برمی مسلمانوں کی حالت زار۔۔۔ جو پانی مانگیں تو دریا کنارے ہوجائیں

برمی مسلمانوں کی حالت زار۔۔۔ جو پانی مانگیں تو دریا کنارے ہوجائیں

’’Protest‘‘ احتجاج، اعتراض، کسی عمل یا بات پر زبانی یا تحریری طور پر رد عمل ظاہر کرنا، جس سے یہ واضح ہو کہ کسی فرد، تنظیم، ادارے یا ریاست کی طرف سے کیا جانے والا کام درست نہیں اور اس پر ناپسندیدگی کا مختلف پیرایوں میں اظہار کرنا۔
اسی طرح کسی چیز کی مخالفت کا اعلان کرنا بھی احتجاج ہے۔ جبکہ امداد (Help) کا مطلب ہے ضرورت پوری کرنا، کسی قسم کی حرکت کرنے میں سہارا دینا، مشکلات کم کرنے میں حصہ ڈالنا، کسی چیز کی روک تھام کرنا، حمایت کرنا، دست تعاون بڑھانا، تکالیف کا مداوا کرنا، کمک پہنچانا، حمایت کرنا، دکھ دور کرنا۔
احتجاج اور امداد کے معانی اس پس منظر میں بیان کیے گئے ہیں کہ برما کے روہنگیا مسلمان جس بدترین ظلم کا شکار ہیں، گاجر مولی کی طرح انہیں کاٹا جارہا ہے، بدھسٹ ملیشیا اور برمی فوج ان کی مشترکہ طور پر نسل کشی کررہی ہے، وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔ اقوام متحدہ، انسانی حقوق کے عالمی اداروں، تنظیموں اور عالم اسلام کے حکمرانوں کی اکثریت انسانیت سوز مظالم پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ امت مسلمہ کے عوام سراپا احتجاج ہیں۔ پاکستان میں بھی برما کے مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے لیے مختلف تنظیموں اور جماعتوں نے احتجاجی مظاہرے کیے اور ریلیاں نکالیں۔ پارلیمنٹ میں بھی سیاسی جماعتوں کی طرف سے تحاریک التواجمع کرائی گئیں اور قرار دادیں پاس کرائی گئیں۔ سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاس میں سیاسی زعماء نے تقاریر بھی کیں۔
جڑواں شہروں راولپنڈی اسلام آباد میں مختلف مقامات پر مظاہرے ہوئے۔ اڈیالہ روڈ پر تحریک اشاعت اسلام کے زیر اہتمام مظاہرہ ہوا، جس میں راقم الحروف اور دوسرے علماء کی قیادت میں برمی مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا گیا۔ اس موقع پر جوپلے کارڈ مظاہریں نے اٹھائے ہوئے تھے، ان میں برمی مسلمانوں کی نسل کشی بند کی جائے، برما سے سفارتی تعلقات ختم کیے جائیں، اور آئی سی اپنی ذمہ داری پورے کرے، عالم اسلام کے حکمران خواب غفلت سے بیدار ہوں، اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں کیوں مہر بلب ہیں؟ برمی سفری کو ملک بدر کیا جائے جیسے مطالبات درج تھے۔
اس موقع پر یہ نعرے بھی لگائے جاتے رہے المدد المدد یا خدا یا خدا۔ رہبر و راہنما مصطفی مصطفی۔ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ۔ برمی مظلوموں سے رشتہ کیا لا الہ الا اللہ۔ سپر پاور صرف اللہ، برمی مسلمانوں پر ظلم بند کرو۔ اس موقع پر راقم الحروف، مولانا احمد سعید قریشی، مولانا محمد یاسین رحمانی، مولانا گل بر، مولانا محمد طلوب حسین، قاری محمد اسماعیل رحمانی، حافظ عتیق الرحمن، قاری عبدالشکور و دیگر نے خطاب کیا۔ برمی مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے فرمان نبوی کے مطابق تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں، جس طرح کسی عضو کو تکلیف پہنچے تو تمام جسم بیماری کی کیفیت میں مبتلا ہوجاتا ہے، اسی طرح کسی مسلمان کو تکلیف پہنچے تو باقی مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کے دکھوں کا مداوا کریں۔
برمی مسلمان اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا کی مظلوم ترین قومیت ہیں تو پھر اس ظلم پر خاموشی کیوں؟ دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری ہے، کیا برمی مسلمانوں کی نسل کشی کھلی دہشت گردی نہیں؟ عالم اسلام کے حکمران دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عالمی قوتوں کے شانہ بشانہ ہیں تو پھر وہ ان عالمی قوتوں کو مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی دہشت گردی پر کیوں متوجہ نہیں کرتے؟ قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں ہونے والا اور آئی سی کے سربراہی اجلاس نے اسلامی دنیا میں سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کے ایجنڈے پر بات کی، کاش اس ایجنڈے کو معطل کرکے تمام مسلم سربراہان روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے خاتمے کا زبانی مطالبہ نہ کرتے بلکہ برمی حکومت کی سیاسی، معاشی ناکہ بندی کا متفقہ لائحہ عمل طے کرتے اور اور آئی سی کے رکن ممالک برما سے سفارتی تعلقات کے فوری خاتمے، اپنے سفیروں کو واپس بلانے اور برمی سفیروں کو نکالنے کا فیصلہ کرتے تو برما کے مسلمانوں پر مظالم کی روک تھام کی کوئی صورت نکلتی، مگر حسب سابق یہ اجلاس بھی صرف قرار داد ور نشستند، گفتند اور برخاستند تک محدود رہا۔
ترکی کے علاوہ کسی اسلامی ملک نے عملاً برما کے مظلوموں کی حالت زار کا احساس نہیں کیا اور نہ ہی ان کی امداد کے لیے کوئی اعلان کیا۔ احتجاج اور مظاہرے اپنی جگہ، لیکن جس بے کسی اور بے کسی کا شکار روہنگیا مسلمان ہیں، وہاں عملی مدد کی انتہائی ضرورت ہے۔ کچھ ترک این جی اوز بھی حکومت ترکی کے ساتھ امداد و اعانت کررہی ہیں، لیکن یہ المیہ جتنا بڑا ہے، اتنی ہی بے حسی زیادہ ہے۔ تنظیموں کے لیے بھی امداد کی فراہمی کھلے انداز میں ممکن نہیں، کیونکہ بینکنگ اور دوسرے ملکی اور عالمی قوانین میں مسلم رفاہی تنظیموں کے لیے کام کرنا انتہائی مشکل بنادیا گیا ہے۔ لوگوں میں کچھ کرنے کا جذبہ ہے، مگر اس کے لیے وہ پلیٹ فارم اور معتمد اداروں اور افراد کے متلاشی ہیں۔
احتجاج کے بعد راقم الحروف کے ساتھ مولانا مفتی ہدایت اللہ، مولانا حجاج احمد، قاری نصیراللہ، مولانا شمس الحق، مولانا اختر اور دوسرے علماء برما سے تعلق رکھنے والا مولانا نور البشر سے ملاقات کے لیے گئے، جہاں انہوں نے تفصیل کے ساتھ برمی مسلمانوں کی حالت زار اعداد و شمار کے ذریعے بتائی اور بنگلادیش کی طرف سے آنے والے مہاجرین کے ساتھ برما اور بنگلادیش کے سیکورٹی اہلکاروں کے بدترین سلوک اور کیمپوں میں ان کی کسمپرسی کا تفصیل سے ذکر کیا۔ کئی مظلوم مسلمانوں نے براہ راست وہاں کیے جانے والے انسانیت سوز واقعات مولانا نورالبشر سے بیان کیے، وہ بھی ہمیں دکھائے اور سنوائے۔
اس وقت جو لوگ مظالم کے باعث غاروں، پہاڑوں کی جانب نکلے ہیں، وہ پتے کھا کر زندہ ہیں، بچے بھوک سے مر رہے ہیں۔ خوراک کی ضرورت کسی ایک ملک کے لیے پورا کرنا ممکن نہیں، اس لیے راقم الحروف اور دوسرے ساتھیوں نے کچھ امداد ان تک پہنچائی، مزید امداد کا وعدہ کیا۔ ان شاء اللہ ’’قطرہ بہم دریا شود‘‘ کے مصداق ہمارا بھی کچھ حصہ ہوجائے گا۔ اللہ تعالی غیب سے ان کی مدد فرمائے آمین۔
مقام امن جو ڈھونڈا تو راہ بھی نہ ملی
یہ قہر تھا کہ خدا کی پناہ بھی نہ ملی
جو دانے چاہیں تو خرمن شرارے ہوجائیں
جو پانی مانگیں تو دریا کنارے ہوجائیں

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں