سنی علمائے کرام نے بلوچستان کی ممکنہ تقسیم کے خلاف آواز اٹھائی

سنی علمائے کرام نے بلوچستان کی ممکنہ تقسیم کے خلاف آواز اٹھائی

زاہدان (سنی آن لائن) صوبہ سیستان بلوچستان کے مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام نے صوبے کی ممکنہ تقسیم کے پلان کو مسترد کرتے ہوئے اس کے بجائے عوام پر اعتماد اور پسماندگی دور کرنے پر زور دیا ہے۔
سنی آن لائن کی رپورٹ کے مطابق، گزشتہ جمعے کو شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید کے واضح موقف سامنے آنے کے بعد جس میں بلوچستان کی حدود کی حفاظت پر زور دیا گیا تھا، دیگر علمائے کرام نے بھی ایسی تقسیم کے خلاف آواز اٹھائی۔
جامعہ الحرمین الشریفین چابہار کے سینئر استاذ مولانا خدابخش اسلام دوست نے ’سنی آن لائن‘ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا: میرے خیال میں بلوچستان کی تقسیم کے بجائے، اس کے پرانے علاقے جو بلوچستان ہی کے حصے تھے اور بعد میں پڑوسی صوبوں میں ضم ہوگئے ہیں، انہیں واپس بلوچستان کا حصہ بنادینا چاہیے۔
مولانا اسلام دوست نے صوبہ سیستان بلوچستان کی عدم ترقی کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا: ترقی و خوشحالی یہاں ناپید ہے، اس کی وجہ صوبے کی وسعت نہیں ہے، اصل بات یہ ہے کہ لوگوں پر بھروسہ نہیں کیا جاتاہے اور امتیازی پالیسیوں کا راج قائم ہے۔ دو یا تین صوبوں کا بجٹ ہمیں دیا جائے اور ہم پر بھروسہ کیا جائے، پھر غربت و پسماندگی کا خاتمہ ہوگا۔
ضلع چابہار کے رمین ٹاون کے خطیب نے مزید کہا: جو عناصر بلوچستان کی تقسیم کی بات کرتے ہیں، دراصل وہ بلوچ قوم کی تقسیم اور ہماری شناخت مٹانے کی کوشش کررہے ہیں اور یہاں مزید غیرمقامی لوگوں کی بھرتی کے لیے نئے صوبے بنانا چاہتے ہیں۔

دریں اثنا، سراوان کے ممتاز عالم دین اور خطیب مولانا عبدالصمد ساداتی نے سیستان بلوچستان کی تقسیم کو مختلف مسالک و قومیتوں کے درمیان اختلاف پیدا کرنے کے باعث قرار دیا۔
ندائے سنت ویب سائٹ نے ان کا بیان شائع کرتے ہوئے رپورٹ دی، مولانا ساداتی نے کہا ہے صوبے کے معاشی مسائل کا حل اس کی تقسیم میں نہیں ہے۔ اصل میں حکام نے یہاں توجہ نہیں دی ہے اور مناسب منصوبہ بندی ناپید ہے۔
انہوں نے صوبے کی ممکنہ تقسیم کو ’عوام کی خواہش کے خلاف‘ اور ایک ’نامعقول‘ کام یاد کرتے ہوئے ’پس ماندگی‘، ’تنگ نظری‘ اور ’امتیازی پالیسیوں‘ کی اصلاح پر زور دیا۔

ہماری اصلی شناخت ’بلوچستان‘ ہی ہے
ایرانشہر کے مشہور عالم دین مولانا محمد طیب ملازہی نے بھی اپنے ایک خطاب میں سیستان بلوچستان کی ترقی کو ’امتیازی رویوں‘ کے خاتمے اور ’ظلم‘ ختم کرنے سے ممکن قرار دیا۔
جامعہ شمس العلوم کے مہتمم نے کہا: اس صوبے میں تمام مسائل کی جڑ عدم مساوات اور ناانصافی ہے۔ یہاں ترقی اس وقت آئے گی جب انصاف نافذ ہو اور تمام مسالک و قومیتوں پر یکساں توجہ دے کر اہلیت کی بنیاد پر لوگوں سے کام لیا جائے۔
مولانا محمد طیب نے زور دیتے ہوئے کہا: بلوچستان ہماری اصل شناخت ہی ہے۔ ہم کسی صورت میں اپنی شناخت کھونے اور بلوچستان کے نام تبدیل ہونے پر رضامند نہیں ہوں گے۔

بلوچستان کا نام مٹنے نہیں دیں گے
ایران کے شمالی صوبہ گلستان سے تعلق رکھنے والے ممتاز عالم دین مولانا محمدحسین گورگیج نے بھی کہا ہے غربتوں اور پس ماندگیوں کی بیخ کنی صوبوں کی تقسیم سے ممکن نہیں ہے۔
انہوں نے کہا: سیستان بلوچستان کی تقسیم ہمارے لیے ناقابل قبول ہے۔ جس طرح ملک کی تقسیم ہمارے لیے ناپسند ہے، اسی طرح صوبوں کی تقسیم بھی ناقابل قبول ہے۔ بلوچستان ہماری تاریخ اور شناخت کا ناقابل انکار حصہ ہے اور کسی بھی صورت میں بلوچستان کا نام مٹانے کی اجازت نہیں دیں گے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں