موت کی یادکے تین بڑے فوائد

موت کی یادکے تین بڑے فوائد

حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب مدظلہ العالیٰ ہر جمعہ جامعہ فاروقیہ کراچی کی مسجد میں بیان فرماتے ہیں۔ حضرت کے بیانات ماہ نامہ ”الفاروق“ میں شائع کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے ،تاکہ”الفاروق“ کے قارئین بھی مستفید ہو سکیں۔ (ادارہ)

الحمدلله نحمدہ، ونستعینہ، ونستغفرہ، ونؤمن بہ، ونتوکل علیہ، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا، ومن سیئات أعمالنا، من یھدہ الله فلا مضل لہ، ومن یضللہ فلاھادي لہ، ونشھد أن لا إلہ إلا الله وحدہ لاشریک لہ، ونشھد أن سیدنا وسندنا ومولانا محمداً عبدہ ورسولہ، أرسلہ بالحق بشیرا ونذیرا، وداعیاً إلی الله بإذنہ وسراجاً منیرا․

أما بعد فأعوذ بالله من الشیٰطن الرجیم بسم الله الرحمٰن الرحیم﴿فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ وَمَا الْحَیَاةُ الدُّنْیَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ﴾ صدق الله مولٰنا العظیم․

میرے محترم بھائیو، بزرگو اور دوستو! قرآن کریم کی اس آیت میں الله تعالیٰ کا ارشاد ہے، پس جو کوئی آگ سے بچا لیا گیا او رجنت میں داخل کر دیا گیافَقَدْ فَازَ پس تحقیق وہ کام یاب ہو گیا۔

﴿وَمَا الْحَیَاةُ الدُّنْیَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ﴾ اور نہیں ہے دنیا کی زندگانی مگر دھوکے کا سامان۔

یہ جو ہم دنیا میں رہتے ہیں، کبھی تنہائی میں، ہم غور کریں کہ ہم یہاں کیوں رہتے ہیں، ہمارے یہاں رہنے کا مقصد کیا صرف کھانا، پینا، پہننا اور دنیا اور اسباب دنیا کو جمع کرناہے؟

اس پر ہمیں سوچنا چاہیے، غور کرنا چاہیے، اس لیے کہ میں خود بھی اور ہم سب بھی اور عام طور پر اس وقت جو دنیا میں زندگی گزاری جاری ہے، اس میں کہیں پر بھی دور دور تک یہ نظر نہیں آتا کہ یہ آدمی اس دنیا سے جانے والا ہے، ہر آدمی ایسا منہمک ہے اور وہ جو انہماک ہے اس کی بڑی تعریف ہے، فلاں کو دیکھو! کتنی محنت کرتا ہے، صبح سے شام تک دکان پر ہوتا ہے، رات کو گیارہ بجے، بارہ بجے واپس آتا ہے، صبح سویرے چلا جاتا ہے، ماں کہے گی، باپ کہے گا، بھائی کہے گا۔

میرے دوستو! یہ سارا عالم اس وقت دھوکے میں مبتلا ہے، پہلے بھی میں نے شاید ذکر کیا ہو گا کہ الله رب العزت نے بہت بڑی بڑی حقیقتوں کو ہم سے مخفی رکھا ہے، اس کائنات کی سب سے بڑی حقیقت الله تعالیٰ ہیں ساری کائنات کا مالک، لیکن وہ مخفی ہے، ہمیں نظر نہیں آتا، وہ دائیں بھی ہے، بائیں بھی ہے، اوپر بھی ہے، نیچے بھی ہے، ہر طرف ہے، ہر جگہ ہے، حاضر ہے، ناظر ہے، سمیع ہے، بصیر ہے، علیم ہے ،لطیف ہے، لیکن وہ ہمیں نظر نہیں آتا۔

آپ نے نام سنا ہو گا، مرزا مظہر جان جاناں رحمہ الله بہت بڑے بزرگ، بہت بڑے الله کے ولی، بہت لطیف مزاج کے تھے، وقت کا بادشاہ زیارت کے لیے آیا، ملاقات ہوئی، حضرت مرزا مظہر جان جاناں رحمہ الله کو پانی کی طلب ہوئی انہوں نے خادم سے کہا، بادشاہ نے خادم کو روک دیا، اورکہا کہ یہ اعزاز میں حاصل کرنا چاہتا ہوں، چناں چہ وہ آگے بڑھا اور گھڑے میں سے پانی نکالا اور کٹورے میں حضرت کی خدمت میں پیش کیا اور گھڑے کا ڈھکن بے ترتیب رکھا، صحیح نہیں رکھا، حضرت نے پانی پینے سے انکار کر دیا، فرمایا کہ جو آدمی گھڑے کا ڈھکن درست نہیں رکھ سکتا، وہ اتنا بڑا ملک کیسے چلاتا ہے؟ اس کو اتنی تمیز نہیں کہ گھڑے کا ڈھکن کیسے رکھتے ہیں؟! میں عرض کر رہا تھا کہ الله ہیں، اتنی بڑی حقیقت کہ اس سے بڑی کوئی حقیقت نہیں، لیکن وہ نظر نہیں آرہے۔

چناں چہ یہی مرزا مظہر جان جاناں رحمہ الله بازار سے گزر رہے تھے، ہندوستان، آپ جانتے ہیں، جیسے وہاں مسلمان ہیں، ایسے ہی ہندو بھی ہیں اور ان کے نظریات او رخیالات اسلام سے الگ ہیں ، ایک ٹھیلے والے ، سبزی فروش نے مرزا صاحب سے مذاق کیا کہ مرزا صاحب! آپ جو الله الله کہتے ہو، یہ الله کہاں ہے؟ اگر الله ہے تو دکھاؤ؟ مرزا صاحب رحمہ الله نے اس کے ترازو کا سب سے چھوٹا باٹ اٹھایا اور اس کے سر پر مار دیا وہ درد کی وجہ سے چیخنے لگا ،مرزا صاحب نے پوچھا کیا ہوا؟ کہنے لگا درد ہو رہا ہے، فرمایا: کہ ہمیں تو نظر نہیں آرہا، کہاں ہے درد؟ کہا میرا سر پھٹا جارہا ہے تکلیف سے، مزرا صاحب نے فرمایا: مجھے بھی دکھلاؤ کہاں ہے؟ تو درد ہے، لیکن نظر نہیں آرہا، ایسے ہی الله ہے، لیکن نظر نہیں آرہا۔

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ الله بیان فرمارہے تھے اور اسمائے الہٰی الله، الله کے اثرات کا ذکر فرمارہے تھے، ایک الله ہے، ایک الله کا نام ہے، حی ، قیوم، خبیر، لطیف، سب نام ہیں ،اسماء حسنی جو ننانوے ہیں۔

تو حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ الله یہ فرمارہے تھے کہ ان تمام الله کے ناموں میں الله نے بڑا اثر کھا ہے، ایک دہریہ بھی بیٹھا ہوا تھا، وہ کھڑا ہوا او رکہنے لگا کہ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ نام میں کیا اثر ہے ؟ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ الله نے اس کی بات سنی ان سنی کر دی، اپنا بیان جاری رکھااور پھر اچانک حضرت نے اس کی طرف توجہ فرمائی او راس کو سخت کلمات ڈانٹ ڈپٹ کے کہے، شرم نہیں آتی، آجاتے ہیں، اب جب حضرت نے سارے مجمع کے سامنے اس کو سخت سست الفاظ کہے تو غصّے سے اس کی رگیں پھول گئیں، حضرت نے فرمایا: کیا ہوا؟ تمہارا چہرہ لال کیوں ہو رہا ہے؟ یہ تمہاری رگیں کیوں باہر آرہی ہیں، اس نے کہا آپ نے مجھے سخت سست کہا ہے، حضرت نے فرمایا میں نے کس ذریعے سے کہا ہے؟ کہا ، آپ نے کلمات ایسے کہے ہیں۔ تو حضرت نے فرمایا: احمق! جب عبدالقادر کے کلمات میں اتنا اثر ہے کہ تیرا چہرہ لال ہو گیا اور تیری رگیں پھول گئیں، تو عبدالقادر کے رب کے نام میں کتنا اثر ہوگا؟!

تو الله تعالیٰ نے اپنی حقیقت ہم سے مخفی رکھی، ہمیں نظر نہیں آتے، لیکن الله ہیں، یقینا ہیں، ہر حال میں ہیں، ہر جگہ ہیں، ایسے ہی الله تعالیٰ نے جنت مخفی رکھی ہے، جنت ہے، یقینا ہے، کوئی شک نہیں اور اتنی یقینی ہے، اتنی یقینی ہے کہ آپ نے سنا ہے واقعہ، جہاد ہو رہا ہے اور اس میں پیاس ہے ، بھوک ہے، موت شہادت آنکھوں کے سامنے ہے ایک صحابی کو دوسرا صحابی کھجور پیش کر رہا ہے، کھجور واپس کر دی کہ اس کھجور کو استعمال کرنے میں جتنا وقت ضائع ہو گا، اس سے پہلے میں جنت میں جانا چاہتا ہوں، نظر آرہا ہے کہ سامنے جنت ہے، تیر سینے میں ترازو ہو رہا ہے، تو کیا فرمارہے ہیں؟ فزت ورب الکعبة رب کعبہ کی قسم! میں کام یاب ہو گیا، کیوں؟ سامنے جنت نظر آرہی ہے ۔

ہم لوگ تو ہچکچاتے ہیں، کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ویسا نہ ہو جائے #
جو ہچکچا کے رہ گیا ادھر سو رہ گیا
جس نے لگائی ایڑ وہ خندق کے پار تھا

صحابہ کرام نے کیا کیا؟ ایڑ لگائی، چناں چہ وہ کیا ہوئے؟ خندق کے پار ہوگئے، کام یاب ہو گئے۔

الله تعالیٰ نے جنت بھی مخفی رکھی، جہنم بھی مخفی رکھی، جہنم حقیقت ہے، بہت بڑی حقیقت ہے، گدھے جتنے بچھوہیں، آگ ہے اور نامعلوم کیا کیاہے ، ساری تفصیلات الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے بیان فرمائیں، لیکن نہ جنت ہمیں نظر آتی ہے، نہ جہنم ہمیں نظر آتی ہے۔

فرشتے ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے درخواست کی کہ اے جبرئیل! میں تمہیں تمہاری اصل صورت میں دیکھنا چاہتا ہوں۔

چناں چہ جو حضرات مکہ مکرمہ گئے ہیں وہ جانتے ہیں کہ مکہ میں ایک محلہ ہے، حدیث میں تو اس کا نام جیاد ہے، آج کل اس کو اجیاد کہتے ہیں، تو حضرت جبرئیل علیہ السلام نے اپنی حقیقت ظاہر فرمائی، آپ صلی الله علیہ وسلم کے سامنے جیاد محلے میں افق پُر ہو گیا اور ان کو دیکھ کر آپ صلی الله علیہ وسلم پر غشی طاری ہو گئی۔ (سنن ترمذی، ابواب تفسیر القرآن، باب ومن سورة النجم، رقم الحدیث:3278)

تو فرشتہ ایک حقیقت ہے ،لیکن الله تعالیٰ نے فرشتوں کو بھی ہم سے مخفی رکھا ہے۔

میں عرض کر رہا تھا کہ الله تعالیٰ نے یہ ساری چیزیں، جو بڑے بڑے حقائق ہیں، مخفی رکھے ہیں، لیکن الله تعالیٰ نے موت کو ظاہر کر دیا ہے، صبح، شام، دن رات کوئی لمحہ ایسا نہیں ہے، جس میں موت کا کھیل جاری نہ ہو، آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کے ایک مجمع سے ارشاد فرمایا کہ جتنے یہاں بیٹھے ہیں، سو سال بعد ان میں سے کوئی بھی نہیں ہو گا، کتنی بڑی حقیقت ہے!

حضرت عزرائیل علیہ السلام موت کے کام پر مامور ہیں، الله تعالیٰ نے حضرت عزرائیل علیہ السلام سے فرمایا کہ آپ کے ذمے یہ کام ہے، تو حضرت عزرائیل علیہ السلام نے عرض کیا کہ یہ کام میرے ذمے نہ لگائیں، بہت مشکل کام ہے، ہر آدمی مجھے ملامت کرے گا، الله تعالیٰ نے فرمایا: تم اس کی فکر مت کرو، میں موت کے اتنے اسباب پیدا کردوں گا کہ کسی کا تمہاری طرف دھیان ہی نہیں ہوگا، لوگ کہیں گے؟ حرکت قلب بند ہوجانے سے انتقال ہو گیا، پانی میں ڈوب کر انتقال ہو گیا، آگ میں جل کر انتقال ہوگیا، ہیضے میں انتقال ہو گیا،ملیریا میں انتقال ہو گیا، کینسر میں انتقال ہو گیا تو الله تعالیٰ نے فرمایا کہ میں اتنے اسباب پیدا کر دوں گا کہ کسی کا تمہاری طرف دھیان ہی نہیں جائے گا۔

میرے دوستو! خوب یاد رکھیں کہ اس حقیقت سے ہم سب کو گزرنا ہے، کوئی نبی اور رسول بھی اس سے مسثتنیٰ نہیں، اب سمجھ داری کیا ہے؟ اصل بات کیا ہے؟ الله تعالیٰ نے فرما دی:﴿ فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ﴾ جو جہنم سے دور کر دیا گیااو رجو جنت میں داخل کر دیا گیا، پس تحقیق وہ کام یاب ہو گیا۔علماء فرماتے ہیں کہ یہ جو قرآن میں ، فوز اور فلاح کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں، ان کا مطلب ، دنیاوی اصطلاحات والا نہیں، ہم دنیا میں کام یاب کس کو سمجھتے ہیں؟

ایک کہتا ہے، مجھے ایک لاکھ روپے مل جائیں، میں کام یاب ہوں، دوسرا کہتا ہے، مجھ دس لاکھ مل جائیں، میں کام یاب ہوں، تیسرا کہتا ہے، مجھے ایک کروڑ مل جائیں ،میں کام یاب ہوں۔

حالاں کہ سب جانتے ہیں کہ ایک لاکھ مل گئے، گھر جارہا تھا، کسی نے زور سے دھکا مارا، تھپڑ مارا، بندوق دکھائی اور وہ پیسے لے لیے، چوری ہو گئی، ہم جس چیز کو کام یابی سمجھ رہے ہیں ،یہ کام یابی نہیں، کا م یابی کا دھوکہ ہے، قرآن میں جو فوز اور فلاح کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے، علماء فرماتے ہیں کہ فوز اور فلاح ، ایسی کام یابی جس کے بعد ناکامی نہ ہو، خامسہ میں پاس، سادسہ میں فیل، یہ کام یابی نہیں، کام یابی کیا ہے؟ کام یابی یہ ہے کہ اس کے بعد ناکامی نہ ہو، جو آدمی جہنم سے بچا لیا گیا، دور کر دیا گیا، جنت میں داخل کر دیا گیا، فقد فاز، وہ ہے کام یاب۔ اس کے بعد ناکامی نہیں اور الله تعالیٰ متوجہ فرمارہے ہیں کہ یہ تماشے، یہ ہلاکتیں ، یہ بربادی، یہ دنیا میں ہے﴿ وَمَا الْحَیَاةُ الدُّنْیَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ﴾ اور نہیں ہے دنیا کی زندگی مگر دھوکے کا سامان۔

میرے دوستو! میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ ہم اپنا ایک معمول بنائیں، چاہے دو منٹ کا ہو اور وہ یہ کہ ذرا گردن جھکا کے ہم موت کامراقبہ کریں، موت کو یاد کریں اور یہ بھی یاد رکھیں، ہم اس الجھن، غلط فہمی میں ہیں کہ موت کو یاد کرنے سے تو بڑی مشکل ہو جائے گی۔

الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:”اکثرواذکرھاذم اللذات الموت․“ (الزھد والرقائق، ابن المبارک، باب فی ذکر الموت 2/37)

لذتوں کو توڑنے والی موت کا کثرت سے ذکر کریں، موت کو یاد کریں، آپ تجربہ کریں، کہ موت کو یاد کرنے سے آدمی شجاع بنتا ہے، جب آدمی ہر روز موت کا مراقبہ کرے گا تو اس کے اندر موت کا خوف رہے گا؟جو آدمی موت کو یاد کرے گا وہ کبھی بزدل نہیں ہوگا۔

دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ آدمی سخی ہوگا اور سخاوت مطلوب ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم سے زیادہ سخی اس دنیا میں کوئی آیا ہے؟ بچا بچا کے تو وہ رکھتا ہے جس کو مرنا نہیں ہے، خرچ کرو، غریبوں پر خرچ کرو، عزیزوں پر خرچ کرو، پڑوسیوں پر خرچ کرو، جمع مت کرو، آج دنیا میں کیا سکھایا جاتا ہے؟ جمع کرو، جمع کرو، کام آئے گا، کوئی کام نہیں آئے گا، چوکیداری ہے، آپ کا مال وہ ہے جو آپ نے پہن لیا، آپ کا مال وہ ہے جو آپ نے الله کی راہ میں خرچ کر لیا اور تیسرا فائدہ موت کو یاد کرنے کا یہ ہے کہ آدمی کی طبیعت میں چین، سکون، اطمینان آئے گا۔

آج کا دور ڈپریشن کا دو رہے، خوف آتا ہے، نیند نہیں آتی، فکریں ہیں۔

آپ یاد رکھیں، کسی ڈاکٹر کے پاس ڈپریشن کا علاج نہیں، بالکل طے شدہ بات ہے، آپ چاہے امریکا چلے جائیں، یورپ چلے جائیں یا پاکستان میں کسی بڑے سے بڑے ڈاکٹر کے پاس چلے جائیں، ڈپریشن کا علاج نہیں، وہ نشے کی دوائیاں ہیں، چار مہینے دوا استعمال کرتے ہیں، تو چار مہینے بعد جسم اس کا عادی بن جاتا ہے ، چار مہینے نیند آئے گی، مزہ آئے گا، چار مہینے بعد پھر نیند نہیں آتی، وہی خوف، ڈپریشن، پھر ڈاکٹر صاحب کے گئے، ڈاکٹر صاحب نے دو ہزار فیس لی اور اسی دوا کو دسری کمپنی کی دوگنی کر دی، دوا وہی ہے، کمپنی کا نام بدل دیا، خوش ہو گئے کہ ڈاکٹر صاحب نے اچھی دوا لکھ دی، دوا نہیں، نشہ ہے۔

میرے دوستو! جب آدمی موت کو یاد کرتا ہے، تو خوف ختم، خطرات ختم، اندیشے، ڈپریشن ختم، الله تعالیٰ ہمیں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اورگزارش تھی کہ معمول بنائیں، چاہے مسجد میں، چاہے گھر میں، کہیں پر بھی، الله تعالیٰ موقع عنایت فرمادے، تو دو منٹ آدمی موت کا مراقبہ کرے کہ میری موت واقع ہو گئی ہے، مجھے غسل دیا جارہا ہے، مجھے کفن پہنایا جار ہاہے، میری نماز جنازہ ہو رہی ہے، مجھے کندھوں پہ اٹھا کر قبرستان لے جایا جارہا ہے، اب مجھے قبر میں اتارا جارہا ہے، اب مجھے قبلہ رخ کیا جارہا ہے اور اب میرے اوپرمٹی ڈال رہے ہیں، یہ ہونا ہے یا نہیں؟

اس کو یاد کرنے سے نماز کی کیفیت بدل جائے گی، رکوع کی کیفیت بدل جائے گی، ذکر کی کیفیت بدل جائے گی اور میں نے عرض کیا کہ آدمی شجاع اور بہادر ہو گا، سخی ہو گا۔

الله تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق نصیب فرمائے۔

﴿رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّکَ أَنتَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ، وَتُبْ عَلَیْنَا إِنَّکَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ ﴾


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں