توحید اور علمائے دیوبند

توحید اور علمائے دیوبند

نوٹ: دارالعلوم دیوبند کے صدسالہ اجلاس کی عدیم النظیر تقریب میں حضرت شیخ القرآن مولانا غلام الله خان رحمہ اللہ کا تاریخی خطاب۔

قابل صد احترام مشائخ عظام، علمائے کرام، معزز حاضرین و سامعین
سب سے پہلے بندہ نابکار، خدائے بزرگ و برتر کی بارگاہ میں دل کی گہرائیوں سے شکرگذار ہے، کہ اس ذات کبریا نے زندگی میں دوبارہ مجھے اس جگہ آنے کا شرف بخشا ہے، کہ جہاں میں گھر سے زیادہ موانست اور آرام و راحت محسوس کررہا ہوں،
من ز دیار حبیبم نہ از دیارِ رقیب
مہیمنا بہ رفیقان خود رساں بازم

اظہار تشکر:
اس کے بعد بندہ ناکارہ خلائق، ان حضرات والا صفات کی خدمت میں صدق دل سے ہدیہ تشکر پیش کرتا ہے، کہ جنہوں نے از راہ امتنان و احسان، یا اپنی ’’وسعت قلبی‘‘ اور ’’اعلی ظرفی‘‘ کا اظہار کرتے ہوئے، ایک ذرہ ناچیز کو آفتاب عالم متاب کی ضیا پاشیوں، ضو افشانیوں اور تابانیوں کو سمیٹنے کا موقع دیا، اور دارالعلوم دیوبند کے صد سالہ اجلاس کی تقریب سعید میں، کمترین کو بھی شرکت کی سعادت سے نوازا، وگرنہ
نہ گلم نہ برگ سبزم نہ درختِ سایہ دارم
ہمہ حیرتم کہ دہقان بہ چہ کارکشت ما را
خدائے بزرگ و برتر، اپنے بندوں پر نہایت مہرباں ہے، گویا میں اس کا ایک عاجز و درماندہ بندہ ہوں، لیکن مجھے اپنے ایک وصف پر فخر ہے، کہ میرا دل ہمیشہ اللہ تعالی کے برگزیدہ اور محبوب بندوں کی محبت و عقیدت کے لیے دھڑکتا ہے۔

خدایا یہ تیرے پر اسرار بندے:
اور میں شرح صدر کے ساتھ کہہ سکتا ہوں، کہ اس برصغیر پاک و ہند میں، اللہ تعالی کے مقبول اور محبوب بندوں کی جماعت ہے، تو وہ اکابرین علمائے دیوبند ہیں، جن میں حجۃ الاسلام حیثیت مولانا محمدقاسم نانوتوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی حیثیت، سیدالطائفہ یا سرخیل کی سی ہے، شاید میرے اسی جذبہ صادقہ کی وجہ سے خالق کائنات نے میری کم مائیگی اور بے بضاعتی کی لاج رکھ لی ہو کہ مجھے اس کے مقبول و محبوب بندوں سے والہانہ محبت ہے اور اسی محبت کو میں دنیا و عقبی کی سرخروئیوں کا پیش خیمہ سمجھتا ہوں،
اُحِبُّ الصّالِحِینَ وَ لَستُ مِنھُم
لَعَلَّ اللہَ یَرزُقُنی صَلاحاً
آج کی نام و نمودار اور ریا نمائش کی دنیا میں ہر طبقہ کے لوگ اسی دھن میں سرگردان ہیں کہ دنیا کی تاریخ میں ان کا نام بھی جلی سرخی سے آجائے اور وہ اس بے حقیقت ناموری اور شہرت کے لئے اپنے مال و زر حتیٰ کہ جان کی بازی بھی لگادیتے ہیں، لیکن اس دنیائے رنگ و بو میں ایسی نادرہ زمانہ اور نابغہ روزگار ہستیوں نے بھی جنم لیا ہے کہ تاریخ نے اپنے وجود کو قائم رکھنے کیلئے ان ہستیوں کی دہلیز پر جبہ سائی کی اور ان کے تذکار شریفہ اور حالات حمیدہ کو اپنے اندر سمیٹ کر اپنے دور کو محفوظ کرلیا گویا کہ یہ وہ ہستیاں ہیں جن کے پیچھے تاریخ کاسہ گدائی لئے پھرتی ہے، کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ میرا وجود اور دم خم اگر باقی رہ سکتا ہے تو انہی نفوس قدسیہ کے وجودِ مسعود سے رہ سکتا ہے اور یہی وہ ہستیاں ہیں کہ جن کو دیکھنے کیلئے چشم فلک متجسس رہتی ہے اور یہ نعمت اس کو خال خال نصیب ہوتی ہے۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

واہ میرے شیخ نانوتوی رحمہ اللہ:
انہی عبقری صفت ہستیوں میں ایک ہستی کا نام ہے بانی دارالعلوم دیوبند، حجۃ الاسلام قاسم العلوم ولخیرات، حضرت مولانا محمدقاسم نانوتوی صاحب رحمہ اللہ، جو اپنی جگہ مجسمہ شرم و حیا، پیکر صدق و صفا، علم و عرفان کا چشمہ صافی بلکہ بحر ذخار اور جرات و بسالت اور ہمت و استقلال کے جبل غیرمتزلزل تھے، ان کی زندگی کے اوصاف وکمالات کو، تقریر و تحریر میں اور قلیل در قلیل وقت میں سمیٹنا یا سمیٹنے کا دعویٰ کرنا ایسا ہے جیسا کہ ذرہ کو اس بات کا مکلف ٹھہرایا جائے کہ وہ آفتاب کی پہنائیوں کو اپنے اندر سمیٹ لے، چہ جائیکہ مجھ جیسا اس معدن علم و عمل اور مخزنِ اسرار و رموز کا ادنی خوشہ چین یہ جسارت کرے کہ:
ز وصفِ ناتمامِ ماجمالِ یار مستغیثت
بہ آب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را
اور اردو کا بھی ایک مشہور محاورہ ہے کہ: ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات۔

حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کا پہلا خواب:
چنانچہ حضرت مولانا محمدیعقوب صاحب نے فرمایا ہے کہ مولانا نانوتوی رحمہ اللہ نے ایام طالب علمی میں ایک خواب دیکھا تھا کہ میں کعبہ کی چھت پر ہوں اور مجھ سے بہت سی نہریں جاری ہو کر تمام اطراف کو جارہی ہیں۔

حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کا دوسرا خواب:
نیز آپ نے خواب میں دیکھا کہ میں کعبہ کی چھت پر ہوں اور میرا منہ کوفہ کی طرف ہے اور ادھر سے ایک نہر آتی ہے جو میرے پاؤں سے ٹکرا کر واپس جارہی ہے اگر ان خوابوں پر کوئی صاحب دانش و بینش ادنی سا غور کرے، تو حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کے زندگی بھر کے ان علمی اور عملی کارناموں کی جیتی جاگتی تصویر و تعبیر سامنے آجاتی ہے جو انہوں نے عشق و محبت سے سرشار ہو کر بقائے دین اور تحفظ دین کے لئے سرانجام دیئے ہیں۔

اے سرزمین دیوبند:
میرے محترم دوستو! دارالعلوم دیوبند کی بنیاد، اعدائے دین کے خلاف اسلام کی وکالت میں، مناظروں کی صورت میں، دلائل و براہین کی یلغار میں، اپنی تصانیف و تالیفات میں، متکلمانہ و منطقیانہ انداز میں اور فلسفیانہ ابحاث کا انبار لگانے میں، اپنے علمی و روحانی فرزندوں میں، مسلک حنفیت کی چار دانگ عالم میں، عقلی و نقلی تحقیق و ریسرچ کا ایک بحر ذخائر ہونے میں، وقت کے نماردہ فراعنہ اور جبابرہ کے خلاف بھرپور جذبہ جہاد میں، شہرت و للکار اور انہی خوابوں کے بہار کے خوشگوار جھونکوں کی صدائے بازگشت ہے۔
صحن چمن کو اپنی بہاروں پہ ناز تھا
وہ آگئے تو ساری بہاروں پہ چھا گئے
دنیا کا وہ کونسا کونہ ہے جہاں حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کے فرزندوں نے کفر و الحاد اور شرک و زندقہ کے خلاف اسلام کی صداقت اور حقانیت و سطوت اور حشمت کے جھنڈے نہ گاڑے ہوں، میرے اس دعویٰ میں سر مو مبالغ کی آمیزش نہیں اور نہ ہی اس دعوی کی تائید کے لیے کسی وزنی سے وزنی دلیل کی متلاشی ہے، دنیائے عالم سے آنے والے مشائخ عظام، علمائے اسلام اور فضلائے کرام کا یہ جم غفیر اور ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر اور یہ ایک عظیم الشان اجتماع میرے اس دعوی کے لئے بین ثبوت اور واضح دلیل ہے اور حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کی جہد مسلسل اور عمل پیہم کے یہ ثمرات دیکھ کر ایک شخص والہانہ اور بے ساختہ پکار اٹھتا ہے
شاد باش و شاد زی اے سرزمین دیوبند
ہند میں تو نے کیا اسلام کا جھنڈا بلند

روشنی سے محروم ستارے:
میرے دوستو! دنیا میں کئی یونیورسٹیاں معرض وجود میں آئیں بعض تو محض دنیا کے لئے اور بعض بظاہر اسلام کے لئے ان اداروں سے ہمیں کیا امید کی کرن نظر آسکتی ہے جن کی بنیاد ہی دنیا پر ہو اور ستم ظریفی کی بات تو یہ ہے کہ جو مراکز اسلام کی نمائندگی کیلئے تعمیر کئے گئے تھے ان میں سے بھی اس زمانہ میں ایسے گل پرزے منظر عام پر آئے کہ جن کا اسلام کی فیکٹری سے تیار کردہ کل پر زوں سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا اور ’آنکہ خود گمراہ اس کرا رہبری کند‘ کا بعینہ صدق تھے۔ ایک اور شاعر کی شاعری اس پر صادق آتی ہے کہ:
دکھا سکیں جو نہ راہ منزل میں ان اشاروں کو کیا کرونگا
جو خود ہوں محروم روشنی سے میں ان ستاروں کو کیا کرونگا
لیکن دارالعلوم دیوبند ہے جس کی بنیاد حضرت نانوتوی رحمہ اللہ نے رکھی، ایسے جواہر نایاب اس صفحہ ہستی پر نمودار ہوئے کہ جن کی آب و تاب اور چمک دمک سے اہل جہاں کی آنکھیں خیرہ ہوگئیں اور وہ بہ زبان حال پکار اٹھیں
اگر چہ میکدہ سے اٹھ کے چل دیا ساقی
وہ مے‘ وہ خم‘ وہ صراحی وہ جام باقی ہے

میری امیدوں کا چمن:
ان شاء اللہ العزیزی حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کی زندہ تابندہ اور درخشندہ یادگار، دارالعلوم دیوبند ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اور عالم انسانیت کیلئے چراغ راہ اور مینارہ نور ثابت ہوتی رہے گی اور یہ سب حضرت نانوتوی کے خلوص و للہیت اور ایثار و قربانی کا فیض ہے کیونکہ اس چمنستان علم و عرفان اور اس کے سدابہار پودوں کو انہوں نے اپنے جگر کا خون دے کر سینچا تھا اور اللہ تعالی نہایت قدردان ہے اپنے کسی مخلص بندے کی، محنت کو ضائع نہیں فرماتا، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے ’’ان اللہ لا یضیع اجر المحسنین‘‘ بیشک اللہ پاک کسی کے اجر کو ضائع نہیں کرتے۔
حضرت نانوتوی رحمہ اللہ اقبالؒ کے الفاظ میں اس دعا اور خواہش کے ساتھ عالم آخرت کو سدھارے:
پھلا پھولا رہے یا رب چمن میری امیدوں کا
جگر کا خون دے دے کے یہ بوٹے میں نے پالے ہیں

اسلام فروش کون؟
شیطان نے اپنی فتنہ پردازی اور دسیسہ کاری کے گوناگوں اور بوقلموں جال بچھائے اور اپنے مکر و فریب اور دجل و تلبیس کی تکمیل میں، مختلف اندازوں اور طریقوں سے فرق باطلہ کو جنم دیا، کہیں تو برٹش گورنمنٹ جیسی ظالم اور اسلام دشمن حکومت کو قادیانیت کی صورت میں بیساکھی فراہم کی، کہیں آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت یافتہ اور فیض یافتہ اسلام کی نمائندہ جماعت حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عدالت و ثقاہت کو ساقط کرنے کیلئے رفض و شیعیت اور تجدید سبائیت کے فتنوں کو جنم دیا اور توحید و سنت کے انوار و تجلیلات سے مسلمانوں کو دور رکھنے کیلئے خوشامدی، کاسہ لیس، حاشیہ بردار، ٹوڈی قسم کے مولویوں، اور پیران پارسا کی ایسی فوج انگریز لعین کی آغوش میں تیار کی کہ جنہوں ن ے شرک و بدعت کی نجاست و غلاظت سے عوام الناس کے قلوب و اذہان کو ملوث کردیا اور اپنے انگریز آقا کو خوش کرنے کیلئے داعیان توحید و سنت کے خلاف ایک طوفان بدتمیزی برپا کردیا۔

سرفروشان اسلام:
آقائے نامدار، فخر موجودات، سرور کائنات، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و ارشادات سے اعتماد اٹھانے کیلئے فتنہ انکار حدیث کی آبیاری کی دہریت، عیسائیت اور آریہ و غیرہ کے فتن اس سے مستزاد تھے لیکن فتنہ و فساد اور الحاد و زندقہ کی ان آندھیوں اور طوفانوں میں حضرت نانوتوی رحمہ اللہ اور فرزندان نانوتوی رحمہ اللہ نے احقاق حق اور ابطال باطل کے چراغ روشن کئے ہیں، اور ایسے مردانہ واران فتنوں کا مقابلہ کیا کہ ہر فتنہ کی سرکوبی اور بیخ کنی کے لئے سردھڑ کی بازی سے بھی دریغ نہیں کیا اور اس طرح فرزندان حضرت نانوتوی کے حق کے مسلسل ہتھوڑوں سے ہر فتنہ کا سر پاش پاش ہوگیا،
آئین جواں مرداں حق گوئی و بے باکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
حضرت نانوتوی کے مناظروں کی تحریری دستاویزات اور بیش بہا تصانیف و تالیفات اور ان کے روحانی فرزندوں کی علمی اور قلمی خدمات اس قدر ہیں کہ علوم اسلامیہ کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جہاں ان ہستیوں نے خامہ فرسائی کی ہو اور اسلام کی قابل قدر خدمت کی جھلک نہ دکھائی ہو، تراجم قرآن مجید ہوں، تفاسیر قرآن مجید ہوں، صرف اور نحو کے علوم ہوں، منطق اور فلسفہ کے علوم ہوں، ذخیرہ احادیث کی شروح ہوں، فتنہ اور اصول فقہ کے علوم ہوں، غرض یہ کہ علمی تحقیق کے ہر میدان میں اپنی مہارت و حذاقت کے پرچم لہرائے ہیں بلکہ ان کتابوں پر شروح و حواشی لکھ کر ہر اشکال اور ابہام و اغلاق کو دور کر کے تمام اہل علم اور اصحاب تحقیق پر احسان کیا چنانچہ حضرت نانوتوی رحمہ اللہ اور فرزندان حضرت نانوتوی کے علمی کارنامے دیکھ کر ہر مسلمان کا سر فخر و مباہات سے اونچا ہو جاتا ہے اور دارالعلوم دیوبند کا ہر عقیدت مند غیر کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر اس کو للکار سکتا ہے کہ:
أولئکَ اٰبائی فَجِءُنی بِمثلھِم
اذا جَمَعتُنا یا جَرِ یُرُ المَجَامعُ

ہمارا درس نظامی:
میرے دوستو! ہمارے درس نظامی میں دو قسم کے علوم و فنون کی تعلیم و تعلم کا سلسلہ جاری ہے: مبادیات کے درجہ میں اور مقاصد کے درجہ میں۔
مقاصد کے درجہ میں تو ظاہر ہے کہ قرآن و حدیث اور فقہ اسلامی کی تعلیم ہے اور مبادیات میں پھر دو قسم کے علوم ہیں: صرف اور نحو، ادب اور معانی۔
یہ مبادیات ہیں جو ’’ایصال الی المطلوب و المقصود‘‘ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں اور علم منطق و فلسفہ وہ مبادیات ہیں جو یا تو ’’تشحیذ اذھان‘‘ کیلئے پڑھائے جاتے ہیں یا ان علوم کی راہ سے جو غیراسلامی نظریات ہمارے علوم اسلامیہ میں بھی سرایت کر گئے تھے، تو ان علوم کا دفعیہ اور ازالہ انہی علوم کے قواعد و ضوابط کی رو سے کرنا مقصود تھا۔لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ بعض نام نہاد اسلامی درسگاہوں میں اسی منطق و فلسفہ کی تعلیم کی اشاعت و اذاعت کو ہی اسلام کی خدمت سمجھ لیا گیا تھا اور سارا زور مقصود سے بے گانہ ان علوم پر لگایا جاتا تھا اور ان درسگاہوں میں قرآن و حدیث و فقہ اسلامی کی تعلیم آٹے میں نمک کی نسبت بھی نہ رکھتی تھی۔

بحرالعلوم حضرت نانوتوی رحمہ اللہ:
حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی صاحب صرف ان علوم کے ماہر و حاذق ہی نہیں تھے بلکہ وہ ان علوم کے بہترین نقاد ہونے کے باوجود ان کی کمزوریوں اور کثافتوں کے عظیم تریاق بھی تھے بلکہ میں اگر یوں کہہ دوں تو بے جا نہ ہوگا کہ اگر بوعلی سینا بھی حضرت نانوتوی کی منطق کو دیکھتا تو سر دھنے بغیر نہ رہ سکتا، اس کے سامنے ارسطو و افلاطون کی ذہانت بھی ہیچ نظر آتی ہے۔ بعض مناطقہ و فلاسفہ کے غلو سے جو غیراسلامی نظریہ مسلمانوں میں رواج پکڑ رہے تھے، حضرت نانوتوی رحمہ اللہ نے ہر باطل اور غیراسلامی نظریہ کو عقلی و نقلی دلائل و براہین میں لا کر اور منطقیانہ و فلسفیانہ بحث و تمحیص سے انہیں بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکا ہے چنانچہ فلاسفہ کے ان خیالات ضعیفہ و سخیفہ پر حضرت نانوتوی رحمہ اللہ نے جو علمی وار کئے ہیں، وہ ان کا ہی حصہ ہے، وہ نظریات واہیہ یہ ہیں: ہیولیٰ، صورت جسمیہ اور صورت نوعیہ، یہ سب قدیم ہیں
أن الفَلَکَ لاَ یُقبَلُ الخَرقُ و الا لتیام
الواحد لا یُصدِر عنہ الا الواحد

باقیات و صالحات شیخ نانوتوی رحمہ اللہ:
عقول عشرہ اور عقل فعال کی اصطلاح میں صفات باری تعالی قدیم ہیں اور ’’لا عینَ و لا غیرَ‘‘ جیسے ادق سے ادق مسائل کو مثالوں سے واضح فرمایا ہے کہ ایک نظری چیز کو بھی بدیہی بنادیا ہے، اللہ تعالی کا شکر ہے کہ حضرت نانوتویؒ اپنی اس دقت نگاہی کے وارث بھی چھوڑ گئے، چنانچہ شیخ الاسلام مولانا شبیراحمد عثمانی رحمہ اللہ کی تصنیفات اور حکیم الاسلام مولانا قاری محمدطیب رحمہ اللہ کے علمی نوادرات و تحریرات اسی نانوتوی مزاج و مزاق کے مظہر اتم ہیں
ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ را
عربی کا مشہور جملہ ہے ’’الولدُ سِرّ لابیہ‘‘ اگر حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کے ’’تبحُر‘‘ علمی کی جھلک دیکھنی ہو تو ان کے روحانی فرزند خاتم المحدثین علامۃ العصر مولانا محمدانور شاہ صاحب کشمیری رحمہ اللہ کا علو مقام ملحوظ خاطر رکھیئے۔

خاتم المحدثین شیخ کشمیری رحمہ اللہ:
حضرت مولانا سراج احمد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ مولانا محمد انور شاہ صاحب کشمیری رحمہ اللہ کے کیا کہنے کہ یہ تو بخاری اور دوسری کتب احادیث کے تدریسی فن میں اس طرز کے موجد ہیں اور ان کا منفرد اور یگانہ انداز آپ کو کہیں بھی نہیں ملے گا۔ حضرت الاستاذ حضرت شاہ صاحب صرف منقولات میں ہی اپنی مثال آپ نہیں تھے بلکہ میدان علم کے ہر شعبہ میں وہ ایک ماہر اور کامل شیخ و استاد کی حیثیت رکھتے تھے۔

ایک علم نحو کا مشکل مقام:
چنانچہ مفعول معہ کے بارے میں متن متین اور رضی و غیرہ جیسے بڑے بڑے مشاہیر نحاۃ یہ لکھ چکے ہیں کہ مفعول معہ کا ان کو ثبوت نہیں ملتا لیکن حضرت الاستاد مولانا محمدانور شاہ کشمیری نور اللہ مرقد نے اٹھ کر واؤ عاطفہ اور واو مفعول معہ کا واضح فرقی پیش کر کے تمام دنیائے نحو کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا اور آپ نے اس آیت میں ’’ قُلْ فَمَن يَمْلِكُ مِنَ اللَّـهِ شَيْئًا إِنْ أَرَادَ أَن يُهْلِكَ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ وَمَن فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا وَلِلَّـهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَاللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ‘‘ (سورۃ المائدہ: ۱۷) مفعول معہ کے وجود و ثبوت کو ایسا نکھار کے بتادیا کہ کوئی شخص داد دئے بغیر نہ رہ سکا، اگر وقت ہوتا تو تفصیل عرض کرتا۔

میدان جنگ میں:
چنانچہ حضرت نانوتوی رحمہ اللہ ایک درسگاہ کے محض بانی اور معلم و مدرس ہی نہ تھے، بلکہ آپ امام المجاہدین شاہ حضرت اسمعیل شہید رحمہ اللہ کی ڈگری پر چلنے والے ایک مجاہد بھی تھے، چنانچہ شاملی کا میدان ان کے عملی جہاد پر شاہد عدل ہے، انگریزی حکومت کا تختہ الٹنے کیلئے اور وطن عزیز کو ان سامراجیوں سے پاک کرنے کیلئے میدان کار زار میں مجاہدین کا جو ہر اول دستہ نظر آتا ہے، وہ فرزندان نانوتوی پر مشتمل ہے، اور وہ کونسی اذیت اور مصیبت ہے، جوان مجاہدین نے آزادی کی خاطر انگریزوں کے ہاتھوں نہیں اٹھائی اور برصغیر کے قیدخانے ان مجاہدین کے صبر و استقلال کے گواہ ہیں۔
مالٹا کا قیدخانہ حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ اور شیخ العرب و العجم حضرت مولانا سیدحسین احمد مدنی رحمہ اللہ اور مولانا محمد عزیز گل کے دور اسارت کی زندہ یادگار ہے
بنا کردند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را

خلاصہ:
آخر میں اپنی علمی بے بضاعتی اور کم مائیگی کا دوبارہ اعتراف کرتے ہوئے بطور اعتذار اس شعر پر حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کے ذکر خیر کو ختم کرتا ہوں:
دامانِ نگہ تنگ و گل حسن تو بسیار
گل چین بہارِ تو ز دامان گلہ دارد
۔۔۔ و ما علینا الا البلاغ۔۔۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں