وارث اور غیر وارث کے حق میں وصیت کرنے کا حکم

وارث اور غیر وارث کے حق میں وصیت کرنے کا حکم

سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ بندہ کی کوئی نرینہ اولاد نہیں ہے، ایک بیوی ، چار بیٹیاں اور ایک بچہ کو گود لے چکا ہوں ( اس گود لینے والے بچے کو میری بڑی بیٹی نے دودھ پلایا ہے)،نیز دو بھائی اور ایک بہن بھی ہیں، اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا میں زندگی میں ان مذکورہ رشتہ داروں میں سے کسی کے لیے کوئی وصیت کر سکتا ہوں یا نہیں؟ بینوا توجروا

جواب… کسی رشتہ دار کے وارث ہونے یا نہ ہونے کا اعتبار مورث کی موت کے وقت ہو گا، وصیت کے وقت نہیں، چناں چہ جو لوگ اس وقت شرعی وارث قرار پائیں گے (مثلاً :بیوہ، بیٹیاں، وغیرہ) ان کے حق میں کی گئی وصیت اس وقت معتبر ہو گی جب دوسرے ورثار بھی اجازت دے دیں (بشرطیکہ اجازت دینے والے بالغ ہوں) ، ورنہ معتبر نہیں ہوگی اور بقیہ ترکہ کی طرح اس میں بھی وراثت جاری ہو گی۔

جس بچے کو گود لیا ہے وہ شرعی وارث نہیں، نیز والد اگر حیات ہوں، تو بھائی اور بہن بھی وارث نہیں ہوتے، ان سب کے حق میں کی گئی وصیت ایک تہائی مال میں جاری کی جائے گی، ایک تہائی سے زیادہ میں وصیت کا نافذ کیا جانا، ورثاء کی اجازت پر موقوف رہے گا۔ (بشرطیکہ ورثاء بالغ ہوں)۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں