لاس ویگس کا حملہ آور مسلمان ہوتا تو پھر کیا ہوتا ؟

لاس ویگس کا حملہ آور مسلمان ہوتا تو پھر کیا ہوتا ؟

امریکی لکھاری تھامس فریڈمین نے منگل کے روز “نیویارک ٹائمز” اخبار میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں امریکا کی جدید تاریخ کے بدترین قتلِ عام کے واقعے پر روشنی ڈالی ہے۔ لاس ویگس میں اسٹیفن پیڈوک نامی ایک ریٹائرڈ امریکی شہری نے فائرنگ کر کے 59 لوگوں کو موت کی نیند سلا دیا تھا جب کہ واقعے میں 500 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے۔
فریڈمین نے اپنے مضمون میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ اگر فائرنگ کرنے والا حملہ آور مسلمان ہوتا اور دہشت گرد تنظیم داعش کا پیروکار ہوتا تو ایسی صورت میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور کانگریس کے قانون سازوں کا ردِّ عمل کیا ہوتا ؟ انہوں نے اسلحہ رکھنے کے حوالے سے امریکی قانون سازی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جس کے سبب اس نوعیت کا قتل عام آسان ہو گیا۔
فریڈمین نے مضمون کی ابتدا میں سوال اٹھایا کہ “اگر اسٹیفن پیڈوک مسلمان ہوتا اور فائرنگ کرنے سے قبل چیخ کر اللہ اکبر کا نعرہ لگاتا اور اگر ہمارے ہاتھ اس کی کوئی تصویر آ جاتی جس میں وہ ایک ہاتھ میں قرآن تھامے ہوتا اور دوسرے میں کوئی خود کار بندوق !”۔
اگر واقعتا یہ یہ سب کچھ اسی طرح ہو جاتا تو کوئی بھی ہم سے یہ نہیں کہتا کہ احتیاطی اقدامات کی باتیں کر کے حادثے کا شکار ہونے والے افراد کی اہانت نہ کی جائے اور اس اجتماعی قتل کو سیاسی رنگ نہ دیا جائے۔
فریڈمین کے مطابق ایسی صورت میں کانگریس میں ہنگامی اجلاس بلائے جاتے اور 11 ستمبر کے حملوں کے بعد اندرون ملک دہشت گردی کے اس بدترین واقعے کو زیر بحث لایا جاتا۔ اس کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ہر گھنٹے بعد ٹوئیٹ سامنے آتی جس میں وہ کہتے “میں نے آپ لوگوں کو اس بارے میں آگاہ کر دیا تھا”۔ جیسا کہ وہ یورپ میں ہونے والے ہر حملے کے چند منٹوں بعد کیا کرتے ہیں تا کہ ان کو سیاسی رنگ دیا جا سکے۔ اس کے بعد ہنگامی طور پر ایک تحقیقاتی کمیشن کے لیے مطالبات سامنے جو یہ معلوم کرے کہ ہمیں کون سے نئے قوانین وضع کرنے کی ضرورت ہے تا کہ آئندہ ایسے واقعات رُونما نہ ہوں.. آخر میں ہم حملہ آور کے اصل وطن کے خلاف تمام آپشنز سامنے رکھ دیتے۔
آگے فریڈمین حیرت کے ساتھ یہ استفسار کرتے ہیں کہ”اب جب کہ قاتل ذہنی طور پر پریشان ایک امریکی شہری ہے جو عسکری انداز کے ہتھیار سے لیس تھا۔ یہ ہتھیار اس نے قانونی طور پر خرید کر یا یُوں کہیں کہ ہتھیار رکھنے سے متعلق ہمارے پاگل پن پر مبنی قوانین کے سبب بآسانی حاصل کر لیا تھا۔ ایسی صورت میں آگے کیا ہوگا ؟
فریڈمین خود ہی اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ “صدر اور ریپبلکن پارٹی فوری طور پر یہ باور کرائے گی کہ کچھ نہیں ہوگا۔ اس کے بعد داعش تنظیم کے ہر حملے کے برعکس اس بات پر اصرار کیا جائے گا کہ اس واقعے کو “سیاسی رنگ” نہ دیا جائے اور نہ یہ مطالبہ کیا جائے کہ آئینہ دیکھنے اور ہتھیاروں سے متعلق قوانین پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔

آگے فریڈمین پھر سوال کرتے ہیں کہ “مشرق وسطی میں داعش کے ہاتھوں قتل ہونے والے امریکیوں کی تعداد کتنی ہے 15 یا 20 ؟۔ فریڈمین نے امریکا میں ہتھیار قبضے میں رکھنے سے متعلق لاگو قوانین پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کوئی قانون موجود نہیں جو کسی امریکی کو ہتھیارں کا ڈپو بنانے سے روک سکے جیسا کہ پیڈوک نے بھی بنا رکھا تھا۔ اس کے اسلحہ خانے میں 42 آتشی ہتھیار موجود تھے۔ ان میں 23 اس کے ہوٹل کے کمرے میں اور 19 اس کے گھر میں موجود تھے۔ اس کے علاوہ ہزاروں گولیاں اور برقی آلات بھی تھے۔
فریڈمین نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ “جب بات داعش کو کچلنے کی ہوتی ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ صدر اور ان کی پوری جماعت ہمارے ساتھ کھڑی ہے۔ تاہم جب ہم نیشنل رائفل ایسوسی ایشن سے اعتدال برتنے کے طالب ہوں تو صدر اور ان کے ساتھی روپوش ہو جاتے ہیں۔ اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ کتنے بے قصور لوگ قاتل گولیوں کا نشانہ بنتے ہیں۔ یہاں تک کہ اس بات کی بھی کوئی اہمیت نہیں کہ ان کی کانگریس کا ایک اہم رہ نما بیس بال کھیلنے کے دوران شدید زخمی ہو گیا۔ اسلحے کے تشدد میں کمی لانے کے لیے کسی بھی سیاسی حکمت عملی کو زیر بحث لانے کے واسطے موزوں وقت ہی نہیں ہے۔
آگے فریڈمین جذباتی ہو کر لکھتے ہیں کہ “داعش تنظیم کے خطرے کو انتہائی سنجیدگی سے لینا اور پھر ہمارے پس منظر میں موجود دیگر خطرات کو کم کرنے کے حوالے سے کچھ نہ کرنا.. یہ سراسر پاگل پن ہے۔ امریکی عوام یہ نہیں چاہتے کہ انہیں اپنے دفاع کے حق سے محروم کر دیا جائے مگر ہم صرف اتنا چاہتے ہیں کہ کسی کو بھی یہ حق نہ حاصل ہو کہ وہ اپنے گھر یا ہوٹل کے کمرے میں ہتھیاروں کا ڈپو قائم کر لے اور اپنا اندر کا غصّہ نکالنے کے لیے ان ہتھیاروں کو بے قصور امریکیوں پر استعمال کر ڈالے۔ البتہ مصیبت یہ ہے کہ نیشنل رائفل ایسوسی ایشن نے ان بزدل قانون سازوں کو اپنی مٹھی میں لے رکھا ہے”۔
فریڈمین نے مضمون کے اختتام پر امریکی معاشرے کو درپیش اس بحران کے حل کے طور پر تجویز پیش کی ہے کہ “طاقت اور اختیار حاصل کریں۔ اگر آپ بھی میری طرح بیزار ہو چکے ہیں تو پھر کسی کو نمائندہ بنا کر رجسٹرڈ کرائیں یا خود کو انتخابات میں نامزد کریں یا پھر کسی نامزد امیدوار کے لیے بھرپور عطیات فراہم کریں تا کہ ان بزدل قانون سازوں کی اکثریت کو تبدیل کیا جا سکے اور ہتھیاروں سے متعلق قابل قبول قوانین وضع کیے جائیں۔ یہ معاملہ قائل کرنے کا نہیں بلکہ حقیقی اختیارات حاصل کرنے سے متعلق ہے۔ اس سلسلے میں طاقت کا توازن تبدیل کرنے کے لیے ہمارے پاس پہلا موقع 2018 کے مڈ ٹرم انتخابات ہیں۔ اس سے پہلے کچھ کر لینے کی کوشش کو بھول جائیں ، خود کو نہ تھکائیں۔
صرف اختیار حاصل کریں اور شروع ہو جائیں !”۔

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں