حضرت العلام مولانا اللہ یارخان رحمہ اللہ

حضرت العلام مولانا اللہ یارخان رحمہ اللہ

مجتہد فی التصوف، قلزمِ فیوض، حضرت العلام مولانا اللہ یارخانؒ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کے شیخ اور ایک بڑے صوفی بزرگ گزرے ہیں۔
آپ ایک صاحبِ ریاضت ولی، عارف باللہ اور متقی عالم دین تھے۔ آپ کی کشف و کرامات بہت زیادہ ہیں، آپؒ کے دست حق پرست پر لاتعداد لوگوں نے بیعت کی اور آپؒ کا فیض دنیا بھر میں پھیلا۔
سلسلہ اویسیہ کے متعلق حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ فرماتے ہیں: ’’جیسے پانی زیرزمین ہر وقت موجود رہتا ہے اور کسی وقت چشمہ کی صورت ابل کر زمین کو سیراب کردیتا ہے اسی طرح حقیقی تصوف بھی کبھی کبھی غائب ہوجاتا ہے، پھر مدتوں بعد اللہ کسی بندے کو پیدا کرتا ہے اور یہ چشمہ ابل پڑتا ہے۔ سلسلہ اویسیہ بھی اسی طرح ہے‘ یہ ظاہراً متصل نہیں لیکن حقیقت میں متصل ہے‘‘۔ سلسلہ اویسیہ کے سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، امام حسن بصری رحمہ اللہ، داؤد طائی رحمہ اللہ، جنید بغدادی رحمہ اللہ، خواجہ عبیداللہ احرار رحمہ اللہ، ابوایوب صالح رحمہ اللہ، خواجہ دین مدنی رحمہ اللہ، خواجہ عبدالرحیم رحمہ اللہ کے درمیان زمانی اعتبار سے صدیوں پر محیط فاصلہ ہے۔ اسی طرح خواجہ اللہ دین مدنی رحمہ اللہ کے وصال کے بہت مدت بعد خواجہ عبدالرحیم رحمہ اللہ اور حضرت العلام رحمہ اللہ کی صورت میں سلسلہ اویسیہ کا چشمہ فیض ایک بار پھر جاری ہوا۔ حضرت العلام رحمہ اللہ کو اللہ تعالی نے ایک عظیم مقصد کے لئے پیدا فرمایا اور ان کے کمالات کے سبب حقیقی تصوف کو فروغ ملا۔
حضرت العلام رحمہ اللہ کا مولد و مسکن چکڑالہ (میانوالی) اور تاریخ پیدائش ۱۹۰۴ء ہے۔ آپ اعوان قبیلے کی ایک شاخ ’سرجال اعوان‘ سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ عجیب واقعہ ہے کہ فتنہ چکڑالویت (فتنہ انکار حدیث) کا بانی عبداللہ چکڑالوی بھی اسی خطے سے اٹھا تھا اور حضرت جیؒ جیسی برگزیدہ ہستی نے بھی یہیں سے جنم لیا۔ آپ رحمہ اللہ کے والد ذوالفقار خان بڑے زمیندار تھے۔ آپ جس قبیلے اور خطے میں پیدا ہوئے وہ بظاہر کوئی زیادہ دین دار نہ تھا، اسی ماحول میں آپ نے پرورش پائی لیکن آگے جا کر اللہ تعالی نے آپ کو بہت سے علوم سے نوازا اور سلسلہ اویسیہ کے شیخ کے منصب پر متمکن کردیا۔ سوانح نگاروں نے لکھا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت جیؒ کی والدہ کو ایک بزرگ خواب میں ملے اور دو تھیلیاں سپرد کرتے ہوئے فرمایا یہ تمہارے بیٹے کے لئے ہیں۔ دو تھیلیوں سے مراد علومِ ظاہری و باطنی تھے جن میں آگے چل کر حضرت جیؒ نے کمال حاصل کیا۔ ایک مرتبہ کمشنر میانوالی حضرت جی کے پاس پہنچا تو آپ نے اس کی نحوست سے ہی اسے پہچان لیاکہ یہ شخص قادیانی ہے اور وہ واقعی قادیانی تھا۔ آپ کے مخفی علوم اور کرامات کے واقعات بہت زیادہ ہیں۔ تحصیل علم سے فراغت کے بعد آپ نے فقر اور درویشی اختیار کی اور اصلاح امت کے لئے توانائیاں صرف کیں۔
ابتدائی تعلیم کے دوران آپ اپنے استاد مولانا عبدالرحمنؒ سے بہت سوالات کرتے، ایک موقع پر انہوں نے فرمایا‘ عزیز! ’’اگر تم نے سوالات ہی کرنے ہیں تو پھر خوب علم حاصل کرو‘‘۔ زندگی کا یہی وہ اہم موڑتھا جب آپ نے حصول علم کے لئے دن رات ایک کردیے اور خوب مشقت و ریاضت اٹھائی۔ سالہا سال متواتر تحصیل علم میں صرف کیے اور تحقیق، تصنیف و تالیف کا سلسلہ تمام عمر جاری رہا۔ آپ مدرسہ امینیہ دہلی تشریف لے گئے اور مولانا سیدانور شاہ کشمیریؒ ، مفتی کفایت اللہؒ اور دیگر مشاہیر سے اکتسابِ فیض کیا۔ حضرت جیؒ نے ۱۹۳۲ء میں مولانا سیدامیرؒ (فاضل دیوبند) سے دورہ حدیث کی تکمیل کی۔ ہم عصر علمائے کرام حضرت العلامؒ کے علمی مرتبے کے بہت معترف تھے اور استفادہ کے لئے آپ کے پاس حاضر ہوتے۔ علم کی روشنی کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی نے آپ کو نگاہ باطن اور بصیرت سے وافر نوازا تھا۔ لنگر مخدوم (سرگودھا) کے ایک ولی کامل‘ شیخ سلسلہ اویسیہ حضرت خواجہ عبدالرحیمؒ کی صحبتوں نے آپ کو علوم باطنی، تذکریہ نفس اور تصوف کی دولت سے مالامال کیا۔
ردِّ قادیانیت پر حضرت العلامؒ کا مطالعہ بہت تھا اور آپ کی خدمات بھی بہت زیادہ ہیں۔ قصبہ پچنند (تلہ گنگ) میں جب قادیانیت نے پنجے گاڑھنے شروع کئے اور ذیلی ربوہ بنانا چاہا تو اللہ تعالی نے اس محاذ پر آپ کو میدان میں اتارا۔ آپ کی تبلیغی اور اصلاحی کوششوں سے بہت سے لوگ قادیانیت سے تائب ہوئے۔ قصبہ تھمے والی میانوالی میں آپ کی مساعی جمیلہ سے قادیانیت کو شکست فاش ہوئی۔ بہت سے قادیانیوں نے جب حضرت العلام کی صحبتیں اختیار کیں تو طلبِ صادق کے نتیجے میں اللہ نے انہیں ہدایت عطا فرمائی۔ پرویزیت کے خلاف بھی آپؒ کا کردار خوب رہا۔ فرماتے کہ: پرویزیت اور قادیانیت دونوں نے نبوت کو ہدف بنایا۔ اول الذکر نے نبی علیہ السلام کو معلوم اور شارع ماننے سے انکار کیا تو ثانی الذکر نے ختم نبوت کا انکار کرکے نئی نبوت کا اعلان کیا۔ ان دونوں میں ظلمت بھی ایک ہی طرح کی پائی جاتی ہے۔ اکثر فرماتے کہ ہمیں جو کچھ بھی ملا صحابہ کرامؓ کے صدقے سے ملا۔ جب صحابہؓ سے اعتماد ختم ہوجائے تو دین باقی نہیں رہتا۔
مریدین کو نصیحت کرتے کہ عقائد اہل سنت و الجماعت پر ہی قائم رہنا، نماز کی سخت پابندی کرنا، خدا کے ایسے خاص بندے بن جاؤ کہ دنیا کی کوئی چیز تمہیں خدا سے غافل نہ کردے۔ اب کمالات کے تمام دروازے بند ہوچکے ہیں سوائے اتباعِ محمدیﷺ کے۔ ابدالیت، قطبیت، غوثیت، قیومیت، صدیقیت‘ یہ تمام مناصب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جوتیوں کی خاک ہیں۔ ان تمام مناصب کے حصول کے لئے صرف دو ہی شرطیں ہیں: اول اتباع شریعت محمد رسول اللہ ﷺ اور دوم ربط بالشیخ۔ تصوف کے موضوع پر آپ کی شہرہ آفاق تصنیف ’دلائل السلوک‘ ہے۔ ایک مقام پر تصوف کیا ہے؟ کے موضوع پر فرماتے ہیں کہ لغت کے اعتبار سے تصوف کی اصل خواہ صَوف ہو اور حقیقت کے اعتبار سے اس کا رشتہ چاہے صفا سے جاملے، اس میں شک نہیں کی یہ دین کا ایک اہم شعبہ ہے جس کی اساس خلوص فی العمل اور خلوص فی النیت پر ہے۔ تصوف کیا نہیں؟ کے عنوان پر فرمایا: تصوف کے لئے نہ کشف و کرامات شرط ہے نہ دنیا کے کار و بار میں ترقی دلانے کا نام تصوف ہے۔ نہ تعویذ گنڈووں کا نام ہے نہ جھاڑ پھونک سے بیماری دور کرنے کا نام تصوف ہے۔ یہ چیزیں تصوف کا لازمہ سمجھی جاتی ہیں حالانکہ ان میں سے کسی ایک چیز پر بھی تصوفِ اسلامی کا اطلاق نہیں ہوتا۔
حضرت العلام مولانا اللہ یارخانؒ نے تصوف اور دیگر موضوعات پر بہت سی کتابیں تصنیف فرمائیں جن میں ایمان بالقرآن، الدین الخالص، حیاتِ برزخیہ، اسرار الحرمین اور دلائل السلوک و غیرہ اہم تصانیف ہیں۔ بہت سے قلم کاروں نے حضرت العلامؒ کے ایمان افروز حالات بیان کیے ہیں۔ آپ کی ضخیم سوانح حبیب الرحمن صدیقی اور ابوالاحمدینؒ نے قلمبند کی۔ دنیا بھر میں آپ کے متوسلین کی کثیر تعداد پھیلی ہوئی ہے، آپؒ مورخہ ۱۸؍ فروری ۱۹۸۴ء کو واصل بحق ہوئے اور مرشد آباد (چکڑالہ، میانوالی) میں آسودہ خاک ہوئے۔ حضرت جیؒ کی لحد کے قریب واقع جامع مسجد میں مختلف روحانی اجتماعات میں سلسلے سے وابستہ حضرات جوق در جوق شریک ہوتے ہیں۔ اسی سلسلے کا ایک بڑا مرکز آپ کے جانشین مولانا امیر محمد اکرم اعوانؒ نے منارہ (چکوال) میں بھی قائم کیا۔ مولانا امیرمحمد اکرم اعوانؒ نے ۲۰۱۷ء کے اواخر میں وفات پائی۔
خدا رحمت کنند ایں عاشقانِ پاک طینت را


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں