مجذوبِ کتاب

مجذوبِ کتاب

’’ابا جی! ہم نے اُردو بازار دیکھنا ہے۔‘‘
اخبار میں سے بچوں کی کہانیوں کا صفحہ ڈھونڈتے ہوئے ہم مشتاق لہجے میں فرمائش کر رہے تھے۔
’’کیا؟۔۔۔ کیا مطلب؟‘‘ اباجی ٹھکٹے۔
’’اُردو بازار لاہور، اردو بازار کراچی و غیرہ و غیرہ۔‘‘
ہم دیدے مٹکاتے ہوئے ایک بار پھر اباجی کو حیران کرگئے۔
’’ماشاء اللہ! اب بازار کی کسر رہتی ہے، کیوں ننھی کے ابا؟‘‘
کچھ فاصلے پر بیٹھی دادی ماں نے یوں دانت کچکچائے گویا ہم ان دانتوں کے بیچ دُبکے ہوں اور وہ ہمیں کچا چبا جائیں گی۔‘‘
دادی ماں بچوں کے خاص طور پر لڑکیوں کے باہر نکلنے کی سخت مخالف تھیں اور ہم وہی سدا کے منہ پھٹ۔ سامنے ہی اپنی خواہش کا اظہار کر بیٹھے تھے۔
’’ارے کچھ کاڑھنا پرونا بھی سیکھ لے، ننھی بنی گھومتی رہے گی کیا؟ جھاڑو لگانے کا کہو تو وہ بیٹھی ہوگی صحن کے بیچوں بیچ کوئی کاغذ پکڑے پڑھائیاں کرتی، کبھی کونوں کھدروں میں کچھ لکھتی نظر آئے گی تو کبھی دیواروں پر پھول بوٹے بناتے دِکھے گی۔ کچھ کام سیکھ لے، یہ شوق ہوتے لڑکیوں کے۔‘‘
دادی ماں کا ننھی کے خلاف ایکشن اسٹارٹ ہوگیا تھا اور ہم ننھی عرف نونہال رسالہ گھٹنوں پر رکھے ارد گرد سے بے نیاز لطف لے رہے تھے کہانیوں کا۔‘‘
’’ارے ننھی، اداس کا ہے کوہے؟ لے چلوں گانا دکھانے تجھے اُردو بازار۔‘‘
غالباً اباجی کو لگا ہم ناراض ہوگئے ہیں اور یہی بات ان کے دل میں جاکھبی تھی، جبھی وہ تلافی کر رہے تھے۔
’’سچ اباجی!‘‘ ہم فوراً خوشی کے مارے اُچھل کھڑے ہوئے۔
’’مچ ننھی جی!‘‘ اباجی ہمارے انداز میں بولے اور ہم دونوں ہی کھلکھلا اٹھے۔
’’ویسے ننھی کیا کرے گی اردو بازار دیکھ کر؟‘‘
’’بس اباجی، شوق کا کیا کریں؟‘‘ ہم خالص بڑوں کے انداز و لہجے میں بولے۔
’’دیکھیں گے، شوق پورا کریں گے۔ ہماری خواہش ہے کہ ہمارے چاروں طرف کتابیں ہوں، کتابیں، کتابیں، اور صرف کتابیں۔‘‘
ہم جذب میں بولتے ہوئے یقیناً اباجی کو مجذوب ہی دکھائی دیئے ہوں گے۔۔۔ مجذوب کتاب!
***
اُردو بازار لاہور کا دیکھ لیا، کراچی کا دیکھ لیا مگر کتابوں کی تشنگی بڑھتی چلی گئی۔ مانو بازار میں کتابوں سے زیادہ لوگوں کی بھیڑ تھی۔ سر چکر اٹھا۔
’’اباجی چلیں۔۔۔!‘‘
’’کیوں دیکھ تو لو ننھی!‘‘
’’ناں اباجی چلیں واپس۔‘‘ ذرا سی دیر میں ہم گھبرا اٹھے۔ ’’لوگوں کی ہمت ہے بابا، ہم تو لگائیں کانوں کو ہاتھ۔‘‘
’’کہو تو انار کلی بازار گھماتا چلوں مکمل۔‘‘
’’نہیں اباجی، واپس چلیں ہوٹل، یہاں کتابوں سے زیادہ تو لوگوں کارش ہے۔‘‘
***
عمر کے ساتھ ساتھ ہمارا یہ ’’شوقِ مطالعہ‘‘ بھی پروان چڑھتا رہا۔ کبھی ابوالکلام آزاد کی ’غبارِ خاطر‘ کے ساتھ مغز ماری ہورہی ہے تو کبھی ممتاز مفتی کے ’اوکھے اولڑے‘‘ میں سر پھنسائے بیٹھے ہیں۔ یہ ’دشتِ سوس‘ تو یقیناًجمیلہ ہاشمی نے ہم جیسے کوروں کے لیے تو نہیں لکھی ہوگی۔ اِدھر شورش کاشمیری کی کتاب کا نام ہی سر کے اوپر سے گزرتا جارہا ہے۔ ’شب جائے کے من بودم ، بوئے گل نالۂ دود چراغ محفل‘ اُف اللہ نام ہی اتنا مشکل ہے۔ بس یوں سمجھ لیں زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم۔ اِدھر ایک ہاتھ میں فیروز اللغات ہے تو دوسرے ہاتھ میں ’المنجد‘ لیکن ٹھہریئے! اس کے ساتھ ساتھ ایک چیز ہماری امی جان کے ہاتھ میں بھی ہے مولا بخش۔ نہیں سمجھے؟ بچپن کا راز دار ڈنڈا۔ جی ہاں ایک عدد ڈنڈا مع اماں جان کی تیکھی مرچیلی صلواتیں۔
’’آنے دو تیرے ابا کو، لگاتی ہوں تیری شکایت، کام کی طرف نگاہ نہیں ڈالتی، سارا دن ان کتابوں میں سردیئے بیٹھی رہتی ہے۔‘‘
’’اماں جی! پڑھ کر تو دیکھیں، ایمان سے رکھنے کا جی نہیں چاہے گا، یہ لیجیے ’زاویہ‘ پڑھیں اشفاق احمد کی کتاب، لگتا ہے آپ کے لیے لکھی گئی ہے۔‘‘
’’چل ہٹ! گھر کے کام تیرے نوکر کریں گے؟‘‘
’’اچھا ٹھہریں، ہم آپ کو سناتے ہیں ’تراشے‘ مولانا محمد تقی عثمانی کی کتاب، نہیں سنیں گی تو ظلم ہوگا۔‘‘
’’میں کہتی ہوں جا کر خود پڑھ! میرا مغز نہ کھا، ابھی میں نے ساگ اُبالنا ہے۔‘‘ حسبِ معمول کاموں میں گھری اماں جی نے یہی تو کہنا تھا۔
’’نہ خود کام کرے گی نہ کرنے دے گی، آنے دے ابا کو۔۔۔‘‘
’’پر یہاں کوئی سنتا ہے؟ ابا خود چار ہاتھ آگے ہے، شوق تو وہی پورے کرتا ہے۔ مجال ہے جو کسی ایک کتاب کا ناغہ ہونے دے اپنی ننھی کو۔‘‘
حسبِ عادت دادی اماں دانت کچکچاتے ہوئے اپنے من پسند موضوع میں بہوکے ساتھ شریک ہوجاتیں اور ہم بے چارے ایک حساس دل لے کر کہاں جاتے؟ پھر انہی کتابوں میں ہی پناہ لیتے۔ پر آخر کب تک؟ یہاں تو ہوائیں ہی مخالف رخمیں اُڑنے لگیں۔ بالاخر قدغن لگ ہی گئی۔
*
’’ننھی! رات کو آئی پیڈ میرے کمرے میں رکھ کر سویا کرو۔‘‘
’’ہیں۔۔۔! کیوں اباجی؟‘‘ ہم نے بمشکل آنکھوں میں آتے پانی کو پیچھے دھکیل کر پوچھا۔
’’بس کہہ جو دیا ورنہ سارا دن بستر پر ہی ملتی ہو۔ رات سونے کے لیے ہوتی ہے اور دن۔۔۔‘‘
’’دن کام کے لیے۔‘‘ جھٹ اماں جی نے اباجی کا جملہ اُچک لیا۔
’’ہاں دن کام کے لیے۔‘‘ اباجی کو اماں جی کی تائید کرتے ہی بنی۔
’’ہیں؟۔۔۔ نہ دن کو پڑھوں نہ رات کو؟‘‘ ٹپ ٹپ۔۔۔ آنسو آنکھوں کی حد توڑ گئے۔
’’دن کو ہے اجازت پڑھنے کی اور وہ بھی جب میں کہوں گی مخصوص وقت تک کے لیے۔‘‘
حسبِ عادت اماں جی نے اباجی کی بات کاٹ کر حکم جوڑا۔
’’ہاں جب تمہاری ماں کی اجازت ہوگی تب پڑھنا، آئی سمجھ؟‘‘
اباجی نے اماں جی کی ہی ماننی تھی۔
’’جب میں نماز پڑھ کر لوٹتا ہوں، میرے سامنے ہی رکھ جانا کمرے میں اور۔۔۔‘‘
’’دیکھو تمہارے اباجی کو دوبارہ نہ کہنا پڑے۔‘‘
آج تو پکی پکی اماں جی رقیبوں کی صف میں جابیٹھی تھیں۔ اباجی بے چارے مجبور تھے، ادھر بیٹی کا شوق، اُدھر بیگم کی تاکید۔ ’’ٹھیک ہے۔‘‘
ہم نے آنسوؤں کا گولا حلق میں اُنڈیلا اور قدموں کو واپس موڑدیا۔۔۔ مگر ٹھہریئے! ایک راز کی بات تو بتانا بھول ہی گئے۔
اباجی نے اپنے سامنے رکھنے کا کہا تھا، نہ کہ اٹھانے کا۔۔۔ لہذا ہم رکھ تو آتے ہیں بڑی فرماں برداری سے اپنی زیرِ مطالعہ کتاب یا آئی پیڈ مگر اٹھاتے اس وقت ہیں جب سب سوجاتے ہیں۔
اب آپ یقیناً یہ کہہ رہے ہوں گے کہ غلط بات۔۔۔ باپ کو دھوکا۔۔۔ نافرمان اولاد۔۔۔ نہیں بھئی، ہم یہ جانتے ہیں کہ جب ہم دبے پاؤں جا کر واپس کتاب اٹھا لاتے ہیں، اس وقت اباجی کن انکھیوں سے یا سمجھ لیں تجاہلِ عارفانہ سے ہمیں ہی دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اماں جی کو علم ہوجانے کے ڈر سے اباجی نے کبھی تفتیش نہیں کی کہ انہیں بیٹی کی خوشی عزیز ہے۔ نہ ہم نے کبھی ظاہر کیا نہ اباجی نے ظاہر کیا۔ ورنہ اماں جی کاری ایکشن۔۔۔ اُف توبہ!
کیوں کہ ایک قدرِ مشترک ہے کہ ہم دونوں ہی اماں جی سے ڈرتے ہیں۔ کیا خیال ہے نہیں ڈرنا چاہیے؟


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں