اخبارات و جرائد کی مذہبی ضرورت

اسلامی اخباروں کیلئے شرعی دستورالعمل

اسلامی اخباروں کیلئے شرعی دستورالعمل

نوٹ: ’’موجودہ اخبارات کی خرابیوں پر حکیم الامت حضرت تھانوی قدس سرہ نے ایک مقالہ ’’اخباربینی‘‘ کے نام سے تحریر فرمایا تھا جس میں اخباربینی کے بے لذت گناہوں کی نشاندہی کی گئی تھی پھر حضرت رحمہ اللہ نے ایسے شرعی اصول و ضوابط جمع فرمائے جن کی پابندی کر کے اخبارات سے یہ خرابیاں دور ہوسکتی ہیں۔ ان اصول و ضوابط کو حضرت مفتی صاحب مدظلہم نے اپنی عبارات میں ضبط کر کے یہ مضمون مرتب فرمایا جس پر حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے نظر ثانی بھی فرمائی۔‘‘
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمدللہ و کفی و سلام علی عبادہ الذین اصطفی
مسلمان بھی کسی وقت ایک زندہ قدم تھی۔ دین و دنیا کی ساری ترقیات اس کے لیے وقف تھیں اُس کا جو قدم اٹھتا تو ایک صحیح مقصد کی طرف جو حرکت ہوتی تو صراط مستقیم پر غرض ہر حرکت و سکون میں ’’زمن آں در وجود آید کہ باید‘‘ کا نقشہ سامنے آجاتا تھا اگر کبھی بظاہر کسی لغو یا عبث کام میں بھی مبتلا ہوتے تو وہاں بھی کوئی ایسا اسلامی امتیازی نشان چھوڑ آتے تھے کہ وہ سب خرابیاں کافور ہوجاتیں اور یہ نیکیوں سے مالامال ہو کر آتے اور ان الحسنات یذھبن السیات کا پروانہ براء ت لے کر ہٹتے تھے۔ غرض نقصان کی جگہ میں بھی اُن کے لیے نفع کے راستے کھلے ہوئے تھے۔
لیکن آہ کہ آج ہماری شامت اعمال سے عالم اسلام کا جغرافیہ ایسا بدلا ہے کہ شناخت مشکل ہوگئی مسلمانوں کی دینی اور دنیوی زندگی کا نقشہ جو ہمارے سامنے ہے وہ اپنے ماضی کی صریح نقیض ہے۔
تھا جوش و خروش اتفاقی ساقی *** اب زندہ دلی کہاں ہے باقی ساقی
میخانہ نے رنگ روپ بدلا ایسا *** میکش میکش رہا نہ ساقی ساقی
نقصان کے کاموں سے نقصان پہونچنا اور برے اعمال سے برے نتائج پیدا ہونا تو ایک طبعی اور فطری قانون ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ آج کم بخت مسلمان اگر کبھی بھولے سے کوئی نفع کا کام بھی کرتے ہیں تو اس میں بھی اپنے (حسن سلیقہ) سے نقصان کے سوا کچھ حاصل نہیں کرتے کبھی ایک نیکی کی توفیق ہوجاتی ہے تو جب تک اُس میں دس گناہ نہیں ملائے جاتے چین نہیں آتا۔ آج کوئی نیک سے نیک اور ضروری سے ضروری کام ایسا نہیں جس کو ہماری بے پروائیوں نے بجائے ثواب کے ہمارے لئے صورت عذاب نہ بنادی ہو آج اخبارات و جرائد اور اکثر مذہبی ادارے بھی اس غفلت شعاری کے بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔

اخبارات و رسائل
اگر دنیاوی اصول پر نظر کی جائے تو اخبارات و جرائد نہایت مفید اور کارآمد ذرائع اشاعت ہیں۔ بلکہ آج کل قومی اور اجتماعی زندگی کا جز و بن گئے ہیں۔ سرورِ کائنات فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل میں بھی اس کے لئے اسوۂ حسنہ موجود ہے۔ جگر پارہ رسول حضرت رضی اللہ عنہ بحوالہ ہند بن ابی ہالہ ایک طویل حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عادات و شمائل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’راوی کہتے ہیں کہ پھر میں نے سوال کیا جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکان سے باہر تشریف لاتے تھے تو کیا طرز عمل ہوتا تھا حضرت ہند ابن ابی ہالہ نے فرمایا کہ حضور کی یہ عادت تھی کہ مفید اور ضروری کلام کے سوا ہر کلام سے اپنی زبان روکتے تھے اور آپ صحابہ کے ساتھ الفت و محبت کا معاملہ فرماتے تھے اُن کو متنفر ہونے کا موقعہ نہ دیتے تھے ہر قوم کے بڑے آدمی کی تنظیم فرماتے تھے اور اپنی طرف سے بھی اس کو قوم کا متولی اور امیر بنادیتے تھے۔ لوگوں کو عذاب الہی سے ڈراتے تھے اور لوگوں کے میل جول سے بچتے تھے مگر اپنا حسن خلق اور خندہ پیشانی کسی سے نہ روکتے تھے اور اپنے صحابہ کی خبرگیری فرماتے تھے اور لوگوں سے ان واقعات کو دریافت کرتے تھے جو لوگوں پیش آتے تھے اور ان میں سے اچھی باتوں کی بھلائی اور بُری کی برائی اور ضعف بیان کردیتے تھے۔‘‘ (شمائل ترمذی)
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ ایک روایت میں فرماتے ہیں:
’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے کسی بھائی (صحابی) کو دیکھتے کہ تین روز سے ملے نہیں تو لوگوں سے پوچھتے تھے کہ وہ کہاں ہیں پھر اگر وہ سفر میں گئے ہوتے تو اُن کے لئے دعا فرماتے اور اگر حاضر ہوتے تو اُن کی ملاقات کو تشریف لے جاتے اور مریض ہوتے تو مزاج پرسی کرتے تھے۔‘‘ (کنزالعمال ص: ۳۰، ج۴)
(یہ دونوں حدیثیں اسوۂ نبوت میں خبروں کی تفتیش اور صحابہ کے واقعات اور حالات پر اطلاع کے) پورے اہتمام کا اعلان کر رہی ہیں۔ آج کل امتِ مسلمہ کے حالات پر اطلاع کا ذریعہ اخبار ہے۔ اس لئے سنت تفقد (خبرگیری اہل اسلام) کے تحت میں آسکتا ہے۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کی قومی شکایات و مظالم کو اس کے ذریعہ حکومت تک بآسانی پہونچایا جاسکتا ہے۔ مسلمانوں کے حقوق کا مطالبہ اس ذریعہ سے بسہولت کیا جاسکتا ہے۔ تبلیغی ضرورتیں اس کے ذریعہ سے بخوبی ادا ہوسکتی ہیں۔
الغرض اخبارات و جرائد کا وجود اپنے رنگ و روپ میں اور اپنے دنیاوی اصول کے مطابق ہو تو بہت سے عظیم الشان فوائد کا مجموعہ بلکہ قومی اور اجتماعی زندگی کا رکن اعظم ہے۔ لیکن ہمارے شومی اعمال نے جہاں پر نفع کو نقصان سے اور نیکی کو بدی سے بدل کر رکھا ہے اس مفید سلسلہ کو بھی نہایت مضر اور بدترین شکل میں تبدیل کر کے اثمھما اکبر من نفعہما کے حکم میں کردیا ہے اور آج بہت سی دینی اور دنیوی مضرتوں کے علاوہ سب سے بڑی اور سب سے اہم مضرت وہ ہے جس سے کوئی اخبار خالی نہیں رہا اور جب کی وجہ سے اُس کا طوفان عالمگیر ہوگیا ہے۔
اول تو یہ کہ آج کل اخبار عموماً ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جن کو نہ دین و مذہب سے کوئی واقفیت ہے اور نہ ہمدردی اور اُس کے ساتھ ہی مسئلہ پر مجتہدانہ رائے پیش کرنے کو طیار ہے جس کی وجہ سے لامذہبی اور ہر قسم کی بے دینی اخباروں کی اشاعت کا لازمی نتیجہ بن گیا ہے۔
دوسرے یہ کہ اتحاد اسلامی اور باہمی یک جہتی، محبت و اخلاص کو فنا کرنے میں آج کل اخبارات کا ایک بڑٓ حصہ ہے، فرقہ وارانہ جنگ و جدل جس نے ہندوستان کو اختلافات کا جہنم بنا رکھا ہے اس کی بیشتر ذمہ داری انھیں اخبارات و رسائل پر ہے اور اس حقیقت کا کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اس جنگ کا نشو و نما اخبارات کے ساتھ ساتھ ہو اور جوں جوں اخبارات نے ترقی کی اختلافات ان کے نتائج لازمہ کی طرح ساتھ ساتھ بڑھے آج سے پچاس برس پہلے ہندو اور مسلمان اپنے اپنے مذہبی اصول و فروع پر قائم رہتے ہوئے باہم متحد و متفق شیر و شکر ہر کر جس طرح زندگی بسر کر سکتے تھے آج دو بھائی اور اولاد و والدین کو ایسا اتحاد نصیب نہیں۔ آج ہر اخبار کا ایڈیٹر جب کسی جلسہ کی اسٹیج پر جلوہ افروز ہوتا ہے یا کسی اخبار کا مقالہ لکھنے بیٹھتا ہے تو وہ اس فرقی وارانہ جنگ اور باہمی اختلافات کا سخت ترین مخالف نظر آتا ہے اور لوگوں کو اُس سے بچانے کے لئے موٹے موٹے الفاظ کے بوجھ میں دبا دیتا ہے، لیکن کاش کوئی ان کی خدمت میں یہ تو عرض کردیتا کہ:
تا کے ملامت نگہ اشکبار من *** یکبار ہم نصیحت چشم سیاہ خویش
بخدا گر واقعی وہ قوم کے ہمدرد ہیں اور اس کو اختلافات کے طوفان سے نکالنا چاہتے ہیں تو ذرا انصاف کے ساتھ اس کے اسباب پر نظر ڈالیں تو انھیں مشاہدہ ہوجائے گا کہ: خود سنگ خودی زراہ برخیز* اور وہ آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔
درد سر ما ہمیں سر ماست*** یارے کہ بدوش ماست دوش ماست
حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام اپنی اسلامی برادری کے اخبار و احوال پر مطلع ہونے اور کرنے کا اہتمام اس لئے فرماتے تھے کہ مطلع ہو کر مظلوم کی دادرسی، بیمار کی عیادت، ضعفاء کی اعانت محتاجوں کی امداد کرتے کے لئے ہر قسم کی مادی اور روحانی ذرائع استعمال کئے جائیں اور اگر کسی مادی امداد پر قدرت نہ ہو تو کم از کم دعا سے اُس کے شریک غم ہوجائیں اور یہی تمام اسلامی تعلیمات کی روح اور مسلمانوں کی ترقیاتِ ماضیہ کا اصل راز ہے۔
لیکن آج اخبار و حالات اس لئے بہم بہنچائے جاتے ہیں کہ اگر کسی کا ایک عیب معلوم ہو تو اس کو دس گنا کر کے شائع کیا جائے دو شخصوں میں باہمی شکر رنجی معلوم ہو تو کسی ایک جانب کے وکیل ہر کر اختلافات کی خلیج کو وسیع تر کردیں۔
الغرض جس اخبار کو اٹھایئے اس میں ناظرین کی ضیافت طبع کے لئے تو جو مہمانی سب سے زیادہ اہتمام سے پیش ہوتی ہے وہ کسی مسلمان کا گوشت (عیب اور عیب جوئی) سا کوئی جھوٹا پروپیگینڈا ہوتا ہے۔ یا کسی کا دلخراش استہزاء و تمسخر جس کو لطائف یا افکار حوادث یا خواطر سوانح یا فکاہات کے عنوانات کے مہذب لباس میں پیش کیا جاتا ہے حالانکہ فرمان الہی ’لایسخر قوم من قوم‘ صاف اس کا اعلان کر رہا ہے کہ کسی شخص کو اس کا حق نہیں کے دوسرے کا استہزاء و تمسخر کرے ، اکثر جھوٹی افواہوں اور بلاتحقیق خبروں کی بناء پر ایک مسلمان بھائی کی جان و مال اور عزت و آبرو کے خلاف اعلان جہاد کردیتے ہیں۔ نہ شریعت مطہرہ کا قانون مانع ہوتا ہے نہ سیاسی مصالح اور اخوت و اتحادِ اسلامی کا لحاظ حالانکہ خدائے تعالی کے آخری پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنے آخری خطبہ میں عرفات کے عظیم الشان مجمع کے سامنے اعلان فرمادیا ہے کہ مسلمان کی عزت و آبرو کی رعایت و حفاظت ہر مسلمان پر حاضر و غائب ایسی ہی فرض ہے جیسے اُس کے جان و مال کی۔ لیکن آہ کہ آج تمام ارباب قلم و اصحاب صحافت نے اپنے آپ کو ان تمام قوانین شرعیہ سے مستثنی سمجھ لیا ہے اور کبھی دھیان تک نہیں ہوتا کہ ہم کوئی گناہ کر رہے ہیں شاید کسی اخبار کا کوئی صفحہ بمشکل ان بے لذت گناہوں سے خالی ہوتا ہو ورنہ عام طور پر یہی وہ چیز ہے جس پر تمام زور صحافت ختم کیا جاتا ہے۔ ادھر اخبار میں طبقہ کی بدمذاقی نے اس کو اور بھی فروغ دے دیا کہ ان کے یہاں اخبار کے مقبول ہونے کی سب سے پہلی شرط یہی چیز ہے اور وہی فروغ دے دیا کہ ان کے یہاں اخبار کے مقبول ہونے کی سب سے پہلی شرط یہی چیز ہے اور وہی اڈیٹر سب سے زیادہ اپنے فن کا ماہر سمجھا جاتا ہے جو اپنی من مانی باتوں کا سکہ لوگوں کے قلوب پر بٹھانے میں اس کی پروا نہ کرے کہ ہمارا خیال شرعاً صحیح ہے یا غلط اور مسلمانوں کے لئے مفید ہے یا مضر اور جو اپنے مخالف کو نیچا دکھانے میں حلال و حرام کی بحث کو حرام سمجھتے ہیں۔
الغرض یہ مسلمانوں کی موجودہ بدمذاقی کی لمبی کہانی ہے جس کے لیے یہ صفحات نہ کافی ہیں اور نہ موزون اس لئے ہم اس کی تفصیل کو خود ناظرین کے انصاف پر چھوڑتے ہوئے صرف یہ عرض کرتے ہیں کہ وہ خود ملاحظہ فرمائیں کہ کیا واقعی آج کل کے اخبار اس طوفان بے تمیزی سے معمور ہیں یا نہیں، اگر ہیں تو کیا شریعت مطہرہ اس کو کسی حال میں جائز رکھ سکتی ہے اور کیا مسلمان اسلامی اصول اساسی کو چھوڑ کر کوئی دینی یا دنیوی ترقی کرسکتے ہیں۔ اور کیا اتحادِ اسلامی کا راگ اتاپنے والے زعماء اس بے راہی کے ذریعہ اپنے مقصد کے قریب پہنچ سکتے ہیں یقین کیجئے کہ اگر پھر مسلمانوں کی قسمت میں عروج لکھا ہے اور کسی وقت آنکھ کھولیں گے تو بے تامل کہہ اُٹھیں گے۔
ترسم نرسی بکعبہ اے اعرابی*** کیں رہ کہ تو می روی بترکستان ست
یہ موجودہ اخبارات کی خرابیوں کا اجمالی خاکہ ہے اگر تفصیل مع دلائل دیکھنے ہوں تو حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی صاحب کا رسالہ ’اخباربینی‘ ملاحظہ فرمایا جائے اور اس کو بھی چھوڑیئے تو مشاہدہ اور تجربہ سے زیادہ کوئی عادل گواہ نہیں۔ آج حشرات الارض کی طرح ہزارہا اخبارات و رسائل کی اشاعت کے زمانہ کو اب سے پچاس برس پہلے زمانہ کے ساتھ موازنہ کرکے دیکھئے کہ مسلمان کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ دین اور دینی تعلیمات، مذہب اور مذہبی روایات گویا فنا ہو رہی گئیں، لیکن پوچھنا یہ ہے کہ کیا دنیا میں بھی کوئی ترقی کی، اُن کی اقتصادی حالت کچھ درست ہوئی یا اور زیادہ خوفناک پستی ہی میں جا پڑی اُس کی پریشانیوں میں کمی آئی یا اور دس گنا اضافہ ہوگیا۔
اس کا جواب اگر آپ نہ دیں گے تو سینکڑوں تعلیم یافتہ بے کاروں کے غول اور روز افزوں فاقہ کشوں کی تعداد اور صدہا مصیبت زدوں کی خاک کے ڈھیر بول اُٹھیں گے کہ یہ ترقی کے راگ محض بے ہنگامہ اور کوشش محض بے اصول اور غلط ہے۔ اگر اربابِ صحافت اس کو بھی ترقی کہیں تو اُس کی حقیقت اس سے زائد نہ ہوگی کہ:
گھر کے خط میں ہے کہ کل ہوگیا چہلم اُس کا *** پانیر لکھتا ہے کہ بیمار کا حال اچھا ہے
مسلم بات ہے کہ فتنہ علم ہمیشہ فتنہ جہل سے زیادہ شدید ہوتا ہے۔ اخباری فتنہ چونکہ عملی فتنہ کے رنگ میں ہے اس لئے اس کی مضرتیں بھی دنیائے اسلام کو زیادہ پہنچی۔ انھیں مفاسد زیر نظر کرتے ہوئے عرصہ ہوا کہ حضرت مجدد الملۃ حکیم الامت حضرت مولانا اشرفعلی صاحب تھانوی دامت برکاتہم نے ایک رسالہ ’’اخبار بینی‘‘ کے نام سے شائع کیا تھا جس میں عوام کو ان دنیوی مفاسد اور مذہبی گناہوں پر دلائل کے ساتھ متنبہ فرمایا تھا جس میں اخباری ادارے نہ خود تنہا گرفتار ہیں بلکہ اُن کی اشاعت کے ذریعہ ہزارہا مسلمانوں کو ان میں مبتلا کرکے مزید ذمہ داری اپنے سر لئے ہوئے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی تحریر فرمایا تھا کہ جو اخبار ان مذہبی گناہوں اور دینی و دنیوی مفاسد سے خالی ہوں یا جو اخباربین حضرات ان مفاسد سے بچ سکیں اُن کے لئے اخبار نویسی اور اخبار بینی کو ناجائز نہیں کہا جاسکتا۔ مگر چونکہ عام طور پر اُن مفاسد سے بچنا سخت دشوار تھا اس لئے عوام کو یہی مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ بلاضرورت اخبار بینی سے اجتناب کریں۔
لیکن دنیا کا مذاق بدل چکا ہے۔ اخبار ضروریات زندگی میں داخل کرلیا گیا ہے اس مشورہ کا ان پر وہی اثر ہوا جو کسی حقہ یا سگار کے عادی پر اُس کے چھوڑتے کی نصیحت کا اثر ہوسکتا ہے۔ اس لئے ضرورت سمجھی گئی کہ ارباب صحافت کی خدمت میں ایک آخری گزارش مخلصانہ اور کی جائے کہ خدا کے لئے سنبھلو اور مسلمانوں کو سنبھالو۔
اخبار کی ادارت کے لئے جس طرح اُس کے اُصول و ضوابط اور پروپیگنڈے کے طریق آپ یورپین تعلیمات سے حاصل کرتے ہیں اور حاصل کرنے کو ضروری سمجھتے ہیں اسی طرح خدا کے لئے یہ بھی سوچئے کہ اشاعت و ادارت کے کچھ مذہبی اور شرعی فرائض بھی ہیں جن کی رعایت نہ کرنے سے اخبارات سینکڑوں مخربات اور گناہوں کا مجموعہ بن رہے ہیں اس لئے اس وقت وہ آداب و اصول قلمبند کئے جاتے ہیں جو اخبار نویسی میں اہم ترین مذہبی فرض ہے۔ شاید اسی طرح ان بے لذت گناہوں کے عالمگیر طوفان سے دنیائے اسلام کو نجات ملے جو اخباروں کی صورت میں بحر و بر پر تسلط کئے ہوئے ہیں۔
گریہ شام سے تو کچھ نہ ہوا *** اُن تک اب نالۂ سحر جائیں
دیکھئے کس نیک بخت کی قسمت میں یہ سعادت مقدر ہے کہ اخباری دنیا کے شرعی آداب و اصول کی پابندی کرکے دنیا میں اس کی نظیر قائم کردے کہ مذہبی اصول کے ماتحت اس طرح اخبار چلایا جاسکتا ہے۔

آدابُ الاخبار
اس باب میں سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ کسی بات کا قلم سے لکھنا بعینہ وہی حکم رکھتا ہے جو زبان سے لکھنے کا ہے، جس کلام کا زبان سے ادا کرنا ثواب ہے اُس کا قلم سے لکھنا بھی ثواب ہے اور جس کا بولنا گناہ ہے اس کا قلم سے لکھنا بھی گناہ ہے بلکہ لکھنے کی صورت میں ثواب اور گناہ دونوں میں ایک زیادتی ہوجاتی ہے کیوں کہ تحریر ایک قائم رہنے والی چیز ہے، مدتوں تک لوگوں کی نظر سے گذرتی رہتی ہے اس لئے جب تک وہ دنیا میں موجود رہے گی اور لوگ اُس کے اچھے یا بُرے اثر سے متاثر ہوتے رہیں گے اس وقت تک کاتب کے لئے اس کا ثواب یا عذاب برابر جاری رہے گا جیسا کہ بعض روایات میں بتصریح مذکور ہے کہ جو شخص کسی کاغذ میں درود شریف لکھتا ہے تو جب تک یہ تحریر باقی رہے گی اس وقت تک اس کا ثواب پہنچتا رہے گا۔ اسی طرح ناجائز کلام کے نتائج بد کا کاتب کے لئے پہنچتا رہنا بھی دوسری احادیث میں صاف مذکور ہے۔ اس لئے ہر مضمون نگار کا فرض ہے کہ ہر مضمون پر قلم اٹھانے سے پہلے اس کو مندرجہ ذیل معیار پر جانچ لے اور در حقیقت یہی معیار تمام اُن آداب کی مجمل تصویر ہے جن کی تفصیل ہم اس وقت ہدیۂ ناظرین کرنا چاہتے ہیں۔

ایک زریں اصول
مضمون نگاری اور اخبار نویسی میں مذہبی جرائم اور شرعی گرفت سے بچنے کا سب سے بہتر ذریعہ اور جامع مانع اصول یہ ہے کہ جس وقت کسی چیز کے لکھنے کا ارادہ کرے پہلے اپنے ذہن میں استفتاء کرلے کہ اس کا لکھنا میرے لئے جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز ثابت ہو تو قدم آگے بڑھائے ورنہ محض لوگوں کو خوش کرنے کے لیے گناہ میں ہاتھ رنگ کر برائی بدشگونی کے لیے اپنی ناک نہ کاٹے۔ اور اگر خود احکام شرعیہ میں ماہر نہ تو کسی ماہر سے استفتاء کرنا ضروری ہے یہ ایک شرعی اجمالی قانون ہے جو فقط اخبار نویسی میں بلکہ ہر قسم کی تحریر یں ہر مسلمان کا مطبح نظر ہونا چاہیے، اس کے بعد ہم اس کی تفصیل چند نمبروں میں ہدیۂ ناظرین کرتے ہیں۔
۱: جو واقعہ کسی شخص کی مذمت اور مصائب پر مشتمل ہو اس کو اس وقت تک ہرگز شائع نہ کیا جائے جب تک حجت شرعیہ سے اس کا کافی ثبوت نہ مل جائے کیونکہ چھوٹا الزام لگانا یا افتراء باندھنا کسی کافر پر بھی جائز نہیں لیکن آہ کہ آج اہلِ قلم اس سے غافل ہیں اور اخبار کا شاید کوئی صفحہ اس سے خالی ہوتا ہو۔
۲: یہ بات بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ اس معاملہ میں حجت شرعیہ کے لئے کسی افواہ کا عام ہونا یا کسی اخبار کا لکھ دینا ہرگز کافی نہیں بلکہ شہادتِ شرعیہ ضروری ہے کیونکہ دورِ حاضر کے موجودہ تمام اخبارات کے صدہا تجربات نے اس بات کو ناقابل انکار کردیا ہے کہ بہت سے مضامین اور واقعات اخبارات میں شائع ہوتے ہیں اور جس شخص کی طرف سے شائع کئے جاتے ہیں اس غریب کو خبر تک نہیں ہوتی اور یہ صورت کبھی تو قصداً کی جاتی ہے اور کبھی سہواً خطأً ہوجاتی ہے اس لئے اگر کسی اخبار میں کسی شخص کے حوالہ سے کوئی مضمون یا واقعہ نقل کردیا جائے تو شرعاً اس کو ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ اگر یہ واقعہ کسی کی مذمت یا مضرت و عیب جوئی پر مشتمل نہ ہو تو پھر یہ ضعیف ثبوت بھی کافی ہے اور اس کو نقل کر کے شائع کردیا جائے۔
۳: کسی شخص کے عیب یا گناہ کا واقعہ اگر حجت شرعیہ سے بھی ثابت ہوجائے تب بھی اس کی اشاعت اور درج اخبار کرنا جائز نہیں بلکہ اس وقت بھی اسلامی فرض یہ ہے کہ خیرخواہی سے تنہائی میں اس کو سمجھایا جائے اگر سمجھانے کو نہ مانے اور آپ کو قدرت ہو تو بجبر اس کو روک دیں ورنہ کلمہ حق پہنچا کر آپ اپنے فریضہ سے سبکدوش ہوجائیں اس کی اشاعت کرنا اور اس رسوا کرنا علاوہ نہی شرعی کے تجربہ سے ثابت ہے کہ بجائے مفید ہونے کے ہمیشہ مضر ہوتا ہے اور اس لئے رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد احادیث میں اس کی تاکید فرمائی ہے کہ اگر اپنے بھائی مسلمان کا کوئی عیب یا گناہ ثابت ہو تو اس کو رسوا نہ کرے بلکہ پردہ پوشی سے کام لے۔
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کے ایک محرر نے ایک روز ان سے بیان کیا کہ ہمارے بعض پڑوسی شراب پیتے ہیں میرا خیال ہے کہ میں محکمۂ احتساب (پولیس) میں اس کی اطلاع کردوں۔ حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایسا مت کرو بلکہ ان کو سمجھاؤ اور ڈراؤ۔ محرر نے عرض کیا کہ میں یہ سب سے کچھ کرچکاہوں وہ باز نہیں آتے اس لئے میں تو اب پولیس میں اطلاع کروں گا۔ حضرت عقبہ نے فرمایا کہ ایسا نہ کرو کیوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سُنا ہے کہ:
’’من ستر عورۃ فکانما احیا مؤودۃ فی قبرھا‘‘ رواہ ابوداود و النسائی و ابن حبان فی صحیحہ و الحاکم و قال صحیح الاسناد (ترتیب و ترہیب، ص: ۱۰۳، ج: ۴)
(جو شخص کسی کا عیب چھپاتا ہے وہ اتنا ثواب پاتا ہے جیسے کوئی زندہ در گور کی ہوئی لڑکی کو دوبارہ زندہ کردے۔)
حضرت مخلد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب میں والی مصر تھا تو ایک روز دربان نے مجھے اطلاع دی کہ ایک اعرابی دروازہ پر حاضر ہے اور آپ سے ملنے کی اجازت چاہتا ہے میں نے آواز دے کر دریافت کیا کہ تم کون ہو تو آنے والے نے جواب دیا کہ ’’جابر بن عبداللہ‘‘ میں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا نام سُن کر بالاخانہ سے نیچے دیکھ کر کہا کہ یا تو آپ اوپر آجائیں یا میں نیچے آتاہوں۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ دونوں باتوں کی ضرورت نہیں میں تو صرف ایک حدیث کے متعلق آپ سے تحقیق کرنے آیا ہوں وہ یہ ہے کہ میں نے سُنا ہے کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث مسلمان بھائی کی پردہ پوشی کے متعلق روایت کرتے ہیں۔ مخلد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہاں! میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جو شخص کسی مسلمان بھائی کے عیب پر پردہ ڈالتا ہے تو گویا وہ ایک زندہ دو گور کو اس کی قبر سے نکالتا ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ یہ سنتے ہی اونٹ پر سوار ہوئے اور رخصت ہوگئے۔ رواہ الطبرانی فی الاوسط (از ترغیب و ترہیب، ص: ۱۰۴)
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما آں حضرت سے روایت فرماتے ہیں:
’’من ستر عورۃ اخیہ ستر اللہ عورتہ یوم القیامۃ و من کشف عورۃ اخیہ کشف اللہ عورتہ حتی یفضحہ بھا فی بیتہ‘‘ (رواہ ابن ماجۃ باسناد حسن)
’’جو شخص اپنے بھائی کا عیب چھپائے اللہ تعالی اس کے عیوب قیامت کے دن چھپائیں گے اور جو شخص اپنے بھائی کے عیب کھولتا ہے اللہ تعالی اس کے عیب کھول دیتے ہیں یہاں تک کہ اس کو گھر کے اندر بیٹھے ہوئے رسوا کردیتے ہیں۔‘‘
الغرض کسی مسلمان کا کوئی عیب یا گناہ مشاہدہ یا حجت شرعیہ سے ثابت بھی ہوجائے تب بھی پردہ پوشی سے کام لے اور خفیہ اُس کو سمجھائے کیونکہ یہی طرز زیادہ مؤثر اور مفید ثابت ہوا ہے۔
۴: البتہ اگر کسی مسلمان کا ایسا عیب یا گناہ حجت شرعیہ سے ثابت ہوا کہ جس کا نقصان اپنی ذات کو پہنچتا ہے اور یہ اس سے مظلوم ٹھہرتا ہے تو پھر اس کی برائی کو علانیہ شائع کرسکتا ہے اسی کے متعلق حق تعالی کا ارشاد ہے کہ:
’’لا یحب الجھر بالسوء من القول الا من ظلم۔‘‘
(اللہ تعالی برائی کے اعلان کو پسند نہیں فرماتے مگر جس پر ظلم کیا گیا (وہ ظالم کے ظلم کا اعلان کرسکتا ہے)
امام تفسیر مجاہد کہتے ہیں کہ اس آیت کی مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی اس کو پسند نہیں فرماتے کہ کوئی شخص کسی کی مذمت یا شکایت کرے لیکن اگر کسی پر ظلم ہو تو اُس کے لئے جائز ہے کہ (روح المعانی) لیکن اس صورت میں بہتر یہ ہے کہ عام اعلان و اشاعت کے بجائے صرف ان لوگوں کے سامنے بیان کرے جو اُس کی دادرسی کرسکیں۔
۵: اگر کسی اخبار میں کوئی قابلِ تردید غلط مضمون کسی شخص کے نام سے طبع ہوا ہو تو اُس کے جواب میں صرف اس پر اکتفا کیا جائے کہ فلاں اخبار نے ایسا لکھا ہے اس کا جواب یہ ہے اس شخص کی ذات پر کوئی حملہ نہ کیا جائے۔ کیوں کہ ابھی تک کسی حجت شرعیہ سے یہ ثابت نہیں ہوا کہ واقع میں یہ مضمون اُسی شخص کا ہے۔
۶: جو خبر کسی شخص کی مذمت اور ضرر پر مشتمل نہ ہو اُس کی اشاعت جائز ہے مگر اس شرط سے کہ اس کی اشاعت کسی مسلمان کی خاص مصلحت یا عام مصلحت کے خلاف نہ ہو اور جس میں ایسا احتمال ضعیف بھی ہو تو بجز اُن لوگوں کے جو عقل اور شرع کے موافق اس معاملہ کو ہاتھ میں لئے ہوئے ہوں عام لوگوں پر اس کا ظاہر کرنا چاہیے کیونکہ ممکن ہے کہ اُس کے نقصانات کی طرف اُس شخص کی نگاہ نہ پہنچی ہو۔ آیت: ’’وَ اذا جآءَ ھُم امر منَ الاَمن اَوِالخوفِ اَذَاعوا بہ‘‘ میں ایسے ہی اخباروں اور جلسوں کی مضرت او رمذمت کو بیان فرمایا ہے لیکن مسلمان کے لئے مناسب ہے کہ اس کو بھی محض خبر کی حیثیت سے نقل نہ کرے بلکہ اس سے کوئی دینی یا دنیوی فائدہ پیدا کرے کیونکہ حدیث میں ہے کہ:
’’من حسن اسلام المرء ترکہ مالا یعنیہ‘‘
’’انسان کے اچھا مسلمان ہونے کی علامت یہ ہے کہ بے فائدہ کاموں کو چھوڑ دے۔‘‘

کوئی خبر خود مقصود نہیں ہوتی
ادھر یہ بھی عقلاً ثابت ہے کہ کوئی خبر خود مقصود و مطلوب نہیں ہوتی بلکہ ہمیشہ کسی انشاء کا ذریعہ ہو کر مقصود کی صورت اختیار کرلیتی ہے اور دراصل مقصود کوئی کام ہوتا ہے جو اس خبر سے متعلق ہو اس لئے بہتر ہے کہ نتائج اخبار کو بھی ذکر کر کے اُس کے افادہ میں اضافہ کردیا جائے۔ مثلاً آپ کسی شخص کے متعلق یہ خبر درج کرتے ہیں کہ اس نے چند ہزار روپیہ کسی مدرسہ یا مسجد یا کسی دوسرے نیک کام میں صرف کیا تو اس کے بعد اس شخص کے لئے دعائے ترقی اور دوسرے مسلمانوں کے لیے اس کی ترغیب ذکر کردی جائے یا مسلمانوں کی کسی جماعت یا ایک شخص کی مصیبت کا ذکر آیا تو خود بھی دعا کرے اور مسلمانوں کو بھی اس کی طرف متوجہ کرے نیز یہ کہ جس سے ہوسکے اُس کی مادی امداد بھی کرے کسی کی موت کا ذکر کیا ہے تو لوگوں کو اس طر ف متوجہ کرے کہ عبرت حاصل کریں اور اپنے لئے اسی وقت کے واسطے سامان تیار کرلیں۔
الغرض روزمرہ کے واقعات و حوادث چشم بینا کے لئے بہترین وعظ ہیں لیکن اس کی ضرورت ہے کہ لوگوں کو اس پر متنبہ کیا جائے۔ حضرت شیخ العرب و العجم مولانا محمود حسن رحمہ اللہ محدث دیوبندی نے کیا خوب فرمایا ہے:
انقلابات جہاں واعظ رب ہیں دیکھو *** ہر تغیر سے صدا آتی ہے فافہم فافہم
اول تو کوئی واقعہ اور کوئی خبر دنیا میں ایسی کم ہوتی ہے جو نتیجہ خیز نہ ہو یا جس سے کوئی دینی یا دنیوی فائدہ متصور نہ ہو لیکن اگر کوئی خبر ایسی بھی ہو تب بھی اس کو محض تفریح طبع کے مد میں ذکر کردینا مضائقہ نہیں بلکہ یہ بھی ایک درجہ میں شرعاً مطلوب ہے۔ اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بعض اوقات مزاح (خوش طبعی) فرمانا اسی حکمت پر مبنی تھا اور ایک حدیث میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ روایت فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ:
’’ان قلوب کو بھی تھوڑی دیر (غور و فکر) سے مہلت دیا کرو اس طرح کہ ان کے لیے حکمت کی لطیف و عجیب باتیں تلاش کرلو (جن سے قلبی تکان رفع ہو) اس لئے کہ قلوب بھی ایسے تھک جاتے ہیں جیسے بدن تھکتے ہیں۔‘‘
۷: خلاف شرع مضامین اور ملحدین کے عقائد باطلہ اول تو شائع نہ کیے جائیں اور اگر کسی ضرورت سے اشاعت کی نوبت آئے تو جس پرچہ میں وہ شائع ہوں اسی میں ان کی تردید اور شافی جواب بھی ضرورت شائع کردیے جائیں، آیندہ پرچہ پر اس کو حوالہ نہ کیا جائے کیونکہ بہت سے آدمی وہ ہوتے ہیں جن کی نظر سے آیندہ پرچے نہیں گزرتے خدا نخواستہ اگر وہ اس سے کسی شبہ میں گرفتار ہوگئے تو اس کا سبب شائع کرنے والا ہوگا۔
۸: اگر مسلمانوں پر کافروں کے ظلم کی خبر شائع کرنا ہو تو جب تک اس ظلم کی نسبت کافروں کی طرف حجت شرعیہ سے ثابت نہ ہو اس طرح شائع کیا جائے کہ فلاں مقام کے مسلمانوں پر مظالم ہورہے ہیں۔ مسلمان ان مظالم کا انسداد کریں اور جائز طریق پر اُن کی جانی و مالی امداد کردیں۔
۹: اخبار کا ایڈیٹر ہمیشہ ایسا شخص بنے جو تمام علوم اسلامیہ پر عبور رکھتا ہو یا کم از کم علماء سے رجوع کرنے کا پابند ہو اور مذہب سے ہمدردی رکھنے والا ہو ورنہ ظاہر ہے کہ اخبارات اشاعت بے دینی و بے قیدی کا ایک کامیاب آلہ ہے۔
۱۰: کسی ایسی کتاب کا جودین کو مضر ہو یا ایسی دوا کا جو شرعاً حرام ہو یا کسی ایسے معاملہ کا جو شرعاً فاسد ہو اشتہار نہ دیا جاوے۔

یہ مختصر گذارش ہے جو محض دلسوزی اور ہمدردی پر مبنی ہے اگر چہ زمانہ کی مسموم ہوا میں کارگر ہونے کی توقع نہیں لیکن بایں امید کہ شاید خدا تعالی کسی نیک بندے کو عمل اور اصلاح کی توفیق عطا فرمائیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں