جب مجھے سکون ملا

جب مجھے سکون ملا

جب میں نے پردہ کرنا شروع کیا تو میرے ذہن میں کوئی اور بات نہیں تھی سوائے اس کے کہ لڑکوں کے معنیٰ خیز جملوں اور نظروں سے چھٹکارا مل جائے۔
ہوا یوں کہ جب ہم جماعت نہم کے پرچے دے کر آئیں تو راستے میں سینٹرز کے لڑکے بھی ہوتے اور وہ کوئی نہ کوئی جملہ یا بے ہودہ اشارہ کردیتے۔ یہ چیز میرے لیے بالکل ایک نئی بات تھی کیونکہ ہمارے گھر میں کسی کا آنا جانا تقریباً نہ ہونے کے برابر تھا۔ دوسرے باہر کی دنیا صرف اسکول (بذریعہ وین) تک محدود تھی اور ہمارے گھر میں ٹی وی بھی نہیں تھا۔ اگلے سال جب دسویں کے امتحانات قریب آنے لگے تو میں نے امی سے برقع لانے کو کہا اور وجہ بھی بتائی۔ امی نے ابو سے کہا تو ابو کہنے لگے کہ:
’’خاندان میں کوئی لڑکی بھی نقاب نہیں کرتی تم بھی نہ کرو۔ ویسے بھی بڑی نظر آؤگی اور تمہارا قد بھی چھوٹا ہے۔‘‘
مگر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ امی روز روز کی ضد سے تنگ آکر ایک دن برقع لے ہی آئیں۔ جب نقاب کرنا شروع کیا تو کچھ سکون ملا کہ اب چہرہ چھپ گیا ہے۔ کسی کو کیا خبر کہ ’’پسِ پردہ‘‘ تصویر کیسی ہے؟ پھر جب کالج جانا شروع کیا تو سوچا کہ کالج میں برقع اتاردوں گی کہ طالبات ہی ہوں گی اور دو پٹہ و اسکارف اوڑھ لوں گی، مگر ہوا یوں کہ پہلے ہی دن سائنس ہال میں بٹھایا گیا جہاں سے لیبارٹری کے مرد اساتذہ گزرتے اور گزرتے وقت ایک نظر اندر بھی ڈال لیتے اور مجھے ایسا لگتا کہ سب مجھے ہی گھور کر جارہے ہیں۔ پورا دن پریشانی اور غصے میں گزرا۔ دوسرے دن جب کالج گئی تو یہ سوچ چکی تھی اب نقاب کروں گی تا کہ خراب ’’نظروں‘‘ سے محفوظ رہ سکوں۔
غرض یہ کہ پورا دن گرمی میں نقاب لگائے رکھا۔۔۔ جب پردے کا ابو کو پتا چلا تو منع کرنے لگے کہ:
’’اساتذہ سے پردہ کیوں کرتی ہو؟ استاذ تو والدین کے برابر ہوتے ہیں۔‘‘
میں نے کہا کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تو معلوم تھے اور باپ سے بھی بڑھ کر محترم۔۔۔ اور آپ سے صحابیات رضی اللہ عنہن کا پردہ کرنا ثابت ہے۔۔۔‘‘
ابو نے سنا اور مسکرا کر چپ ہوگئے، لیکن گھر میں جب قریبی رشتے دار آتے تو ابو سلام کرنے کے لیے آنے کا کہتے اور نہ جانے پر ڈانٹتے ’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘
مگر اللہ تبارک و تعالی کا فضل و کرم ہی تھا کہ ابو کی ڈانٹ سنتی بھی اور ادب سے دلائل بھی دیتی جس کی وجہ سے وہ نرم پڑ جاتے۔
جب پردہ کرنا شروع کیا تو ایک دن دورانِ تلاوت آیت غضِ بصر نظر سے گزری کہ ’’اور مسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔‘‘ (النور۔آیت ۳۱)
جس کے نتیجے میں الحمدللہ حفاظتِ نظر کا اہتمام بھی شروع کردیا۔ قاریات سے یہی کہوں گی کہ خدا کے واسطے خود کو ڈیکوریشن پیش نہ بنایئے، بلکہ اپنی عزت و وقار کی حفاظت کیجیے۔ اللہ تعالی ہم سب کو اپنے احکامات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں