’’فقہ البیوع‘‘۔۔۔ مدارس کے نصاب کا حصہ بننے کے لائق کتاب

’’فقہ البیوع‘‘۔۔۔ مدارس کے نصاب کا حصہ بننے کے لائق کتاب

گزشتہ دنوں دیوبند کے کچھ نوجوانوں نے ایک پروگرام منعقد کیا، یہ نوجوان پڑھے لکھے ہیں، ان کے پاس مدارس کی تعلیم بھی ہے، وہ عصری علوم سے بھی بے بہرہ نہیں ہیں اور انگریزی زبان پر بھی عبور رکھتے ہیں۔
ان حضرات نے دیوبند میں ایک ادارہ قائم کر رکھا ہے، جس کے تحت ہفتے میں ایک دن جمعہ کے روز دو گھنٹے کے لیے ایک کلاس لگتی ہے۔ اس کلاس میں طلبۂ مدارس کو بینکنگ کے اسلامی نظام سے متعارف کرایا جاتا ہے، تجارت کے جو نئے طریقے اس دور میں رواج پاگئے ہیں، ان پر بھی روشنی ڈالی جاتی ہے۔ ایک سال میں جن طلبہ مدارس نے اس ہفت روزہ کلاس میں شرکت کی، پھر امتحان میں کامیابی حاصل کی، یہ پروگرام ایسے طلبہ کے مابین تقسیم اسناد کے لیے منعقد کیا گیا تھا۔ مجھے اظہار خیال کی دعوت دی گئی تو میں نے عرض کیا کہ بینک کاری اسلامی نظامی کوئی نئی چیز نہیں ہے، بلکہ یہ اسلام کے روز اول سے معروف و متعارف ہے، البتہ اس میں عہد بہ عہد تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں۔ بینک کے کاروبار میں دو چیزیں بنیادی ہیں: رقم جمع کرانا اور رقم وصول کرنا۔ دونوں کی مختلف شکلیں ہیں، کچھ شکلیں عہد صحابہ میں بھی متعارف تھیں، بعض صحابۂ کرام دوسروں کا مال اپنے پاس محفوظ رکھنے کا کام کرتے تھے، شروع شروع میں یہ کام بہ طور امانت ہوتا تھا، لیکن چوں کہ امانت کے ضائع ہوجانے کی صورت میں امانت رکھنے والے پر کوئی تاوان لازم نہیں آتا، اس لیے بعض حضرت اس مال کو بہ طور قرض لے لیا کرتے تھے تا کہ اسے تجارت میں لگا کر نفع کمائیں اور صاحب مال کا مال بھی ضائع نہ ہو۔ حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ کے متعلق روایات میں آتا ہے کہ وہ لوگوں کی رقم بہ طور قرض لے لیا کرتے اور انہیں تجارت میں لگادیتے، جب ان کی وفات ہوئی تو لوگوں کے بائیس لاکھ درہم ان کے ذمے باقی تھے اور یہ تمام درہم کاروبار میں لگے ہوئے تھے۔ یہ تو وہ صورت تھی جس میں اصل مالک کی رقم محفوظ تو ہوجاتی تھی مگر اسے کوئی فائدہ نہیں ہوتا تھا۔
اُس دور میں ایسی صورتیں بھی اختیار کی گئیں، جن میں مالک کی رقم کا تحفظ بھی ہو اور اسے کچھ نفع بھی مل جائے۔ صحابی رسول حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے جس وقت وہ عراق کے گورنر تھے، ایک بڑی رقم امیرالمومنین حضرت عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ کے دو صاحبزادوں حضرت عبداللہ ابن عمر اور حضرت عبیداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہم کو دی کہ وہ مدینہ منورہ لے جا کر خلیفۃ المسلمین کے حوالے کردیں، انھوں نے یہ مال بہ طور قرض لے لیا تا کہ وہ اس سے تجارت کرتے ہوئے واپس جائیں، اس طرح ان کو نفع کی امید بھی تھی اور اس میں رقم کا تحفظ بھی تھا۔ اگر یہ رقم کسی وجہ سے ضائع ہوجاتی تو یہ دونوں حضرات ادائی کی پابند تھے، کیوں کہ انھوں نے یہ رقم امانت کے طور پر نہیں بلکہ قرض کے طور پر لی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جب اس صورتِ حال کا علم ہوا تو انہوں نے یہ اعتراض کیا کہ جب دوسرے مسلمانوں کو بیت المال سے قرض نہیں دیا جاتا تو عمر کے بیٹے اس قرض کے مستحق کیسے ہوسکتے ہیں؟ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے یہ تجویز پیش کی اس تجارت کو مضاربت قرار دے دیا جائے، اس طریقۂ تجارت میں ایک فریق کا پیسہ ہوتا ہے اور دوسرے فریق کی محنت اور نفع طے شدہ معاملات کے مطابق تقسیم کیا جاتا ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ تجویز منظور فرمائی، اس طرح بیت المال اور دونوں صاحبزادے فائدے میں رہے۔
حضرت مولانا مناظراحسن گیلانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی سیاسی زندگی‘‘ میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہؒ تاریخ اسلام کی وہ پہلی شخصیت ہیں، جنھوں نے اپنے تجارتی ادارے کو باقاعدہ بینک کی شکل دی۔ انھوں نے لکھا ہے کہ امام ابوحنیفہؒ لوگوں کا سرمایہ کپڑے کے کارخانے میں لگاتے اور اس سے حاصل ہونے والے منافع میں صاحب مال کو بھی شریک فرماتے، اس رقم سے ضرورت مندوں کو بلاسود قرض بھی دیتے، اس طرح اُن کے ذریعے بینک کا مکمل نظام وجود میں آیا جو نہایت کامیابی کے ساتھ چلا، یہ نظام دوسروں کے لیے بھی نمونۂ عمل بنا اور خود امام صاحب کو بھی اس سے بڑا نفع ہوا۔ بینک کاری کے اس نظام میں اگرچہ بہت زیادہ وسعت نہیں تھی، مگر یہ بہت زیادہ محدود بھی نہیں تھا۔ امام ابوحنیفہؒ کے کاروبار کے سلسلے میں رأس المال اور منافع کے جو تذکرے کتابوں میں ملتے ہیں، اُن سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ یہ محض تصوراتی نہیں تھا بلکہ کہ اسے باقاعدہ عملی شکل دے کر ایک ادارے کے تحت کردیا گیا تھا جہاں حساب کتاب کے رجسٹر تیار کیے جاتے تھے، قرض لیتے اور دیتے وقت معاہدات کو تحریری شکل دی جاتی تھی، نفع و نقصان کا حساب کیا جاتا تھا اور طے شدہ معاملات کے مطابق نفع تقسیم کیا جاتا تھا۔ یہ تجارت دور دور تک پھیلی ہوئی تھی اور بہت سے افراد اس تجارت سے بہ طور ملازم اور اجیر منسلک تھے، ان کی تنخواہوں اور اجرتوں کی ادائی کا بھی ایک مکمل سسٹم اور طریقہ کار موجود تھا اور یہ تمام امور قرآن و سنت کے متعین کردہ خطوط کی روشنی میں وضع کردہ اصول تجارت کو راہ نما بنا کر انجام دیے جاتے تھے۔ میں نے پروگرام کے ذمہ داروں سے عرض کیا کہ طلبہ مدارس کو اسلامی بینک کاری کے نظام اور جدید اصول معیشت و تجارت سے آگارہ کرنے کے لیے آپ حضرات جو کوشش کررہے ہیں، وہ قابل تعریف ہے۔ لیکن اگر یہ کام دینی مدارس خود کریں تو اس کا فائدہ زیادہ ہوگا۔ میں نے عرض کیا کہ اس مقصد کے لیے زیادہ کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ اپنے نصاب میں ایک کتاب کے اضافے کی ضرورت ہے جو ابھی دو سال پہلے منظر عام پر آئی ہے اور جو اس موضوع پر منفرد حیثیت رکھتی ہے۔ کتاب کا نام فقہ البیوع ہے، مصنف شیخ الاسلام حضرت مولانا محمدتقی عثمانی دامت برکاتہم ہیں۔
وہاں تو میں نے اختصار کے ساتھ یہ بات کہی تھی۔ آج کے اس مضمون میں اس کی کچھ تفصیل پیش کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔ یہ موقع اس تجویز کے لیے غنیمت بھی ہے کہ چند روز بعد دارالعلوم دیوبند میں کل ہند رابطۂ مدارس عربیہ کا ایک اجلاس منعقد ہونے والا ہے، ہوسکتا ہے اس موقع پر مدارس کے نصاب تعلیم پر بھی کچھ بات ہو، ممکن ہے کسی صاحب نظر کی نظر اس مضمون پر پڑجائے اور وہ فقہ البیوع کو شامل نصاب کرنے کی تجویز کو آگے بڑھاسکیں۔
دیوبند سے خاندانی اور نسبی نسبت رکھنے والے پاکستان کے ممتاز عالم دین مولانا محمدتقی عثمانی کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے، علم و ادب کے میدان میں ان کی ہمہ جہتی خدمات نے ان کو دنیائے علم کا بے تاج بادشاہ بنادیا ہے۔ تفسیر، حدیث، فقہ، تصوف اور اصلاح معاشرہ و غیرہ موضوعات کے حوالے سے ان کی گراں قدر اُردو، عربی اور انگلش تصانیف و تالیفات نے مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ کر رکھ دیے ہیں۔ تصنیف و تالیف، وعظ و تقریر اور تدریس کے ساتھ ہی انھوں نے بہ طور خاص اپنے لیے ایک میدان وہ بھی چنا جواب تک خالی تھا اور جس میں علماء راسخین کی سخت ضرورت تھی، وہ میدان ہے اسلامی معاشیات کا جس کا ایک بڑا حصہ اسلامی بینک کاری سے تعلق رکھتا ہے۔
گلوبلائزیشن کے اس دور میں پوری دنیا ڈی جیٹل ہوچکی ہے، اس کے ساتھ ہی ہم تجارت اور معیشت کے کچھ ایسے پہلوؤں سے بھی متعارف ہوئے ہیں۔ جن کا اس سے پہلے تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا، نقد کا تصور ختم ہوتا جارہا ہے اور خرید و فروخت کی تمام سرگرمیوں کا انحصار بینک جیسے مالیاتی اداروں پر ہونے لگا ہے، اس کے ساتھ ہی سود کا دائرہ بڑھ رہا ہے جس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے، جن اہل علم حضرات نے مالیاتی اداروں کو سودی سرگرمیوں سے پاک و صاف رکھنے کے لیے جد و جہد کی ہے، ان میں مولانا تقی عثمانی کا نام سب سے نمایاں ہے۔ آج وہ پاکستان سمیت دنیا کے کئی ملکوں میں قائم اسلامی بینکوں کے ایڈوائزر ہیں، اس کے ساتھ ہی اس موضوع پر ان کی تحقیقات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ پندرہ سال قبل انھوں نے خرید و فروخت کے موجودہ منظرنامے کو سامنے رکھ کر فقہی احکام کی تحقیق و ترتیب کا گراں قدر کام شروع کیا تھا جو دو ضخیم جلدوں میں مکمل ہو کر سامنے آچکا ہے، کتاب کا مختصر نام فقہ البیوع ہے، مکمل نام ذرا لمبا ہے مگر یہ لمبا نام ہی ان کے بے مثال کام کا مکمل تعارف ہے کتاب کا پورا نام ہے ’’فقہ البیوع علی المذاہب الاربعہ مع التطبیقات المعاصرۃ، مقارناً بالقوانین الوضعیۃ‘‘۔
نام سے پتہ چلتا ہے کہ اس کتاب میں فقہ اسلامی کے چاروں مذاہب کے وہ احکام و مسائل بیان کئے گئے ہیں، جن کا تعلق خرید و فروخت سے ہے۔ مصنف نے صرف بیانِ احکام پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ان احکام کو موجودہ دور کے اصول تجارت پر بھی منطبق کرنے کی کوشش کی ہے، اس کے ساتھ ہی انہوں نے مختلف ملکوں میں رائج تجارتی قوانین کے ساتھ اسلامی قوانین کا موازنہ بھی کیا ہے، اس طرح یہ کتاب بیع و شراء کے احکام کا ایک ایسا انسائیکلوپیڈیا بن گئی ہے جس میں قدیم مسائل جدید تطبیقات اور معاصر تجارتی قوانین کے تقابل کے ساتھ موجود ہیں، یہ دو پہلو ایسے ہیں جو اس کتاب کو معاصر فقہی ذخیرۂ کتب میں ممتاز کرتے ہیں اور اس کی قدر و قیمت میں اضافہ کرتے ہیں۔ بلاشبہ یہ دونوں کام ایسے ہیں جو وہی شخص کرسکتا ہے جس کے فکر و نظر میں بے پناہ وسعت ہو، ایک طرف تو اس کی نظر مسائل کے قدیم ذخیرے پر ہو، دوسری طرف وہ عصری مسائل پر بھی گرفت رکھتا ہو، پھر اس میں یہ صلاحیت بھی ہو کہ وہ زمانے کے نئے مسائل پر قدیم مسائل کو منطبق کرسکے، اس کے ساتھ ہی وہ پیش آمدہ مسائل کا فقہی حل بھی پیش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو، کتاب خود اپنے منہ سے بول رہی ہے کہ اس کے مصنف میں یہ تمام صلاحیتیں بدرجۂ اتم موجود ہیں، بہ طور خلاصہ ہم اتنا کہہ سکتے ہیں کہ اس میں مصنف نے مندرجہ ذیل امور پیش نظر رکھے ہیں۔
۱: اس کتاب میں فقہ حنفی کے ساتھ ساتھ باقی تینوں فقہی مکاتب فکر کے تمام اہم مسائل ان کے مستند اور بنیادی مآخذ کے حوالے کے ساتھ ذکر کیے گئے ہیں۔
۲: اسلامی قوانین تجارت کے ساتھ بعض یورپین ملکوں کے قوانین بھی حسب ضرورت ذکر کردیے گئے ہیں، تا کہ دونوں طرح کے قوانین پڑھنے والوں کے سامنے آجائیں اور پڑھنے والوں کو یہ معلوم ہوسکے کہ انسان کے وضع کردہ قوانین کے مقابلے میں وحی الہی سے مستبط قوانین انسانیت کے لیے زیادہ مفید ہیں۔
۳: کتاب میں جدید مسائل کا بہ طور خاص ذکر کیا گیا ہے، اس کے ساتھ ہی کتاب و سنت کی روشنی میں ان مسائل کا حل بھی پیش کیا گیا ہے، حسبِ ضرورت معاصر علماء کی آراء بھی پیش کی گئی ہیں، مصنف نے بہت سے مسائل میں اپنا نقطۂ نظر بھی سامنے رکھا ہے اور اس کے لیے مضبوط دلائل بھی فراہم کیے ہیں۔
۴: کتاب کا انداز بیان سہل ہے، نہ بہت طویل عبارتیں ہیں کہ پڑھنے والوں میں اکتاہٹ پیدا ہو اور نہ بہت ایجاز ہے کہ طبیعتیں الجھ جائیں، ہر مسئلہ فقہی ترتیب پر نہایت وضاحت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے اور ساتھ ساتھ دلائل بھی ذکر کردیے گئے ہیں۔
۵: اس کتاب کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں قدیم فقہی اصطلاحات کے ساتھ نئی اصطلاحات بھی بیان کی گئی ہیں اور ان کی مرادف انگریزی اصطلاحات بھی لکھ دی گئی ہیں، یہ اصطلاحات ان لوگوں کے لیے مفید ثابت ہوں گی جو اسلامی بینکنگ میں دلچسپی رکھتے ہیں، آخر میں ان تمام اصطلاحات کو حروف تہجی کے اعتبار سے جمع کر کے ضمیمے کی شکل میں کتاب کے ساتھ ملحق کردیا گیا ہے۔
۶: کتاب کے آخر میں مصنف نے ’’صیغۃ مقترحۃ لقانون البیع الاسلامی‘‘ کے عنوان سے اپنی کتاب کی تلخیص بھی پیش کی ہے، اگر کسی اسلامی ملک کو اللہ توفیق دے اور وہ اپنے یہاں اسلامی قانون تجارت و معیشت نافذ کرنا چاہے تو وہ کتاب کی اس تلخیص کو راہ نما بنا سکتا ہے۔
معلوم ہوا ہے کہ گجرات کے متعدد مدارس نے مذکورہ بالا تلخیص کتاب کو ہدایہ کے نصاب میں داخل کرلیا ہے، گجرات ہی کے ایک عالم نے دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث مولانا نعمت اللہ اعظمی کے رائے اور مشورے سے ’’اسلامی قانون خرید و فروخت‘‘ کے نام سے اس کا اردو ترجمہ بھی کیا ہے، ضرورت ہے کہ فقہ البیوع کو تمام مدارس کے نصاب کا حصہ بنایا جائے، ہدایہ آخرین کے سال میں اس کو داخل کیا جاسکتا ہے، افتاء کے نصاب میں اس کو شامل کرنا تو بے حد ضروری ہے، اس سے مستقبل کے مفتیوں کو معیشت و تجارت کے جدید و قدیم مسائل سے واقفیت تو ہوگی ہی اس کے ساتھ ہی ان میں یہ سلیقہ بھی پیدا ہوگا کہ وہ فقہی احکام کو عصری مسائل پر منطبق کرسکیں، ان میں جدید مسائل کا حل ڈھونڈنے کی صلاحیت بھی پیدا ہوگی، نیز وہ یورپین ممالک میں رائج قوانین سے بھی آگاہ ہوں گے، سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کتاب کی تدریس کے ذریعے ہم کچھ ایسے افراد پیدا کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے جو بینک کاری کے موجودہ نظام کو اسلامی نظام میں تبدیل کرسکیں جس کے لیے لگا تار کوششیں ہورہی ہیں، لیکن افراد کی کمی ان کوششوں کی راہ میں رکاوٹ پیدا کررہی ہے، خدا کرے ہماری یہ آواز صدا بہ صحرا ثابت نہ ہو۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں