امام حسین ؓ نے نفاذ عدل کے لیے انقلاب کیا

امام حسین ؓ نے نفاذ عدل کے لیے انقلاب کیا

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے انتیس ستمبر دوہزار سترہ کے خطبہ جمعہ میں سانحہ کربلا میں پوشیدہ اسباق و پیغامات کی نشاندہی کرتے ہوئے نواسہ رسول ﷺ کے انقلاب کو نفاذ عدل اور ظلم و جبر کے خلاف قرار دیا۔
سنی آن لائن اردو نے مولانا عبدالحمید کی آفیشل ویب سائٹ کے حوالے سے رپورٹ دی، خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے بیان کا آغاز قرآنی آیت: «وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاء عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ» کی تلاوت سے کرتے ہوئے کہا: تاریخ میں ہمیشہ کچھ ایسے لوگ بھی گزرے ہیں جنہوں نے ذوق و شوق سے اللہ تعالی کی رضامندی حاصل کرنے اور عوام کے مفاد کی خاطر نفاذ عدل کے لیے قربانیاں دی، گھروں سے باہر نکلے ہیں اور اسی راہ میں جان دے گئے۔ ان جانبازوں نے اپنی قربانیوں سے اسلام کا آفاقی پیغام پوری دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا اور اس کی حفاظت بھی کی۔
انہوں نے مزید کہا: اگر مسلمان بدر، احد، احزاب سمیت دیگر غزوات میں قربانیاں نہ دیتے اور اسلام کو مٹانے کی آرزو دل میں لینے والی فوجوں کا ڈٹ کر مقابلہ نہ کرتے، کیا ہوتا؟ صحابہ کرامؓ نے ہر میدان میں استقامت کا مظاہرہ کیا تاکہ نبی کریم ﷺ کا وجود مبارک محفوظ رہے اور اسلام کو دنیا کے سامنے پیش کرتے رہیں۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے کہا: حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما ان جانبازوں میں ایک تھے۔ آپؓ ہرگز لڑائی کے لیے نہیں گئے تھے، ورنہ بچوں اور اہل خانہ کے ساتھ نہ جاتے اور ستر افراد کے بجائے ایک فوج اپنے ساتھ لے جاتے۔
انہوں نے مزید کہا: نواسہ رسول ﷺ نے اشاعت اسلام، نفاذ عدل اور نااہل لوگوں کے ہاتھوں سے حکومت واپس لینے کے لیے انقلاب فرمایا۔ امام حسینؓ کو محسوس ہوا یزید ایک آمر نوجوان ہے جو مسلمانوں پر حکمرانی کے لائق بھی نہیں ہے اور نبی کریم ﷺ نیز خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی خدمات و کارناموں کو تباہ کرنے کی جانب جارہا ہے۔ لہذا جب اہلیان کوفہ نے انہیں مدعو کرکے بیعت کا وعدہ دیا، آپؓ نے مزید ذمہ داری کا احساس کیا ۔
مولانا عبدالحمید نے شہادت حسینؓ کے واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: جب امام حسینؓ کوفہ کے قریب پہنچے، انہیں اطلاع ملی کہ کوفیوں نے غداری کی ہے اور عقیل کو شہید کیاگیاہے۔ آپؓ نے یزیدی فوجیوں سے کہا انہیں واپس جانے کی اجازت دی جائے، لیکن ایسا نہیں ہوا اور انہیں قیدی بناکر یزید کے پاس لے جانے کا حکم ملا۔ امام حسینؓ نے قید کی ذلت ماننے سے انکار کیا اور بالاخر کربلا میں وہ سنگین جرم اور ظلم انجام پذیر ہوا جو ناقابل فراموش ہے۔
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے بعض شہدائے کربلا کے ناموں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا: شہدائے کربلا میں ابوبکر بن علی، عمر بن علی اور عثمان بن علی رضی اللہ عنہم جیسے نام بھی آتے ہیں جو امام حسینؓ سے پہلے شہید ہوئے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خلفائے راشدین کے اسمائے گرامی کو اپنے بچوں کے لیے پسند کیا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ صحابہ و اہل بیت رضی اللہ عنہم کے تعلقات کتنے دوستانہ اور خوشگوار تھے۔
مولانا عبدالحمید نے کربلا میں پیش آنے والے سانحے کے بعض سبق آموز گوشوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا: امام حسین ؓ نفاذ عدل کے لیے باہر نکلے اور ان کا انقلاب ظلم و جور اور آمریت کے خلاف تھا جس میں انہوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ یہ انقلاب اور قربانیاں مسلمانوں اور تمام آزادخیال انسانوں کے لیے سبق ہیں۔ اگر ہم اس دور میں ہوتے، ضرور امام حسینؓ کا ساتھ دیتے اور ان کے ساتھ جام شہادت نوش کرتے۔

فقہ اہل سنت میں کالے کپڑے اور ماتم کرنے کی گنجائش نہیں ہے
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے ماتم کے حوالے سے اہل سنت کے عقیدے کا اظہار کرتے ہوئے کہا: اگر ہم اہل سنت عشرہ محرم میں کالے کپڑے نہیں پہنتے اور مجلس ماتم بپا نہیں کرتے، ہرگز اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمیں واقعہ کربلا سے دکھ نہیں ہوا ہے۔ فقہ اہل سنت میں سرے سے ایسی کوئی چیز ہی نہیں ہے۔
انہوں نے اپنے بیان کے آخر میں کہا: جس بات پر شیعہ وسنی متفق ہیںوہ ان بزرگوں کی سیرت اور ارشادات پر عمل پیرا ہونا ہے۔ ہمیں ان کے تقوی اور پاکبازی پر عمل کرنا چاہیے، لیکن فقہ و عقیدہ میں ہر کوئی اپنے مسلک پر عمل کرے۔

مسلم ممالک کی سالمیت اور آزادی بہت اہم ہے

اہل سنت ایران کی ممتاز دینی شخصیت نے اپنے خطبہ جمعہ میں مسلم ممالک کے اتحاد اور ملکی سالمیت کو اہم یاد کرتے ہوئے تمام مذاہب و مسالک اور قومیتوں کے حقوق پر توجہ دینے کو ضروری قرار دیا۔
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے کہا: آج کل اسلام دشمن قوتیں مسلم ممالک کی تقسیم کی سازشوں میں مصروف ہیں۔ ہمارے لیے ملکی سالمیت اور آزادی ایران اور دیگر ملکوں کے لیے بہت اہم ہے۔ ہمارے خیال میں جس ملک میں مختلف قومیتوں اور مسالک کے لوگ رہتے ہیں، انہیں ان کے جائز حقوق مہیا ہونا چاہیے اور سب کی کوشش یہی ہونی چاہیے کہ ان کی ملکی سالمیت اور استقلال پر حرف نہ آئے اور کوئی سرحدی تبدیلی واقع نہ ہو۔
عراق میں خودمختار کردستان خطے میں ریفرنڈم کے انعقاد کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: ہم سب کو معلوم ہے عراق میں کرد بھائیوں پر کیسے کیسے ظلم ہوئے۔ صدام حسین کی بعث پارٹی نے کردوں پر ایسی قیامت بپا کی کہ زبان پر بھی لانے کے قابل نہیں۔ ان پر بہت ظلم ہواہے۔
انہوں نے مزید کہا: عراق کی وفاقی حکومت کو چاہیے کرد برادری کے مطالبات پر توجہ دے اور ترجیحی بنیادوں پر ان کے ساتھ بے غرضانہ برتاو رکھے۔ حکومت کو چاہیے مظلوم و مقہور برادریوںکے حق میں ’مثبت امتیازی رویہ‘ اپنائے۔
اہل سنت ایران کے مذہبی و سماجی رہ نما نے کہا: کسی بھی ملک میں لسانی و مسلکی برادریوں کے حقوق کی فراہمی، مختلف ثقافتوں کا احترام، مختلف عقائد و رجحانات کا احترام اور انصاف کی فراہمی و برابری قومی اتحاد اور پائیدار امن کے لیے ضروری ہے۔

مولانا عبدالحمید نے آیت اللہ خامنہ ای کے حالیہ خط کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: رہبر انقلاب کے سمجھدارانہ اور مناسب آرڈر آئین اور مصلحت کے عین مطابق ہے۔ انصاف و عدل اور امتیازی رویوں کے خاتمے سے بڑھ کر کوئی مصلحت اور پالیسی نہیں ہوسکتی۔ لہذا تمام ادارے، محکمے اور سرکاری شخصیات اس حکم کو جو امتیازی سلوک کے خلاف ہے، سنجیدگی سے لیں۔
نامور عالم دین نے مسلم حکام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: اپنی اقلیتوں اور برادریوں کا خیال رکھیں، کہیں شیطانی قوتیں ان کے دلوں میں وسوسے نہ ڈالیں۔ مرکزی حکام سب پر پیار کا ہاتھ رکھیں اور ان کے جائز مطالبات پر توجہ دیں۔ سب کے ساتھ برابری کا معاملہ ہونا چاہیے۔
انہوں نے آخر میں کہا: ہم سے جتنا ہوسکے، ہم اپنے ملک کی سالمیت اور امن کے لیے کریں گے۔ ہمارا ملک پرامن ہونا چاہیے۔ شیعہ وسنی دونوںکو اس بارے میں محنت کرنی چاہیے۔ ہم امن قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیںجس کی وجہ سے کچھ لوگ غصہ بھی ہوتے ہیں اور سخت الفاظ میں ہمارے بارے میں بات کرتے ہیں۔ یہ کچھ نوجوان ہیں جو تشدد پر یقین رکھتے ہیں، جو کچھ ہم دیکھتے ہیں، وہ نہیں دیکھتے اور نہیں سجھ سکتے ہیں۔ اللہ کے فضل و کرم سے قرآن و سنت کی روشنی میں ہم دور کو دیکھتے ہیں، دوسرے نہیں دیکھتے اور اسی لیے جذباتیت کا اظہار کرتے ہیں۔

برمی مسلمانوں کا قتل عام؛ عالمی برادری فوجی مداخلت کرے
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنی تقریر کے آخر میں برمی مسلمانوں کے مسائل پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا: میانمار میں مسلمانوں کا قتل عام چونکا دینے والا ہے۔ عالمی انسانی حقوق کے ادارے، سلامتی کونسل اور عالمی برادری ایسے حکام اور عناصر کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں جو نسل کشی کا ارتکاب کررہے ہیں، ان کی مذمت کرکے انہیں دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرنا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا: عالمی برادری مسلمانوں کو بچانے کے لیے فوجی مداخلت کرے، بصورت دیگر انہیں یقین کرنا چاہیے کہ دنیا بھر کے مسلمان خاموش تماشائی بن کر نہیں بیٹھیں گے۔ ضرور کچھ لوگ مسلمانوں کے دفاع اور ان کے ساتھ تعاون کے لیے برمہ پہنچیں گے، پھر انہیں دہشت گرد نہ کہا جائے۔ دفاع ان کا حق ہے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: دہشت گردی کو فروغ دینے والے وہی ہیں جو اس نسل کشی کو خاموش تماشائی بن کر دیکھ رہے ہیں اور صرف بات کرنے اور بیان دینے پر بس کرتے ہیں۔ امید ہے مسلم ممالک اور عالمی برادری اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔ تمام مسلمانوں کو چاہیے مظلوم و لاچار لوگوں کو بچانے کے لیے سوچیں اور ان کی حمایت کریں۔

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں