ایران: سابق انٹیلی جنس وزیر شیعہ انتہاپسندوں پر برس پڑے

ایران: سابق انٹیلی جنس وزیر شیعہ انتہاپسندوں پر برس پڑے

تہران (سنی آن لائن + جامعہ فردا) ایران کے اعلی سیاستدان اور سابق انٹیلی جنس وزیر ’علی یونسی‘ نے ایران کے شیعہ انتہاپسندوں پر سخت تنقید کرتے ہوئے حساس اداروں سے انہیں دور رکھنے پر زور دیا ہے۔
’سنی آن لائن‘ کی رپورٹ کے مطابق، یونسی نے جامعہ فردا نامی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے: قومی مکالمہ کے عناصر میں یہ بات شامل ہے کہ ہر ایرانی کو مدنظر رکھا جائے، چاہے اس کا مسلک و قومیت کچھ بھی ہو۔
انہوں نے مزید کہا: سب سے بڑا ظلم امتیازی سلوک ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ اقلیتوں میں نابرابری اور امتیازی سلوک کا احساس پایاجاتاہے۔ بعض علاقوں کے لیے ’مثبت امتیازی رویہ‘ اپنانا چاہیے اور مسالک و قومیتوں کے معاشی حل کرنے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر کوشش کرنی چاہیے۔
صدر روحانی کے معاون خصوصی نے ممتاز سنی عالم دین مولانا عبدالحمید کے ساتھ برتنے والے بعض رویوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا: انتہاپسندوں کی وجہ سے مولانا عبدالحمید کو صدر روحانی کی تقریب حلف برداری میں جگہ نہیں ملی۔ جب کچھ عناصر مولانا عبدالحمید جیسی شخصیات کو پارلیمنٹ کے باقاعدہ جلسوں میں آنے نہیں دیتے یا انہیں سفر سے منع کرتے ہیں، ظاہر سی بات ہے اقلیتی مسالک میں امتیازی سلوک کا جذبہ زور پکڑے گا۔
یونسی نے کہا: حکومت کو چاہیے بہادری کا مظاہرہ کرکے کردوں، بلوچوں، عربوں اور دیگر قومیتوں کی سیاسی شخصیات سے حکومت چلانے میں کام لے۔ قوم آپس میں متحد ہے، اگر حکومت نہ ہو، پھر بھی عوام خوشی سے ایک دوسرے کے ساتھ رہیں گے۔
انہوں نے کہا: عوام کی برداشت اور تحمل نے کچھ انتہاپسندوں کو غلط فہمی میں ڈالا ہے کہ لوگ ان کے ساتھ ہیں۔
صدر خاتمی کے انٹیلی جنس وزیر نے کہا: حکومت کو چاہیے بہادری کے ساتھ انتہاپسندوں کو لگام لگائے، چاہے وہ مذہبی عالم دین ہی کیوں نہ ہوں۔ سابق صدر خاتمی نے ہمیشہ کے لیے ماورائے عدالت قتلوں کی بیخ کنی اور حساس اداروں میں گھسے انتہاپسندوں کا صفایا کردیا۔
علی یونسی نے کہا: ضدی اور خودپسند گروہ اکثر مذہبی حلیہ رکھتے ہیں اور دین کا غلط فائدہ اٹھاتے ہیں، یہ لوگ آسانی سے حکومتی اداروں کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ایسے انتہاپسند عناصر کو ان اداروں میں شامل کرنا غلطی ہے جہاں قوم اور عوام کے حقوق کا مسئلہ درپیش ہوتاہے۔ خاص کر سکیورٹی اور عدالتی اداروں سے انہیں دور رکھنا چاہیے۔ بصورت دیگر اس کا نقصان پورے معاشرے اور ریاست کے لیے خطرناک ہوگا۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں