ظلم کے ذریعے امن قائم نہیں کیا جاسکتا

ظلم کے ذریعے امن قائم نہیں کیا جاسکتا

افغانستان کے شمالی صوبہ قندوز میں گزشتہ روز دینی مدرسے پر ہونے والی فضائی بمباری سے شہید ہونے والوں کی تعداد ۱۵۰ سے تجاوز کرگئی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ شہید ہونے والوں میں بڑی تعداد مدرسے کے زیرتعلیم ان بچوں کی تھی جو حفظ قرآن مکمل کرنے کے بعد تقریب دستاربندی میں شرکت کے لئے وہاں اپنے اہل خانہ کے ساتھ موجود تھے۔ دریں اثنا افغان طالبان نے اپنے بیان میں وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس الزام میں کوئی حقیقت نہیں ہے کہ بمباری کے دوران مدرسے میں طالبان کا کوئی اجلاس جاری تھا یا وہاں کوئی طالبان کمانڈر موجود تھا۔
گزشتہ دنوں جب یہ المناک سانحہ پیش آیا، فوری طور پر پاکستان کے ذرائع ابلاغ کو اس کی تفصیلات مہیا نہ ہو پائی تھیں، فوری طور پر ملنے والی تفصیلات میں اس سانحے سے متعلق پروپیگنڈاوار کی خاصی گمراہ کن باتیں بھی شامل تھیں، جس کی وجہ سے سانحے کے خبر المیے کی درست اور حقیقی عکاسی نہ کر پائی، بلکہ بعض اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں میں وہی گمراہ کن باتیں ہی واقعے کے حقیقی عنصر کے طور پر نمایاں ہوئیں۔ متضاد آرا اور دعوؤں پر مشتمل ان ابتدائی خبروں میں یہ بات بطور خاص نمایاں رہی کہ بدقسمت مدرسے میں حملے کے وقت طالبان کمانڈروں کا اجلاس جاری تھا اور یہی اجلاس اس حملے کا محرک اور اصل ہدف تھا۔ ان خبروں میں افغان حکام کے یہ بے بنیاد دعوے بھی شامل تھے کہ اس واقعے میں طالبان کی کوئٹہ شوریٰ کے کئی ارکان بھی مارے گئے۔ یہ دراصل المیے کی سنگینی کم کرنے اور انسانیت کے خلاف بدترین جرم کے لیے جواز تراشنے کا افغان حکام کا حربہ تھا، مگر جھوٹ زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکتا، اگلے ہی دن اس المناک سانحے کی دلخراش تفصیلات انٹرنیٹ کے ذریعے قندوز سے پوری دنیا میں پھیل گئیں۔ اب تک سانحے کے جتنے بھی واقعاتی شواہد سامنے آئے ہیں، ان میں اس بات کا کہیں بھی نام و نشان نہیں ہے کہ اس تقریب میں طالبان کمانڈر بھی موجود تھے۔ شہداء کی تصویریں بھی سامنے آئی ہیں اور زخمیوں کی بھی، جن میں کوئی طالبان کمانڈر شامل نہیں ہے۔ عینی شاہدین کے بیانات اور مقامی حکام کی تصدیقات سے یہی حقیقت سامنے آتی ہے کہ یہ سراسر ایک عوامی اور تعلیمی اجتماع تھا، اس میں مدرسے کے نہتے بچے اور غیرمسلح مقامی لوگ ہی شریک تھے اور وہی اس شرمناک جارحیت کا نشانہ بنے ہیں۔
افغانستان میں گوریلا جنگ جاری ہے، ایسی جنگوں میں ضمنی نقصانات سے بچنا آسان نہیں ہوتا۔ خواہی نخوا ہی ہدف کا گرد و پیش بھی لپیٹ میں آجاتا ہے، چنانچہ گوریلا اور چھاپا مار جنگوں کے دونوں ہی فریقوں کی کارروائیوں میں ایسے لوگ بھی مارے جاتے ہیں جو غیرمحارب ہوتے ہیں اور ان کا جنگ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا، تا ہم ایک مدرسے کی تقریب جو خالص عوامی اور اجتماعی سرگرمی ہوتی ہے، کو مخالف فریق کی کمین گاہ کی طرح تاک کر حملے کا نشانہ بنانا کسی بھی طرح انسانی غلطی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ تقریب اچانک نہیں ہورہی تھی، اس کے لیے حسب معمول کئی دن پہلے سے علاقے میں اشتہارات کے ذریعے عام منادی کرادی گئی تھی، اس لیے یہاں انٹیلی جنس لپیس کا احتمال بھی نہیں ہے۔ طالبان افغانستان کے غیرمقبول نظام حکومت اور اس کے بیرونی سرپرستوں سے برسرِ جنگ ہیں۔ وہ گوریلا جنگ لڑرہے ہیں، وہ افغانستان کے کسی علاقے پر حکمران نہیں ہیں جو سرِ عام اپنے زیرنگیں علاقوں میں عوامی مقامات او ر اجتماعات میں شریک ہوسکیں۔ ایسے میں متاثرہ مدرسے کی تقریب دستاربندی میں طالبان کی شرکت کا دعویٰ کسی طرح بھی قابل فہم نہیں ہے۔ اگر افغان حکومت اور اس کے سرپرست امریکا طالبان کمانڈروں جو ان کی نظر میں گردن زدنی ہیں، کی موجودگی کی اطلاع پانے میں کامیاب ہوگئے تھے، تو کیا وہ انٹیلی جنس بیس پر تقریب کے اختتام پر ان پر اس انداز میں وار نہیں کرسکتے تھے کہ جس سے کم سے کم سویلین اور غیرمتعلقہ افراد متاثر نہ ہوتے؟ اس سانحے کی کسی بھی زاویے سے کوئی معقول توجیہ نہیں کی جاسکتی اور کسی بھی دلیل کی رو سے معصوم بچوں اور غیرمتحاربین کے قتل کو جائز نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔
دوسال قبل قندوز ہی میں امریکی فورسز نے ایک فرانسیسی اسپتال کو نشانہ بنایا تھا۔ اس کا جواز بھی یہی پیش کیا گیا تھا کہ اسپتال میں زخمی طالبان کا علاج کیا جارہا تھا، جو بعد میں غلط ثابت ہوا اور امریکا کو اس پر اسپتال کی غیرملکی انتظامیہ کے آگے جھکنا پڑا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی ایسی جگہ جہاں عام لوگوں کی بڑی تعداد موجود ہو، دشمن فریق کے دو چار افراد کی موجودگی کا احتمال، عام حملے کا جواز بن سکتا ہے؟ متحارب فریق کی موجودگی ایک احتمالی اور ظنی معاملہ تھا، جبکہ یہ طے تھا کہ مدرسے کی تقریب میں اکثریت غیرمحاربین کی ہی شریک ہے، ایسے میں چند طالبان موجود بھی تھے، تو ان کو نشانہ بنانے کے لیے پوری تقریب کو خونریز حملے کا ہدف بنانا انتہائی احمقانہ حرکت کے ساتھ ساتھ نہایت شرمناک جرم بھی ہے۔ اب اس بات پر زور دیا جارہا ہے کہ اس واقعے میں امریکا کا کوئی کردار نہیں ہے اور یہ کہ یہ افغان فورسز کی اپنی کارروائی تھی۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ افغانستان میں اصل اقتدار امریکا کا ہی ہے۔ افغان سول انتظامیہ سے لے کر فورسز تک، امریکا کی مدد اور سہارے کے بغیر دو قدم نہیں چل سکتیں۔ یہ کہہ کر دنیا کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونکی جاسکتی کہ امریکا اس درندگی کا ذمے دار نہیں ہے۔ جب افغانستان میں اصل اقتدار اور اختیار امریکا کے ہاتھ میں میں ہے تو ایسے واقعات کی تمام تر ذمے داری بھی براہ راست امریکا پر ہی آئے گی۔
امریکا ڈیڑھ عشرے سے افغانستان میں موجود ہے۔ اس تمام عرصے میں وہ جس ’’دہشت گردی‘‘ اور ’’انتہاپسندی‘‘ کو ختم کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتا آرہا ہے اور اس مقصد کے لیے وہ ٹریلین ڈالر جنگ کی بھٹی میں جھونک چکا ہے، بے گناہ عوام اور معصوم بچوں پر ایسے جارحانہ حملوں کے نتیجے میں وہ ختم ہونے کی بجائے مزید پروان چڑھ رہی ہے۔ امریکی بزرجمہر اگر واقعی دنیا کے امن اور مستقبل کے ساتھ مخلص ہیں تو انہیں اپنی ظالمانہ اداؤں پر غور کرنا ہوگا۔ وہ بارود بوکر امن کی فصل نہیں حاصل کرسکتے اور دوسروں پر اپنے فیصلے، اپنے نظریات اور طرز زندگی مسلط کرکے دنیا کے پر امن ہونے کا خواب نہیں دیکھا جاسکتا۔ اگر امن و استحکام مطلوب ہے تو امریکا افغانستان کا فیصلہ اس کے عوام کے سپرد کرکے خطے سے غیرمشروط انخلاء کرے، یہی مسئلے کا حل ہے اور اسی میں خطے اور دنیا کے امن کا راز مضمر ہے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں