تم درد ہمارا کیا جانو؟

تم درد ہمارا کیا جانو؟

میں الیاس مروان، اس وقت کہاں ہوں؟ یہ نہیں جانتا، بس ایک پھٹا ہوا خیمہ ہے۔ میں سردی سے ٹھٹھر رہا ہوں اور میرے پاس اس سے بچنے کی کوئی چیز نہیں ہے۔ میری قمیص کی ایک آستین پھٹی ہوئی ہے اور دوسری تو موجود ہی نہیں ہے۔
پتا نہیں میری قمیص پھٹی کیسے؟ اندھادھند بھاگتے ہوئے جب راستے میں کوئی بار لڑ کھڑا کر گراہوں گا تب ہی پھٹ گئی ہوگی۔ میرے ساتھ جڑ کر کچھ چھوٹے بچے بیٹھے ہوئے ہیں، ان کو بھی سخت سردی لگ رہی ہے اور ان کے کپڑوں کا بھی وہی حشر ہے جو میرا ہے۔ میرے لب ہولے ہولے کانپ رہے ہیں۔ نظروں کے سامنے بار بار خوف ناک مناظر آرہے ہیں، میں گھبرا کر آنکھیں بند کرتا ہوں تو وہ اور بھی شدت سے میرے سامنے آنے لگتے ہیں۔ یا اللہ! میں کیا کروں؟
میں اپنے گھر کا سب سے بڑا بیٹا اور بہت لاڈلا تھا۔میری دو چھوٹی بہنیں بھی تھیں جن کا نام لینا اور بانا تھا۔ میں ۱۴ سال کا ہوں اور وہ اگر ابھی ہوتیں تو ۱۰ سال کی ہوتیں۔ دونوں جڑواں تھیں اور مجھے بہت عزیز تھیں۔ میں کبھی ان سے جھگڑتا تو پھر خود ہی ان کو پیار کرکے منایا بھی کرتا تھا اور ہم پھر کھیلنا شروع کردیتے۔ جب ان دونوں نے میرے ساتھ اسکول جانا شروع کیا تو ماما نے مجھے سمجھایا کہ اپنی بہنوں کا خیال رکھنا۔ بس اس کے بعد سے تو میں ان کی ڈھال بن گیا تھا۔ وقفے میں دوستوں کے ساتھ جب فٹ بال کھیل رہا ہوتا تو میری نظریں دونوں بہنوں پر رہتیں جو اپنی سہیلیوں کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے، دائرہ بنائے کچھ پڑھ رہی ہوتیں۔ کھیل کے دوران میری نظر میری بہنوں پر ہوتی تھی کہ کہیں یہ گر نہ جائیں اور ان کو چوٹ نہ لگ جائے۔
میں اس وقت سخت سردی میں بیٹھا ان سب کو یاد کر رہا ہوں۔ مجھے میری امی بہت شدت سے یاد آرہی ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک عید پر میں انے اپنے جیب خرچ سے امی کے لیے ایک سوق (بازار) سے ایک خوب صورت سا اسکارف خریدا تھا جس پر خوب صورت کڑھائی ہوئی تھی۔ لینا اور بانا کو میں چوڑیاں دلوائی تھیں۔ عید کے دن سیر کے دوران کبھی وہ میرے پیچھے بھاگتیں اور کبھی میں ان کے پیچھے۔ ہم تینوں کے چہروں پر ہنسی نے میرے امی ابو کے چہرے پر بھی مسکراہٹ بکھیردی تھی۔
ہم شام کے شہر حلب میں رہتے تھے۔ یہ شہر دارالحکومت دمشق کے بعد دوسرا خوب صورت شہر مانا جاتا ہے۔ مجھے یاد ہے بابا آئل فیکٹری میں کام کرتے تھے۔ ہمارا گھر چھوٹا سا تھا لیکن بہت خوب صورت تھا۔ مجھے اپنے گھر سے، اپنے شہر سے، اپنے ملک سے بہت محبت تھی۔ خاص طور سے حلب تو میری جان تھا۔ بابا کبھی کبھار مجھے چھیڑنے کے لیے کہتے کہ ہم حلب سے کہیں اور جا رہے ہیں تو میں گھنٹوں بیٹھ کر رویا کرتا تھا۔ خاص طور سے حلب کی مسجدیں بہت متاثر کرتی تھیں، میں بار بار ابو کے ساتھ جا کر ان کو دیکھا کرتا تھا۔ ’جامع مسجد حلب الکبیر‘ میں نماز پڑھنے کا اپنا ہی لطف تھا۔ جس دن بابا کی چھٹی ہوتی، وہ ہمیں باہر گھمانے لے جاتے، واپسی پر ہم ریستوران میں کھانا بھی کھایا کرتے۔
نہ جانے میری آنکھیں بند کیوں ہورہی ہیں؟ حالانکہ مجھے نیند بھی نہیں آرہی۔ تین دن ہوگئے ہیں، میں نے کچھ نہیں کھایا۔ میرے اندر اتنی ہمت نہیں بچی کہ میں جا کر کوئی چیز کھانے کے لیے ڈھونڈ سکوں۔ میرا دل چاہ رہا ہے کہ اس وقت مجھے موت آجائے۔ باہر تیز ہوا کے جھونکے ہمارے خیمے کو ادھر سے ادھر ہلا رہے ہیں۔ سامنے بیٹھے بچوں کو دیکھ کر مجھے میری بہنیں یاد آرہی ہیں۔ جب لینا کی بانا کے ساتھ لڑائی ہوجاتی اور لینا بڑے ہونے کے ناتے اس پر بڑوں والا حق جماتی تو بانا روتے ہوئے میرے پاس آتی کہ میں لینا کو سمجھاؤں۔ مجھے ابھی تک اس کا وہ منت بھرا لہجہ یاد ہے۔ اس کی وہ آنسوؤں سے بھری ہوئی آنکھیں، جو میری طرف مان سے دیکھ رہی ہوتی تھیں، مجھے اس وقت بہت شدت سے یاد آرہی ہیں۔ پتا نہیں میری وہ معصوم بہن کس حال میں ہوگی؟ اس وقت میں دل کی گہرائیوں سے یہ دعا کر رہا ہوں کہ بابا بانا کو لے کر کہیں بہت دور چلے گئے ہوں۔ ایسی جگہ جہاں یہ خوف ناک گھن گرج کی آواز نہ ہو۔
وہ منظر بھی میری نگاہوں کے سامنے گھوم رہا ہے۔۔۔ وہ دردناک منظر! وہ خواب ناک سی تصویر ابھی تک میرے دل و دماغ میں زندہ ہے، کسی آسیب کی طرح ہر وقت میرے اندر کلبلاتی رہتی ہے۔ میں اس وقت اپنے دوست محمد کے گھر کچھ دوائیاں دینے کے لیے جارہا تھا جو ماماجان نے مجھے اس کی امی کے لیے دی تھیں۔ وہاں پہنچا تو سب کچھ اجڑ چکا تھا۔ ان کے گھر کی جگہ ملبے کے ڈھیر، محمد کی شرارتیں کرتے وجود کی جگہ بے حس و حرکت لاش نے لے لی تھی۔ اس کا منہ خون میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس کا ایک بازو اس کے دھڑ سے غائب تھا۔ اس کی ماں کو بھی اب دوائیوں کی ضرورت نہ رہی تھی۔ مٹی کا وجوب مٹی ہوگیا تھا۔ چار سو خوف نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ مرنے والوں پر تو بین کرنے کے لیے بھی کوئی نہ بچا تھا۔ ایک خاموشی چھائی تھی۔۔۔ ویسی ہی خاموشی جس کے بارے میں کبھی سنا تھا کہ یہ طوفان کا پیش خیمہ ہوا کرتی ہے۔۔۔ اچانک ایک اور زوردار دھماکے کی آواز آئی۔ میں بجلی کی سی تیزی سے اپنے گھر کی جانب دوڑا۔ راستے میں قدم قدم پر قیامت خیز مناظر تھے۔ حلب کی وہ دیواریں جن سے مجھے عشق تھا، آج ان سے لہوٹپک رہا تھا۔ لوگ افراتفری میں بھاگ رہے تھے۔
میں نے دور سے ہی دیکھا کہ بابا میری دونوں بہنوں کو گود میں اٹھائے دوڑ رہے تھے، ان کے پیچھے پیچھے ماما بھی تیزی سے جارہی تھیں، میں نے چیخ کر انہیں آواز دی، بابا کو تو شاید سنائی نہیں دیا، ماما نے سن لیا تھا، اسی لیے میری طرف بڑھیں، اچانک ایک اور زوردار دھماکا ہوا اور پھر اندھیرا چھا گیا۔
جب میری آنکھ کھلی تو مجھے شدید تکلیف محسوس ہو رہی تھی، میں اٹھنا چاہ رہا تھا پر اٹھ نہیں پارہا تھا، بہت بھاری سفید رنگ کا ماربل میرے اوپر گراتھا اور آس پاس لوگ ہوش و خرد سے بے گانہ بھاگ رہے تھے۔ میں نے امی، بابا کو آواز دینا چاہی، مگر خشک گلے سے آواز ہی نہ نکلی۔ میری طرح اور بھی لوگ ملبے تلے دبے تھے۔ دھواں ہی دھواں تھا۔ شور ہی شور تھا۔ میری نظر بھٹکتی بھٹکتی ایک طرف آکر ٹھہر گئی جہاں ایک اسکارف آدھا خون میں لتھڑا ہوا نظر آیا۔ اس کے ساتھ ہی مجھے ایک پاؤں نظر آیا۔ میں اس پاؤں کو کیسے بھول سکتا ہوں؟ یہ میری ماں کا پاؤں تھا، جس کو رات کو جاجا کر میں چوما کرتا تھا اور آج یہ پاؤں خون میں نہایا، منوں ملبے تلے دبا تھا۔ میں درد کے باوجود گردن ادھر ادھر کر کے دیکھ رہا تھا کہ کوئی تو آئے، آکر میری ماں کو نکالے مگر نہ کسی نے آنا تھا اور نہ کوئی آیا۔ میری امی اللہ تعالی کے پاس چلی گئیں اور وہ بھی اتنی تکلیف میں۔ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کون سا غم بڑا ہے۔ میرے ملبے تلے دبے ہونے کایا اپنی چھوٹی سے فیملی کو یوں مرتا ہوا دیکھنے کا۔ مجھے نہیں پتا مجھے وہاں سے کس نے نکالا، مگر آج سوچتا ہوں کہ کیوں نکالا؟ کاش! میں وہیں مرگیا ہوتا۔
اپنے شہر کو یوں ٹوٹا ہوا، بکھرا ہوا، خون میں نہایا ہوا دیکھنا بہت تکلیف دہ ہے، اذیت ناک ہے۔ حلب میری جنت تھا۔ مجھے اس سے شدید محبت ہے۔۔۔ مگر یہ لوگ جنہوں نے میری جنت کو تباہ کردیا یہ کون ہیں؟ میرے ذہن میں ان گنت سوالات ہیں، مگر مجھے ان کے جوابات کوئی نہیں دیتا۔ یہ لوگ میری جنت کو کب سے تباہ کررہے ہیں، میں نہیں جانتا، مگر کیا باقی دنیا بھی نہیں جانتی کہ ہم مسلمانوں کے ساتھ کیا ہوچکا ہے؟ ہم نے خون کی قیمت دے کر کون سا قرض اتارا ہے؟ ہم نے اپنے ملک کو تباہ حال، خون میں نہایا ہوا دیکھا ہے تو باقی مسلمان کہاں ہیں؟ ہماری مدد کو کیوں نہیں آئے؟
کیا ان کو احساس نہیں کہ ہم کتنی تکلیف میں ہیں؟ کیا ان کو یہ بھی معلوم نہیں ہم جیسے ۱۴ سال کے بچے جو کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں، آج کسی ملبے کے ڈھیر تلے خون میں لت پت تو کسی خیمے میں ٹھٹھرنے پر مجبور ہیں اور کسی کو پروا نہیں! کیا ہم مسلمانوں کا خون اتنا ارزاں ہوچکا ہے کہ یونہی بہتا رہے اور کسی کو فکر بھی نہ ہو؟
میں اس وقت سوچ رہا ہوں کہ اللہ تعالی سے جا کر پوچھوں گا کہ ہمارے مسلمان بھائی ہماری مدد کو کیوں نہیں آئے؟ ہم تکلیف میں تھے، ہم مر رہے تھے، ہمارے ساتھ ظلم ہو رہا تھا، ہماری بہنوں کی عزتیں لوٹی جارہی تھیں تو امت کہاں تھی؟ ہم سردی میں ٹھٹھر رہے ہیں، تو مسلمان کہاں ہیں؟ روزِ حشر سب کے گریبان پکڑوں گا میں۔۔۔
مجھے اتنے دنوں بعد نیند آرہی ہے، میری کپکپاہٹ اچانک بند ہوگئی ہے۔ سامنے سے روشنی بھی آرہی ہے، مجھے مسکراتی ہوئی ماما جان نظر آرہی ہیں۔ وہ بازو کھولے میرا انتظار کررہی ہیں، مجھے بلا رہی ہیں، میں ان کے پاس جارہا ہوں۔ میری تکلیف تو آہستہ آہستہ ختم ہو رہی ہے، مگر میرا ساتھ نہ دینے والوں، میری بے بسی کا تماشا دیکھنے والوں کا کڑا امتحان شروع ہوگیا ہے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں