ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا

ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا

ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا رسول ﷺ سے پہلے عبیداللہ بن جحش کے نکاح میں تھیں۔ دونوں میاں بیوی ایک ساتھ مسلمان ہوئے اور حبشہ کی طرف ہجرت ایک ساتھ ہی کی۔ وہاں جا کر شوہر مرتد ہوگیا اور اسی حالت میں انتقال کر گیا۔ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے بیوگی کا زمانہ حبشہ میں گزارا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہیں حبشہ میں پیغام بھیجا اور حبشہ کی بادشاہ کی معرفت نکاح ہوا۔
حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ:
’’میں نے حبشہ میں خواب دیکھا کہ میرے خاوند کی شکل بگڑ گئی ہے میں گھبرا گئی میں نے سوچا کہ اس کی حالت بدل گئی ہے؟ چناں چہ وہ دوسرے دن مجھ سے کہنے لگا کہ مجھے عیسائی مذہب سے بہتر کوئی مذہب نہیں لگتا۔ پھر اس نے عیسائیت اختیار کرلی۔ میں نے اس کو بہت سمجھایا اور اپنا خواب سنایا لیکن اس پر کوئی اثر نہ ہوا آخر وہ اسی حالت میں ہی مرگیا۔‘‘
پھر میں نے حبشہ میں دوسرا خواب دیکھا کہ کسی نے مجھ سے کہا کہ اے ام المومنین! یہ سن کر میں گھبرا گئی پھر میں نے خود اس کی تعبیر سوچی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے شادی کریں گے۔ ابھی میری عدت ختم ہوئی ہی تھی کہ نجاشی بادشاہ کی باندی ابرہہ میرے پاس آئی اور آکر کہا کہ بادشاہ کہہ رہا ہے کہ حضور ﷺ نے مجھے لکھا ہے کہ میں آپ کی شادی حضور ﷺ سے کردوں۔‘‘ میں نے کہا اللہ تمہیں بھی خیر کی بشارت دے (یعنی میں راضی ہوں)۔
پھر اس نے کہا کہ بادشاہ آپ سے کہہ رہے ہیں کہ آپ کسی کو وکیل مقرر کردیں جو آپ کی شادی کردے۔ میں نے حضرت خالد بن سعید رضی اللہ عنہ کو بلا کر اپنا وکیل مقرر کیا، میں نے اس باندی کو اپنے چاندی کے کنگن، پازیب اور چاندی کی وہ ساری انگوٹھیاں جو میرے پاؤں کی ہر انگلی میں تھیں اتار کردے دیں۔
شام کو حضرت نجاشی نے تمام مسلمانوں کو بلا کر میرا نکاح حضور ﷺ کے ساتھ کردیا اور حضور ﷺ کی طرف سے چار سو دینا مہر مجھے عطا کیا۔ نکاح کا خطبہ حضرت نجاشی نے خود پڑھا تھا بعد میں تمام مسلمانوں کو بادشاہ نے کھانا کھلایا اور فرمایا کہ یہ انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت ہے۔
میں نے نکاح کے بعد اس باندی کو بلایا پچاس مثقال (پونے انیس تولے) سونا دینا چاہا لیکن اس نے انکار کردیا اور میری پہلی چیزیں بھی واپس کردیں اور کہا کہ بادشاہ نے کہا ہے کہ ان سے کوئی چیز نہ لو۔ پھر اس نے کہا کہ میں بھی حضور ﷺ پر ایمان لاچکی ہوں واپس جا کر حضور ﷺ کو میرا سلام دے دینا اور بتانا کہ میں بھی آپ پر ایمان لاچکی ہوں بعد میں، میں نے حضور ﷺ کو نکاح کی ساری کارگزاری سنائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور حضرت ابرہہ کے سلام کے جواب میں فرمایا وعلیہا السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔‘‘
نکاح کے بعد جب حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا مدینہ منورہ تشریف لائیں، صلح کے زمانے میں ان کا والد ابوسفیان ملاقات کے لیے مدینے آئے کیوں کہ حضور ﷺ سے صلح کی مضبوطی کے لیے گفتگو کرنا تھی، بیٹی سے ملنے گئے، وہاں بستر بچھا ہوا تھا، اس پر بیٹھنے لگے تو ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے وہ بستر الٹ دیا، والد نے پوچھا کہ: ’’یہ بستر میرے قابل نہیں تھا یا میں اس بستر کے قابل نہ تھا۔‘‘ ام حبیبہ نے فرمایا: ’’یہ اللہ تعالی کے پاک اور پیارے رسول ﷺ کا بستر ہے اور تم مشرک ہو اور ناپاک ہو، اس لیے اس پر کیسے بٹھا سکتی ہوں؟‘‘ والد کو اس بات پر بہت رنج ہوا ، اور کہا کہ: ’’تم مجھ سے جدا ہونے کے بعد بری عادتوں میں مبتلا ہوگئی ہو۔‘‘ مگر ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے دل میں حضور ﷺ کی جو عظمت اور محبت تھی، اس کے لحاظ سے وہ یہ کب گوارا کرسکتی تھی کہ کوئی ناپاک،مشرک، حضور صلی اللہ علیہ وسلم بے بستر پر بیٹھ جائے۔ انہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے حد درجہ محبت اور عقیدت تھی۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں