رائیونڈ میں!

رائیونڈ میں!

ہم دہلی سے جنوب کی طرف جائیں تو تھوڑے فاصلے پر بستی نظام الدین آتی ہے، یہ بستی حضرت نظام الدین اولیاء کی وجہ سے مشہور ہے۔
انیسویں صدی میں یہاں ایک بزرگ رہا کرتے تھے، جن کا نام مولوی محمداسماعیل تھا، ان کا معمول تھا کہ جب کوئی شخص اس علاقے میں آتا یہ آگے بڑھ کر اس کا سامان اٹھالیتے، سامان سر پر رکھتے اور اسے منزل تک پہنچانے کے ساتھ اپنے ہاتھ سے ڈول کھینچ کر پانی پلاتے، بعد میں دو رکعت نفل پڑھ کر شکر ادا کرتے کہ اللہ نے انہیں اس خدمت کی توفیق دی۔ ۱۳۰۳ھ میں ان کے ہاں ایک بچے کی پیدائش ہوئی، والدین نے بغیر سوچے سمجھے الیاس نام رکھ دیا، بچے کی تعلیم و تربیت کا اہتمام گھر میں ہی کیا گیا، گھر کی تمام خواتین صاحب نسبت تھیں، بچوں کو طوطا مینا اور جنوں پر یوں کی کہانیاں سنانے کی بجائے بزرگوں کے قصے سنایا کرتی تھیں۔ گھر میں ہر طرف نماز، روزہ اور تلاوت قرآن کی محفلیں ہوا کرتے تھیں۔ گھر کے بزرگ اگر کسی کو دعا دیتے تو یہ نہیں کہتے تھے کہ اللہ تجھے ڈاکٹر، انجینئر یا وکیل بنائے بلکہ کہا جاتا تھا اللہ تجھے اپنے دین کی خدمت کے لیے قبول کرے۔ مولوی اسماعیل صاحب نے اس علاقے میں ایک چھوٹا سا مدرسہ بھی قائم کیا ہوا تھا، جہاں محلے کے غریب بچے پڑھنے آیا کرتے تھے۔ مولوی اسماعیل صاحب کے وفات کے بعد ان کے بڑے بیٹے مولوی محمد نے اس مدرسے کی ذمہ داری سنبھالی، ۱۳۳۶ھ میں ان کی بھی وفات ہوگئی، چھوٹا بیٹا محمد الیاس ان دنوں مظاہرالعلوم سہارنپور میں مدرس تھا، بھائی کی وفات ہوئی تو اسے سہارنپور چھوڑ کر بستی نظام الدین آنا پڑا اور یہاں سے اس کی زندگی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ یہی محمد الیاس بعد میں مولانا محمد الیاس تبلیغی جماعت کے بانی کہلائے۔
بستی نظام الدین صوبہ ہریانہ کے شہر میوات کے دہانے پر واقع تھی، میوات کے اکثر لوگ بستی نظام الدین آتے جاتے تھے اور ان کے کچھ بچے بھی اس مدرسے میں زیر تعلیم تھے۔ میوات قوم کی حالت کچھ اچھی نہیں تھی، یہ لوگ حضرت نظام الدین اولیاء کی کوششوں سے مسلمان تو ہوگئے تھے، لیکن یہ صرف نام کے مسلمان تھے۔ یہ ہندوؤں اور سکھوں کی طرح نام رکھتے تھے، ان کے سروں پر چوٹیاں بھی ہوتی تھیں اور یہ اپنے گھروں میں مورتیاں بھی سجاتے تھے، یہ ہندوؤں کی طرح ہولی اور دیوالی بھی مناتے تھے او ر یہ بابا گرونانک کے بھی پجاری تھے۔ کلمہ، نماز اور روزے کا تو انہیں پتا ہی نہیں تھا، اتفاق سے اگر کوئی شخص اس علاقے میں آکر نماز پڑھنا شروع کردیتا تو سب اس کے ارد گرد اکھٹے ہوجاتے کہ اس بنے کو کیا ہوا، کیا اس کے پیٹ میں تکلیف ہے یا کوئی اور مسئلہ ہے۔ ۱۹۲۱ء میں صورتحال اس وقت مزید بگڑ گئی جب ہندوؤں نے آریہ سماج کی تحریک شروع کی اور لوگوں کو ہندو بنانا شروع کردیا، میوات کے علاقے سے ہندوؤں کی کامیابی کی خبریں آنا شروع ہوگئیں، مولانا الیاس کے لیے یہ صورتحال بہت تکلیف دہ تھی، میواتیوں کے کچھ بچے ان کے مدرسے میں زیرتعلیم تھے، لیکن اس سے صورتحال بہتر ہونے والی نہیں تھی۔ مولانا الیاس نے میوات کے علاقے میں بھی مدارس اور مکاتب قائم کرنے شروع کیے، لیکن میواتی اپنے بچوں کو ان مدرسوں میں بھیجنے کے لیے تیار نہیں تھے، ان کے لیے تعلیم کی بجائے مواشی کی دیکھ بھال اور کھیتی باڑی اہم تھی، لیکن اس سب کے باوجود مولانا الیاس اپنی محنت میں لگے رہے۔
ایک دفعہ آپ میوات کے سفر پر گئے، آپ کے سامنے ایک طالبعلم پیش کیا گیا کہ یہ فلاں مدرسے سے پڑھ کر فارغ ہوا ہے اور اس کی خوب تعریف کی گئی۔ مولانا نے دیکھا تو داڑھی نہیں تھی اور وہ کسی طور مدرسے کا طالبعلم دکھائی نہیں دیتا تھا، اس واقعے نے مولانا کی سوچ بدل ڈالی کہ جب تک ان میواتیوں کو ان کے ماحول سے نہیں نکالا جاتا، تب تک محنت رائیگاں جائے گی۔ اس کے بعد مولانا نے میواتیوں کو جماعت کی صورت میں ان کے ماحول سے نکالا اور انہیں مساجد، مدارس اور خانقاہوں میں ٹھہرانا شروع کیا، ابتدا میں یہ کام بہت مشکل تھا، لیکن مسلسل محنت سے راستے بنتے گئے۔
ایک دفعہ آپ ایک میواتی کو دعوت دے رہے تھے، وہ بگڑ گیا اور آپ کو مکا مار دیا، آپ کمزور آدمی تھی زمین پر گر پڑے، اگلے ہی لمحے اٹھے اور اس کا دامن پکڑ کر کہا ’’تم اپنا کام کرچکے اب میری سنو!‘‘ یہ اخلاص اور محنت تھی کہ میوات کے علاقے میں تبدیلی آنا شروع ہوئی، لوگ اسلام کی طرف واپس آنے لگے اور میواتی جو آدھے ہندو بن چکے تھے، دوسروں کو دعوت دینے کے لیے اپنے گھروں سے نکلنے لگے۔
مولانا الیاس ہر لمحہ امت کی فکر میں لگے رہتے، ان کی اہلیہ بتاتی ہیں کہ جب میری شادی ہوئی تو میں نے دیکھا کہ مولانا راتوں کو بہت کم سوتے ہیں، ان کی ساری رات بستر پر آہیں بھرتے اور کروٹیں بدلتے ہی گزرجاتی تھی۔ ایک دفعہ میں نے پوچھا آپ کو رات کو نیند کیوں نہیں آتی تو فرمایا اگر وہ بات تمہیں معلوم ہوجائے تو جاگنے والے دو ہو جائیں۔ تبلیغ کے لیے کئی کئی دن تک کھانا نہیں کھاتے تھے، میلوں پیدل سفر کرتے اور جب دیکھتے کہ جماعت کے ساتھی تھک گئی ہیں تو کہتے ’’جبل جہد کی دوسری طرف خدا ہے، جس کا جی چاہے مل لے۔‘‘ ایک صاحب نے خیریت طلب کی تو فرمایا: ’’خیریت تو تب ہے کہ جس کام میں لگے ہو وہ پورا ہوجائے۔‘‘ ایک صاحب نے خط لکھ کر خیریت طلب کی تو جواب لکھا: ’’طبیعت میں سوائے تبلیغی درد کے اور خیریت ہے۔‘‘ جب آپ دیکھتے کہ تبلیغ کے کام میں جڑنے والے اکثر لوگ ان پڑھ اور سادہ قسم کے دیہاتی ہی تو بڑے افسوس سے کہتے: ’’کاش علماء! اس کام کو سنبھال لیتے اور پھر ہم چلے جاتے۔‘‘ ایک خط کا جواب دیتے ہوئے لکھا: ’’دنیا فانی کے کام کے لیے تو گھر کے سارے فرد ہوں، لیکن اللہ کے کام کے لیے ایک فرد بھی نہ نکلے۔‘‘ یہ مولانا الیاس کی محنت کا ہی نتیجہ تھا کہ میوات میں ۱۹۴۱ء کے دوران جب پہلا تبلیغی اجتماع ہوا تو پچیس ہزار لوگ شریک ہوئے، جو کئی کئی میل سے پیدل سفر کر کے وہاں پہنچے تھے۔
شعوری عمر میں گزشتہ اتوار پہلی بار رائیونڈ کے تبلیغی اجتماع میں شرکت کا موقع ملا۔ یہ مولانا الیاس کی محنت اور اخلاص کا نتیجہ ہے کہ دنیا بھر سے لاکھوں افراد بیک وقت چھت تلے جمع ہوتے ہیں، ہر طرح کی مسلکی تفریق سے ہٹ کر سب اپنے رب کو راضی کرنے کے لیے آتے ہیں، ممکنہ طور پر حج کے بعد یہ مسلمانوں کا سب سے بڑا اجتماع ہوتا ہے اور اس بار بھی سیکڑوں جماعتیں اندرون اور بیرون ملک تبلیغ دین کے لیے نکلی ہیں۔ اگر اللہ توفیق دے تو زندگی کے چند ایام اس جماعت کے ساتھ ضرور گزاریں، ہوسکتا ہے تبلیغ دین کے لیے دیے ہوئے یہی چند ایام ہماری بخشش کا سبب بن جائیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں