بچپن سہانا

بچپن سہانا

یہ وہ وقت تھا جب محلے کا کوئی بھی فرد، کسی کے بھی بچے کو کسی غلطی پر بلا جھجھک سرزنش کرسکتا تھا۔ خاندان کی پنچایت بھی اس پر کوئی مقدمہ نہ کرتی تھی اور یہی وہ وقت تھا۔۔۔ جب ہم دل میں یہ حسرت لیے پھرتے تھے کہ اللہ جی! کب ہم اتنے بڑے ہوں گے کے دروازے کی کنڈی پر ہاتھ پہنچ جائے گا یا الماری کی چھت پر جہاں اماں اپنے نعمت خانے کی چابیاں رکھتی ہیں؟
یہ وہ وقت تھا جب لالٹین اور دیا سلائی کی جلتی روشنی میں بھی اپنوں کا سایہ تک پہچان لیا جاتا تھا۔ ان کی آمد پر سردی گرمی سے بے نیاز کھلے صحن تلے ’اماں‘ لکڑیوں کے چولہے پر مزے مزے کے کھانے پکاتی تھیں۔
اور اس دور میں برتنوں کے انبار، کٹوریوں اور پلیٹوں کی نت نئی ورائٹیاں نہیں ہوتی تھیں، بلکہ اسٹیل یا المونیم کے پرات ہوتے تھے، جو ایک یا دو دہی تمام گھرانے کو کافی ہوتے تھے کیوں کہ مل بیٹھ کر کھانے کا رواج عام تھا۔
ہمیں یاد ہے کہ جب ابا شجاع آباد سے ایک مرتبہ ایک اسٹیل کا پرات لائے جس کے کناروں پر سرخ رنگ کے پھول بنے ہوئے تھے، اس میں ہم پانچ بہن بھائی اور اماں ابا آرام سے کھانا کھالیتے تھے، تو کتنے ہی لوگوں نے ویسا منگوانے کی خواہش ظاہر کی اور ابا بلا امتیاز ان سب کے لیے ویسا پرات لے آئے اور پیسے کی بات پر خوب غصہ ہوئے۔
ابا چڑ کر سرخ چہرے کے ساتھ بار بار کہتے:
’’بھلا اپنوں سے حساب کتاب کا ہے کا؟‘‘
یہ وہ دن تھے جب دل کدورتوں سے پاک ہوتے تھے، نہ صرف اپنوں کو بلکہ ’’غیروں‘ کو بھی بھائی سمجھا جاتا تھا۔
اور وہ دن بھی کتنا دکھ آمیز تھا جب ہمارے گھر کام کرنے والی ماسی جمیلہ کا نو سالہ بیٹا طاہر چچا خیردین کے ٹیوب ویل میں ڈوب کر فوت ہوگیا تھا۔ اف!۔۔۔ اللہ۔۔۔ اماں کو جب پتا چلا تو اماں دھاڑیں مار کر رونے لگی تھیں۔ اور اس دن ہمارے گھر کھانا نہیں پکاتھا۔ ہمارا گھر کیا سارا محلہ سوگوار تھا۔ اور چچا خیردین کے غم کا اندازہ لگانا تو محال ہی تھا۔ انہوں نے اسی دن مزدور بلوا کر ٹیوب ویل پاٹ دیا۔
ایسے ہی جب محلے کے امام صاحب صفی اللہ بارش کی وجہ سے پھسل کر اپنی ٹانگ تڑوا بیٹھے تھے، تو سارے محلے کے لوگوں کی پریشانی دیکھنے والی تھی۔ پورا ایک مہینہ پندرہ دن تک ان کے گھر اماں صبح و شام کھانے کی ٹرے سجا کر بھیجتی رہیں۔ ہم جب بھی وہاں کچھ دینے کے لیے جاتے وہاں محلے کے لوگ کچھ نہ کچھ دینے کے لیے ان کے گھر کے باہر کھڑے ہوتے تھے۔ کیوں کہ امام صاحب کی بیوی بچے کی پیدائش کے لیے اپنے میکے کئی ہوئی تھی۔ گھر میں امام صاحب کی بہن ان کی خاطر مدارت کرتی اور محلے والوں کی ہمدردی بھی الگ عروج پر رہی۔
ایک دن جب اماں، ماسی جمیلہ کو عید کے موقع پر کچھ نئے پرانے کپڑے جوتے دے رہی تھی اور وہ خوش خوش اپنے ٹانگ بھر جتنے لمبے تھیلے ہیں وہ سب سامان ڈال رہی تھی، تو ہم بھی خوشی اور جوش میں اپنے نئے کپڑے اور نئے جوتے لاکر ماسی جمیلہ کو دکھانے لگے۔ رنگ برنگی چوڑیاں، چھوٹا سا مخمل پرس، موتی ستاروں کے کام والا ہرے رنگ کا فراک، ایک ایک چیز کے بارے میں تفصیل بتاتے ہوئے ہم بے حد مسرور تھے، مگر ماسی جمیلہ کے جاتے ہی اماں نے ہمیں خوب سمجھایا اور ڈانٹ پلائی۔ وہ کہہ رہی تھی:
’’تم کیوں اپنے نئے کپڑے جوتے لا کر دکھانے لگی، ہوسکتا ہے اس غریب کے دل میں بھی حسرت آئی ہو۔ ننھی! ہر کوئی ہماری طرح یا ہم سے بڑھ کر نہیں ہوتا۔۔۔ ہر کسی کے حالات ایک جیسے نہیں ہوتے تم نے ایک غریب کا دل دکھایا۔۔۔ اب تمہارے لیے ضروری ہے کہ نان والوں کے طرف سے جو تمہارا عید کا جوڑا آیا ہے۔۔۔ وہ ماسی کی بیٹی شبانہ کو دے دو۔‘‘
اماں نے ہمیں اس قدر احساس اور ندامت دلائی کہ ہم نے اپنا وہ جوڑا تو کیا چوڑیوں اور پونیوں سے بھی آدھا سامان ماسی کی بیٹی کو دے دیا۔
انسانیت کی اتنی قدر ہوتی کہ ہم دیکھتے جو بھی کوئی ریڑھی والا گزرتا یا کچھ بیچنے والا ہانک لگاتا، تو اماں اس کے پاس گرمیوں میں پانی یا سردیوں میں چائے پوچھنے کے لیے ضرور بھجواتیں۔
اور نہ صرف اماں ہی بلکہ ہم دیکھتے کہ کبھی ٹین ڈبے والا بابا ماسی برکتے کے گھر کے باہر بیٹھا اچار روٹی سے لطف اندوز ہو رہا ہے، تو کبھی سبزی بیچنے والا چچا اجمل کی دکان میں بیٹھا بوتل پیتے ہوئے چچا کو دعائیں دے رہا ہے۔
ٹی وی کا دور دور تک نام و نشان تک نہ ہوتا تھا۔ حد تو یہ تھی کی ریڈیو پر جب ابا خبریں سنتے تھے تو بچوں کو قریب نہ پھٹکنے دیتے تھے کہ خبروں کے وقفے کہیں کہیں ساز چلائے جاتے ہیں۔ بچوں کے گم ہونے تو کیا، کسی کا پیسہ یا زیور چوری ہونے کا بھی سوال پیدا نہ ہوتا تھا۔
ایک دفعہ ابا کی خالہ زاد بہن کی شادی کے موقع پر اماں کا ان کے گھر میں سونے کا ہار کہیں گر گیا تو اماں شادی والے گھر میں یہ اعلان کر کے تسلی سے چلی آئیں کہ میری سونے کا مالا کہیں گر گئی ہے جس کو ملے میرے گھر بھجوادے، ننھی کے ابا باہر گھر لے جانے کے لیے بلا رہے ہیں۔
اور واقعی دوسرے دن انہوں نے کسی بچے کے ہاتھ ہار بھجوادیا اور اماں نے اسے شیلف میں رکھے اپنے زیور کے ڈبے میں رکھ دیا۔ اس دور میں اگر شادی والے گھر سے بھی مہمان بھوکے چلے آتے تو کوئی ہنگامہ نہ کھڑا ہوتا۔ بیٹی کی شادی پر کھانا کھانا عیب سمجھا جاتا تھا۔
ایک مرتبہ محلے میں کسی کی شادی کے موقع پر پانچ روپے گرے ہوئے ملے۔ پورے محلے کے ایک ایک گھر سے اس کے بارے میں پوچھا گیا۔ اللہ جانے اس کا مالک کون تھا؟ بالآخر کسی نے بھی اس کا مالک ہونے کا دعویٰ نہ کیا تو مجبوراً وہ پیسے فقیر کو دے دیے۔
ہمارے گھر میں واحد جس چیز کو تالا لگتا تھا وہ اماں کا نعمت خانہ تھا کیوں کہ ہمیں کچے چاول اور گڑ گھانے کی بڑی شدت سے لَت لگ گئی تھی، لہذا ہم سارا دن یہی کھانے کے چکر میں نعمت خانے کے گرد منڈ لاتے اور اماں ہماری صحت کی خرابی کے ڈر سے تالا لگادیتی اور گھنٹے گھنٹے بعد اماں کا یہ نعرہ ضرور سننا پڑتا:
’’اس نگوڑ ماری کی خاطر مجھے تالے چابے کا جھنجھٹ پالنا پڑا۔‘‘
صرف رات کو دروازے کی کنڈی لگائی جاتی۔ صرف نام کی کنڈی۔۔۔ اور وہ بھی اکثر بھول ہی جاتی تھی۔
اماں ابا کیا تمام گھروالوں کا یقین تھا کہ جس گھر میں نماز، روزوں اور دیگر فرائض و غیرہ کا ناغہ نہ ہوا اس گھر میں آفت اور بلائیں نہیں آسکتی۔ چوں کہ اس زمانے میں نمازوں اور روزوں کی عبادت کا، کپڑوں اور کھانے کے اہتمام سے کہیں بڑھ کر اہتمام ہوتا تھا، لہذا چور ڈاکوؤں کا خدشہ سیدھے سادے لوگ نہیں رکھتے تھے۔ اس وقت تو گلی کے کتے بلیوں کی بھی میزبانی ہوتی تھی۔ حتی کہ اماں صبح و شام ہمارے لیموں کے درخت تلے بڑی یاد دہانی سے روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ڈالتی تھیں کہ آیا کہیں پرندے بھوکے نہ رہے ہوں۔
بجھ گئے کتنے شبستان محبت کے چراغ
محفلیں کتنی ہوئیں شہر خموشاں، کہیے!
اماں کہتی تھیں کہ ہر کسی کے حالات ایک جیسے نہیں ہوتے۔ ہر کوئی ہماری طرح نہیں ہوتا تو ہم سوچتے کیا اماں سچ کہتی ہیں؟ یہ جو ہم دو آنے والی کہانیاں پڑھتے ہیں، ان میں بچپن کے لفظ کے ساتھ کیوں لکھا جاتا ہے۔ جب سب لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے تو سب کا بچپن ایک جیسا سہانا کیسے ہوجاتا ہے؟ کسی کا بچپن ڈراؤنا کیوں نہیں ہوتا؟ اس دن ماسی جمیلہ اور اماں بھی کیسے اپنے اپنے بچپن کے حسین دور کو یاد کرتے ہوئے آبدیدہ اور رنجیدہ لگ رہی تھیں!
لیکن آج جب ہماری عمر کی ساٹھ دہائیاں گزر چکی ہیں تو ہمیں سمجھ آیا کہ اماں سچ کہتی تھیں۔ سب کے حالات ایک جیسے نہیں ہوتے۔
کیوں کہ ااج کے دور میں ایسے بچے بھی ہیں جن کے اور ہمارے بچپن میں دن اور رات کا فرق ہے۔ جن کا بچپن نہ صرف تلخ بلکہ چھلنی اور زخمی ہے۔ جن کا بچپن کھلونوں اور درختوں کے جھولوں سے ہٹ کر بموں اور خیموں تلے سسک رہا ہے۔
اے ہم نشین وطن کے مرے، داستان نہ پوچھ
لوٹا ہے کس نے آہ! میرا آشیاں نہ پوچھ
ہم ہاتھ میں پکڑے اخبار جھٹکتے ہوئے، ماضی سے حال میں داخل ہوتے ہوئے، سوچ رہے تھے: ’’اماں واقعی بری دوراندیش تھیں۔‘‘
ہم نے نم آنکھیں جھپکنا چاہیں۔ لیکن آنسوؤں کا سیلاب بند توڑ چکا تھا۔
ہمارے بعد بہت ہم کو روئے اہل وفا
کہ اپنے مٹنے سے مہر و وفا کا نام مٹا

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں