مولانا عبدالحمید:

موجودہ ریاست کی اصلاح چاہتے ہیں تباہی نہیں!

موجودہ ریاست کی اصلاح چاہتے ہیں تباہی نہیں!

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے دو فروری دوہزار اٹھارہ کے خطبہ جمعہ میں ایرانی انقلاب کی 39ویں سالگرہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہم موجودہ ریاست کی تغییر و تباہی کے خلاف ہیں، لیکن اس کی اصلاح کو ضروری سمجھتے ہیں۔
مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب کا آغاز قرآنی آیت: «إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ وَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلَا مَرَدَّ لَهُ وَمَا لَهُمْ مِنْ دُونِهِ مِنْ وَالٍ» کی تلاوت سے کرتے ہوئے کہا: جب اللہ تعالی کسی قوم کو کوئی نعمت، دولت یا مقام عطا فرماتاہے، پھر اسے واپس نہیں لیتا جب تک وہ قوم شکرگزار رہے گی۔
انہوں نے مزید کہا: عہدہ و مقام پانے والے افراد خود سمجھ لیں کہ جب کسی کو کوئی نعمت ملتی ہے، یہ اس کا ذاتی کمال اور استحقاق نہیں ہے۔ یہ صرف اللہ تعالی ہی کا فضل و کرم ہے۔ لہذا ہر شخص ہر حال میں احکام الہی پر عمل پیرا ہو۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے کہا: جن لوگوں کو اللہ تعالی نے ’حکومت‘ کی نعمت عطا فرمائی ہے، انہیں انصاف کا نفاذ کرنا چاہیے۔ قوم کے تمام افراد کی بات سن کر ان کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ حکام اپنی قوت برداشت بڑھادیں۔ شاہ رجیم کے حکام کو اللہ تعالی نے قوت و حاکمیت عطا فرمائی، لیکن انہوں نے ناقدری کرکے لوگوں پر ظلم کیا اور نفاذِ عدل سے گریز کیا۔ ان کی برداشت محدود تھی۔ اسی لیے اللہ تعالی نے ان سے یہ نعمت واپس لے لی۔
انہوں نے مزید کہا: اسلامی بیداری اور حالیہ عرب بہار میں کچھ ایسی ہی ریاستوں کا خاتمہ ہوگیا جنہوں نے اللہ تعالی کی نعمتوں کی ناقدری کی تھی۔ چنانچہ وہ بھی بکھر گئے۔
ممتاز سنی عالم دین نے کہا: اسلامی انقلاب کی کامیابی اور پھر اسلامی جمہوریہ ایران کا قیام ایرانی عوام کے لیے ایک نعمت ہے۔ عوام ہی کے ووٹوں سے اس ریاست کو قانونی شکل دے دی گئی اور یہ عوام کی عزت ہی کے لیے بنائی گئی۔ لیکن اس نعمت کی حفاظت عوام اور حکام پر ضروری ہے اور اس کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا: اسلامی انقلاب کی نعمت کا شکریہ ادا کرنا نفاذِ عدل اور مساوات و برابری سے ممکن ہے جہاں تمام ایرانی قومیتیں، مسالک اور مذاہب کے پیروکاروں پر یکساں توجہ دی جائے گی۔ اسی سے انصاف کے تقاضے پورے ہوں گے اور یہی انقلاب کی نعمت کا شکریہ ہے۔
صدر شورائے مدارس اہل سنت سیستان بلوچستان نے کہا: میں خیرخواہی کے ساتھ کہتاہوں ہم اسلامی نظام کی اصلاح چاہتے ہیں۔ ہمیں ریاست سے کوئی دشمنی نہیں ہے اور ہم اس کی تباہی نہیں چاہتے، لیکن اس رجیم کی اصلاح کو شرعی طورپر ضروری سمجھتے ہیں۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے غیرقانونی دباو ¿ اور پابندیاں ختم کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا: غیرقانونی پابندیوں اور دباو ¿ کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلاہے اور اس سے عوام میں مزید ناراضگی پھیل چکی ہے، لہذا انہیں ختم کریں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی برداشت اس سے کہیں زیادہ ہے، اگر ہم نے اس کا فائدہ نہیں اٹھایا تو یہ اسلامی ریاست کے حق میں ظلم ہوگا۔

ریاست کے لیے انتہاپسند حکام کا نقصان کالعدم گروہوں سے کم نہیں
مولانا عبدالحمید نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا: ایران کی موجودہ ریاست کے دشمن صرف کالعدم ریاست مخالف گروہ نہیںہیں، جو لوگ آئین کے مکمل نفاذ کے سامنے رکاوٹیں ڈال رہے ہیں اور حتی کہ مرشداعلی کے حکم نامہ کے نفاذ کے سامنے کھڑے ہوچکے ہیں، یہ بھی رجیم کے دشمن ہیں۔
انہوں نے کہا: جو لوگ زیادہ طلبی اور اجارہ داری پر یقین رکھتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں سب کچھ کسی مخصوص قوم یا مسلک کے قبضہ میں ہو، یا آئین کے دائرے میں دیگر مسالک و اقوام کے حقوق کو بھی نہیں مانتے ہیں، شیعہ سنی میں فرق ڈالتے ہیں اور جب کسی سنی شہری کو کوئی عہدہ ملتاہے شکایت کی زبان کھولتے ہیں، یہ سب ریاست کے مخالف اور دشمن ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: ہمارا خیال ہے جو لوگ اس ملک میں رہتے ہیں سب کے حقوق محفوظ ہونے چاہیے، حتی کہ سیکولر اور لادین افراد کے حقوق کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ موجودہ حالت میں نظرثانی کرنی چاہیے۔ چالیس سال کے لگ بھگ موجودہ رجیم کی عمر سے گزرچکی ہے، ہمیں توقع تھی سنی برادری کی وسیع حمایت کے بعد صدر روحانی اپنی کابینہ میں اہل سنت سے کام لیتے ، لیکن موجودہ کابینہ میں کوئی سنی شہری یا خاتون شامل نہیں ہے۔
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے کہا: ہوسکتاہے بعض علما میری اس رائے سے اختلاف کریں کہ ملک چلانے میں خواتین کو شامل کیاجائے، لیکن میری رائے مختلف ہے۔ میرے خیال میں اگر ہم صحیح طورپر اسلام کے قوانین کو نافذ کریں اور آج کی دنیا کو دیکھیں، دوسروں کی نگاہیں ہمارے بارے میں تبدیل ہوں گی اور ہماری مقبولیت میں اضافہ ہوگا۔
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: ہم ایرانی ہیں اور اپنے ملک کے خلاف نہیں ہیں، لیکن اپنے حقوق کا مطالبہ کرتے رہیں گے۔ جس طرح آٹھ سال لمبی جنگ میں ہمارے نوجوانوں کو مختلف اداروں نے محاذ پر بھیجا، اسی طرح آج بھی ان سے مسلح افواج میں کام لینا چاہیے۔ کم سے کم دو کروڑ اہل سنت ایران کی آبادی ہے، لہذا انہیں تسلیم کریں۔ یہ ایرانی قوم ہی کا حصہ ہیں۔ جو لوگ ملک چلانے میں اہل سنت کو نظرانداز کرنے پر زور دیتے ہیں، وہ انقلاب کے خیرخواہ نہیں ہیں۔

انتہاپسندوں اور جعلی انقلابیوں کو راستے سے ہٹائیں
صدر دارالعلوم زاہدان نے اپنے خطاب کے ایک حصے میں حکومتی اداروں میں گھسے انتہاپسندوں اور جعلی جیالوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا: انتالیس سال کے بعد اب وقت آ پہنچاہے کہ تنگ نظر اور انتہاپسند اجارہ داروں کو مختلف محکموں سے نکالا جائے جو گارڈین کونسل، پارلیمنٹ اور حکومت سمیت مختلف محکموں میں اپنی ذاتی آرا سے لوگوں کو ان کے حقو ق سے محروم کرتے ہیں۔ اسی سے غلط پالیسیوں کا تدارک ممکن ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا: جن علاقوں اور شہروں میں شیعہ و سنی اکٹھے رہتے ہیں، وہاں برابری قائم ہونی چاہیے۔ سوال یہ ہے جن شہروں میں اکثر سنی رہتے ہیں، وہاں سنی برادری کے قابل افراد سے کیوں استفادہ نہیں ہوتا؟ نعرے لگانے سے اتحاد حاصل نہیں ہوتا، عمل میں عدل و انصاف کی بناپر اتحاد کا مظاہرہ کریں۔ شیعہ وسنی اور مختلف قومیتیں ایک دوسرے کو تسلیم کرکے مخالف فریق کو مٹانے کی سوچ دماغ سے نکالیں۔
انہوں نے مزید کہا: اپنے مطالبات کو ایسے انداز میں پیش کریں کہ دشمن کو غلط فائدہ اٹھانے کا موقع نہ ملے۔ ہم امن چاہتے ہیں اور اپنے ملک کا امن تباہی سے بچانا چاہتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران انتہاپسندوں اور جھوٹے جیالوں کو ہٹادے جنہوں نے ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ کر اسے تباہ کیا ہے۔
مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب کے آخر میں قانونی آزادیوں کی فراہمی پر زور دیتے ہوئے کہا: ملک میں آزادی اظہار رائے اور مذہبی آزادی یقینی بنائیں اور دوسروں کی تنقید کو برداشت کرنی چاہیے۔ لیکن تنقید بھی اصلاح کی نیت سے ہو اور کسی کی کردارکشی نہیں ہونی چاہیے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں