج کرتے ، اپنے کپڑوں میں خود پیوند لگا لیتے، جوتا پھٹ جاتا تو مرمت کر لیتے، دودھ دوہ لیتے، اونٹ کو چارہ بھی ڈال لیتے، جھاڑو بھی دے لیتے اور بازار سے سودے بھی خرید لاتے۔

اپنے رفقاء کے ساتھ آپ صلی الله علیہ وسلم کا رہن سہن بھی ایسا بے تکلفانہ اور سادہ ہوتا تھا کہ نہ کوئی دربار تھا نہ دربان اور نہ کسی کے لیے ہٹو بچو، عامی سے عامی بے تکلف آپ کی مجلس میں آسکتاتھا اور بے تکلفی سے سوال کر سکتا تھا، بعض دیہاتی تو اپنی کم علمی کی وجہ سے ایسی باتیں کر جاتے جن کو سوء ادب کہنا غلط نہ ہو گا، جب آپ صلی الله علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھے ہوتے تو آپ صلی الله علیہ وسلم کو پہچاننا دشوار ہو جاتا، ہجرت کے موقعہ پر جب آپ صلی الله علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو حضرت ابوبکر رضی الله عنہ رفیق سفر تھے، لوگوں کو سمجھ میں نہ آتا تھا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کون ہیں اور آپ کے رفیق خاص حضرت ابوبکر کون ہیں؟ یہاں تک کہ جب دھوپ بڑھی اور حضرت ابوبکر رضی الله عنہ نے اپنے رومال سے آپ پر سایہ کیا تب لوگوں کو معلوم ہوا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم الله کے رسول ہیں۔

کوئی بھی شخص آپ سے اپنی ضررت بے تکلف بیان کرتا اور آپ اس کے کام آتے ، حضرت خباب رضی الله عنہ ایک جنگی مہم پر گئے ہوئے تھے، ان کے گھر میں کوئی مرد موجود نہ تھا، آپ صلی الله علیہ وسلم پابندی سے ان کے یہاں تشریف لے جاتے اور بکریوں کا دودھ دوہ دیتے، حضرت عدی بن حاتم رضی الله عنہ جب خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ بے تکلف ایک باندی نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو روک لیا او راپنی ضرورت سنائی، آپ صلی الله علیہ وسلم سنتے رہے اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کی ضرورت پوری فرمائی، حضرت عدی رضی الله عنہ نے اس کیفیت کو دیکھ کر فیصلہ کیا کہ یہ کسی بادشاہ کا عمل نہیں ہو سکتا، یہ کسی نبی ہی کا عمل ہو سکتا ہے!… اجتماعی کاموں میں بھی آپ لوگوں کے ساتھ مل جل کر کام کرتے اور ”من وتو“ کا امتیاز روا نہیں رکھتے، مسجد نبوی صلی الله علیہ وسلم کی تعمیر میں آپ نے بہ نفس نفیس شرکت فرمائی اور عام آدمی کی طرح کام کرتے رہے حالاں کہ صحابہ چاہتے تھے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم خود زحمت نہ فرمائیں۔ (زادالمعاد:3/62)

غزوہٴ خندق کے موقعہ پر خندق کھودنے میں بھی آپ شریک رہے اور جو چٹان کسی سے ٹوٹ نہ پائی، آپ نے اپنے دست مبارک سے اسے پاش پاش فرما دیا۔ (بخاری:2/588)

اپنے رفقاء کے ساتھ آپ صلی الله علیہ وسلم کا سلوک بالکل برادرانہ اور دوستانہ ہوتا تھا، لوگوں کو آپ صلی الله علیہ وسلم سے ملنے میں نہ کوئی خوف ہوتا اور نہ کوئی جھجھک، وہ آپ صلی الله علیہ وسلم سے ملاقات کے مشتاق رہتے اور آپ کے دیدار سے محرومی ان پر بہت شاق گذرتی تھی، کبھی کسی کو کوئی تکلیف پہنچ جاتی تو آپ صلی الله علیہ وسلم کو معذرت کرنے میں ذرا بھی عار نہ ہوتی۔ ایک بار فوج کی صفیں درست کر رہے تھے، ایک لکڑی دست مبارک میں تھی، آپ صلی الله علیہ وسلم اس سے صف برابر کر رہے تھے، ایک صحابی کے پیٹ میں لگ گئی او رمعمولی سی خراش آگئی، صحابی نے قصاص کا مطالبہ کیا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے آپ کو قصاص کے لیے پیش فرمایا، انہوں نے عرض کیا کہ میرا پیٹ اس وقت کھلا ہوا تھا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے شکم مبارک سے کپڑے اٹھالیے، وہ آپ صلی الله علیہ وسلم چمٹ گئے اور شکم مبارک کو بوسہ دینے لگے کہ یہی میرا قصاص ہے… ایک دن مالِ غنیمت تقسیم فرمارہے تھے اژدھام تھا، ایک صاحب گرے پڑ رہے تھے، یہاں تک کہ منھ کے بل آپ پر گر پڑے، آپ صلی الله علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک پتلی سی چھڑی تھی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اسی سے ان کوہٹایا، اتفاق سے چھڑی سر میں لگ گئی اور کسی قدر خراش آگئی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے بے تکلف چھڑی بڑھادی اور فرمایا کہ بدلہ لے لو، صحابی نے عرض کیا کہ میں نے معاف کیا۔

بعض اوقات اپنے رفقاء سے مزاح بھی فرماتے تھے، ایک بوڑھی خاتون آئیں اور سواری کے لیے اونٹنی کی خواست گار ہوئیں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں اونٹنی کا ایک بچہ دے دو، انہوں نے پریشانی کا اظہار کیا او رکہا کہ اونٹنی کے بچہ سے کیا کام چل سکے گا؟ آپ صلی الله علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا: کوئی بھی اونٹ ہو، وہ اونٹنی کا بچہ ہی تو ہوتا ہے۔ ( احیاء علوم الدین:12/93) حضرت زاہر رضی الله عنہ ایک صحابی تھے، کبھی کبھی آپ صلی الله علیہ وسلم ان سے مزاح فرماتے، ایک بار حضرت زاہر رضی الله عنہ بازار گئے کچھ سامان لے کر بیٹھے ہوئے تھے اور فروخت کر رہے تھے، آپ صلی الله علیہ وسلم پیچھے سے تشریف لائے، ان کی آنکھوں پر اپنا ہاتھ رکھ دیا اور از راہ مزاح فرمایا:

کون اس غلام کوخریدے گا؟ حضرت زاہر آپ صلی الله علیہ وسلم کو پہچان گئے ،اپنی پشت شکم مبارک سے از راہ تبرک چمٹانے لگے اور کہتے جاتے کہ یہ سودا خام ہے۔

دوستوں کی دل داری کا بھی خوب خیال رکھتے، معمولی سے معمولی تحفہ قبول فرماتے اور ادنیٰ سے ادنیٰ آدمی کی دعوت پر بھی تشریف لے جاتے، کسی کے یہاں موت ہوتی تو خود جاکر تعزیت فرماتے، کوئی معمولی شخص بھی بیمار پڑتا تو عیادت کا اہتمام فرماتے، غریبوں اور مسکینوں کو بھی عزیز رکھتے، غلاموں اور باندیوں کے ساتھ انصاف برتا جائے، اس کا پورا لحاظ رکھتے، کسی کی معمولی سی بھی دل آزاری ہوجائے تو اس کی تلافی فرماتے، حضرت عبدالله ابن مکتوم غلام بھی تھے اور نابینا بھی، آپ صلی الله علیہ وسلم رؤساء قریش سے مصروف گفت گو تھے کہ اسی درمیان حاضر خدمت ہوئے او رکچھ سوال کیا، سرداران قریش کی پیشانی پر بل پڑ گیا، وہ ایسے لوگوں کو بہت حقیر اور کم تر جانتے تھے اور اس لائق بھی خیال نہ کرتے تھے کہ ان کو اپنی مجلسوں میں جگہ دی جائے، چناں چہ حضرت عبدالله رضی الله عنہ کو دیکھتے ہی انہوں نے ناگوار ی کااظہار کیا، آپ صلی الله علیہ وسلم کو بھی یہ خیال گذرا کہ کاش حضرت عبدالله ابن مکتوم رضی الله عنہ نے اس وقت سوال نہ کیا ہوتااور کسی قدر ناگوار خاطر ہوا، آپ صلی الله علیہ وسلمنے سوچا: ممکن تھا کہ ان سرداران قریش کو ایمان کی توفیق میسر آجاتی، قرآن مجید نے خود اس واقعہ کا ذکر کیا ہے (عبس:2-1) حالاں کہ عبدالله ابن مکتوم رضی الله عنہ نے اس کا کچھ برا نہیں مانا، لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم کو اس کا اتنا پاس تھا کہ چودہ پندرہ دفعہ مدینے سے باہر جاتے ہوئے آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کو نابینا ہونے کے باوجود مدینہ کا گورنر مقرر فرمایا، حضرت بلال رضی الله عنہ کو موذن ہونے کا اعزار بخشا، جو بہت بڑا اعزاز تھا اور جس کے بارے میں حضرت عمر رضی الله عنہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر مجھ پر خلافت کی ذمہ داری نہ ہوتی، تو میں اذان دینے کو ترجیح دیتا۔

غرض کھانا، پینا، لباس وپوشاک، رہن سہن، گھریلو زندگی، دوستوں کے ساتھ سلوک اور سماج کے ساتھ اخلاق وبرتاؤ، ہر جگہ ایک فقیرانہ شان نمایاں ہے، ایسی فقیری جس پر ہزار سلطنتیں نثار اور ایسی درویشی جس پر صد ہزار بادشاہتیں نچھاور… یہ درویشی آپ صلی الله علیہ وسلم کو اتنی عزیز تھی کہ آپ صلی الله علیہ وسلم خدا کے حضور دعا فرماتے کہ بار الہا! مجھے مسکینی ہی کی حالت میں زندہ رکھ، اسی حالت میں اٹھا او رمسکینوں ہی کے ساتھ میرا حشر فرما!(ترمذی عن انس رضی الله عنہ… )اسی لیے علامہ اقبال نے کہا #
شوکت سنجر وسلیم، ترے جلال کی نمود
فقر جنید وبایزید، ترا جمال بے نقاب!


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں