فضائے بدر

فضائے بدر

مدت سے آرزو تھی کہ کبھی اس میدان کی زیارت ہو جہاں اسلام اور کفر کے مابین پہلا معرکہ برپا ہوا تھا۔
حرمین کے اس تیسرے سفر میں اللہ نے یہ حسرت پوری کردی۔ میدانِ بدر مدینہ منورہ سے تقریباً ڈیڑھ سو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ زمانہ جاہلیت میں بھی یہ جگہ خاصی معروف تھی۔ یہاں ہر سال ایک سالانہ میلہ لگتا تھا، جسے ’’سوقِ بدر‘‘ کہا جاتا تھا۔ پورے عرب سے لوگ اپنا مال، مویشی اور دیگر سامانِ تجارت یہاں لاتے تھے۔ شعر و شاعری کی مجالس آراستہ ہوتی تھیں۔ کچھ لوگ پینے پلانے اور رقص و سرود سے بھی دل بہلاتے تھے۔ اگرچہ بدر آج بھی ایک چھوٹا سا قصبہ ہے، جہاں چند خوبصورت کوٹھیوں، کچھ سکونتی مکانات، ایک دو مارکیٹوں اور چند سرکاری عمارتوں کے سوا کچھ نہیں۔ دور دراز تک سارا علاق بالکل بنجر، ویران اور غیرآباد ہے۔ چودہ صدیاں قبل یہ کیسا بیابان علاقہ ہوگا؟ اس کے باوجود اس کی تجارتی اہمیت اس قدر کیوں تھی؟ غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ مقام مکہ اور شام کے درمیان تقریباً نصف مسافت پر پڑتا ہے۔ پھر یہ ساحل سے نسبتاً قریب ہے۔ یہاں سے کچھ دور ’’ینبع‘‘ کی بندرگاہ ہے، جو بحیرہ احمر کی مشرقی و مغربی بندرگاہوں سے مربوط ہے۔ صدیوں سے یہاں سامان چڑھتا اور اترتا ہے۔ بدر شام جانے والی شاہراہ پر واقع ایک ایسا نقطۂ اتصال تھا جہاں سال میں ایک بار افریقہ، شام اور یمن کا تجارتی سامان جمع ہوتا تھا اور عرب قبائل حسبِ ضرورت اسے تھوک کے حساب سے خرید کرلے جاتے تھے۔ عرب کی اپنی پیداوار اور مصنوعات زیادہ تر کھجور اور چمڑے جیسی دو تین چیزوں تک محدود تھیں، تا ہم عرب شام سے رومی کپڑے اور مصر سے جو شراب لاتے تھے، وہ بیرونی تجار ہاتھوں لیتے تھے۔
شام جانے والا قریشی قافلہ واپسی پر اس وادئ بدر میں اترنے والا تھا مگر اسے مسلمانوں کے گشتی دستوں کی قریب میں موجودگی کی بھنک پڑگئی۔ قافلہ راستہ بدل کر نکل گیا اور اس کے دفاع کے لیے مکہ سے نکلنے والا لشکر قریش عین اس وقت بدر پہنچ گیا جب مسلمان قافلے کو روکنے بدر کی وادی میں اترے تھے۔ یہاں حق و باطل کے مابین تاریخِ اسلام کی پہلی جنگ ہوئی، جس میں اللہ کی غیبی نصرت شاملِ حال ہوئی اور معرکہ بدر اسلامی فتوحات کا سرنامہ بن گیا۔
میدانِ بدر کی زیارت کے لیے ہم کئی دنوں تک پروگرام بناتے رہے، مگر ٹیکسی والے تین سو سے چار سو ریال تک کرایہ بتاتے تھے جو ہمارے حساب سے بہت زیادہ تھا۔ ہم ’’کم خرچ بالانشین‘‘ کی تلاش میں رہے۔ آخر ہوٹل کی لفٹ پر ہاتھ سے لکھا ہوا ایک اشتہار دیکھا، جس میں کسی رانا صاحب نے تیس تیس ریال میں بدر کی زیارت کرانے کی پیش کش کی تھی۔ ساتھ فون نمبر بھی تھا۔ ہم نے فون کرکے بکنگ کرالی۔ اگلے دن صبح ساڑھے سات بجے رانا صاحب کا فون آیا کہ بس آپ کے ہوٹل کے باہر کھڑی ہے۔ ہم نے دو شاپروں میں ہلکا سامان لیا، جس میں پانی کی بوتلیں، کھجوریں و غیرہ تھیں اور باہر نکل آئے۔ بس کو باہر سے دیکھا تو ذرا پُرانی لگی مگر یہ دیکھ کر اطمینان ہوا کہ اس پر ’’مرسڈیز‘‘ کا لیبل چمک رہا تھا۔ ملک صاحب نے کہا: ’’بس مرسڈیز ہے۔ اچھی ہی ہوگی۔‘‘ تا ہم اندر داخل ہوتے ہی اطمیان رخصت ہوگیا۔ اندرونی حالتِ زار دیکھ کر مجھے شینو برادران کی وہ کھچاڑا بس یاد آگئی، جس میں ہمارا کنبہ فروری ۲۰۱۳ء میں کراچی سے حسن ابدال منتقل ہوا تھا۔ با دلِ نخواستہ میں سیٹ پر بیٹھ گیا اور ملک صاحب نے اوپر سامان رکھنے والی جگہ میں چاپر ٹھونسنا شروع کیے مگر اگلے ہی لمحے وہ شاپر میری گود میں پڑے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ سامان رکھنے والی جگہ کے بیچ بیچ میں اتنے بڑے بڑے شگاف تھے کہ یہ چھوٹے چھوٹے شاپران سے گزر کر با آسانی میری گود میں آگرے تھے۔ سیٹیں انتہائی گندی، بس کے شیشے اتنے میلے کہ باہر کا منظر گرد و غبار کے بادلوں سے بھرا دکھائی دیتا تھا۔ حیرت ہے کہ سعودی حکومت ایسی خراب بسوں کے اتنے طویل روٹ پر چلنے کی اجازت کیسے دیتی ہے؟ یہ سعودی کوچز کی بجائے اٹک سے حسن ابدال جانے والی بس لگ رہی تھی۔ ڈرائیور نے اے سی بند کیا ہوا تھا، جس کے باعث بش میں بڑی گھٹن تھی۔ ہمارے بار بار کہنے پر اس نے اے سی آن کیا، جس کی کیفیت حاجی گلزار کے ہوٹل کے اے سیوں سے مختلف نہ تھی۔
بس نے مدینہ میں جگہ جگہ اسٹاپ کیا۔ پاکستانی ہوٹلوں سے ہمارے جیسے ناسمجھ حاجی اس میں بیٹھتے رہے۔ آخر بس بدر کی طرف روانہ ہوگئی۔ شاہراہ پر آکر بھی بس کی رفتار میں کوئی زیادہ اضافہ نہ ہوا۔ اسپیڈ ستر کلومیڑ سے اوپر ہوتے ہی بس کا انجن تھکے ہوئے اونٹ کی طرح ہانپنا شروع کردیتا تھا۔
بس صحرا کے درمیان سے گزرتی چلی جارہی تھی۔ دور پہاڑیوں پر بھیڑ بکریوں کے غول اور کہیں کہیں نشیب میں اونٹوں کے ریوڑ بھی دکھائی دیتے تھے۔ دیہات نہ ہونے کے برابر تھے، البتہ چھوٹے چھوٹے کارخانے، گودام، گیرج اور سرکاری عمارتیں کہیں کہیں دکھائی دیتی تھیں۔ کئی کئی میل بعد کوئی گاؤں نظر آتا جو زیادہ سے زیادہ دس پندرہ گھروں پر مشتمل ہوتا تھا۔ میں اور ملک ریاض بس کی حالت اور رفتار سے بے گانہ ہو کر ان مناظر میں کھو گئے۔ یہ وہی راستہ تھا، جس سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ گزر کر میدانِ بدر پہنچے تھے۔ راستے میں پہلی منزل ’’بئر روحا‘‘ تھا۔ حجاج اور معتمرین کی بڑی تعداد یہاں جمع تھی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ بھی بدر جاتے ہوئے یہاں ٹھہرے تھے۔ یہاں ایک کنواں ہے جس کا میٹھا پانی لوگ تبرک کے طور پر لے جاتے ہیں۔ کنویں کا پانی بوتلوں میں بھی فروخت کیا جاتا ہے۔ پانی کا کچھ حصہ ایک تالاب میں چھوڑا جا رہا تھا، جس سے مرد و زن اور اونٹ ایک ساتھ پانی پی رہے تھے۔
کوئی بیس پچیس منٹ بعد ہم روحاء سے آگے بدر کی طرف روانہ ہوئے۔ مدینہ سے بدر تک ڈیڑھ گھنٹے کا سفر تقریباً اڑھائی گھنٹے میں طے ہوا اور آخر ہم میدانِ بدر پہنچ گئے۔ جس چھپر میں کھڑے ہو کر رسول اللہ ﷺ فوج کی کمان کر رہے تھے، اس کی جگہ ایک خوبصورت مسجد ہے، جسے ’’مسجدِ عریش‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں رسول اللہ ﷺ نے دعا کی تھی: ’’یا اللہ! اگر آج یہ جماعت ہلاک ہوگئی تو قیامت تک تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔‘‘
لوگ مسجد عریش میں نوافل پڑھنے لگے۔ میں اور ملک صاحب میدان بدر میں اتر گئے۔ یہ پہاڑیوں اور ٹیلوں گھرا ہوا قدرے ناہموار میدان ہے جس میں جگہ جگہ جھاڑیاں اگی ہوئی ہیں۔ کیسا منظر ہوگا جب یہاں بھائی کے مقابلے میں بھائی اور بیٹے کے سامنے باپ آیا ہوگا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بیٹے عبدالرحمن جنگ بدر میں مشرکین کے ساتھ تھے۔ بعد میں مشرف بہ اسلام ہوئے تو ایک دن والد محترم کو کہنے لگے: جنگ بدر کے دن آپ میری زد میں آئے تھے مگر میں نے آپ پر وار نہ کیا۔۔۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے برجستہ فرمایا: ’’اگر اس دن تم میرے سامنے آجاتے تو میں ذرا بھی گریز نہ کرتا۔۔۔‘‘ (تاریخ الخلفاء)
کچھ دور وہ کنواں تھا، جہاں جنگ کے بعد مشرکین کی لاشیں پھینکی گئی تھیں۔ قریب ایک خوفناک سا کتا بندھا ہوا تھا۔ غالباً یہ اس لیے تھا کہ زائرین کے قریب نہ آئیں۔ ہم نے بھی زیادہ قریب جانے کی کوشش نہ کی۔
میں تصوری میں مشرکین کی لاشیں دیکھ رہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ لاشوں کے درمیان گھوم پھر رہے تھے۔ رسول اللہ ﷺ اپنی عادت کے برخلاف اس دن ایک مصرعے کا ابتدائی حصہ پڑھتے:
’’نُفلِقُ ہاماً‘‘ (ہم سر پھاڑ دیتے ہیں)
اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اسے مکمل کرتے:
’’من رجال اعزۃ علینا، و ہُم کانوا اعَقَّ و اظلما‘‘
(ان لوگوں کے جو ہم پر تشدد کریں اور وہ نہایت فرمان اور انتہائی ظالم ہوں) (البدایہ و النہایہ، غزوہ بدر)
میں نے سوچا: آج مسلمانوں پر تشدد کرنے والے بہت زیادہ ہیں۔ آج مسلمانوں کے مصائب انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔ طاغوتی طاقتوں کا ظلم ہر حد کو پار کر چکا ہے، مگر ہم اس ظلم کے سامنے ہتھیار ڈال چکے ہیں۔ ایک وہ وقت تھا جب مٹھی بھر مسلمانوں نے ظلم اور سرکشی کرنے والوں کو منہ کے بل گرا کر حالات کا رُخ پھیر دیا تھا۔ آج ہم ڈیڑھ ارب ہیں مگر ہر نوع کا کفر ہمیں کچلنے میں لگا ہوا ہے۔ امریکا جیسی سپر پاور سے لے کر برما جیسے چھوٹے چھوٹے ملک بھی مسلمانوں کو ذبیحہ بنائے ہوئے ہیں۔ ہاں جب ’’حب الدنیا‘‘ اور ’’کراہیۃ الموت‘‘ کا مرض عام ہوجائے تو پھر یہی ہوگا۔ حدیث نبویہ کے عین مطابق ہم تعداد میں بہت زیادہ ہوتے ہوئے بھی سمندر کی جھاگ سے زیادہ کچھ حیثیت نہیں رکھتے۔ ہاں اگر ہم میں سے تین سوتیرہ بھی بدر والے پیدا ہوجائیں تو حالات بدل سکتے ہیں۔
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے، قطار اندر قطار اب بھی


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں