مولانا عبدالحمید:

قوم انصاف اور آزادی چاہتی ہے

قوم انصاف اور آزادی چاہتی ہے

ممتاز سنی عالم دین نے تیس مارچ دوہزار اٹھارہ کے خطبہ جمعہ میں نفاذ عدل، قانونی آزادی کی فراہمی اور امتیازی سلوک کے خاتمے پر زور دیتے ہوئے مذکورہ امور کو اسلامی جمہوریہ ایران کے استحکام کا باعث قرار دیا۔
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے ’یوم اسلامی جمہوریہ‘ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: یکم اپریل اسلامی جمہوریہ کا دن ہے۔ حکام کو ہماری نصیحت ہے کہ ’جمہوریت‘ اور ’اسلامیت‘ کے تقاضوں پر عمل کریں۔
انہوں نے مزید کہا: آزادی پر بیک وقت اسلام اور جمہوریت دونوں نے زور دیاہے۔ دنیا کے بعض جمہوری ممالک میں متعدد گناہ اور منکرات بھی آزاد ہیں جو اسلام کے رو سے ممنوع ہیں۔ لیکن اسلامی جمہوریہ میں ایسی آزادیوں پر تاکید آئی ہے جو حدود شریعت میں ہوں۔
مولانا عبدالحمید نے تصریح کرتے ہوئے کہا: نفاذ عدل، امتیازی سلوک کی بیخ کنی، سوچ اور اظہارِ رائے کی آزاد ی اسلامی تعلیمات کے مطابق ہیں اور ان پر تاکید آئی ہے۔ حکام دباؤ کم کرکے اسلام میں موجود آزادیوں کو یقینی بنائیں۔
انہوں نے مزید کہا: اسلامی نظام میں ایسی آزادی ہے کہ خلیفہ وقت امیرالمومنین علی رضی اللہ عنہ کے اپنے ہی قاضی شریح انہیں عدالت بلاتے ہیں اور وہ بھی ایک یہودی شہری کی شکایت پر۔ فیصلہ شواہد کے بنا پر یہودی کے حق میں ہوتاہے اور اس عدل و انصاف سے متاثر ہوکر یہودی شخص حلقہ اسلام میں داخل ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس عدل کی مثال کہیں بھی نہیں مل سکتی۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے کہا: اسلامی جمہوریہ ایران کی بنیاد آزادی فراہم کرنے پر رکھی گئی، لہذا پوری قوم کا تقاضا ہے اعلی حکام خاص کر مرشد اعلی مزید آزادیوں کے لیے راستہ ہموار کریں۔ اس سے نظام مملکت کی بنیادیں مزید مستحکم ہوں گی اور مختلف برادریوں میں اتحاد و اتفاق پیدا ہوگا جس سے قومی امن میں اضافہ ہوگا۔

اگر صحابہؓ سے پیار نہیں کرسکتے، دشمنی بھی نہ کریں
نامور ایرانی عالم دین نے اپنے بیان کے ایک حصے میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے یوم ولادت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: سیدنا علی رضی اللہ عنہ ان عظیم ہستیوں میں ایک ہیں جنہیں تمام مسلمان پیار کرتے ہیں۔ حضرات حسنین اور فاطمہؓ اہل بیت کے ساتھ ساتھ صحابہ میں بھی شامل ہیں۔ ان سے محبت کرنا مسلمانوں کا مشترکہ عقیدہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا: صحابہ و اہل بیتؓ سے محض اظہار محبت کافی نہیں ہے، ان کی سیرت کی اتباع کرکے ان کی پیروی کرنی چاہیے۔ سیدنا علیؓ تقوی، دوراندیشی، بہادری، جہاد، قضاوت میں عدل و انصاف اور اسلام کی خدمت سمیت متعدد اچھی صفات میں مثالی تھے۔
صحابہ و اہل بیتؓ دونوں سے محبت و پیار کی تاکید کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ہمارا مشورہ ہے کہ اہل بیت کے علاوہ صحابہ کرام سے بھی دوستی کی جائے۔ یہ سب رسول اللہ ﷺ کے شاگرد اور ان کے تربیت یافتہ تھے۔
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے اپنے ایرانی ہم وطنوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: سمجھدار، تعلیم یافتہ اور مہذب و محترم ہم وطنوں کو میری وصیت ہے کہ صحابہ کرامؓ کا احترام کریں۔ صحابہ کا احترام دراصل نبی کریمﷺ کا احترام ہے۔ حدیث میں آیاہے کہ صحابہ سے محبت دراصل رسول اللہ ﷺ سے محبت ہے۔
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا: عقل اور نص کا تقاضا ہے کہ صحابہ کرام اور اہل بیتؓ سے پیار کیا جائے، اگر کوئی صحابہ کرام کی محبت اپنے دلوں میں نہیں بٹھاسکتا، کم سے کم ان کا احترام کرکے ان سے دشمنی نہ کرے۔

معرفت الہی سے سچی توبہ اور تسلیم نصیب ہوجائے گی
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے بیان کے پہلے حصے میں ذکر و فکر کو حصول معرفت الہی کے ذرائع یاد کرتے ہوئے توبہ و استغفار کو معرفت کا نتیجہ قرار دیا۔
انہوں نے سورت البقرہ آیت 152 کی تلاوت کرتے ہوئے کہا: انسان جس چیز کے بارے میں زیادہ جانتاہے اور اس کے بارے میں سوچتا رہتاہے، پھر اس سے پیار کرنے لگتاہے اور اس کا تذکرہ بھی زیادہ کرتاہے۔ عربی کا محاورہ ہے: ’من احب شیئا اکثر ذکرہ‘۔
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: جو لوگ شرک کا ارتکاب کرکے بت پرستی کررہے ہیں، دراصل مخلوق کے بارے میں ان کی معلومات اور شناخت غلط ہیں۔ لیکن اللہ کے بندے جو اپنے رب کو خوب جانتے ہیں، اس کی محبت اپنے دلوں میں بساتے ہیں۔
انہوں نے اللہ تعالی کی عظمت کی دلایل پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا: اللہ تعالی پوری کائنات کا خالق ہے۔ اس کی آیات اور طاقت کی دلایل ظاہر و آشکار ہیں۔ اللہ تعالی خود ’ظاہر‘ بھی ہے اور ’باطن‘ بھی؛ ظاہر ہے چونکہ اس نے تمام مخلوقات کو پیدا فرمایاہے۔ لیکن انسانی آنکھ اس ذات پاک کو دیکھنے سے عاجز ہے۔ قرآن پاک میں اس کی تصریح کی گئی ہے۔ البتہ آخرت میں یہ صلاحیت انسان کو مل جائے گی۔
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے معرفت الہی کے نتائج واضح کرتے ہوئے کہا: جب معرفت الہی حاصل ہوجائے، خودبخود اللہ کی محبت اور اس کے احکامات کے سامنے سرتسلیم خم کرنا نصیب ہوں گے۔ جب اللہ تعالی کی عظمت انسان پر واضح ہوجائے، اس کی زبان سے استغفار و توبہ کے الفاظ جاری ہوں گے اور وہ سچے دل سے رب کے سامنے تسلیم ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا: کوئی ایسا مسلمان نہیں جو اپنے رب کو نہ پہچانے، لیکن پہچان اور معرفت کے درجات میں فرق ہوتاہے۔ لہذا ہم سب کو کوشش کرنی چاہیے کہ اللہ کی معرفت زیادہ سے زیادہ حاصل کریں۔
اللہ تعالی کی معرفت حاصل کرنے کی راہوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: ذکر اور فکر دو ایسی چیزیں ہیں جن کے ذریعے سے بندہ اللہ کی معرفت حاصل کرسکتاہے۔ اللہ کی مخلوقات میں سوچنے سے بندہ ان کی عظمت پہچان سکتاہے اور پھر اس کی بڑائی دل میں آئے گا۔
انہوں نے کہا: محبت و تابع داری دو نعمتیں ہیں جو ذکر و فکر کے ثمرات ہیں۔ اللہ تعالی کے تمام احکام کو بجالانا اس کی ذکر ہے۔ لوگوں کی خدمت کیا کریں، خندہ پیشانی سے پیش آئیں اور مہمان نوازی کریں؛ یہ سب ذکراللہ میں شامل ہیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں