روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کیوں؟

روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کیوں؟

مغربی استعمار اور اس کے ہمنوا ایک عرصہ سے مسلم ممالک میں انتشار، خلفشار اور نقصِ امن کی صورت حال پیدا کر کے انہیں عدم استحکام سے دو چار کرنے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔افغانستان، عراق، لیبیا، تیونس، الجزائر، یمن اور شام جیسے ممالک ان کی واضح مثالیں ہیں، بلکہ اب تو یوں لگتا ہے کہ اس کی لڑائی صرف مسلم ممالک تک محدود نہیں، بلکہ جہاں بھی مسلمان رہتے ہیں اور اس خطہ سے استعمار کے مفادات وابستہ ہیں تو وہاں بھی وہ مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر، انہیں زندہ جلا کر اور ان کی بستیوں کی بستیوں کو خاکستر کرا کر مسلمانوں کو وہاں سے بے دخل کر رہا ہے۔
برما حکومت بظاہر بدھسٹ مذہب کی پیروکار ہے اور اس کے مذہب میں انسانی قتل تو دور کی بات ہے، بلکہ کسی ذی روح جاندار کو مارنا بھی ظلم سمجھا جاتا ہے، لیکن آج وہاں کی افواج اور بدھ مت کے پیروکار شدت پسند، روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام کر رہے ہیں۔ فورسز کی جانب سے برمی مسلمانوں کے سر قلم کیے جارہے ہیں، ان کے اعضاء کاٹ کر اور انہیں اذیتیں دے دے کر موت کے گھاٹ اُتارا جارہا ہے، زندہ انسانوں پر پیٹرول چھڑک کر انہیں آگ کے منہ میں ڈالا جاتا ہے اور ان کی لاشوں کو جلا کر راکھ کیا جار ہا ہے۔ یہ صرف اب مسلمانوں کا مسئلہ نہیں رہا، بلکہ انسانیت کی تذلیل کی بدترین مثال دنیا کے سامنے پیش کی جا رہی ہے۔
ابتداءً الیکٹرانک میڈیا خاموش تماشائی بنا ہوا تھا، لیکن جب روہنگیا کے مظلوم مسلمانوں پر ظلم و بربریت، ان کے قتل اور ان کے جلانے کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر آنے لگیں تو ان کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا کچھ کچھ احساس ہونے لگا اور اس میڈیا کی چھلنی سے چھن چھنا کر جو خبریں باہر آرہی ہیں‘ ان کے پڑھنے اور سننے سے ہی ایک عام انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
برطانوی میڈیا کے مطابق ’’مقامی افواج اور شدت پسندوں نے مسلمانوں کے قتل عام کے بعد شواہد مٹانے کے لیے لاشوں کو جلانا شروع کردیا۔ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف تشدد کی نگرانی کرنے والے ایک گروپ کے وکیل ’’کریں لیوا‘‘ کے مطابق رتھیڈونگ کے ایک علاقے میں ۱۳۰مسلمانوں کو بے دردی سے شہید کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ تین دیگر دیہاتوں میں بھی درجنوں افراد کو قتل کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ سیکورٹی فورسز مسلمان اکثریتی دیہاتوں کو گھیرے میں لے کر انہیں اندھا دھند گولیوں کا نشانہ بنا رہی ہیں، جب کہ ان سفاکانہ کارروائیوں میں بدھ مت کے شدت پسند اُن کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں۔‘‘ (روزنامہ جنگ کراچی، ۵؍ ستمبر ۲۰۱۷ء)
اس ظلم و ستم، قتل و قتال اور آگ و بارود سے بچ کر جو لوگ وہاں سے نکلنے میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں تو قریب ترین اسلامی ملک بنگلہ دیش میں پناہ کی تلاش میں آتے ہیں تو آسانی سے ان کو بنگلہ دیش میں داخل نہیں ہونے دیا جاتا۔
اللہ تعالی جزائے خیر دے ترکی کے موجودہ صدر جناب طیب اردگان کو جنہوں نے امتِ مسلمہ کی طرف سے فرض کفایہ ادا کرتے ہوئے واضح انداز میں بنگلہ دیش کو کہا ہے کہ آپ انہیں اپنے ملک میں پناہ لینے دیں، ان کے تمام اخراجات ترکی حکومت برداشت کرے گی۔ مزید یہ کہ ان مظلوم مسلمانوں کی اَشک شوئی اور انہیں حوصلہ دینے کے لیے اپنی اہلیہ کو بھی امدادی ٹیم کے ساتھ روانہ کیا۔ اس پر انہیں جتنا بھی خراجِ تحسین پیش کیا جائے‘ کم ہے۔
الحمدللہ! ادھر پاکستانی حکومت اور عوام نے بھی ہر سطح پر صدائے احتجاج بلند کی ہے۔ صوبائی اسمبلیوں، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بھی ان روہنگیا مظلوم مسلمانوں کے حق میں قرار دادیں پاس کی گئی ہیں اور برما حکومت کی فورسز اور شدت پسندوں کے ان مظالم کی مذمت کی گئی ہے۔ قومی اسمبلی میں برما کے ان مظلوم مسلمانوں کے حق میں سب سے مؤثر اور توانا آواز جمعیت علمائے اسلام کے امیر حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے بلندی کی ہے، آپ نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’جناب اسپیکر! آج پوری قوم کے لیے اور ہمارے اس ایوان کے لیے نہایت اہم دن بھی ہے اور ایسے وقت میں جبکہ برما میں صوبہ اراکان کے روہنگیائی مسلمانوں پر ایک آزمائش ٹوٹ پڑی ہے، مجھے یاد ہے کہ پانچ سال قبل اسی ایوان میں‘ میں نے ایوان کو متوجہ کیا تھا، اس وقت ملک میں مکمل خاموشی تھی اور کسی طرح پر وہاں کے مظالم کا نوٹس نہیں لیا جارہا تھا، آج بہر حال اس حد تک تو بات قابلِ اطمینان ہے کہ پورے ملک میں ہر سطح پر ہر شعبۂ زندگی سے وابستہ لوگ روہنگیائی اراکانی مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں اور یہ ان کا ہمارے اوپر حق بھی ہے۔
پوری امت مسلمہ آزمائش سے گزر رہی ہے۔ نائن الیون سے لے کر آج تک افغانستان، عراق، لیبیا، شام، صومالیہ، مالی، یمن اور پاکستان اور اس کے بعد اب میانمار کی صورت میں جہاں جہاں مسلمان ہیں‘ وہاں وہاں آگ برس رہی ہے اور امت مسلمہ خون کے دریا عبور کر رہی ہے۔
جناب اسپیکر! سب کے جذبات یکساں ہیں، میں جو ابھی اسمبلی کے اجلاس میں آرہا تھا تو مجھے اپنے ساتھی جناب سینیٹر طلحہ محمود صاحب کا وائس مسیج ملا جو ’’کا کس بازار‘‘ تک پہنچے ہیں اور اس سے آگے بنگلہ دیش کی سرحد پر جو پناہ گزین پہنچے ہوئے ہیں، انہوں نے وہاں کی حالتِ زار کا جو نقشہ اپنے الفاظ میں کھینچا، یقین جانئے کہ وہ زبان پر لانے کے قابل نہیں ہے۔ لاکھوں لوگ اس وقت بے گھر ہوچکے ہیں، دیہاتوں کے دیہات جلادیئے گئے ہیں۔ خواتین، بچے ان کے جسموں کو جس طرح درختوں کے ساتھ لٹکایا گیا ہے، ان کے اعضاء جس طرح کاٹے گئے ہیں، یقین جانئے کہ دنیا میں مسائل پیدا ہوتے ہیں، ہر ملک کے اندر کے مسائل کے کچھ عوامل بھی ہوا کرتے ہیں، لیکن آج بہر حال برما کے مظالم کا نقشہ انسانیت کا مسئلہ بن گیا ہے، انسانی حق کا مسئلہ بن گیا ہے اور اس طرح انسانیت کی تذلیل ہو رہی ہے، جس طرح انسانیت وہاں رسوا ہو رہی ہے، میں نہیں سمجھتا کہ اگر آج یہاں کوئی ایک واقعہ ہوجائے تو ہمارا میڈیا بھی آسمان سر پر اُٹھالیتا ہے، پورا یورپ بھی آسمان سر پر اٹھالیتا ہے، پورا امریکہ بھی آسمان سر پر اٹھالیتا ہے۔ مسلمانوں کو دہشت گرد کہنے میں ایک لمحہ ضائع نہیں کرتے۔ اسلام اور امت مسلمہ کے خلاف پروپیگنڈا کرنا، ان کی غلط تصویر پیش کرنے کے لیے ایک واقعہ کی تلاش میں رہتے ہیں۔ آج وہاں لاکھوں انسان دربدر ہیں، ہزارہا انسانوں کے جسم ٹکڑے ٹکڑے کردیئے گئے ہیں، ہماری ماؤں، بہنوں، خواتین کی عصمت دری ہو رہی ہے، سرعام ان کو کلہاڑوں سے ٹکڑے ٹکڑے کیا جارہا ہے، خون دریا بن چکا ہے اور دریائے ناف کو عبور کر کے جب پہاڑوں میں آتے ہیں تو پہاڑوں میں وہاں ان کے کھانے کے لیے صرف درختوں کے پتے ہوتے ہیں، بڑے تو پتے کھالیتے ہیں، لیکن ان کے بچے بلک بلک کر ان کی آنکھوں کے سامنے مرجاتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں کہاں گئی وہ انسانیت؟ کہاں گئے وہ انسانی حقوق کے علمبردار؟ کس بل میں جا کر گھس گئے ہیں یہ لوگ؟ کیوں ان کی زبانیں آج گنگ ہوگئی ہیں؟ کیوں آج ان کو یہ انسانیت نظر نہیں آرہی ہے؟
میں ایوان کے نوٹس میں لانا چاہتا ہوں جناب اسپیکر! کہ برما کے اراکان صوبہ کی بھی اپنی ایک تاریخ ہے اور آج جس حالت میں وہ ہیں‘ برما کی حکومت نے باقاعدہ ایک قانون کے ذریعہ پورے صوبہ کے مسلمانوں کی شہریت ختم کردی ہے، اور اس وقت اراکان کی تمام آبادی جو بارہ لاکھ تک پہنچتی ہے‘ وہ اسٹیپ لیس ہیں۔ اس طرح بے سہارا کوئی نہیں ۔ ایک پورے صوبہ کو اور صوبہ کی پوری آبادی کی شہریت ختم کردی گئی ہے۔ پورا صوبہ اس وقت اس کا کوئی ملک نہیں ہے اور ان کی فوج ہے کہ آض ان انسانوں کو جن کو وہ برما کا شہری تسلیم نہیں کرتے، ان کو تہہ تیغ کرنا چاہتے ہیں، تا کہ نسل ختم کردی جائے اور اراکان کی زمین پر قبضہ کرلیا جائے۔ کتنی افسوس ناک صورت حال ہے! کیا کوئی نوٹس لے رہا ہے اس بات کا؟ کیا کسی کو اس بات کا احساس ہے؟
میں سمجھتا ہوں ہم دنیا کو بعد میں پکاریں، ہم اپنے ملک کو پکاریں، ہم اپنی حکومت کو پکارتے ہیں، ہم اپنے اربابِ اقتدار کو پکارتے ہیں، اپنی پارلیمنٹ کو پکارتے ہیں، اپنی مقتدر قوتوں کو پکارتے ہیں کہ آئیں! خدا کے لیے! آپ ہماری آواز بن جائیں، آپ ۲۱؍ کروڑ یا ۲۲؍ کروڑ پاکستانیوں کی آواز بن جائیں۔ میں آج یہ بات اپنے اس وطن عزیز سے کر رہا ہوں، اس مملکت خداداد سے کر رہا ہوں جس کی بنیاد دو قومی نظریہ پر رکھی گئی ہے۔ اگر ہندو کے مظالم کے نتیجہ میں پاکستان کا ٹکڑا حاصل کرنا ناگزیر تھا، اسی تصور، اسی نظریہ، اسی اصول کی بنیاد پر برما کے بدھسٹوں کے ہاتھوں مسلمانوں کی یہ تذلیل‘ کیا وہاں اراکانی مسلمانوں کی آزاد ریاست کا تقاضا نہیں کررہی؟ ایک مسئلہ ہے یہ۔ اس پر غور کرنا ہوگا ہمیں۔
کہیے جی! دہشت گردی کی بات ہے، دہشت گردی تو پاکستان میں بھی رہی ہے، لیکن وہ جنگ عوام کے ساتھ تو نہیں تھی، لوگ اپنے گھروں سے بے گھر ضرور ہوئے، لیکن آئی ڈی پیز کی صورت میں ان کو ایک پاکستان کے شہری کی حیثیت سے محترم تصور کیا گیا۔ ایک حکمت عملی تھی، کسی کو اس سے اختلاف ہوسکتا ہے، بوجوہ مجھے بھی اس پر تحفظات رہے ہیں، لیکن آج وہ گھروں کو واپس جارہے ہیں، صرف دہشت گردوں کو تنہا کرنے کے لیے۔ لیکن وہاں پر اگر شکایت دہشت گردوں سے ہے یا کسی دہشت گرد تنظیم سے ہے، لیکن اس کی سزا پوری قوم کو کیوں دی جارہی ہے؟ پوری کمیونٹی کو کیوں دی جارہی ہے؟ کیا یہ کہیں دنیا میں انصاف کا تقاضا ہے؟
میں یہ بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ برما کی وزیر اعظم آن سنگ سوچی انسانی حقوق کی علم بردار بھی رہی ہے، برما میں انسانی حقوق اور جمہوری حکومت کے قیام کے لیے اس کو اس جد و جہد کے نتیجہ میں نوبل انعام بھی دیا گیا، آج جب وہ ملک کی وزیراعظم بن گئی، اقتدار اس کے ہاتھ میں آگیا، آج اسی کی حکومت اور اسی کی فوج کے ہاتھوں پورے مسلمانوں کی نسل کشی ہو رہی ہے، انسانیت کا قتل ہو رہا ہے۔ سب سے پہلے تو ہمیں یہ مطالبہ کرنا چاہیے کہ جن عالمی اداروں نے ان کو نوبل انعام دیا تھا، وہ نوبل انعام اس سے چھین لیا جائے اور اس کو اس اعزاز سے محروم کردیا جائے، کیونکہ وہاں جو صورت حال ہے، اس صورت حال کے نتیجہ میں وہ اس کی حق دار نہیں ہے کہ وہ اس اعزاز کو مزید برقرار رکھ سکے۔
بنیادی مسئلہ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اگر سی پیک کی صورت میں پاکستان چین کے اقتصادی ویژن کا پہلا زینہ بنا ہے تو اب پاکستان نشانہ پر ہوگا۔ یہاں سیاسی بحران اب پیدا کیے جائیں گے، عدم استحکام پیدا ہوگا اور عدم استحکام کے لیے آغاز ایک سیاسی بحران سے کرنا چاہے گا۔ مجھے اس سارے مسئلہ میں کرپشن اور نواز شریف کی حکومت کا بچنا اور نہ بچنا‘ نظر نہیں آرہا، بلکہ مجھے پاکستان ایک بحران کی طرف اور سیاسی عدم استحکام کی طرف جاتا نظر آرہا ہے۔
آپ نے دیکھا اس فیصلہ کے بعد ٹرمپ نے جو پاکستان کو پیغام بھیجا، اس پیغام سے کیا یہ حقیقت سامنے نہیں آئی کہ وہ اس واقعہ کے بعد پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتا تھا؟! مجھے خوشی ہے کہ نائن الیون میں جہاں ہم جنرل مشرف کے اس فیصلہ کے خلاف تنہا نظر آرہے تھے، آج ہم تنہا نہیں ہیں، امریکہ کے حوالہ سے پوری قوم کی آواز ایک ہے۔
کسی زمانہ میں اسی ایوان میں‘ میں نے برما کے حوالہ سے تنہا بات کی تھی، آج مجھے خوشی ہے کہ آج ملک کا ہر طبقہ پورا ایوان ایک آواز میں بات کررہا ہے۔ ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ جو سی پیک کی صورت میں موٹر وے پاکستان سے گزر رہا ہے، چائنا سے تبت اور بنگلہ دیش کے راستہ سے برما کی طرف بھی منصوبہ ہے کہ عرب دنیا میں تیل بعد میں برآمد ہوا، ۱۸۵۳ء میں تیل برما کے اندر نمودار ہوا، اور معدنی وسائل کے سب سے بڑے ذخائر برما کے اندر ہیں اور اگر ون بلیٹ ون روڈ کے فلسفہ کے تحت برما کی طرف روڈ جائیں گے تو وہاں کے حالات آج جس نہج پر پہنچ گئے ہیں‘ صاف نظر آئے گا کہ اس کے پیچھے کس کا فلسفہ ہوسکتا ہے اور کونسی قوت ہے جو وہاں اس قسم کے حالات پیدا کرنا چاہتی ہے۔ ہم خود اس سے دوچار ہیں تو بہتر طور پر تجزیہ کرنے کی ہمارے اندر صلاحیت ہے کہ دنیا کو کہاں لے جایا جارہا ہے اور اس میں نشانہ صرف مسلمانوں کے بنایا جارہا ہے، تو اس پہلو کو بھی ہم نظرانداز نہیں کرسکتے۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ برما کے ساتھ چائنا کے بھی بہت اچھے تعلقات ہیں، چائنا گورنمنٹ کے ساتھ، برما کے ساتھ پاکستان کے بھی ملٹری ریلیشن بہت اچھے رہے ہیں اور ہیں۔ ہم خطہ میں اس تعلق کو اپنے مسلمان بھائیوں کے مفاد میں کیسے استعمال کرسکتے ہیں؟ اس کے لیے ہماری اسٹریجٹک پالیسی کیا ہونی چاہیے؟ اس کے لیے ہماری ڈپلومیٹک پالیسی کیا ہونی چاہیے؟ اس حوالہ سے پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنا کردار ادا کریں، ہماری آواز ہونی چاہیے۔
آج بنگلہ دیش بے گھر لوگوں کو بے وطن لوگوں کو راستہ نہیں دے رہا ہے۔ پہاڑوں میں، صحراؤں میں پڑے ہیں، خیمہ تک نہیں ہے وہاں پر، کیا ہماری حکومت اس پوزیشن میں نہیں کہ کم از کم اس موسم میں جو وہاں بارش برس رہی ہو اور کھلے آسماں تلے بچے بلک رہے ہوں، ان تک ہم کوئی سایہ نہیں پہنچاسکتے؟ کوئی سائبان نہیں پہنچاسکتے؟ کیا ہم وہاں ان کے لیے کھانے کا انتظام نہیں کرسکتے؟ مجھے جو پیغام آرہا ہے‘ وہ یہ ہے کہ: بنگلہ دیش کی حکومت بھی وہاں کسی خیراتی اور رفاہی ادارہ کو کام کرنے کی اجازت نہیں دے رہی ہے، مشکلات پیدا ہورہی ہیں، اس حوالہ سے پاکستان کو بطور ایک اسٹیٹ کے، خطہ کے ایک اہم کردار کے اپنا ایک کردار ادا کرنا ہوگا۔ اور پارلیمنٹ آج اپنی حکومت سے ذرا زور دے کر یہ کہے، تا کہ ہم کل سے اس پر اپنا کام شروع کریں اور ہم رابطے بڑھائیں اور بین الاقوامی سطح پر ہم ہر فورم پر اپنی آواز کو بلند کریں۔
او آئی سی کا اجلاس ہوچکا ہے۔ او آئی سی سے کوئی خیر کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ اور آئی سی خود آئی سی یو میں ہے۔ ہمیں اردگان کا کاردار ادا کرنا ہوگا۔ اردگان نے کہا ہے کہ بنگلہ دیش والو! اگر تمہارے اوپر بوجھ ہے تو تمام اخراجات ہم برداشت کریں گے۔ اردگان کی اہلیہ پہنچ چکی ہے وہاں پر۔ جو ہمارا حق تھا‘ وہ کوئی اور ادا کررہا ہے۔ جو ہم نے کرنا تھا‘ وہ کوئی اور کر رہا ہے۔ تو ان حالات میں ہمیں سوچ سمجھ کر اپنے اقدامات کی طرف جانا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔ ہم کسی ملک کے داخلی معاملات کی بات نہیں کر رہے، لیکن یہ بات ضرور کر رہے ہیں کہ جب انسانیت کا قتل عام ہوگا، پوری دنیا میں اس پر ایک تشویش ہونی چاہیے، ایک اضطراب ہونا چاہیے، ایک ہیجان ہونا چاہیے، اس پر ایک گفتگو ہونی چاہیے۔
تو یہ میری کچھ گزارشات ہیں کہ اس حوالہ سے ایک گفتگو کے بعد ایک جامع اور مضبوط قسم کی قرارداد ہو، یہ نہ ہو کہ بس نشستند، گفتند و برخاستند اور بس ایک روٹین کی قرارداد پاس کی، نہیں! حکومت کو پابند کرنا ہوگا کہ وہ فوری اقدامات کرے اور آج سے نہیں تو کل سے اس کے اقدامات کا آغاز ہوجانا چاہیے۔ اسٹرٹیجک لیول پر بھی اور سفارتی لیول پر بھی اور انسانیت کی بنیاد پر وہاں تک امداد پہنچانے کے لیے فوری اقدامات کی ہمیں ضرورت ہوگی۔ عالمی اداروں کو ہمیں جھنجھوڑنا ہوگا، ان کو بیدار کرنا ہوگا اور ان کے مرے ہوئے احساس کو اجاگر کرنا ہوگا۔ عالمی ضمیر جو اس وقت نیند میں خراٹے مار رہا ہے‘ اس کو جگانا ہوگا۔ یہ کردار پاکستان نے ادا کرنا ہے، ان شاء اللہ! قوم سڑکوں پر ہے، قول بول رہی ہے، اس وقت دنیا کے سو ممالک کا سوشل میڈیا بول رہا ہے، لیکن ہمارا جو الیکٹرانک میڈیا ہے جو ملک کی ریاستی پالیسیوں کے تحت چلتا ہے‘ وہ ابھی وہ حق ادا نہیں کر رہا ہے اس حوالہ سے۔ اس کو وہ حق ادا کرنا ہوگا! پرنٹ میڈیا کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا! پارلیمنٹ کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا! میرے خیال میں یہ حساس مسئلہ ہے اور اس حساس مسئلہ پر کوئی اختلافِ رائے نہیں ہے، لیکن جاندار گفتگو ہونی چاہیے اور جاندار طریقہ سے ہمیں اپنے اقدامات کو آگے لے جانا چاہیے۔ اللہ کرے کہ ہم ایک مضبوط قسم کے اقدامات کا فیصلہ کرسکیں اور آنے والے مستقبل کو، اپنے مستقبل کو بھی محفوظ کرنا ہے اور عالم اسلام کے دوسرے مظلوم مسلمانوں اور بالخصوص اس وقت جو روہنگیا اراکان کے مسلمان ہیں‘ ان کو بھی تحفظ دینا ہے۔ اس کے بغیر شاید ہم مسلمان ہونے اور اپنے عقیدے اور اسلام کا حق ادا نہیں کرسکیں گے۔ اللہ تعالی ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔‘‘
بالکل بجا فرمایا کہ: آج روہنگیا کے مظلوم مسلمانوں کے حق میں ’’ انسانی حقوق‘‘ کے نام نہاد اداروں کی آوازیں گنگ ہیں، انہیں نہ یہاں دہشت گردی نظر آتی ہے، نہ شدت پسندی نظر آتی ہے اور نہ ہی انسانیت کا کوئی مسئلہ نظر آرہا ہے، اس لیے کہ مرنے والے مسلمان ہیں۔ اگر مسلمانوں کے علاوہ کسی اور کا مسئلہ ہوتا تو فوراً اقوام متحدہ بھی اور دوسرے تمام ادارے متحرک ہوجاتے اور انہیں آزاد ملک اور آزاد وطن دلانے کے علاوہ کسی قیمت پر راضی نہ ہوتے۔ یہ ہے ان اداروں کا دوہرا معیار!
دوسری بات جو مولانا نے فرمائی کہ: اب خدا نخواستہ ہمارے پیارے ملک پاکستان کی طرف ان کی گندی نظریں لگی ہوئی ہیں، حالیہ حکومتی عدم استحکام اور بظاہر اداروں کے ٹکراؤ کا تأثر پیدا کیا جانا اس پالیسی کا حصہ ہی نظر آتا ہے۔ اس صورت حال میں چاہے وہ مذہبی جماعتیں ہوں یا سیاسی جماعتیں، صاحبانِ اقتدار ہوں یا عوام الناس، ہم میں سے ہر ایک کی ذمہ داری اور فرض بنتا ہے کہ ہم اپنے ملک پاکستان کی حفاظت اور استحکام کے لیے شش جہت اپنی آنکھیں کھلی رکھیں اور اپنی صفوں میں کسی ایسے آدمی کو نہ گھسنے دیں جو دشمن کا آلۂ کار بن کر پاکستان کے لیے نقصان کا باعث بنے۔ ہر ایک کو معلوم ہے کہ آج اگر پاکستان میں امن اور استحکام ہے تو یہ امن اور استحکام کافی قربانیوں کے بعد ہم سب کو حاصل ہوا ہے اور دشمن نہیں چاہتا کہ پاکستان میں امن اور استحکام ہو، اس کی کوشش ہوگی کہ کسی طرح ان کے اندر فتنہ و فساد اور لڑائی جھگڑے دوبارہ شروع ہوں۔ بہر حال جس استعمار کو اپنے مفادات کے لیے مسلمانوں کا خون پینے اور بہانے کا چسکا لگ چکا ہے، اس سے ہر وقت محتاط اور ہوشیار رہنا بہت ضروری ہے۔
ہم ایک بار پھر مطالبہ کرتے ہیں کہ: 1: اقوام متحدہ برما کے مظلوم و بے کس مسلمانوں پر تاریخ کے بدترین ظلم کے خاتمہ کے لیے اپنا کردار ادا کرے اور اس ظلم کو بند کروائے۔
۲: برما کے ساتھ چونکہ اسلامی ملک بنگہ دیش کا بارڈر لگتا ہے، اس لیے برمی مسلمان ہجرت کرکے بنگلہ دیش میں پناہ لینا چاہتے ہیں، لیکن بنگلہ دیش کی حکومت انہیں اپنے ملک میں داخل ہونے نہیں دے رہی، جس سے ہجرت کر کے بنگلہ دیش آنے والے برمی مسلمانوں کو سخت اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہم بنگلہ دیش حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ مشکل کی اس گھڑی میں برمی مسلمانوں کا ساتھ دیں اور پناہ حاصل کرنے والوں کو پناہ دیں۔
۳: مساجد کے ائمہ کرام اپنے جمعہ کے خطبہ میں برما کے مسلمانوں پر جو ظلم و ستم ڈھایا جارہا ہے، اس سے عوام کو آگاہ کریں۔
۴: پاکستان کی تمام مذہبی جماعتیں ایک قیادت پر متحد اور مجتمع ہوں، اس سے جہاں پاکستان میں دینی اور سوچ رکھنے والی عوام اکٹھے اور ایک بھاری قوت ثابت ہوگی، وہاں پوری دنیا میں بسنے والے مسلمانوں کو بھی اس سے تقویت اور ایک سہارا ملے گا۔ ہماری کمزوری یہ ہے کہ ہم انفرادی طور پر محنت اور کوشش کرتے ہیں، لیکن قیادت نہ ہونے کی بنا پر ہماری تمام تر کوششیں بے ثمر اور لاحاصل رہتی ہیں۔
ہم حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے سفارتی ذرائع استعمال کرتے ہوئے برما کے مسلمانوں کی مدد و نصرت کرے اور دوسرے اسلامی ممالک کو بھی اس طرف متوجہ کرے۔
پاکستانی مسلم عوام سے بھی درخواست ہے کہ برما کے ان مظلوم مسلمانوں کے حق میں اللہ تبارک و تعالی سے دعائیں بھی کریں اور دامے، درمے، قدمے، سخنے ان کی مدد و نصرت بھی کریں۔
مسلمانوں سے بھی ایک گزارش ہے کہ ہم میں ہر ہر فرد اپنے اعمال درست کرے، اپنے اللہ تعالی سے اپنا رابطہ مضبوط بنائے، عبادات کے ساتھ پختگی اور اخلاص کے ساتھ عمل پیرا ہو، گناہوں سے کنارہ کشی اور توبہ و استغفار کو اپنا وظیفہ بنائے۔ ان شاء اللہ! اس سے اللہ تعالی کی مدد متوجہ ہوگی اور مسلمانوں کے حالات درست ہوں گے۔
اللہ تبارک و تعالی روہنگیا کے مظلوم مسلمانوں کی مدد فرمائے، ان کے مسائل اور مصائب کو حل فرمائے، مسلمانوں کو اپنے مظلوم مسلمان بھائیوں کی مدد و نصرت کی توفیق عطا فرمائے اور پاکستان کو مزید مستحکم فرمائے۔ پاکستان کے امن اور استحکام کے لیے محنت کرنے والوں اور قربانی دینے والوں کو اپنے شایانِ شان جزائے خیر عطا فرمائے۔ ہمارے پیارے ملک پاکستان کو حاسدین کے حسد، شریروں کے شر اور فتنہ پروروں کے فتنوں سے محفوظ فرمائے، آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں