مدارسِ دینیہ کی اسناد کی قانون حیثیت

مدارسِ دینیہ کی اسناد کی قانون حیثیت

وطن عزیز پاکستان اسلام کے نام اور کلمہ طیبہ کے نعرے پر معرض وجود میں آیا۔
اس ملک کا آئین اسلامی ہے اس لیے ریاستِ پاکستان کی بنیادی ذمہ داریوں میں یہ بات شامل ہے کہ یہاں کے شہریوں کی دینی تعلیم کا بند و بست کیا جائے، اسلامی سروسز مہیا کرنے والے افراد تیار کیے جائیں، قرآن و سنت کی خدمت کا نظام تشکیل دیا جائے، یہاں کے باسیوں کی دینی تعلیم و تربیت کا فریضہ سرانجام دیا جائے، لیکن بدقسمتی سے شروع سے ہی جو لوگ اور طبقات اس ریاست کے سیاہ و سفید کے مالک چلے آرہے ہیں ان کی ترجیحات میں دینی تعلیم و تربیت شامل ہی نہیں رہی، اگر ان کا بس چلے تو وہ پاک وطن سے تمام دینی اقدار و روایات کو کھرچ کھرچ کر مٹا ڈالیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ایک سیکولر ملک بنانے کی سعی کریں۔
یہ ملک چونکہ عطیہ خداوندی ہے اس لیے شروع سے ہی اللہ رب العزت نے بہت سے خوش نصیب لوگوں بالخصوص وطن عزیز کے حصول کے لیے جد و جہد کرنے اور قربانیاں دینے والوں کی اولادوں اور نام لیواؤں کو وطن عزیز کے حصول کے مقاصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے خدمات سرانجام دینے کی توفیق عطا فرمائی چنانچہ پاکستان میں دینی مدارس کا ایک معیاری نظام موجود ہے نہ صرف دینی مدارس بلکہ ان کا ایک پورا منظم نیٹ ورک ہے، ایک جامع اور مکمل نظام تعلیم ہے جو اپنی مدد آپ کے تحت پاکستانی قوم کے تعاون سے ریاست کے حصے کا بوجھ بھی اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہے۔ ایک ایسا تعلیمی نظام جو نظریہ پاکستان، مقاصدِ پاکستان اور آئین پاکستان کے تقاضوں کو کما حقہ پورا کرنے میں مصروف عمل ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دینی مدارس کے اس نظام کو اہمیت دی جاتی، دینی مدارس کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا، دینی مدارس میں زیرتعلیم طلبہ کو پاکستانی بچے سمجھا جاتا، دینی مدارس کے فضلاء سے دوسرے درجے کے شہریوں کا سا سلوک روانہ رکھا جاتا لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوسکتا تا آنکہ طویل جد و جہد اور تگ و دود کے بعد ۸۲؍۱۹۸۱ میں یونورسٹی گرانٹس کمیشن نے دینی مدارس کی شھادۃ العالمیہ کو ایم اے اسلامیات اور ایم اے عربی کے مساوی قرار دے دیا۔ یہ ایک بڑی پیش رفت تھی جس کے دور رس اثرات مرتب ہوئے، دینی مدارس کے فضلاء کو زندگی کے مختلف شعبوں میں جانے کا موقع ملا، دینی مدارس کی تعلیم کی اہمیت کو ریاستی سطح پر تسلیم کیا گیا، دینی مدارس کو اپنا نظام و نصاب بہتر بنانے میں مدد ملی اور بہت سے نوجوانوں کو دین اور ملک و ملت کی خدمت کے مواقع میسر آئے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دینی مدارس کی اسناد کی اس مسلمہ حیثیت کو نظر انداز کرنے کا سلسلہ بھی بڑھتا چلا گیا اور رفتہ رفتہ دینی اسناد کی قدر و منزلت کو بھی دانستہ طور پر کم کرنے کی کوشش کی گئی ایسے میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان اور اتحاد تنظیمات مدارس مسلسل جہاں دینی مدارس کی حریت و آزادی کی جنگ لڑتے رہے اور دینی مدارس کے نظام کو بہتر سے بہترین بنانے میں مصروف عمل رہے وہیں دینی مدارس کی اسناد کی اہمیت کو اجاگر کرنے اور ان اسناد کو حاصل قانونی حیثیت کے تحفظ کے لیے بھی جد و جہد جاری رکھی۔
کچھ عرصے سے بعض یونیورسٹیز کی طرف سے یہ شکایت موصول ہورہی تھی کہ ان میں ایم فل اور پی ایچ ڈی و غیرہ کے داخلوں کے لیے دینی اسناد کے ہوتے ہوئے بھی، غیرضروری اور غیرقانونی طور پر بی اے کی ڈگری کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ ہم نے اس صورتحال پر اپنی تشویش سے ایچ ای سی کے ذمہ داران کو آگاہ کیا، ملاقاتیں کیں، رابطے کیے، تحریری طور پر نوٹس لینے کی درخواست کی جس کے نتیجے میں ایچ ای سی نے اس طرز عمل کا فوری نوٹس لیا اور تمام یونیورسٹیز کے نام ایک مراسلہ لکھا جس میں دینی مدارس کی اسناد کی قانونی حیثیت اور وقتا فوقتا، یو جی سی اور ایچ ای سی کی طرف سے جاری ہونے والے نوٹیفکشنز کی پاسداری کرنے کی تاکید کی گئی اور دینی اسناد اور ایچ ای سی کے معاملہ سرٹیفکیٹ کے ہوتے ہوئے کسی قسم کے اضافی مطالبے پر سخت برہمی کا اظہار کیا گیا اور بی اے سمیت کسی بھی قسم کی ڈگری کے مطالبے کو غیرقانونی قرار دیا گیا۔ ہماری دانست میں یہ مثبت سمت کی طرف ایک اہم پیش رفت ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ایچ ای سی کے ذمہ داران کی طرح باقی یونیورسٹیز کی انتظامیہ اور ملکی اداروں میں اہم مناصب پر براجمان بیورو کریسی کے رویے میں بھی مثبت تبدیلی آئے اور دینی مدارس کے طلبہ کو بھی اس ملک میں یکساں مواقع دیے جائیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دینی مدارس کے فضلاء کا احساسِ محرومی جب تک ختم نہیں کیا جاتا، انہیں آگے بڑھنے اور اپنے حقوق حاصل کرنے کے یکساں مواقع جب تک مہیا نہیں کیے جاتے بہت سے مسائل پر قابو پانا ممکن نہیں لیکن اگر دینی مدارس کے فضلاء کو اسی ملک و قوم کے بچے تسلیم کرکے انہیں مواقع دیئے جائیں، ان کے لیے زندگی کے ہر شعبے کے دروازے کھولے جائیں تو اس کے نتیجے میں جہاں دینی مدارس کے فضلاء کا احساس محرومی دور ہوگا وہیں طبقاتی تفریق اور دو طرفہ انتہا پسندانہ رویوں کا بھی خاتمہ ہوگا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایچ ای سی کے حالیہ نوٹیفکیشن کو بنیاد بنا کر بہتری کی طرف خلوص دل سے سفر کا آغاز کیا جائے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں