قرآن و سنت اور اجماع سے ثابت احکام میں تبدیلی ناقابل قبول

قرآن و سنت اور اجماع سے ثابت احکام میں تبدیلی ناقابل قبول

اسلامک فقہ اکیڈمی ہندوستان کی واحد ایسی اکیڈمی ہے جو مختلف ملی، سماجی ،معاشرتی، معاشی اور طبی مسائل پر اپنے سیمینار منعقد کرتی ہے۔
اکیڈمی کا ستائیسواں فقہی سیمینار کاافتتاحی اجلاس ممبئی کے حج ہاؤس میں شروع ہوچکا ہے جس میں ہندوستان کے تین سو سے زائد علمائے کرام کے علاوہ مدینہ منورہ، انگلینڈ ،افغانستان، بنگلہ دیش ،ساوتھ افریقہ اور ترکی کے اسلامی اسکالر شریک ہیں۔ اکیڈمی عصری تعلیمی اداروں کے قیام؛ طلاق کے نئے مسائل وغیرہ جیسے اہم مسائل پر بحث و تحقیق کے بعد کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کرے گی اور امت اسلامیہ کے لئے متفقہ فیصلہ صادر کرے گی جس کی روشنی میں ان کا دینی سفر آگے بڑھے گا۔
یہ سیمینار ۲۷ نومبر کی شام اجلاس عام کے ساتھ اختتام پذیر ہوگا۔ اس اجلاس کو ملک کے نامورعلماءکرام خطاب کریں گے۔ افتتاحی نشست کی صدارت عظیم محدث اور دارالعلوم دیوبند کےمایہ ناز استاد علامہ نعمت اللہ اعظمی فرما رہے ہیں جبکہ یہ اجلاس مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر حضرت مولانا سیدمحمدرابع حسنی ندوی کی سرپرستی میں جاری ہے۔
اس افتتاحی اجلاس کا آغاز مدرسہ امدادیہ کے قاری الطاف کی تلاوت قرآن سے.ہوا نعت امدادیہ کے ہی طالبعکم.مولوی فاروق نے پیش کی. جبکہ مفتی عزیزالرحمن صاحب کا خطبہ افتتاحیہ مفتی جسیم الدین قاسمی نے پڑھ کر سنایا خطبیہ استقبالیہ مجلس استقبالیہ کے جوائنٹ سکریٹری مولانا شاہد ناصری حنفی نے پیش کیا.
اپنے افتتاحی خطاب میں اسلامک فقہ اکیڈمی کے سکریٹری حضرت مولانا عتیق احمد بستوی نے فرمایا کہ اسکام ایک زندہ مذہب اور قیامت تک ہیش آنے والے مسائل کے حل کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے ایک مسلمان کو دنیا کے کسی بھی قانون اور قانون ساز اداروں کی طرف دست سوال دراز کرنے کی ضرورت نہیں ہے قیامت تک پیش آنے والے مسائل کا حل اللہ کی کتاب اور رسول کی سنت مین موجود ہے ضرورت ہے کہ علماء غوروفکر اور تدبر کی نگاہ سے اسکا مطالعہ کرے اور امت کی دستگیری کا فریضہ انجام دے انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ مسائل سے اور ان کی حل کی کوشش کرنا علم کی ذمہ داری ہے.
مولانا بستوی نے سیمینار میں زیر بحث آنے والے اہم موضوع عصری تعلیمی ادارو‍ں سے متعلق شرعی مسائل کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ جس مذہب کی ابتدا اقرا سے ہوئی ہو وہ جہالت کو کسی بھی قیمت پر برداشت نہین کرسکتا لیکن ضروری ہے کہ تعلیم کی بنیاد اور اس کے نصاب کا رشتہ خدا سے جڑا ہوا ہو جو نصاب تعلیم انسانوں کا رشتہ خدا اور رسول سے کاٹ دے وہ لائق توجہ نہیں. اکیڈمی کے روح رواں اور جنرل سکریٹری حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے اپنے کلیدی خطاب میں ملک کے گوشے گوشے سے آئے ہوئے علما اور مفتیان کرام نیز بیرون ممالک سے تشریف لانے والے علما کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا اکیڈمی کا یہ سیمینار غالبا ہندوستان بھ کے اصحاب فکر علما وارباب افتا کا سب سے بڑا اجتماع ہوتا ہے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ادھر چند سالوں سے معمول ہے کہ زیر بحث فقہی مسائل پر غور کرنے کے علاوہ ملکی اور عالمی حالات کے پس منظر میں درپیش بعض فکری مسائل پر بھی توجہ دلائی جاتی ہے اس وقت اس طرح کے کئی اہم مسائل امت اور بالخصوص علماء امت کے سامنے ہیں؛ ان میں ایک اہم.مسئلہ یہ ہے کہ جب کوئی قوم مفتوح ہوتی ہے تو زمینی اور عسکری شکست آہستہ آہستہ اس کو ذہنی شکست تک ہہنچا دیتی ہے. اس کا اثر شکست خوردہ حکمرانوں ہر زیادہ ہوتا ہے. لیکن قوم کے اہل علم پر بھی کچھ کم نہیں ہوتا. اس وقت صورت حال یہ ہے کہ مغرب نے ایک ایسا عالمی نظام قائم کرلیا ہے جس کے ذریعے ملک و زمین پر قبضہ کرنے کے بجائے حکمرانوں اور ملک کی معاشی مسائل کو اپنے قابو میں کرلیا جاتا ہے. معاشی وسائل سے معاشی فوائد اٹھائے جاتے ہیں جیسا کہ اکثر مسلم ملکوں کا حال ہے.
انہوں نے مزید فرمایا کہ اللہ کا شکر ہے کہ اس دور میں ربانین کی کمی نہیں اور وہ شریعت کے اسی مزاج پر قائم ہیں جس ہر اسلاف قائم تھے لیکن مسلم ملکوں میں فیصلوں کی تائید و تقویت میں بعض اہل علم کا رویہ وہی ہے جس سے سلف صالحین بچتتے رہے ہیں. انہوں نے مزید فرمایا کہ جن افعال کی شریعت نے ایک خاص شکل متعین کردی ہو اور جو احکام منصوص یا اجماعی ہیں ان میں مقاصد اور مصالح کی بنا پر تبدیلی ناقابل قبول ہے یہ دین سے انحراف اور حدیث میں مذکور تاویل الجاہلین کا مصداق ہے ہے بدقسمتی سگ آج کل مقاصد کے نام پر تواتر نص صریح سے ثابت احکام اور اجماعی مسائل میں بھی تغیر کی بات کی جارہی ہے. یہ شکست خوردہ نفسیات کا نتیجہ ہے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں