خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم قاسمیؒ کی وفات

خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم قاسمیؒ کی وفات

ایک عہد کا خاتمہ
خاندانِ قاسمی کے چشم وچراغ، اپنے جد امجد حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے علوم ومعارف کے امین، اپنے والد بزرگوار حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیبؒ قاسمی مہتمم دار العلوم دیوبند کے حقیقی جانشین خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم قاسمیؒ آج اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے، مولانا محمد سالم قاسمیؒ کا شمار دار العلوم دیوبند کے ان ممتاز شیوخ اور علماء میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنی علمی، دینی، اصلاحی اور تدریسی خدمات سے ایک طویل تاریخ رقم کی ہے، ایسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں اور صدیوں زندہ رہتے ہیں، وہ علم وعمل کا ایک ایسا آفتاب تھے جو علم کے افق پر لگ بھگ ستر برس تک روشن رہا، افسوس آج یہ آفتاب دیوبند کے قبرستان قاسمی میں غروب ہوگیا ہے۔
مولانا محمد سالم قاسمیؒ نانوتہ ضلع سہارن پور کے مشہور صدیقی خاندان سے تعلق رکھتے تھے، اس خاندان نے امت کو بہت سے علماء وصلحاء عطا کئے ہیں، جن میں حضرت مولانا مملوک علی نانوتویؒ، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتویؒ، حضرت مولانا محمد مظہر نانوتویؒ وغیرہ حضرات کا ذکر کئے بغیر مغربی یوپی کی علمی اور دینی تاریخ آگے نہیں بڑھ سکتی، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے دیوبند کو اپنا وطن اور اپنی تعلیمی تحریک کا مرکز بنایا جس سے دار العلوم دیوبند وجود میں آیا، حضرت مولانا محمد سالم صاحبؒ کی پیدائش حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے پوتے حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب سابق مہتمم دار العلوم دیوبند کے گھر میں ۲۲/ جمادی الثانیہ ۱۳۴۴ھ مطابق ۸/ جنوری ۱۹۲۶ء کو ہوئی، اس لحاظ سے حضرت کی عمر ہجری تقویم کے اعتبار سے ۹۴ برس اور عیسوی سن کے اعتبار سے ۹۲ سال ہوئی، حضرت مولانا محمد سالم قاسمیؒ کی والدہ ماجدہ رامپور منیہاران کے ایک علمی گھرانے کی چشم وچراغ تھیں، نہایت نیک، متقی، پرہیزگار، عبادت گزار، معمولات کی پابند خاتون تھیں، مولانا کی ابتدائی تربیت قدیم علمی گھرانوں کی طرح والدہ ماجدہ کے سایۂ عاطفت میں ہوئی، ۱۳۵۱ھ میں تعلیم کا باقاعدہ آغاز ہوا، ناظرہ اور حفظ قرآن کریم کی تکمیل پیر جی شریف گنگوہیؒ کے یہاں ہوئی، جو دار العلوم دیوبند میں درجۂ حفظ کے استاذ تھے اور زندگی بھر آستانہ قاسمی کے ایک حجرے میں مقیم رہے، حفظ قرآن کے بعد دار العلوم دیوبند کے شعبۂ فارسی میں داخلہ لیا، فارسی کے اساتذہ میں مولانا محمد یاسین دیوبندیؒ ، مولانا منظور احمد دیوبندیؒ اور مولانا سید حسن دیوبندی ؒبہ طور خاص قابل ذکرہیں، ۱۳۶۲ھ میں عربی تعلیم کا آغاز ہوا، مکمل نصاب کی تکمیل اس وقت کے ماہر اور معروف اساتذہ کے ذریعے دار العلوم دیوبند میں ہوئی، حضرت کے اساتذہ میں شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ، شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی امروہویؒ، جامع المعقول والمنقول حضرت علامہ ابراہیم بلیاویؒ، حضرت مولانا سید فخر الحسن مرادآبادیؒ، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ، حضرت مولانا سید اختر حسین میاںصاحبؒ، حضرت مولانا عبد السمیع صاحب دیوبندیؒ، حضرت مولانا قاری اصغر صاحبؒ، حضرت مولانا عبد الاحد صاحب دیوبندیؒ جیسی عبقری شخصیات شامل ہیں، حضرت کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ انھوں نے ۱۳۶۲ھ میں تھانہ بھون حاضر ہوکر حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ سے درس نظامی کی سب سے پہلی کتاب میزان الصرف سبقاً سبقاً پڑھی، حضرت کے انتقال سے آج حضرت تھانویؒ سے براہ راست استفادہ کرنے والے حضرات کے سلسلۂ زریں کا خاتمہ بھی ہوگیا ہے، ۱۳۶۷ھ مطابق ۱۹۴۸ء میں فراغت حاصل کی۔
آپ کے درسی ساتھیوں میں حضرت مولانا سلیم اللہ خاں صاحب پاکستانیؒ، حضرت علامہ رفیق احمد بھینسانیؒ، حضرت مولانا عتیق الرحمن سنبھلی، حضرت مولانا سید رابع حسنی ندوی ، حضرت مولانا جلیل میاں حسین دیوبندیؒ، حضرت مولانا فرید الوحیدیؒ وغیرہ جیسے مشاہیر علماء شامل ہیں۔
فراغت کے فوراً بعد ہی دار العلوم دیوبند میں استاذ کی حیثیت سے تقرر عمل میں آیا، ابتداء میں ترجمۂ قرآن کریم اور نور الایضاح وغیرہ کتابوں کا درس دیا، بعد میں مشکوۃ، ہدایہ، شرح عقائد، نخبۃ الفکر، ابوداؤد اور بخاری شریف جیسی کتابوں کا درس بھی دیا، طویل تدریسی زندگی کے دوران ہزاروں شاگردوں نے ان سے استفادہ کیاجو اب حضرت کی یادگار بن کر دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں، وقت کی پابندی، تدریس میں انہماک، غیر ضروری مشاغل سے گریز آپ کے مزاج میں شامل تھا، فارغ اوقات میں کتب بینی میں مشغول رہتے، دعوتی اور اصلاحی اسفار کا طویل سلسلہ رہا، جو دار العلوم دیوبند کی تدریس کے زمانے سے دو سال قبل تک بلا انقطاع جاری رہا، اس دوران دنیا بھر میں آمد ورفت رہی، اپنے والد بزرگوار کی طرح ہندوستان کے ہر شہر میں گئے اور وہاں کے لوگوں کو اپنے مواعظ سے استفادے کا موقع دیا، ان کے مواعظ کا مجموعہ ’’خطبات خطیب الاسلام‘‘ کے نام سے کئی جلدوں میں چھپ چکا ہے۔
دیوبند میں جامعہ دینیات کا قیام حضرت مولانا محمد سالم قاسمی صاحبؒ کے اہم کارناموں میں سے ایک ہے، یہ ادارہ حضرت کی فکری بلندی اور بالغ نظری کا آئینہ دار ہے، جو اس لئے قائم کیا گیا تاکہ یونی ورسٹیوں اور کالجوں میں مصروف طلبہ مراسلاتی کورس کے ذریعہ دین کی تعلیم حاصل کرسکیں، اس ادارے سے اب تک لاکھوں طلبہ وطالبات استفادہ کرچکے ہیں، جامعہ دینیات کے نصاب ونظام کے مطابق ابتدائی دینیات، عالم دینیات اور فاضل دینیات کے لئے ہر سال ملک کے مختلف سینٹروں میں امتحان منعقد ہوتے ہیں، کامیاب امیدوار ملک کی متعدد یونی ورسٹیوں میں داخلے کے اہل سمجھے جاتے ہیں۔
اجلاس صدسالہ کے بعد دار العلوم دیوبند میں اختلافات رونما ہوئے اس کے نتیجے میں دار العلوم دیوبند کے متعدد بڑے اساتذہ اور بہت سے ملازمین باہر آگئے، اس وقت دار العلوم وقف دیوبند کی بنیاد رکھی گئی، یہ واقعہ ۱۴۰۳ھ مطابق ۱۹۸۴ء کا ہے، اس نومولود دار العلوم دیوبند کے اوّلین مہتمم کے طور پر حضرت کا انتخاب عمل میں آیا، آج یہ ادارہ بھی ملک کے بڑے اداروں کی صف میں شامل ہوچکا ہے، اہتمام کے ساتھ ساتھ حضرت مولانا نے دار العلوم وقف میں سالہا سال تک بخاری شریف کا درس بھی دیا، کمزوری اور پیرانہ سالی کے باعث فی الوقت آپ اہتمام کی ذمہ داریوں سے سبک دوش ہوچکے تھے، البتہ سرپرستی آخری لمحۂ حیات تک جاری رہی۔
دار العلوم وقف دیوبند کے اہتمام اور تدریسی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ تصنیف وتالیف کا سلسلہ بھی جاری رہا، اس دوران کئی کتابیں منظر عام پر آئیں جن میں ’’مبادئ التربیۃ الاسلامیہ‘‘ عربی، ’’تاجدار ارض حرم کا پیغام‘‘، ’’مردِ غازی‘‘، ’’عظیم تاریخی خدمات‘‘ وغیرہ ذکر ہیں، سینکڑوں مضامین تشنۂ طباعت موجود ہیں، حضرت نے دار المعارف کے نام سے ایک اشاعتی ادارہ بھی قائم کیا جس سے اپنے والد بزرگوار حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ کی تصانیف شائع فرمائیں۔
آپ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نائب صدر تھے، اس کے علاوہ سالہا سال تک آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر بھی رہے، سرپرست اسلامک فقہ اکیڈمی، رکن کورٹ مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ، ممبر مجلس شوریٰ مظاہر العلوم وقف سہارن پور، رکن مجلس انتظامیہ دار العلوم ندوۃ العلماء بھی رہے، کئی اعزازات سے بھی نوازے گئے، مصری حکومت کی طرف سے نشان امتیاز دیا گیا، حضرت شاہ ولی اللہ ایوارڈ سے بھی سرفراز کئے گئے، پہلے بین الاقوامی مولانا محمد قاسم نانوتویؒ ایوارڈ کے لئے بھی دنیا بھر کے منتخب علماء نے آپ ہی کا انتخاب کیا۔
آپ کے چار صاحب زادے ہیں، جناب محمد سلمان قاسمی مقیم پاکستان، مولانا محمد سفیان قاسمی مہتمم دار العلوم وقف دیوبند، جناب محمد عدنان قاسمی، حافظ محمد عاصم قاسمی چیرمین طیب ٹرسٹ دیوبند اور دو صاحب زادیاں، محترمہ اسماء اعجاز اور محترمہ عظمی ناہید ہیں، ثانی الذکر کا شمار ملک کی نہایت نامور اور فعال خواتین میں ہوتا ہے۔
ابتداء میں مولانا محمد سالم قاسمیؒ حضرت شاہ عبد القادر رائے پوری سے بیعت ہوئے، ان کی وفات کے بعد والد محترم سے اصلاحی تعلق قائم کیا اور خلافت واجازت بیعت سے سرفراز ہوئے، حضرت مولانا محمد سالم صاحبؒ کے مریدین ومتوسلین کی تعداد بھی لاکھوں سے متجاوز ہے، تقریباً سو اصحاب علم کو خلافت سے نوازا، حضرت مولانا سالم قاسمیؒ اپنے جد امجد حضرت نانوتویؒ کے علوم ومعارف کے امین وترجمان تھے، ان کی ہر مجلس ان کے ذکر سے معمور رہتی تھی، درسی تقریروں میں اور علمی مجالس میں حضرت کی زبان گہر بار سے فیوض قاسمیہ کی اشاعت کا سلسلہ لگ بھگ ستر برس تک جاری رہا، افسوس ۱۴/ اپریل ۲۰۱۸ء بروز شنبہ دن کے ۲ بج کر ۱۵ منٹ پر حضرت اپنے لاکھوں شاگردوں اور مریدوں کو بہ طور خاص دونوں دار العلوموں کے ہزاروں طلبہ اور اہل دیوبند کو غمزدہ چھوڑ کر رخصت ہوگئے۔
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
(بصیرت فیچرس)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں