روہنگیا پناہ گزین اور ہندوستانی حکومت

روہنگیا پناہ گزین اور ہندوستانی حکومت

دنیا کے دیگر مذاہب اور اسلام میں فرق یہ ہے کہ اسلام اپنے متبعین کو ایک امت بنا کر پیش کرتاہے،دنیا میں رہنے والا ہر مسلمان، چاہے اس کا تعلق کسی بھی رنگ و نسل سے ہو، اس امت کا حصہ ہے اور اس کو وہ تمام حقوق و مراعات حاصل ہیں جو دوسرے مسلمانوں کو حاصل ہیں ۔امت ہونے کی بنیاد پر اسلام نے مسلمانوں کے تمام مسائل کو مشترکہ مسائل قرار دیا ہے جن کو حل کرنے کی سعی کرنا پوری امت کی ذمہ داری ہے۔ مسلمانوں کی اصل طاقت ان کا اتحاد ہے ،یہی اتحاد ان کو ایک امت بنا تا ہے اور یہ صرف جسمانی اور ظاہری نہیں، بلکہ قلبی اور روحانی بھی ہے۔ اسی لیے اسلام مسلمانوں کو متحد رہنے کا حکم دیتاہے اور اختلافات و تنازعات سے بچنے کی تلقین کرتا ہے اور اس بات سے خوف دلاتا ہے کہ اگر اختلافات میں پڑکر اتحاد توڑ دوگے تو تم دنیا میں بے حیثیت اور بے وزن ہو کر رہ جاوٴگے، جو چاہے گا، جب چاہے گا، تم کو کچل کر رکھ دے گا ،ارشاد خداوندی ہے :

﴿وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّہِ جَمِیْعاً وَلاَ تَفَرَّقُواْ وَاذْکُرُواْ نِعْمَتَ اللّہِ عَلَیْْکُمْ إِذْ کُنتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَیْْنَ قُلُوبِکُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِہِ إِخْوَاناً﴾․ ( اٰل عمران:103)
ترجمہ:” تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ بازی میں مت پڑواوراس وقت کو یاد کرو جب تم سب آپس میں دشمن تھے تو اللہ نے تمہارے دلوں کو آپس میں جوڑ دیا اور تم اس کے فضل سے بھا ئی بھائی بن گئے۔“

دوسری جگہ ارشاد فرمایا :
﴿وَأَطِیْعُواْ اللّہَ وَرَسُولَہُ وَلاَ تَنَازَعُواْ فَتَفْشَلُواْ وَتَذْہَبَ رِیْحُکُمْ وَاصْبِرُواْ إِنَّ اللّہَ مَعَ الصَّابِرِیْن﴾ (الأنفال: 46)
ترجمہ:”اور اللہ اور رسول صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت کرو اور آپس میں لڑائی جھگڑا مت کرو، ورنہ تم کمزور ہو جاوٴ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی (تمہارا رعب ختم ہو جائے گا ) اور صبر کرو ،بلا شبہ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔“

رسول صلی الله علیہ وسلم نے مسلمانوں کی ا ٓپسی محبت و ہمدردی کی مثال ایک جسم سے دی ہے ،ارشاد فرمایا: ” مثل الموٴمنین فی تراحمھم وتوادھم وتعاطفھم کمثل الجسد، اذا اشتکیٰ عضو تداعیٰ لہ سائر جسدہ بالسھر والحمیٰ․“ (صحیح البخاری برقم:5665 ، صحیح مسلم برقم:2586) رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :مسلمانوں کی مثال آپس میں محبت و مہربانی اور ہمدردی کے معاملے میں ایک جسم کے مانند ہے، اگر اس کا کوئی حصہ بیمار ہو جائے تو سارے جسم کے اعضاء بے خوابی اوربخار میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔

اسی طرح تمام مسلمانوں کو فردواحد بتایا گیا ہے، ارشاد فرمایا : ”المسلمون کرجل واحد ان اشتکی عینہ اشتکیٰ کلہ وان اشتکیٰ رأسہ اشتکیٰ کلہ․“ (صحیح مسلم کتاب البر و الصلة برقم:4693)
ترجمہ:تمام مسلمان آپس میں ایک فرد کی طرح ہیں، اگر اس کی آنکھ میں تکلیف ہو جائے تو وہ پورا تکلیف میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اگر اس کے سر میں تکلیف ہو جائے تو وہ پورا تکلیف میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔

علامہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں : یہی وجہ ہے کہ ایمان والے کواس بات سے خوشی ہوتی ہے جس سے مومنین خوش ہوتے ہوں اور اس کو وہ بات تکلیف دیتی ہے جو مومنین کو تکلیف زدہ کر دے اور اگر ایسا نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں اتحاد نہیں ہے اور وہ آپس میں جدا جدا ہیں، اس لیے کہ دو ایمان والے اللہ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم پر ایمان لانے کی وجہ سے ہی متحد ہوتے ہیں اوروہ اللہ او رسول سے محبت کرتے ہیں اور اس سے محبت کرتے ہیں جس سے اللہ اور رسول محبت کرتے ہوں۔(مجموع الفتاوٰی: 2/373،374)

ان آیات و احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے تمام مسلمانوں کا آپسی رشتہ کتنا گہرا اور اٹوٹ ہے، اس لیے اگر کوئی اس رشتہ کا پاس و لحاظ نہ رکھے توامت میں اس کا کو ئی حصہ نہیں ہے، چناں چہ ارشاد نبوی صلی الله علیہ وسلم ہے : ”ومن لم یھتم بأمرالمسلمین فلیس منھم․“(المعجم الأوسط للطبرانی: 270/7 حدیث ضعیف) ترجمہ: جو مسلمان اپنے مسلمان بھائیوں کے مسائل سے کنارہ کشی اختیار کرے گا وہ اس امت کا حصہ نہیں ہے۔

اسلام صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں، بلکہ ساری انسانیت کے لیے رحمت کا پیغام دیتا ہے، دنیا میں کہیں بھی کسی بھی انسان پر ظلم کیا جائے اسلام کو یہ گوارا نہیں ،اس لیے وہ اپنے متبعین کو دنیا کے کسی حصہ میں کسی بھی انسان پر ہونے والے ظلم کے خلاف جہاد کرنے اور مظلوموں کی مدد کرنے کا حکم دیتا ہے ۔ ارشاد خداوندی ہے:

﴿وَمَا لَکُمْ لاَ تُقَاتِلُونَ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ ہَذِہِ الْقَرْیَةِ الظَّالِمِ أَہْلُہَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنکَ وَلِیّاً وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنکَ نَصِیْرا﴾(النساء : 4/75)
ترجمہ:آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں ،بچوں اور عورتوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پا کردبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا! ہم کو اس بستی سے نکال ،جس کے باشندوں نے ظلم کے پہاڑ توڑ رکھے ہیں اور ہمارے لیے اپنی طرف سے کوئی حامی پیدا کردے اور ہمارے لیے اپنی جانب سے کوئی مددگار کھڑا کردے۔

ان تمام باتوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اس وقت دنیا کے مختلف حصوں میں اللہ کے بندوں پرجوظلم و ستم کیا جارہا ہے بقدر استطاعت ان کی مدد کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔اس وقت سب سے سنگین صورتحال میانمار کے صوبہ ارکان کی ہے، جہاں روہینگیا نسل کے لوگوں کی، جن میں بیشتر مسلمان ہیں، وہاں کی فوج اور بودھ دہشت گردوں کے ہاتھوں نسل کشی کی جارہی ہے، ان کی پوری کی پوری بستیاں زندہ انسانوں کے ساتھ نذر آتش کر دی گئی ہیں، ہزاروں کو اس بے دردی سے شہید کیا گیا ہے کہ کمزور دل والا اسے دیکھنے کی تاب نہیں لا سکتا، ان مقتولوں میں بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کی بڑی تعداد ہے اور یہ حیوانیت کا ننگا ناچ ابھی بھی جاری ہے، لاکھوں روہنگیا اپنا سب کچھ چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہیں اور مختلف ممالک میں پناہ لیے ہوئے ہیں، صرف بنگلہ دیش میں اب تک آٹھ لاکھ اسی ہزار لوگ پناہ لے چکے ہیں ۔ ایسے وقت میں چاہیے تو یہ تھا کہ دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح ہمارا ملک بھی ان مظلوموں کی حمایت میں کھڑا ہوتا، کیوں کہ ہمارے ملک کی تاریخ رہی ہے کہ وہ ہمیشہ مظلوموں کاحامی، بے سہاراوٴں کا سہارا اور بے آسراوٴں کا آسرا بنا ہے۔ لیکن افسوس ہمارے وزیر اعظم نے ہندوستان کی شبیہہ کو داغ دار کیا اور میانمار کی ظالم حکومت کی مذمت کرنے کے بجائے عین اسی وقت وہاں کا دورہ کر کے ان کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا ،حکومت کے اس رویہ نے مظلوموں کے زخموں پر نمک پاشی کا کام کیا ہے ۔دوسری جانب اندرون ملک یہ حالات ہیں کہ سماج دشمن عناصر یہاں موجود روہینگیا پناہ گزینوں کے خلاف مسلسل سازشیں کر رہے ہیں ، بھگوا تنظیم کے چیف نے ان بے سہارا اور کمزور ترین لوگوں کو ملک کی سلامتی اور امن و امان کے لیے بڑا خطرہ قرار دیا ہے ،ان کے کچھ ذمہ دارتو ان پناہ گزینوں کے تار دہشت گرد تنظیموں سے ثابت کرنے پر تلے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت اس ہاتھ آئے موقع کو گنوانا نہیں چاہتی، چناں چہ اس نے بھی الیکشن کارڈ کھیلتے ہو ئے روہینگیاکو ملک بدر کرنے کی حمایت کی ہے۔معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ بھگوا تنظیم نے اپنے کارکنان کو یہ ذمہ داری سونپی ہے کہ وہ ملک کے تمام روہینگیا پناہ گزینوں کی جائے قیام کا پتہ لگائیں ، بھگوا تنظیم کا یہ حکم نامہ روہنگیاکے خلاف کسی بڑی سازش کا اندیشہ ظاہر کر رہا ہے ۔

ایسے وقت میں ہمیں اپنے ملک کی میڈیا سے امید تھی کہ وہ جمہوریت کا چوتھا ستون ہونے کے ناطے اس مسئلے میں انسانیت کے حق میں آواز بلند کرے گا اور مظلوموں کی حمایت میں آگے آئے گا، لیکن اس کے موجودہ طرز عمل نے ہمیں مایوس کیا ہے ،اس نے بھی اس مسئلہ کو ملک کی سکیورٹی کا مسئلہ بنا کر پیش کیا ہے ۔ جہاں تک سوشل میڈیا کی بات ہے توسماج دشمن عناصر اس کا استعمال عوام کو گم راہ کرنے کے لیے بڑی چالاکی سے کر رہے ہیں ، روزانہ کثیر تعداد میں ایسے پوسٹ اور ویڈیو پھیلائے جا رہے ہیں جن سے روہینگیا کے تئیں نفرت کے جذبات پیدا ہو رہے ہیں ،عوام کو ان سے ایسا خوف دلایا جاراہا ہے گویا ا ن کا وجود ملک کے لیے الگا وادیوں سے بھی زیادہ مہلک ہے ۔ صاف ہے اس سب کا مقصد ہندو ووٹ بینک کو متحد کر کے2019 ء کے الیکشن کے لیے بی جے پی کی راہ ہموار کرنا ہے، کیوں کہ حکومت کے پاس اب کوئی ایسا انتخابی ایجنڈہ نہیں ہے جس سے وہ عوام کو راغب کر سکے ، اوران تین سالوں میں اسے ہر محاز پر ناکا می کا منھ دیکھنا پڑا ہے ،اس لیے ملک میں نفرت کا ماحول بناکرہندو مسلم کی تقسیم کے ذریعہ اپنا الو سیدھا کرنا چاہتی ہے۔

ہم کیا کر سکتے ہیں؟
عام طور سے یہ سوال ہمارے ذہن میں بار بار آتا ہے کہ موجودہ صورتحال میں ہم کر بھی کیا سکتے ہیں ؟ ہمارے بس میں کیا ہے؟

تو اس کا جواب یہ ہے کہ الحمدللہ ہمارے لیے اب بھی حالات کافی ساز گار ہیں اور ہم بہت کچھ کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں ،ارشاد خداوندی ہے :﴿لاَ یُکَلِّفُ اللّہُ نَفْساً إِلاَّ وُسْعَہَا ﴾(البقرہ:2/386) اللہ کسی انسان پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا اس میں جتنی ذمہ داری اٹھانے کی طاقت ہو اتنی ہی ذمہ داری اسے دی جاتی ہے ۔

اس وقت ایک امت ہونے کی حیثیت سے ہم پر دو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ۔پہلی ذمہ داری یہ ہے ہم اپنے بے سہارا مفلوک الحال روہینگیا بھائیوں کے لیے انصار مدینہ کا رول ادا کریں ،جس طرح انصار نے اپنے مہاجرین بھائیوں کے لیے نظام مواخاة (بھائی چارہ کا نظام) قائم کر کے اخوة کی ایک زندہ مثال قائم کی تھی ،انھیں کے نقش قدم پر ہم بھی اپنے دلوں کے دروازوں کو اپنے مہاجرین بھائیوں کے لیے کھول دیں،کیوں کہ یہ نظام اسی مقصد کے لیے قائم کیا گیا تھا کہ تاقیامت جب کبھی بھی مسلمانوں پر کوئی اس جیسی صورتحال آئے تو سارے عالم کے مسلمان بیک وقت اپنے بے سہارا بھائیوں کا سہارا بن جائیں ۔

یہ ایک بہترین موقع ہے اپنے رب کے نزدیک قربت پانے کا اور اپنے درجات بلند کروانے کا ،یہ ایک بہترین موقع ہے اپنے اوراپنے گھر والوں کے لیے تحفظ الٰہی فراہم کر نے کا ۔ ارشاد نبوی صلی الله علیہ وسلم ہے: ”واللہ فی عون العبد ما کان العبد فی عون أخیہ․“(مشکاةالمصابیح کتاب العلم برقم :199) جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے اللہ اس کی مدد میں لگا رہتا ہے۔

اس وقت بنگلہ دیشی پناہ گزینوں کو جس چیز کی اشد ضرورت ہے وہ ہے ان کے اور ان کی اولاد کے ایمان کی حفاظت ،جس کے لیے دینی تعلیم کا نظم کرنا ،مساجد کی تعمیر کرنا ہماری ذمہ داری ہے ۔ وہاں ترکی، ملیشیا جیسے ممالک اور کچھ مسلم اور غیر مسلم تنظیمیں اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں، لیکن پناہ گزینوں کی کثرت تعداد کی وجہ سے ابھی بھی اشیائے خوردنی اور پہننے کے کپڑوں کے ساتھ بیماروں کے لیے دواوٴوں کی سخت ضرورت ہے ،ہم ہندوستانی مسلمانوں کیصرف اپنی زکاة جو سالانہ2500 کروڑ ہوتی ہے اس کا 10 فیصد بھی ان پناہ گزینوں کے لیے دے دیں تو بآسانی 250 کروڑ روپیہ جمع ہو جائے گا، جس سے ان کی کافی ضرورتیں پوری ہو جائیں گی ،اس کے لیے ہمارے ذمہ داران ایک متحدہ ومشترکہ لائحہ عمل تیار کریں کہ کس طرح ہم زکاة کی یہ رقم ان تک پہپہنچاپائیں گے۔

جہاں تک ہندوستانی روہینگیا پناہ گزینوں کی بات ہے تو ان کی بودوباش اور معاش کا مسئلہ کچھ حد تک حل ہواہے، لیکن ان کی تعلیم کا مسئلہ ابھی بھی قابل حل ہے، کیوں کہ اس طرف ہماری توجہ کم جاتی ہے، جب کہ ان کی نئی نسل کو تعلیم دلانا اور ان کے ایمان کی حفاظت کرنا ہماری اپنی ذمہ داری ہے، ہم اپنے قائدین کی توجہ اس جانب بھی مبذول کرائیں۔

ہماری دوسری ذمہ داری ہندوستان کے پناہ گزین سلسلہ میں ہے کہ ہم ان کے تحفظ کے لیے ہر ممکن چارہ جوئی کریں، اس کے لیے ہمیں چار کام کرنے ہیں۔

اس مسئلہ کو خالص مسلمانوں کے مسئلہ کے بجائے پوری انسانیت کا مسئلہ بناکر پیش کرنا ہے، کیوں کہ ہماری جانب سے صرف مسلمانوں کے لیے ہی مطالبات کرنا تعصب کرنے والوں کی راہ ہموا رکرتا ہے،اس لیے ان پناہ گزینوں کے لیے روہینگیا مسلم کی جگہ روہینگیا مظلومین یا Rohengiya innocent peopleجیسے الفاظ استعمال کرنا شروع کیجیے۔

اپنے قائدین سے درخواست کیجیے کہ وہ ہندو سیکولر دانش وران اور دوسرے مسلم قائدین کو ساتھ لے کر اس مسئلہ کو قانونی طور پر حل کریں ، کیوں کہ اپنے ہندو بھائیوں کی مدد کے بغیر ہمارے مطالبات بے اثر رہیں گے۔

ہم اپنے ذمہ داروں کے ذریعہ عالمی برادری، خاص کر اقوام متحدہ کے شعبہ برائے مہاجرین سے اس بات کی درخواست کریں کہ وہ ہماری حکومت پر اس بات کا دباوٴ ڈالے کہ وہ ان روہینگیا پناہ گزینوں کی جان کے تحفظ کو یقینی بنائے اور اپنے اس فیصلے کو واپس لے۔

چوتھا کام یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کے تعلق سے اور خاص کر روہینگیاوٴں کے تعلق سے اپنے برادران وطن کے ذہنوں کو صاف کریں، کیوں کہ ملک کو بانٹنے والے لوگوں نے ان کے ذہن میں کافی زہر گھول رکھا ہے۔

ہم یہ غلط فہمیاں بس تھوڑی سی محنت کے بعد دور کر سکتے ہیں ، اس کے لیے ہم درج ذیل طریقے اپنائیں گے۔

(الف) اپنے آس پڑوس کے ہندو بھاؤں سے مل کر اس مسئلہ کی حقیقت کو واضح کریں ، مثلاََ انھیں بتائیں کہ روہینگیا دنیا کی مظلوم ترین قوم ہے ،یہ واحد ایسی قوم ہے جن کو اپنے ملک کی شہریت سے ہی محروم کر دیا گیا ہے، جب کہ یہ وہاں سینکڑوں برس سے آباد تھے اور آج دنیا میں ان کا کوئی گھر نہیں ہے۔ اگر ہم اس وقت بھی ان کا ساتھ چھوڑدیں گے تو ایشور ہمیں معاف نہیں کرے گا۔

انھیں بتائیں کہ یہ ایک پر امن اور نرم دل قوم ہے، جس کی دلیل یہ ہے کہ یہاں کے چالیس ہزار پناہ گزین، جو ایک عرصہ سے یہاں مقیم ہیں، ان میں سے کسی ایک پر بھی ملک مخالف سرگرمی میں ملوث ہونے کا الزام تک نہیں ہے، کیا ایسی شانتی پسند قوم ملک کے لیے کسی طرح کا خطرہ ہو سکتی ہے؟

(ب) ان کی توجہ اس جانب مبذول کرائیں کہ کسی پریشان حال کی مدد کرنا ہمارا مذہبی فریضہ ہے، دنیا کا ہر مذہب اس بات کا حکم دیتا ہے، سناتن دھرم نے بھی اسی کی تعلیم دی ہے ۔

(ج) انہیں بتائیں کہ روہینگیاوٴں کو واپس ان کے ملک بھیجنا ان کو قتل کر نے کے مترادف ہے او رجان بوجھ کر کسی کی جان کو خطرہ میں ڈالنا ہماری مذہبی قدروں کے خلاف ہے، ہمارے ملک کی روایات اور اس کی تہذیب کی توہین ہے، ہمارے دستور کے مخالف ہے اور یہ انسانیت کے اس خونی رشتہ کے بھی خلاف ہے جو تمام انسانوں کو ایک ڈور میں باندھتا ہے ۔

(د) ملک کی اکثریت روہینگیاوٴں کے مسئلہ سے ناواقف ہے اور متعصبین کی جانب سے پھیلائی جانے والی جھوٹی خبروں کی بنیاد پر اپنا نظریہ قائم کیے ہوئے ہیں ،اس لیے اس مسئلہ کی حقیقت کو مختصر لٹریچر کے ذریعے بروئے کار لائیے، آپ کی یہ کوشش لوگوں کا نظریہ تبدیل کر سکتی ہے،جس سے ملک میں امن و امان کی فضا قائم ہوگی۔

ان تمام اسباب کو اپنا نے کے ساتھ ایک،نہایت ضروری کام ہمیں یہ کرنا ہے جومسلمانوں کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اوروہ ہے انابة الی اللہ، یعنی اللہ کی طرف رجوع کیجیے، اپنے ا ور اپنے بھائیوں کے لیے خشوع و خضوع کے ساتھ دعائیں کیجیے،کیوں کہ ہمارا سب سے بڑا ہتھیار یہ دعا ہی ہے،اس لیے اللہ سے اپنے تعلق کو مضبوط کیجیے ، پھر جب اس کے بعد یہ اسباب اختیار کیے جائیں گے تو آپ دیکھیں گے کہ کس طرح ہر ہر قدم پر خدا ہماری مدد کرتا ہے۔

اخیر میں ہم آپ تمام قارئین کرام سے گزارش کریں گے کہ اس مضمون کو جس طرح ممکن ہو ہندی اور انگریزی زبان میں شائع کرائیے، کیوں کہ مسلمانوں کی اکثریت اردو سے نا واقف ہے اور ان تک یہ پیغام پہنچانا آپ کی ذمہ داری ہے، کیوں کہ آپ اس امت کا ایک اٹوٹ حصہ ہیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں