مولانا عبدالحفیظ مکیؒ ۔۔۔ ایک عہدساز شخصیت

مولانا عبدالحفیظ مکیؒ ۔۔۔ ایک عہدساز شخصیت

عالم اسلام کی عظیم علمی و روحانی شخصیت اور انٹرنیشنل ختم مؤومنٹ کے مرکزی امیر فضیلۃ الشیخ حضرت مولانا عبدالحفیظ مکی رحمہ اللہ جامع الصفات شخصیت کے مالک تھے۔
آپ بیک وقت محدث، فقیہ، عالم باعمل، شیخ طریقت، کامیاب مدرس، محافظ ختم نبوت، زہد و تقویٰ، اخلاص و للہیت اور علم و عمل کے پیکر اور زاہد شب بیدار، فیاض و سخی، حلیم و بردبار، لاکھوں لوگوں کے شیخ و مربی اور مرشد کامل تھے۔ آپ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ اللہ تعالی نے آپ کو لاکھوں لوگوں کی ہدایت اور تزکیہ نفس کا ذریعہ بنایا اور پاکستان اور سعودی عرب سمیت پوری دنیا میں آپ کو یکساں محبوبیت و مقبولیت عطا فرمائی، ہمیشہ ہنستے اور مسکراتے چہرے اور خندہ پیشانی سے ملتے۔ اللہ تعالی نے آپ کو اُمت مسلمہ کے لیے تڑپنے والا دل اور برسنے والی آنکھیں عطا فرمائی تھیں، آپ مستجاب الدعوات تھے اور ہمیشہ پاکستان کی امن و سلامتی، ترقی و استحکام، دینی مدارس کے تحفظ اور نفاذ اسلام کے لیے آپ کے ہاتھ اللہ تعالی کی بارگاہ میں اٹھتے۔ اکثر کسی نہ کسی ملک کے تبلیغی و اصلاحی اور خانقاہی سفر پر ہونے کے باوجود پاکستان کے حالات سے باخبر رہتے، فتنہ قادیانیت کی مذموم سرگرمیوں پر نظر رکھتے ہوئے نسلِ نو کے ایمان کی حفاظت کا فریضہ سرانجام دیتے۔
آپ رحمہ اللہ ۱۹۴۶ء میں امرتسر ہندوستان میں پیدا ہوئے، آپ کا خاندان نصف صدی قبل کشمیر سے آکر یہاں آباد ہوا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد آپ کا خاندان فیصل آباد منتقل ہوگیا۔ ۱۹۵۳ء میں آپ کے والد ملک عبدالاحد مکی کو سعودی عرب کی شہریت مل گئی، جس کے بعد آپ اپنے والد کے ہمراہ گھر کے دیگر افراد کے ساتھ سعودی عرب منتقل ہوگئے، اس وجہ سے آپ پاکستان نژاد سعودی شہر کہلاتے۔ سعودی عرب میں آپ نے ابتدائی عصری تعلیم حاصل کرنے کے بعد مکہ مکرمہ میں قائم عالم اسلام کے عظیم دینی ادارہ مدرسہ صولتیہ اور دیگر دینی مدارس میں دینی تعلیم حاصل کی اور پھر مکہ مکرمہ سے سہارنپور (ہندوستان) آکر مدرسہ مظاہر العلوم میں شیخ الحدیث حضرت مولانا محمدزکریا کاندھلوی رحمہ اللہ اور دیگر نامور علمی شخصیات سے موقوف علیہ اور دورہ حدیث کی کتب پڑھتے ہوئے امتیازی نمبروں اور نمایاں پوزیشن کے ساتھ سند فراغت حاصل کی۔ اس سے قبل آپ کے والد ملک عبدالاحد مکی اور خاندان کے دیگر افراد تبلیغی جماعت کے عظیم راہنما اور تبلیغی نصاب جیسی شہرہ آفاق کتاب کے مصنف حضرت مولانا محمدزکریا کاندھلوی رحمہ اللہ سے بیعت و ارادت اور سعودی عرب میں ان کے مستقل میزبان بھی تھے، اس لیے دورانِ تعلیم آپ کو بھی حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی کے ساتھ قلبی تعلق و محبت تھی۔ آپ دوران تعلیم ان کے خادم خاص اور مرید تھے۔ بعد میں حضرت مولانا محمدزکریا رحمہ اللہ نے آپ کے اخلاص و للہیت، زہد و عبادت اور تقویٰ کو دیکھتے ہوئے نوجوانی میں ہی آپ کو خلافت سے نوازا۔ اس دوران آپ رحمہ اللہ نے اپنے شیخ و مربی کی ہدایت پر امریکا، جاپان، افریقہ، بنگلادیش اور دیگر کئی ممالک کے تبلیغی و خانقاہی سفر کیے اور پھر یہ سفر آپ کی زندگی کا ایسا حصہ بنے کہ آپ رحمہ اللہ کو موت بھی تبلیغی و خانقاہی سفر کے دوران ساؤتھ افریقہ میں آئی۔ تعلیم سے فراغت کے بعد آپ مکہ مکرمہ آکر مدرسہ صولتیہ میں شیخ الحدیث کے منصب پر فائز ہوئے۔
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ سے خلافت ملنے کے بعد آپؒ اپنے شیخ کے رنگ میں ایسے رنگے کہ پھر آپ بھی لوگوں کا تزکیہ نفس اور اصلاح باطن کرکے لاکھوں لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ بن گئے۔ آپؒ اپنے شیخ حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ کے ساتھ سفر و حضر میں ساتھ رہتے اور رمضان المبارک میں اعتکاف ان کے ساتھ ہوتا۔ وفات سے قبل آپ نے راقم الحروف کا شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلویؒ کی شخصیت و خدمات پر اخبارات کے لیے لکھے گئے ایک مضمون کا بالاستعاب مطالعہ کرتے ہوئے اس کی تصحیح و اضافہ فرمایا اور اس کی اشاعت کے بعد خوب دعاؤں سے نوازا۔ آپؒ اپنے شیخ حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی ؒ کی تصنیف کردہ کتب کو بڑے اہتمام کے ساتھ شائع اور عام کرتے رہے۔ بالخصوص کنزالمتواری شرح بخاری ۲۴ جلدوں میں جو عربی زبان میں ہے، اس کو بھی حضرت مولانا عبدالحفیظ مکی رحمہ اللہ نے اپنی نگرانی میں انتہائی خوبصورت انداز میں شائع کر کے عرب ممالک سمیت پوری دنیا میں عام کیا۔ مولانا عبدالحفیظ مکیؒ فرماتے تھے کہ میرے شیخ حضرت مولانا زکریا کاندھلویؒ اپنے متعلقین سے ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ اب ہمتیں کمزور ہوگئی ہیں، ہر شعبے میں کوئی شخص کمال تک نہیں پہنچ سکتا۔ لہذا انسان اپنے لیے طبیعت و مزاج اور ضرورت و حالات کے لحاظ سے دین کا ایک شعبہ متعین کر لے اور بقیہ شعبوں کے اکابرین اور مخصوصین سے تعلق و محبت کو باقی رکھے، اس سے ان شاء اللہ ’’الرجل مع من احب‘‘ کے تحت سب ہی شعبوں کی برکات اور آخرت میں ان کا ساتھ نصیب ہوگا۔
حضرت مولانا عبدالحفیظ مکیؒ نے ۱۹۸۵ء میں لندن میں پہلی انٹرنیشنل ختم نبوت کانفرنس کی کامیابی میں بنیادی کردار ادا کرتے ہوئے لندن اور پاکستان میں اس کی تیاری میں بھرپور حصہ لیا اور لندن کانفرنس میں تاریخی خطاب کیا۔ پوری دنیا میں فتنہ قادیانیت سے مسلمانوں کے ایمان کو بچانے اور ناموس رسالت کے تحفظ کے لیے انٹرنیشنل ختم نبوت مؤومنٹ کے نام سے باضابطہ جماعت کے قیام کا فیصلہ کیا اور پھر اس کی منظوری مکہ مکرمہ میں خواجہ خواجگان قطب الاقطاب حضرت مولانا خواجہ خان محمد قدس اللہ سرہ نے دی۔ پھر ۱۰ اکتوبر ۱۹۸۵ء کو کندیاں شریف میں ایک اجلاس بلاکر اس فیصلے کی توثیق فرمائی اور دعاؤں کے ساتھ ساتھ ایک تائیدی خط بھی تحریر فرمادیا۔ یہ حضرت خواجہ صاحب اور اکابرین کی ہی دعاؤں کی برکت ہے کہ انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے سابق مرکزی امیر فضیلۃ الشیخ حضرت مولانا عبدالحفیظ مکیؒ ، سفیر ختم نبوت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ ، مولانا ضیاء القاسمیؒ اور انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے موجودہ مرکزی امیر فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر سعید عنایت اللہ حفظہ اللہ کی کوششوں اور محنتوں سے یہ جماعت قلیل عرصے میں آئین و قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے پاکستان سمیت پوری دنیا میں عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کا فریضہ سرانجام دے رہی ہے۔ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے سلسلہ میں ساؤتھ افریقہ کے ایک تبلیغی و اصلاحی سفر کے دوران ڈر بن جاتے ہوئے ہوائی جہاز میں طبیعت خراب ہونے کے بعد ہسپتال میں انجوگرافی کے دوران دل کا دورہ پڑنے سے ۱۶ جنوری ۲۰۱۷ء کو انتقال کرگئے۔ انتقال کے وقت فضیلۃ الشیخ حضرت مولانا عبدالحفیظ مکیؒ کی زبان پر قرآن کی آیت سلام قولاً من رب الرحیم اور کلمہ طیبہ کا ورد تھا۔
آپ کی پہلی نماز جنازہ ساؤتھ افریقہ میں ادا کی گئی اور دوسری نماز جنازہ مدینہ منورہ مسجد نبوی شریف میں امام فضیلۃ الشیخ صلاح البدیر حفظہ اللہ نے پڑھائی، جس میں حضرت مولانا عبدالحفیظ مکی کے بیٹوں سمیت پاکستان سے جمعیت علماء اسلام پاکستان کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ بعد میں آپ کو جنت البقیع میں اپنے شیخ حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی کے قریب دفن کردیا گیا۔
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں