مولانا عبدالحمید:

بیت المقدس کا دفاع مسلمانوں کا جائز اور معقول حق ہے

بیت المقدس کا دفاع مسلمانوں کا جائز اور معقول حق ہے

خطیب اہل سنت زاہدان نے پندرہ دسمبر کے بیان میں ایک بار پھر امریکی صدر کے فیصلے کی شدید مذمت کی۔ انہوں نے مسلم ممالک اور عوام کو مسجد الاقصی کے دفاع کے لیے اٹھ کھڑے ہونے کی دعوت دیتے ہوئے اسے ان کا ’جائز اور ناقابل اعتراض حق‘ قرار دیا۔
سنی آن لائن ڈاٹ یو ایس نے مولانا عبدالحمید کی آفیشل ویب سائٹ کے حوالے سے رپورٹ دی، ممتاز سنی عالم دین نے اپنے بیان میں کہا: ہم ایسے حالات سے گزررہے ہیں کہ مسلم امہ مختلف مصائب و مشکلات سے دوچار ہے اور ظاہری و باطنی آفتوں نے اس کا گھیرا تنگ کیا ہوا ہے۔ خشکسالی، زلزلے اور اقتصادی مسائل نے مسلمانوں کے لیے جینا مشکل کردیاہے۔
انہوں نے ’اختلاف‘ کو سب سے بڑا بحران یاد کرتے ہوئے کہا: عالم اسلام کا سب سے بڑا بحران اختلاف و منازعہ ہے جس کی وجہ سے مسلمان آپس میں لڑرہے ہیں اور یہ مشکل بہت سارے مسلم ممالک میں پائی جاتی ہے۔
مسئلہ قدس اور فلسطین کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے یہ اعلان کہ بیت المقدس اسرائیل کا دارالحکومت ہے ایک دوسرا بحران ہے جو عالمی بحرانوں میں شامل ہوچکاہے۔ یہ بہت بڑا چیلنج اور سخت امتحان ہے۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے کہا: اگرچہ ماضی دور میں تاریخی لحاظ سے بیت المقدس کی چابیاں ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل ہوچکی تھیں، لیکن گزشتہ صدیوں سے اس کا کنٹرول مسلمانوں کے ہاتھوں میں رہاہے۔ اب ایک نوزائیدہ اور ناجائز صہیونی ریاست نے نہ صرف فلسطین پر قبضہ کررکھاہے، بلکہ یہ لوگ بات چیت، مذاکرات اور انصاف کے نفاذ پر بھی یقین نہیں رکھتے ہیں۔ بہت سارے سپرپاورز اس ریاست سے غیرمنطقی حمایت بھی کرتے ہیں اور عالمی قراردادوں کو ویٹو کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: امریکا کی طرف سے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوچکے ہیں۔ عالمی طاقتیں مسلمانوں کو تشدد پر اکسانا چاہتی ہیں۔
مولانا عبدالحمید نے واضح کرتے ہوئے کہا: ہم انتہاپسندی و دہشت گردی کے مخالف ہیں، لیکن یہ بھی ہمارے لیے ناقابل قبول ہے کہ طاقتیں جب چاہیں مسلمانوں کو ’دہشت گرد‘ اور ’انتہاپسند‘ قرار دیں۔ لہذا یہ مسلمانوں کا مسلمہ اور جائز حق ہے کہ بیت المقدس کی آزادی کے لیے مزاحمت کریں اور قبلہ اول کا دفاع کریں۔
انہوں نے کہا: بیت المقدس نہ صرف فلسطینیوں کا حق ہے، بلکہ تمام مسلمان جن کا تعلق کسی بھی مسلک سے ہو، اس مقدس شہر میں حق رکھتے ہیں۔ چونکہ بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ اول ہے اور ان سب کی عبادتگاہ ہے جس کا دفاع کرنا چاہیے۔ تمام مسلمان ممالک اور عام مسلمان پوری قوت کے ساتھ کھڑے ہوجائیں اور امریکا پر اس کے حالیہ فیصلہ واپس لینے کے لیے دباو ڈالیں۔
خطیب اہل سنت نے کہا: امریکی حکام کسی کو اپنے ملک میں داخلہ یا مداخلت کی اجازت نہیں دیتے ہیں، پہلے انہوں نے مسلم ممالک پر قبضہ ڈالا اور ان میں مداخلت کی۔ اب ان کی ڈھٹائی و گستاخی یہاں تک پہنچی ہے کہ مسلمانوں کے قبلہ اول اور مقدسات پر دست درازی کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: امریکا کو لگام لگانا چاہیے تاکہ خطہ اور مشرق وسطی کو مزید آگ میں نہ جلائے۔ امریکا مسلم ممالک میں بدنام اور منفور ہے، اسے ان ملکوں سے نکلنا چاہیے۔ کیا مسلم ممالک پر بمباری اور ان پر قبضہ جمانا امریکا کے لیے کافی نہیں ہیں کہ اب بیت المقدس کو نشانہ بناتاہے؟!
مولانا عبدالحمید نے کہا: اگرچہ امریکی صدر کی یہ حرکت شوم اور مذموم ہے، لیکن اس سے مسلمان بیدار و متحد ہوجائیں گے؛ اگر کوئی مسلمان ان حالات میں بھی خوابِ گراں سے نہ اٹھے تو اس نے اقتضائے اسلام پر عمل نہیں کیا ہے۔ تمام مسلمانوں کو متحد رہنا چاہیے، ان ہی کے اختلافات کی وجہ سے دشمن کو ایسی حرکتوں کی جرات ہوئی ہے۔
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا: مسلمانوں کو چاہیے اپنے اختلافات چھوڑدیں اور امت واحدہ بن جائیں۔ اسی میں ان کی عزت و اقتدار ہے۔ اسلام دشمنوں کی دھمکیوں اور تمام آفتوں سے نجات کا نسخہ ’استغفار‘، ’توبہ‘ اور گناہوں سے دوری میں ہے۔
ایران کے سنی رہ نما نے اپنی بات مکمل کرتے ہوئے کہا: بندہ واضح الفاظ سے امریکی حکومت کو وارننگ دیتاہے کہ اگر تم نے مسلمانوں کی مقدسات کے حوالے سے ڈھٹائی و ہٹ دھرمی کا خاتمہ نہ کیا، تو پوری دنیا کے مسلمان تمہیں ایک ایسا سبق سکھائیں گے جو تمہاری اگلی نسلوں کے لیے عبرت کا سامان ہوگا۔

پاکستانی علمائے کرام انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے مزید محنت کریں
نامور ایرانی سنی عالم دین نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں صوبہ بلوچستان پاکستان سے آنے والے علمائے کرام، صوبائی حکام اور اساتذہ کے وفد کو خوش آمدید کہا جو نماز جمعہ کے اجتماع میں شریک تھے۔ وفد کی نمائندگی کرتے ہوئے مولانا انوارالحق حقانی نے حاضرین سے خطاب بھی کیا۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: پاکستان کے علمائے کرام دوراندیش لوگ ہیں جو اتحاد امت کے لیے محنت کرتے ہیں۔ اس وفد کے ذریعے ہم اپنا پیغام تمام پاکستانی علمائے کرام تک پہنچانا چاہتے ہیں کہ اختلافات کے خاتمے اور باہمی گفت و شنید اور مذاکرے کے ذریعے انتہاپسندی کی بیخ کنی کے لیے مزید محنت کریں۔
انہوں نے مزید کہا: علمائے کرام نصیحت اور قرآن و سنت سے استدلال کے ذریعے انتہاپسند افراد کو سمجھائیں اور انہیں قائل کرائیں کہ انتہاپسندی و شدت پسندی مسلم معاشرے کے مفاد میں نہیں ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے نبی کریم ﷺ کی سیرت مبارکہ کوجو رحمۃ للعالمین تھے اپنا نصب العین بنادیں اور سیرت کی اتباع کرکے دنیاوالوں کے لیے خیر کا باعث بن جائیں۔ موجودہ حالات میں جب مسلمان دشمنوں کی زد میں ہیں، مسلمانوں کو آپس میں دست وگریبان نہیں ہونا چاہیے۔
رابطۃ العالم الاسلامی کے رکن سپریم کونسل نے کہا: اسلامی تعلیمات کی رو سے مسلمانوں کو چاہیے جو عناصر مسلم ممالک اور مقدسات پر حملے کا قصد نہیں رکھتے ہیں، ان کے ساتھ پرامن زندگی گزاریں۔ لیکن وہ لوگ جو انسانوں کے حقوق ضائع کرتے ہیں اور اسلام کی تباہی کے غرض سے مسلم ممالک پر قبضہ کرکے ان پر حملہ کرتے ہیں، ان کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ جہاد ان لوگوں کے خلاف ہے جو عدل و انصاف پر اترنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور منطق و بات چیت پر یقین نہیں رکھتے ہیں، ان میں غرور و تکبر پایا جاتاہے اور وہ زبردستی و جبر کا سہارا لیتے ہیں۔
مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب کے آخر میں حاجی محمدعمرخان براہوی کے انتقال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہیں خطے کے خیرخواہ، مصالحت کے لیے محنت کرنے والے بااثر قبائلی رہ نما قرار دیا اور ان کی مکمل مغفرت کے لیے دعائیں کیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں