توضیح القرآن۔ آسان ترجمہ قرآن

توضیح القرآن۔ آسان ترجمہ قرآن

وَلْيَحْكُمْ أَهْلُ الْإِنجِيلِ بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فِيهِ ۚ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ﴿٤٧﴾ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ ۖ فَاحْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ عَمَّا جَاءَكَ مِنَ الْحَقِّ ۚ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّـهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَـٰكِن لِّيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ ۖ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ۚ إِلَى اللَّـهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ ﴿٤٨﴾ وَأَنِ احْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَن يَفْتِنُوكَ عَن بَعْضِ مَا أَنزَلَ اللَّـهُ إِلَيْكَ ۖ فَإِن تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ أَنَّمَا يُرِيدُ اللَّـهُ أَن يُصِيبَهُم بِبَعْضِ ذُنُوبِهِمْ ۗ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ لَفَاسِقُونَ ﴿٤٩﴾ أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ ۚ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّـهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ ﴿٥٠﴾ (المائدة 47-50)
ترجمہ: اور انجیل والوں کو چاہئے کہ اللہ نے اس میں جو کچھ نازل کیا ہے، اس کے مطابق فیصلہ کریں، اور جو لوگ اللہ کے نازل کئے ہوئے حکم کے مطابق فیصلہ نہ کریں، وہ لوگ فاسق ہیں (۴۷) اور (اے رسول محمد! صلی اللہ علیہ وسلم) ہم نے تم پر بھی حق پر مشتمل کتاب نازل کی ہے جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور ان کی نگہبان ہے۔ لہذا ان لوگوں کے درمیان اسی حکم کے مطابق فیصلہ کرو جو اللہ نے نازل کیا ہے، اور جو حق بات تمہارے پاس آگئی ہے اسے چھوڑ کر ان کی خواہشات کے پیچھے نہ چلو۔ تم میں سے ہر ایک (اُمت) کے لئے ہم نے ایک (الگ) شریعت اور طریقہ مقرر کیا ہے۔ {1}
اور اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ایک اُمت بنادیتا، لیکن (الگ شریعتیں اس لئے دِیں) تا کہ جو کچھ اس نے تمہیں دیا ہے اس میں تمہیں آزمائے۔ لہذا نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔ اللہ ہی کی طرف تم سب کو لوٹ کر جانا ہے۔ اُس وقت وہ تمہیں وہ باتیں بتائے گا جن میں تم اختلاف کیا کرتے تھے (۴۸) اور (ہم حکم دیتے ہیں) کہ تم ان لوگوں کے درمیان اسی حکم کے مطابق فیصلہ کرو جو اللہ نے نازل کیا ہے۔{2}
اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو، اور ان کی اس بات سے بچ کر رہو کہ وہ تمہیں فتنے میں ڈال کر کسی ایسے حکم سے ہٹادیں جو اللہ نے تم پر نازل کیا ہو۔ اس پر اگر وہ منہ موڑیں تو جان رکھو کہ اللہ نے ان کے بعض گناہوں کی وجہ سے ان کو مصیبت میں مبتلا کرنے کا ارادہ کر رکھا ہے۔{۳} اور ان لوگوں میں سے بہت سے فاسق ہیں (۴۹) بھلا کیا یہ جاہلیت کا فیصلہ حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ حالانکہ جو لوگ یقین رکھتے ہوں ان کے لئے اللہ سے اچھا فیصلہ کرنے والا کون ہوسکتا ہے؟ (۵۰)

حواشی:
(۱) یہودی اور عیسائی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو قبول کرنے سے جو انکار کرتے تھے اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اسلام میں عبادت کے طریقے اور بعض دوسرے اَحکام حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی علیہما السلام کی شریعت سے مخلف تھے، اور ان لوگوں کو ان نئے احکام پر عمل کرنا بھاری معلوم ہوتا تھا۔ اس آیت نے واضح فرمایا کہ اللہ تعالی نے اپنی حکمت کے تحت مختلف پیغمبروں کو الگ الگ شریعتیں عطا فرمائی ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ تو ہے ہی کہ ہر زمانے کے تقاضے الگ ہوتے ہیں لیکن ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ عبادت کا کوئی ایک طریقہ یا کوئی ایک قانون اپنی ذات میں کوئی تقدس نہیں رکھتا، اس میں جو کچھ تقدس پیدا ہوتا ہے وہ اللہ کے حکم سے پیدا ہوتا ہے ۔ لہذا جس زمانے میں اللہ تعالی جو حکم دے دیں وہی اس زمانے میں تقدس کا حامل ہے۔ اب ہوتا یہ ہے کہ جو لوگ ایک طریقے کے عادی ہوجاتے ہیں، وہ اسی کو ذاتی طور پر مقدس سمجھ بیٹھتے ہیں، اور جب کوئی نیا پیغمبر نئی شریعت لے کر آتا ہے تو ان کا امتحان ہوتا ہے کہ وہ پرانے طریقے کو ذاتی طور پر مقدس سمجھ کر نئے طریقے کا انکار کر بیٹھتے ہیں یا اللہ کے حکم کو اصل تقدس کا حامل سمجھ کر نئے حکم کو دِل و جان سے تسلیم کرتے ہیں۔ آگے جو ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ’’لیکن (تمہیں الگ شریعتیں اس لئے دِیں) تا کہ جو کچھ اس نے تمہیں دیا ہے اس میں تمہیں آزمائے ‘‘اس کا یہی مطلب ہے۔
(۲) یہ حکم اس صورت میں ہے جب غیرمسلم لوگ اسلامی حکومت کے باقاعدہ شہری بن جائیں جن کو فقہی اصطلاح میں ’’ذمی‘‘ کہا جاتا ہے، یا اس صورت میں جب وہ اپنی رضامندی سے اپنا فیصلہ مسلمان قاضی سے کروانا چاہیں۔ ایسی صورت میں مسلمان قاضی عام ملکی قوانین میں فیصلہ اسلامی شریعت کے مطابق کرے گا۔ البتہ ان کے خالص مذہبی معاملات مثلاً عبادات، نکاح، طلاق اور وراثت میں انہیں اپنے مذہب کے مطابق فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہوگا۔ مگر یہ فیصلہ انہی کے افراد کریں گے۔
(۳) ’’بعض گناہ‘‘ اس لئے فرمایا کہ تمام گناہوں کی سزا تو آخرت میں ملنی ہے۔ البتہ اللہ اور رسول کے فیصلے سے منہ موڑنے کی سزا ان کو دُنیا میں بھی ملنے والی ہے۔ چنانچہ کچھ عرصہ بعد ان کی عہد شکنی اور سازشوں کے نتیجے میں ان کو جلاوطنی اور قتل کی سزائیں دنیا ہی میں مل گئیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں