مولانا عبدالحمید: حالات کی بہتری کیلیے ایران اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرے

مولانا عبدالحمید: حالات کی بہتری کیلیے ایران اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے نو فروری دوہزار اٹھارہ کے خطبہ جمعہ میں ملک کی بعض داخلی و خارجی پالیسیوں کی اصلاح پر زور دیتے ہوئے کہا: ایران ایسے حالات میں نہیں کہ دیگر ملکوں کی مالی مدد کرے، سب سے پہلے اپنے ہی مسائل حل کرنے کی کوشش کریں۔
سنی آن لائن اردو نے مولانا عبدالحمید کی آفیشل ویب سائٹ کے حوالے سے رپورٹ دی، اہل سنت ایران کی ممتاز دینی و سماجی شخصیت نے زاہدان شہر میں ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے کہا: اسلامی انقلاب کی 39ویں سالگرہ ملک کے طول و عرض میں پھوٹنے والے احتجاجی مظاہروں کے ساتھ آ پہنچی ہے۔ اسلام نے ہمیں سب کے لیے خیرخواہی کا سبق سکھایاہے اور اسی بناپر ہم حکام کو اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کی دعوت دیتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: آج ملک کے بحرانوں اور معاشی مسائل کی جڑ موجودہ داخلی و خارجی پالیسیوں میں ہے۔ ہمیں اپنی خارجہ پالیسیوں پر نظرثانی کرکے اختلافات اور چپقلشیں ختم کرنے کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔ یہ لڑائیاں ہمارے مفاد میں نہیں ہیں اور ان کا منفی اثر ہوتاہے۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے کہا: فارسی میں ایک مشہور کہاوت ہے کہ جو چراغ گھر میں ضرورت ہو، اسے مسجد لے جانا حرام ہے۔ جب ہم خود مختلف مسائل اور بحرانوں کے شکار ہیں، حالات دیگر ملکوں کی مدد کرنے کے لیے ہرگز مناسب نہیں ہیں۔ سب سے پہلے ہمیں اپنی ہی قوم کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: ذاتی خیالات پر مبنی برتاو اور غیرقانونی اقدامات کو روک کراپنی پالیسیوں پر نظرثانی کریں تاکہ احتجاجوں میں کمی آئے اور حالات بہتر ہوجائیں۔

کرپشن اور امتیازی پالیسیاں سب سے بڑے خطرات
خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے خطاب میں ایرانی مرشد اعلی کے حالیہ بیان کو ’سمجھدارانہ‘ یاد کرتے ہوئے کہا: رہبر نے بجا کہا ہے کہ لوگ کرپشن اور امتیازی رویوں سے نالاں ہیں۔ میرا بھی یہی خیال ہے کہ ملک میں کرپشن اور امتیازی سلوک بڑے پیمانے پر پائے جاتے ہیں۔ ان دو مسائل کے حل اور کنٹرول کے لیے ضروری اقدامات اٹھانے اور پالیسی بنانے کی شدید ضرورت ہے۔
انہوں نے کرپشن اور امتیازی پالیسیوں اور رویوں کو ریاست کی بقا کے لیے خطرناک یاد کرتے ہوئے کہا: میرے خیال میں جو افراد کرپشن میں ملوث ہیں، انہیں برطرف کرکے دیانتدار لوگوں کو کام پر لگانا چاہیے۔ لسانی و مسلکی برادریوں کے حق میں پائے جانے والی امتیازی پالیسیوں کا مکمل خاتمہ ہونا چاہیے۔
مولانا عبدالحمید نے بات آگے بڑھاتے ہوئے ایران کی سنی برادری کے حوالے سے موجود امتیازی پالیسیوں کی جانب اشارہ کیا۔
انہوں نے مزید کہا: ایرانی اہل سنت نے اسلامی انقلاب کی کامیابی اور فتح میں اہم کردار ادا کیا۔ 39ویں سالگرہ کے موقع پر اہل سنت ایران کی آواز اور مطالبہ مرشد اعلی، صدر مملکت سمیت تمام حکام تک پہنچاتے ہیں کہ امتیازی سلوک کا خاتمہ کریں۔ ملک میں ایسے ادارے بھی ہیں جہاں ایک سنی شہری بھی ملازم نہیں ہے۔ اہل سنت کے جوانوں کو مسلح اداروں میں بطور افسر اور باقاعدہ ملازم بھرتی نہیں کیاجاتھا۔
نامور عالم دین نے ’ثقافتی اور معاشی غربت‘ کو امتیازی سلوک کا نتیجہ یاد کرتے ہوئے کہا: امتیازی پالیسیوں ہی کی وجہ سے ملک میں معاشی و ثقافتی غربت سمیت متعدد مسائل نے جنم لیا ہے۔ اہل سنت ایران اسی ملک و قوم کے حصے ہیں۔ اسلام اور آئین کے تناظر میں امتیازی رویوں کا کوئی جواز نہیں ہے اور انہیں ختم کرنا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا: میرا مشورہ ہے مرشد اعلی اور صدر مملکت کے حکم سے اہل سنت کے حق میں ایک مثبت امتیازی پالیسی اختیار کرکے اہل سنت کے لائق افراد سے مختلف وزارتخانوں اور محکموں میں کام لیں تاکہ ان کے تحفظات دور ہوجائیں۔
مولانا عبدالحمید نے اس مسئلے کے حل کے لیے رہبر انقلاب اور صدر مملکت سے درخواست کی براہ راست امتیازی سلوک اور کرپشن کے خاتمے کے لیے محنت کریں اور ذاتی طورپر ان مسائل پر قابو پالیں۔

ریاست کی بقا کا راز عوام کی حمایت میں ہے
خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے بیان کے آخر میں عوامی حمایت کی اہمیت واضح کرتے ہوئے کہا: شاہ رجیم کی غلطیوں میں سے ایک یہ تھی کہ شاہ نے اپنی مسلح افواج اور ادارے پر زیادہ اعتماد کیا تھا۔ شاہ نے قوم اور عوام کو ہاتھ سے جانے دیا اور مسلح ادارے شاہ کی ریاست بچانے میں ناکام ہوئے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: اناسی کے عوامی انقلاب جس طرح عوام ہی کی مدد اور خروج سے کامیابی سے ہمکنار ہوا، اس کی بقا بھی عوام کی حمایت ہی سے ممکن ہے۔ لوگوں کی باتیں سن کر ان پر توجہ دینی چاہیے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں