شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید:

قندوز میں دینی تقریب پر فضائی حملہ ’بزدلانہ‘ اور نفرت انگیز تھا

قندوز میں دینی تقریب پر فضائی حملہ ’بزدلانہ‘ اور نفرت انگیز تھا

اہل سنت ایران کے نامور عالم دین نے چھ اپریل دوہزار اٹھارہ کے خطبہ جمعہ میں افغانستان کے صوبہ قندوز میں ایک تقریب دستاربندی میں افغان فوج کے فضائی حملے کی مذمت کرتے ہوئے اس اقدام کو بزدلانہ اور قابل نفرت فعل قرار دیا جس سے تمام مسلمان غمزدہ ہوئے۔
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے زاہدان میں سنی برادری کے مرکزی اجتماع برائے نماز جمعہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا: افغانستان کی فضائیہ نے قندوز میں قرآن پاک کے حفاظ کی تقریب پر حملہ کیا ہے جو خطے کی تاریخ میں ایک منفرد حادثہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا: ہونہار حافظان قرآن اپنی تقریب دستاربندی اور جشن میں خوشی منارہے تھے جہاں دیگر طلبہ اور عوام شریک تھے، لیکن افغان فوج نے ان پر بم گرادیا اور متعدد افراد کو شہید یا زخمی کردیا۔ یہ انتہائی نفرت انگیز، دہشت خیز اور چونکا دینے والا واقعہ تھا جسے دیکھ کر دل خون کے آنسو رونے پر مجبور ہوتاہے۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے سوال اٹھایا: اس قرآنی و دینی تقریب پر بمباری کس بنیاد پر ہوئی؟ ایسے حملے کن عالمی قوانین اور عقلی دلائل کے مطابق ہیں؟ یہ حادثہ نہ صرف افغان قوم بلکہ تمام مسلمانوں اور دنیا کے آزادخیال لوگوں کے لیے المناک اور تلخ تھا۔ سب نے نفرت کا اظہار کیا۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: کچھ لوگ اپنے دشمنوں سے مقابلے کے لیے دینی و قرآنی تقاریب کو نشانہ بناتے ہیں اور حفاظ کو شہید کرتے ہیں، یہ ان کی بزدلی اور میدان جنگ میں ناکامی کی نشانی ہے۔ ان لوگوں نے اس حملے سے خود کو بھی رسوا کردیا اور اپنے حامیوں کو بھی ذلیل و رسوا کربیٹھے۔
انہوں نے قندوز میں دینی تقریب پر حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا: کچھ کم بخت اور شقی القلب لوگ جو خود کو مسلمان بھی سمجھتے ہیں، مساجد اور دینی تقریبات اور جنازوں کی تدفین میں شریک لوگوں پر حملہ کرتے ہیں، حالانکہ اسلامی شریعت اور انسانی اصول کی رو سے ایسے اقدامات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ پتہ نہیں اللہ تعالی کے سامنے ایسے لوگوں کا جواب کیا ہوگا!

اسرائیلی جرائم سے حمایت عقل و عرف کے خلاف ہے
خطیب اہل سنت زاہدان نے بات آگے بڑھاتے ہوئے غزہ میں مسلمان مظاہرین پر اسرائیلی فائرنگ کی مذمت کی جس میں متعدد افراد شہید ہوئے۔
انہوں نے کہا: افسوس کی بات ہے کہ فلسطینی عوام کے مظاہرے پر صرف اس لیے فائر کھول دی گئی کہ وہ اپنی آزادی چاہتے ہیں۔ اسرائیلی حکام مظاہرین کو مار کر انہیں شہید کرتے چلے آرہے ہیں۔
امریکی ویٹو پر شدید تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا: اقوام متحدہ کی امن کونسل نے غزہ میں مظاہرین کی شہادت کے بارے میں تحقیقات کے لیے قرارداد پیش کی جسے امریکا نے ویٹو کردیا۔ یہ بہت بڑی ناانصافی اور ظلم ہے۔ امریکا کا یہ اقدام قابض اسرائیلی ریاست کو اپنے جرائم جاری رکھنے کے لیے گرین سگنل ہے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: امریکا سمیت دیگر طاقتیں ’دہشت گردی‘ اور انتہاپسندی کے خلاف جنگ کا دعوی کرتی ہیں؛ سوال یہ ہے کس طریقے اور جائز ذرائع سے وہ اس کا مقابلہ کرنا چاہتی ہیں؟ جب وہ ایک جرائم پیشہ اور غنڈہ ریاست کو کھلی چھوٹ دیتے ہیں اور تحقیقات تک کی اجازت نہیں دیتے ہیں، پھر انتہاپسندی کا مقابلہ کیسے ممکن ہے؟
انہوں نے اسرائیل کی حمایت کو ایک ’مکمل غیر منطقی‘ اقدام یاد کیا جو عقل و عرف کے خلاف ہے۔

ظالموں کو اسی دنیا میں سزا ملے گی
مولانا عبدالحمید نے اپنے بیان کے ایک حصے میں ’ظلم‘ کی مذمت کرتے ہوئے اسے عصرحاضر کے بڑے مسائل میں شمار کیا۔
انہوں نے کہا: ظلم کبیرہ گناہوں میں شمار ہوتاہے جو معاصر دنیا کے سب سے بڑے چیلنجوں میں سے ایک ہے۔ ظلم کا مطلب ہے ناانصافی، عدل کی خلاف ورزی اور دوسروں کا حق ضائع کرنا۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے مزید کہا: ظلم کے کچھ درجات ہیں؛ کچھ ظلم ایسے ہیں جو انسان کو دائرہ اسلام سے خارج کرتے ہیں جیسے کفر اور شرک۔ ناجائز قتل ایسا ظلم ہے کہ انسان کو کفر کی سرحد تک لے جاتاہے۔ خواتین، بچوں اور یتیموں کے حقوق پامال کرنا ظلم ہے اور کبیرہ گناہوں میں شمار ہوتاہے۔
انہوں نے دنیا میں ظالموں کے انجام کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: ہوسکتا ہے اللہ تعالی بعض صورتوں میں حلم دکھائے اور فورا مواخذہ نہ فرمائے، لیکن یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ جو لوگ ظلم کرتے ہیں اور دیگر انسانوں کے حقوق ضائع کرتے ہیں، انہیں اسی دنیا میں سب کی نظروں کے سامنے اللہ تعالی سزا دے گا۔
مولانا عبدالحمید نے پوری دنیا خاص کر مشرق وسطی میں ظلم و جور کی ترقی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ظالم و جابر لوگ اپنی قوت بچانے اور تخت پر براجمان رہنے کے لیے معصوموں کا خون بہاتے ہیں۔ وہ اپنے مفادات حاصل کرنے کے لیے دیگر قوموں اور ملکوں کو تباہ کرتے ہیں۔ ایسے لوگ اللہ کی پکڑ سے ڈریں۔

شریعت کی خلاف ورزی کسی بھی حکومت اور شخصیت کے لیے جائز نہیں
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے اپنے بیان کے ایک حصے میں کہا: افسوس کا مقام ہے کہ کچھ لوگ خدا کے نمائندے بن کے یہ سوچتے ہیں کہ جو کچھ وہ چاہیں، کرسکتے ہیں۔ یہ بہت بڑی غلطی ہے۔ اللہ تعالی نے زمین پرایسا کوئی نمائندہ نہیں چنا ہے اور کسی کو خلاف شریعت چلنے کی اجازت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا: اللہ تعالی نے پیغمبروں کو بھی جب مصلحت کے خلاف کوئی کام کرتے، مواخذہ فرماتے اور انہیں یاددہانی فرماتے تھے۔ چنانچہ حضرت یونس ؑ حکمت کے خلاف چلنے کی سزا میں مچھلی کے پیٹ میں پھنسادیا۔ لہذ اتمام انسانوں کو چاہیے ہر حال میں اللہ تعالی کے اصول و قوانین کا خیال رکھیں۔ شریعت کی خلاف ورزی کسی بھی حکومت، ریاست اور شخصیت کے لیے جائز نہیں ہے۔ ہر کام میں معیار اور اساس شریعت ہی ہے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں