دنیامیں بڑھتی افراتفری اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داریاں

دنیامیں بڑھتی افراتفری اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داریاں

عہدِ حاضر میں جس تیزی کے ساتھ عالمی سطح پر افراتفری پھیل رہی ہے، وہ پوری دنیائے انسانیت کے لیے تشویش ناک امرہے۔دنیا کے اکثر ممالک میں تباہی اورافراتفری کے مناظر کا پہلی نظر میں ہی مشاہدہ کیا جاسکتاہے، لیکن بعض ممالک ایسے ہیں جن میں بظاہر افراتفری وتباہی دکھائی نہیں دیتی ہے، مگر جب گہرائی کے ساتھ جائزہ لیاجاتاہے، تو معلوم ہوتاہے کہ وہ بھی اندر اندر تباہی کے راستے پر چل رہے ہیں۔مثال کے طورپر فی زمانہ دنیائے انسانیت کو خطرناک لڑائیوں کا سامنا ہے۔ گذشتہ صدی میں دوعالمی جنگیں ہوچکی ہیں، جن میں بڑے پیمانے پر جانی ومالی نقصان ہوا۔ایک اندازے کے مطابق پہلی جنگِ عظیم (1917)میں تقریباً 90لاکھ لوگ ہلاک ہوئے۔ 2/کروڑ 20لاکھ شدید زخمی ہوئے اور 2/ کروڑ 50لاکھ لوگ معذور ہوگئے ۔یہ مجموعی اعداد وشمار نہیں ہیں، بلکہ میدانِ جنگ کے ہیں، جو افراد اپنے شہروں، قصبوں اور گاؤوں میں جنگ کے اثرات سے متاثر ہوکرجاں بحق ہوئے ،ان کی تعداد اور بھی زیادہ بتائی جاتی ہے۔اس جنگ کے نتیجے میں لگ بھگ 50لاکھ عورتیں بیوہ ہوگئی تھیں ،لاکھوں بچے یتیم اور لاکھوں عورتیں وبچے غائب ہوگئے تھے۔دوسری جنگ عظیم کے نتائج اس سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوئے۔اس میں ہلاک ہونے والے فوجیوں اور عام لوگوں کی تعداد ایک اندازے کے مطابق 54.8ملین تھی، یعنی پہلی جنگِ عظیم کے مقابلے میں چھ گنازیادہ، جس کے اعتبار سے اس جنگ کے نتیجے میں مرنے والوں کی تعداد کسی بھی صورت میں5/کروڑ سے کم نہیں بیٹھتی۔اس جنگ میں معذور ہونے والوں کی تعداد دوکروڑ تھی۔واشنگٹن پوسٹ کی تحقیقی رپورٹ کے مطابق 20ویں صدی کی جنگوں میں 10/کروڑ افراد ہلاک ہوئے۔

21/ویں صدی کی شروعات بھی خوفناک واقعات اور جنگوں سے ہوئی ۔ 11/ستمبر 2001ء کو امریکہ کی دوفلک بوس عمارتیں مغویہ ہوائی جہازوں کے حملوں میں زمیں بوس ہوگئیں،جس کے نتیجے میں وہ دونوں بلند وبالاٹاور خاکستر ہوگئے اور اس میں موجود ہزاروں افراد لقمہٴ اجل بن گئے۔یہ ایک ایسا واقعہ تھا جس نے پوری دنیاکو ہلا کر رکھ دیا۔اس کے بعد یکے بعد دیگرے تیزی کے ساتھ جنگوں اورحملوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔2001ء میں ہی افغانستان پر چڑھائی کردی گئی ۔ اس جنگ میں عوام بھی متاثرہوئے اور بڑی تعداد میں افغانی باشندے موت کی نیند سوگئے۔تصادم ،مارکاٹ اور قتل وغارت گری کایہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔15/سال کے عرصے میں یقینا افغانستان میں جانی ومالی تباہی ہوئی۔2003ء میں عراق پر جنگ مسلط کردی گئی۔چاروں طرف سے ناکہ بندی کرکے اس ملک کی صدام حکومت کو زیر وزَبر کردیاگیا،دورانِ جنگ مرنے والوں کی تعداد اچھی خاصی تھی ہی، لیکن جنگ کے بعدہلاک ہونے والوں کی تعداد کتنے ہی گنا زیادہ ہے۔یہ پورا ملک سخت تباہی سے دوچار ہوا ہے، بعض اندازوں کے مطابق 2003ء کے بعد سے اب تک عراق میں 20/لاکھ سے زیادہ لوگ مارے جاچکے ہیں۔افغانستان اور عراق کی طرح لیبیا میں خوفناک حالات بنے۔ وہاں انقلاب کے نام پر معمر قذافی کے اقتدارکاخاتمہ کردیا گیا اوراس کے نتیجے میں بے شمارلوگوں کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔وہاں عدمِ استحکام کی صورتِ حال ہنوز جاری ہے۔تیونس میں بھی اسی طرح کے حالات سامنے آئے۔مصر میں افراتفری کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ پہلے وہاں حسنی مبارک کے اقتدار کا خاتمہ ہوا ۔نئے صدر محمد مرسی عوامی رائے سے منتخب ہوئے، لیکن مصر کی فوج حسنی مبارک کے گروپ اور مغربی ممالک کو محمد مرسی ایک آنکھ نہیں بھائے۔چناں چہ فوج نے بغاوت کردی۔ ایک خوفناک لڑائی ہوئی ،بڑی مقدار میں انسانی خون بہا۔محمد مرسی کو گرفتار کرلیا گیا ۔ اس کے بعد محمد فتح السیسی کے ہاتھوں میں اقتدار دے دیا گیا،جو بڑا متشد داور سخت واقعہ ہوا۔مصر میں سخت اور نازک حالات ابھی بھی برقرار ہیں اور آئے دن مصری عوام باہمی تصادم اور جھڑپوں کے سبب ہلاک ہورہے ہیں۔اگر بات ملک شام کی کی جائے تو یہاں صورت حال اورزیادہ ابتر ہے۔پانچ سال سے زائد عرصہ بیت چکاہے، مگر وہاں حکومت اور عوام کے مابین جاری تصادم میں کوئی کمی واقع نہیں ہورہی ہے۔اب تک کئی لاکھ لوگ شام میں لقمہٴ اجل بن چکے ہیں۔یہ تو چند ممالک کے حالات ہیں ۔ اگر اسی طرح سے اور بھی ملکوں میں پھیلی بدامنی اور افراتفری کا جائزہ لیاجائے تو وہاں بھی باہمی لڑائیوں میں روز بروز انسانی جانیں تباہ ہوچکی ہیں۔ سیاسی حالات جس تیزی کے ساتھ بگڑرہے ہیں ۔اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے بعض مبصرین نے تو تیسری عالمی جنگ کے خدشات ظاہر کردیے ہیں۔اگر خدانخواستہ اب تیسری عالمی جنگ ہوئی تو انسانوں کا کتنا بڑا نقصان ہوگا، سابقہ عالمی جنگوں اور موجود ہ حالات کو پیش نظر رکھ کر اس کا اندازہ کیاجاسکتاہے۔

دنیا کے حالات اس طورپر بھی بہت زیادہ خراب ہوچکے ہیں کہ دنیا میں مادیت اور روحانیت کے درمیان توازن بگڑ گیاہے۔عوام الناس کا سارا زورمادیت پرہوگیاہے۔آج لوگ مال دار بننے کی خواہش رکھتے ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ ان کے پاس جائیداد ہو، بینک بیلنس ہو، گاڑیاں ہوں، بڑے اور آراستہ مکانات ہوں اور عیش ومستی کرنے کے لیے ڈھیر سارے وسائل وذرائع ہوں۔اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لیے وہ شب وروز ایک کررہے ہیں۔انھیں نہ دن میں چین ہے اور نہ رات میں سکون ۔رات دن ایک کرنے کے باوجود بھی بہت سے اپنے مقصد میں کام یاب نہیں ہوپارہے ہیں۔ان کی معیشت مضبوط نہیں ہوپارہی ہے۔ان کے پاس بینک بیلنس نہیں بن پارہاہے۔یہاں تک کہ ان کی اپنی احتیاجات بھی پوری نہیں ہوپارہی ہیں۔مکان بنانے کی ضرورت ، دو وقت کے کھانے کی ضرورت اور بچوں کی شادیوں کی ضرورت ان کی کمر کو توڑے ڈال رہی ہے۔ایسے لوگ نہایت پریشان ہیں، بے چینی کی زندگی گزاررہے ہیں۔ کتنے لوگ اپنی ناکامی کے باعث ڈپریشن کے شکار ہوچکے ہیں۔کتنے لوگ اپنی احتیاجات کو دیکھتے ہوئے صبر کادامن ہاتھ سے چھوڑدیتے ہیں اور غلط راستے اختیارکررہے ہیں۔ایسی صورت میں وہ اپنے لیے بھی خطرناک ثابت ہوتے ہیں اور دوسروں کے لیے بھی۔

مال ودولت کی بڑھتی خواہش کے باعث بہت سے لوگ ایمان داری اوردیانت داری کا سبق بھول گئے ہیں اور وہ زیادہ سے زیادہ کمانے کے لیے خطرناک ہتھکنڈے استعمال کررہے ہیں ، کتنے لوگ ایسے ہیں جو نشہ آور اشیا کی خرید وفروخت کرکے اپنی تجوریاں بھررہے ہیں، مگر دوسروں کی زندگیوں سے کھلواڑ کررہے ہیں ۔بعض لوگ جرائم، بدعنوانی اور رشوت خوری کے ذریعہ دوسروں کے حقوق غصب کررہے ہیں۔کرپشن اوربدعنوانی کی جہاں تک بات ہے توآج اس میں کوئی ایک طبقہ ملوث نہیں ہے، بلکہ چھوٹے بڑے سبھی طبقات ملوث نظرآتے ہیں۔اشیائے خوردنی میں ملاوٹ اور وہ بھی خطرناک کیمیکل کی ملاوٹ کے واقعات سامنے آرہے ہیں۔سبزیوں کی ملاوٹ نے بھی انسانی زندگی کو دوبھر کردیاہے۔کسان زیادہ کمانے کے لیے یا پھر اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ہائی بریڈسبزیاں تیار کررہے ہیں، جوانسانوں کے لیے بڑی خطرناک ثابت ہورہی ہیں۔گویاکہ مادی سطح پر انسان بہت حد تک بچھڑچکاہے۔

روحانی لحاظ سے جب آج کے انسان کا جائزہ لیاجاتاہے تو وہ اس میدان میں بڑا لٹا پٹا دکھائی دیتاہے۔لوگوں کے درمیان سے دورِ حاضر میں روحانیت ختم سی ہوگئی ہے۔بہت سے لوگ تو روحانیت کے معانی ومفاہیم تک سے واقف نہیں۔حالاں کہ روحانیت کو انسانی زندگی میں بہت بڑادخل ہے۔روح کے بغیر انسان جس کی زندگی کاتصور محال ہے،روح کے اطمینان کے بنا انسان کی زندگی میں سکون کا گذر نہیں ہوتا۔روحانیت انسان کو معتدل بناتی ہے ، گناہوں اور بدعنوانیوں سے نجات دلاتی ہے اور انسان کو اس کا فرضِ منصبی یاد دلاتی ہے۔اسی لیے مفکرین نے کہاہے کہ دنیا میں روحانیت اور مادیت کے درمیان توازن ضروری ہے۔ان میں سے کسی ایک کو بھی نظر انداز کرنے میں بڑانقصان ہے۔روحانیت سے انسانی اقدار کے چشمے پھوٹتے ہیں۔انسان بااخلاق وباکردار بنتاہے اور اپنے لیے بھی بہتر ثابت ہوتاہے اور دوسروں کے لیے بھی بہتر ثابت ہوتا ہے۔اس کے علاوہ اور بھی بہت سے گوشے ایسے ہیں جن کے اعتبار سے دورِ حاضر کے انسان کی زندگی کا جائزہ لینے کے بعد محسوس ہوتاہے کہ حقیقت یہی ہے کہ موجودہ دورمیں انسان خسارے میں ہے اور ہر طرف سے تباہی وبربادی کے درمیان گھرتا چلاجارہاہے۔جیساکہ قرآن میں باری تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:﴿ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَاکَسَبَتْ اَیْدِی النَّاس﴾․“

دنیائے انسانیت کو تباہی وافراتفری سے بچانے کے لیے دنیوی نظام ناکام ثابت ہوچکے ہیں۔بڑے بڑے مفکرین نے انسانوں کو مختلف نظریات دیے، لیکن وہ بھی ناکام ہوچکے ہیں۔دراصل اس وقت انسان کو خدائی نظام وقانون کی ضرورت ہے، خدائی احکامات و نواہی کی ضرورت ہے۔اس اعتبار سے دیکھا جائے تو روئے زمین پر فی الوقت اسلام ایک ایسادین نظر آتاہے جو انسانوں کی صحیح راہ نمائی کرسکتاہے اورعوام الناس کو تباہی و بربادی سے بچاسکتاہے، کیوں کہ وہ کسی بھی طرح کی ترمیم وتبدیلی سے محفوظ ہے، جب کہ دوسرے مذاہب تبدیلی وتحریف کے شکار ہوچکے ہیں جس کے باعث وہ انسانوں کومکمل راہ نمائی کا فریضہ انجام نہیں دے سکتے۔اللہ کی جانب سے نازل ہونے والی کتابوں میں قرآن محفوظ بھی ہے اور انسانوں کی راہ بری کے لیے مکمل وجامع بھی ہے۔قرآن کی حفاظت کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ﴾یعنی باری تعالی نے ارشاد فرمایاکہ” ہم نے ہی قرآن کونازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔“ ظاہر ہے کہ جس کی حفاظت باری تعالیٰ خود لے رہاہے ، اس کو کوئی کیسے بدل سکتاہے یا مٹاسکتاہے؟!دین اسلام کی جامعیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:﴿ الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الإِسْلاَمَ دِیْناً﴾․

معلوم ہوا کہ دین اسلام انسانوں کی فلاح یابی وکام یابی کے لیے ناگزیر ہے۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اورآپ کی احادیث کابھی بہت بڑاذخیرہ مسلمانوں کے پاس محفوظ ہے۔گویاکہ اس دنیا میں مسلمان ایک ایسی قوم ہے جو پوری بنی نوعِ انساں کے لیے مفید ثابت ہوسکتی ہے۔قرآن کی اس آیت﴿کُنتُمْ خَیْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ﴾میں صاف کہاگیاہے کہ امت مسلمہ بہترین امت ہے۔اسے لوگوں کے لیے اٹھایاگیاہے۔اس کاکام اچھائی کا حکم کرنا اور برائی سے روکنا ہے۔یعنی دنیا میں دوسری قوموں کی راہ بری کا فریضہ بھی انجام دینا ہے۔

اب غورکرنے کامقام یہ ہے کہ کیا مسلمان اپنے اس فریضہ کو انجام دے رہے ہیں؟اور وہ دوسروں کے لیے کوئی کردار اداکرپارہے ہیں۔فی زمانہ مسلمانوں کی صورت حال یہ ہے کہ وہ بے اثر ہوگئے ہیں اور اپنے فرائضِ منصبی سے غافل ہوکرزندگی گزاررہے ہیں اور فی الوقت وہ اس پوزیشن میں بھی نظرنہیں آتے کہ دوسرں کی راہ بری کا کام کریں ۔کیوں کہ مسلمانوں کی اکثریت خود خدائی نظام سے دور ہے اور اسلام کے مطابق کماحقہ زندگی نہیں گزارتی ، بہت سے مسلمان اسلامی تعلیمات سے بھی واقف نہیں؟!ایسے میں وہ کیسے اپنے لیے اور دوسروں کے لیے بہتر ثابت ہوسکتے ہیں۔مسلمانوں کی راہ بری چوں کہ دنیا کو حاصل نہیں اور لوگ ان کے کردار سے محروم ہیں، اس لیے دن بہ دن بد ترین حالات سے دوچار ہوتے جارہے ہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ جب مسلمانوں کی راہ بری دنیا کو حاصل تھی تو دنیا کے لوگوں نے بہت کچھ پایا، مگر جب دنیا پر مسلمانوں کااثر نہ رہا توساری دنیا تباہی کے راستے پرچل پڑی ۔ایسے میں مسلمانوں پرذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو دین کے مطابق ڈھالیں۔اسلامی تعلیمات سے واقف ہوں، قرآن پر عمل کریں، رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کو اپنے لیے نمونہ بنائیں اور تعمیری کردار پیش کریں۔یہ یاد رکھیں کہ اگر انھوں نے اپنے آپ کو اسلام کا پابند نہیں بنایا اور دنیا کی فکر نہ کی تو اس سے ان کا اپنا بھی نقصان ہوگا اور دنیائے انسانیت کوبھی خسارے سے دوچا ہونا پڑے گا۔تاریخ سے ثابت ہے کہ جب دنیا پر مسلمانوں کے اثرات تھے تو دنیا میں امن وامان کی ہوائیں چل رہی تھیں اور دنیا کے لوگ زندگی کے مختلف شعبوں میں ترقی کررہے تھے ، مگر جب دنیا میں مسلمانوں کے اثرات نہ رہے ، تو دنیا کو بڑے خسارے سے دوچار ہونا پڑا۔ بہت سے شعبوں میں دنیا کے لوگ پچھڑگئے، جس کے باعث انسانی زندگی غیر متواز ن ہوکر رہ گئی اور اس کے نتائج آج ہمارے سامنے ہیں۔ یہ حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ دنیامیں اسلام کی روشنی کو پھیلایاجائے اور انسانی زندگی کے فائدے کے لیے مخلصانہ کوششیں کی جائیں۔ مسلمان اگر اپنے دینی سرمایہ کے ذریعہ انسانیت کی خدمت کرنا چاہیں تو وہ یقینا بڑے پیمانہ پرپوری بنی نوع انساں کی خدمت انجام دے سکیں گے ۔ کاش !مسلمان اپنی اس ذمہ داری کو محسوس کریں اور تمام دنیا کے لیے بہتر ثابت ہوں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں