صورت اور حقیقت

صورت اور حقیقت

صورت اور حقیقت میں بڑا فرق ہے
ہر ایک چیز کی ایک صورت ہوتی ہے اور ایک حقیقت، ان دونوں میں بہت بڑی مشابہت کے باوجود بہت بڑا فرق بھی ہوتا ہے۔
آپ روزمرہ کی زندگی میں صورت اور حقیقت اور ان کے فرق سے خوب واقف ہیں، میں اس کی دو مثالیں دیتا ہوں: آپ نے مٹی کے پھل دیکھے ہوں گے جو بالکل اصلی پھل معلوم ہوتے ہیں، لیکن صورت و حقیقت میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اصل آدم کوئی اور چیز ہے اور مٹی کا نقلی آم کوئی اور چیز۔ مٹی کے آم میں نہ اصلی ذائقہ ہے نہ خوشبو، نہ رس، نہ نرمی، نہ اس کی خاصیتیں، صرف آم کی شکل ہے، اور اس کا رنگ و روغن، اس لیے اس کو آم کہیں گے مگر مٹی کا آم، یہ مٹی کا آم دیکھنے بھر کا ہے، نہ کھانے کا، نہ سونگھنے کا، نہ ذائقہ، نہ خوشبو۔
آپ مردہ عجائب خانہ میں گئے ہوں گے، آپ نے دیکھا ہوگا کہ وہاں سب درندے اور سب جانور موجود ہیں، شیر بھی ہے اور ہاتھی بھی، تیندوا بھی، اور چیتا بھی مگر بے حقیقت، بھس بھری ہوئی کھالیں جن میں نہ کوئی جان ہے نہ طاقت، شیر ہے مگر نہ اس کی آواز ہے نہ غصہ، نہ طاقت ہے نہ ہیبت۔

حقیقت کے مقابلہ میں صورت کی شکست
اب میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ صورت کبھی حقیقت کے قائم مقام نہیں ہوسکتی، صورت سے حقیقت کے خواص کبھی ظاہر نہیں ہوسکتے، صورت کبھی حقیقت کا مقابلہ نہیں کرسکتی، صورت کبھی حقیقت کا بوجھ سنبھال نہیں سکتی۔ جب صورت کسی حقیقت کے مقابلے میں آئے گی اس کو شکست کھانا پڑے گی، جب صورت پر کسی حقیقت کا بوجھ ڈالا جائے گا صورت کی پوری عمارت زمین پر آرہے گی۔
صورت اور حقیقت کا یہ فرق ہرجگہ نمایاں ہوگا، ہر جگہ صورت کی حقیقت کے سامنے پسپا ہونا پڑے گا، یہاں تک کہ عظیم سے عظیم اور مہیب سے مہیب صورت اگر حقیر سے حقیر حقیقت کے مقابلہ میں آئے گی تو اس کو مغلوب ہونا پڑے گا، اس لیے ہر چھوٹی سے چھوٹی حقیقت ہر بڑی سے بڑی صورت کے مقابلہ میں زیادہ طاقت رکھتی ہے۔ حقیقت ایک طاقت ہے، ایک ٹھوس وجود ہے۔ صورت ایک خیال ہے۔ دیکھئے! ایک چھوٹا سا بچہ اپنے کمزور ہاتھ کے اشارے سے ایک بھس بھرے مردہ شیر کو دھکا دے سکتا ہے، اس کو زمین پر گرا سکتا ہے، اس لیے کہ بچہ خواہ کتنا ہی کمزور سہی ایک حقیقت رکھتا ہے، شیر اس وقت صرف صورت ہی صورت ہے، بچہ کی حقیقت شیر کی صورت پر آسانی سے غالب آجاتی ہے۔

نفس کا دھوکا
یہ عالم حقائق کا مجموعہ ہے، اللہ تعالی نے ہر چیز میں ایک حقیقت رکھی ہے۔ مال کی بھی ایک حقیقت ہے، اس کی محبت طبعی اور اس کی خواہش فطری ہے۔ اگر حقیقت نہ ہوتی تو اس سے متعلق احکام کیوں ہوتے؟ اس میں کشش کیوں ہوتی؟ اولاد ایک حقیقت ہے، اس سے طبعی محبت اور فطری تعلق ہوتا ہے، اگر اولاد ایک حقیقت نہ ہوتی تو شریعت میں اس کی پرورش و نگہداشت کے احکام و فضائل کیوں ہوتے؟ اسی طرح طبعی ضروریات اور خواہشات کی بھی ایک حقیقت ہے۔ ان حقیقتوں پر ایک بالاتر، قوی حقیقت ہی غالب آسکتی ہے، کوئی صورت غالب نہیں آسکتی۔ یہ حقائق کتنے باطل آمیز سہی ان پر فتح حاصل کرنے کے لیے اسلام و ایمان کی حقیقت درکار ہے۔ اسلام کی صورت کتنی ہی مقدس سہی ان پر فتح حاصل نہیں کرسکتی، اس لیے کہ اُدھر حقیقتیں ہیں، اِدھر صرف صورت۔ آج ہم یہی دیکھ رہے ہیں کہ صورت اسلام ادنیٰ ادنی حقائق پر غالب نہیں آرہی ہے، اس لیے کہ صورت میں دراصل کچھ بھی طاقت نہیں۔ ہماری صورت اسلام، صورت کلمہ، صورت نماز ہم سے ادنی ترغیبات چھڑانے سے قاصر ہے، ادنی عادات پر غالب آنے سے عاجز ہے، ہم کو موسم کی ادنی سختی اور حقیرترین خواہش کا مقابلہ کرنے کی طاقت عطا نہیں کرتی۔ آپ کا یہ کلمہ جو کبھی گردن کٹوادینے کی طاقت رکھتا تھا، جو مال اور اولاد کو اللہ تعالی کی راہ میں بے تکلف قربان کرادینے کی قوت رکھتا تھا، جو وطن چھڑادینے اور تختۂ دار پر چڑھادینے کی قوت رکھتا تھا، آج وہ ان سردیوں میں صبح کی نماز کے لیے اُٹھانے کی طاقت نہیں رکھتا۔ جو کلمہ زندگی بھر کی منہ لگی شراب کو شریعت کے حکم پر ہمیشہ کے لیے چھڑا سکتا تھا، آج اگر ضرورت پڑجائے تو آپ کی ادنی مرغوب چیز یا معمولی عادت بھی نہیں چھڑا سکتا، اس لیے کہ وہ کلمہ کی حقیقت تھی جس کے کارنامے آپ تاریخ اسلام میں پڑھتے ہیں، یہ کلمہ کی صورت ہے جس کی بے اثری آپ دن رات رکھتے ہیں۔
ہم غلطی یہ کرتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تاریخ کو اپنے اوپر اوڑھنا چاہتے ہیں، اس کو اپنے اوپر منطبق کرنا چاہتے ہیں، جب وہ منطبق نہیں ہوتی، جب وہ لباس ہمارے اوپر راست نہیں آتا، جب جگہ جگہ جھول پڑجاتے ہیں، تو ہم شکایت کرتے ہیں، تعجب کرتے ہیں کہ وہ بھی پڑھتے تھے، ہم بھی پڑھتے ہیں، نماز وہ بھی پڑھتے تھے ہم بھی پڑھتے ہیں، پھر کیوں اسی طرح کے واقعات ظہور میں نہیں آتے؟ کیوں اسی طرح کے نتائج و ثمرات برآمد نہیں ہوتے؟ دوستو اور بزرگو! اپنے نفس کو دھوکہ نہ دو، وہاں کلمہ کی حقیقت تھی، ایمان کی حقیقت تھی، یہاں کلمہ کی صورت ہے، ایمان کی صورت ہے، نماز کی صورت ہے۔ جس طرح املی کے بیج سے آم کے پھل کی توقع فضول ہے، اسی طرح صورت سے حقیقت کے خواص کی امید بے کار ہے اور فریبِ نفس ہے۔

حقیقت اسلام
حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کا واقعہ آپ نے سنا ہے، پھانسی کے تخت پر اُن کو چڑھایا گیا، چاروں طرف سے نیزوں کی نوکوں نے ان کو نوچنا شروع کیا، برچھیوں نے ان کے جسم کو چھلنی کردیا، وہ صبر و استقامت کے ساتھ مقابلہ کرتے رہے، عین اس حالت میں ان سے کہا جاتا ہے کیا تم اس پر راضی ہو کہ تمہاری جگہ رسول اللہ (ﷺ) ہوں؟ وہ تڑپ کر جواب دیتے ہیں کہ میں تو ا س پر بھی راضی نہیں کہ مجھے چھوڑ دیا جائے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تلوہ میں کوئی کانٹا بھی چبھے۔ حضرات! کیا یہ صورت اسلام تھی جس نے ان کو تختہ دار پر ثابت قدم رکھا اور ان کی زبان سے یہ الفاظ کہلوائے؟ نہیں، وہ اسلام کی حقیقت تھی جو جو اُن کے ہر زخم پر مرہم رکھتی تھی، جوہر نیزے کی چبھن پر ان کے سامنے جنت کا نقشہ لاتی تھی اور اُنہیں دکھاتی تھی کہ یہ تمہاری اس تکلیف کا صلہ ہے، بس چند لمحوں کا معاملہ ہے، یہ جنت تمہاری منتظر ہے، یہ خدا کی رحمت تمہاری منتظر ہے، اگر تم نے اس فانی جسم کی تکلیف کو گوارا کرلیا تو غیرفانی زندگی کی غیرفانی راحت تمہارا حصہ ہے۔ یہ عشق و محبت کی حقیقت تھی، جب ان سے کہا گیا کہ کیا تم تو یہ منظور ہے کہ تمہاری جگہ رسول اللہ (ﷺ) ہوں؟ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت بن کر ان کے سامنے آگئی اور ان کو گوارا نہیں ہوا کہ اس اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک کانٹے کی بھی تکلیف ہو۔
یہ چند پاک اور بلند حقائق تھی جو درد و تکلیف کی حقیقت پر غالب آئے، صورت اسلام میں اس حقیقت درد و تکلیف کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہ پہلے تھی، نہ اب ہے۔ صورت اسلام تو تکلیف کے تصورات اور خیالات کا بھی مقابلہ نہیں کرسکتی، ہم کو اور آپ کو معلوم ہے کہ گزشتہ فسادات کے موقع پر خیالی خطرات کی بنا پر لوگوں نے صورت اسلام بدل دی، مسلمانوں نے سروں پر چوٹیاں رکھیں اور غیراسلامی شعار اختیار کیے، اس لیے کہ اُن غریبوں کے پاس صرف صورت اسلام تھی جو اس میدان میں ٹھہر نہیں سکتی تھی۔
آپ نے سنا ہے کہ حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ ہجرت کرکے جانے لگے تو کفار مکہ نے ان کو راستہ میں روکا او رکہا کہ صہیب! تم جاسکتے ہو، مگر یہ مال نہیں لے جاسکتے جو تم نے ہمارے شہر میں پیدا کیا ہے۔ اب حقیقت مال سے مقابلہ تھا، حقیقتِ اسلام اپنی مقابل حقیقت پر غالب آئی۔ صورتِ اسلام ہوتی تو وہ حقیقت مال کا مقابلہ نہیں کرسکتی تھی۔
آپ نے سنا ہے کہ حضرت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ جب ہجرت کرکے جانے لگے تو کفار اُن کا راستہ روک کر کھڑے ہوگئے، انہوں نے کہا کہ تم جاسکتے ہو مگر ہماری لڑکی ام سلمہ (رضی اللہ عنہا) کو نہیں لے جاسکتے۔ اب حقیقت اسلام کا ایک حقیقت سے مقابلہ تھا، وہ حقیقت کیا تھی؟ بیوی کی محبت، جو ایک حقیقت تھی، لیکن اسلام کی حقیقت مومن کے لیے دل میں ہر حقیقت سے زیادہ طاقتور اور گہری ہوتی ہے۔ انہوں نے بیوی کو اللہ کے حوالہ کیا اور تن تنہا چل دیئے۔ کیا صورتِ اسلام میں اتنی طاقت ہے کہ آدمی بیوی کو چھوڑ دے؟ ہم نے تو دیکھا ہے کہ لوگوں نے بیوی اور بچوں کے لیے کفر تک اختیار کرلیا اور صورت اسلام کی ذرا پروا نہیں کی ہے۔
آپ نے سنا ہے کہ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نماز پڑھ رہے تھے کہ ان کے باغ میں ایک چھوٹی سی چڑیا آگئی اور اس کو پھر جانے کا راستہ نہ ملا، حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کی توجہ بٹ گئی، نماز کے بعد انہوں نے پورا باغ صدقہ کردیا، اس لیے کہ حقیقت نماز اس شرکت کو گوارا نہیں کرسکتی تھی۔ باغ کی بھی ایک حقیقت ہے، اس کی سرسبزی، اس کی فصل، اس کی قیمت ایک حقیقت ہے، اس حقیقت کا مقابلہ کرنے کی صورت نماز نہیں کرسکتی تھی، اس کا مقابلہ کرنے کی طاقت حقیقت صلوۃ ہی میں ہے۔ آج ہماری آپ کی نماز ادنیٰ ادنیٰ حقیقتوں کا مقابلہ اس لیے نہیں کرسکتی کہ وہ حقیقت سے خالی اور ایک صورت ہے۔
آپ نے سنا ہوگا کہ یرموک کے میدان میں چند ہزار مسلمان تھے اور کئی لاکھ رومی۔ ایک عیسائی (جو مسلمانوں کے جھنڈے کے نیچے لڑ رہا تھا) کی زبان سے بے اختیار نکلا کہ رومیوں کی تعداد کا کچھ ٹھکانہ ہے؟ حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے کہا: خاموش! خدا کی قسم اگر میرے گھوڑے اشقر کے سم درست ہوتے تو میں رومیوں کو پیغام بھیجتا کہ اتنی ہی تعداد اور میدان میں لے آئیں۔ حضرات! حضرت خالد رضی اللہ عنہ کو یہ اطمینان و اعتماد کیوں تھا اور وہ رومیوں کی تعداد کو بے حقیقت کیوں سمجھتے تھے؟ اس لیے کہ وہ حقیقت اسلام رکھتے تھے اور سمجھتے تھے کہ اس کے مقابل صرف رومیوں کی صورتیں ہیں جو ہر طرح کی حقیقت سے خالی ہیں۔ یہ لاکھوں صورتیں اسلام کی حقیقت کے سامنے ٹھہر نہیں سکتیں۔
ہم یقیناًکلمہ پڑھتے ہیں، ہم میں سے بہت سے لوگ کلمہ کے معنی سے واقف ہیں، لیکن حقیقتِ کلمہ کوئی اور چیز ہے، وہ ان الفاظ اور معنی سے بہت بلند ہے۔ کلمہ کی یہ حقیقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حاصل تھی، جب وہ کہتے تھے: ’’لا الہ الا اللہ‘‘ تو واقعۃً سمجھتے تھے کہ اللہ کے سوا کوئی حاکم و بادشاہ نہیں، اللہ کے سوا کوئی محبت و خوف کے لائق نہیں، اللہ کے سوا کسی کی ہستی کوئی ہستی نہیں۔ کیا یہ حقیقتیں ہم سب کے دل میں اتری ہوئی ہیں؟ ہمارے دماغ کے اندر بسی ہوئی ہیں؟ ہماری زندگی کے اندر جڑ پکڑے ہوئے ہیں؟ اگر ہم ان حقیقتوں سے واقف بھی ہوتے تو ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کہتے ہوئے ہمیں احساس ہوتا کہ ہم کتنی بڑی بات کہہ رہے ہیں۔ جس کو اس حقیقت کا ذرا بھی احساس ہے، اسلام کا دعوی کرتے ہوئے سمجھتا ہے کہ وہ کتنا بڑا دعویٰ کررہا ہے؟
چوں می گویم مسلمانم بلرزم
کہ دانم مشکلاتِ لا الہ را
ہم جب جانتے ہیں کہ آخرت برحق ہے، جنت و دوزخ برحق ہیں، مرنے کے بعد یقیناًزندہ ہونا ہے، لیکن کیا سب کو ایمان کی وہ حقیقت حاصل ہے جو صحابہ رضی اللہ عنہم کو حاصل تھی؟ اس حقیقت کا نتیجہ یہ تھا کہ صحابی رضی اللہ عنہ کھجور کھاتے پھینک دیتا ہے اور کہتا ہے کہ ان کے ختم ہونے کا انتظار کرنا میرے لیے بہت مشکل ہے اور فوراً بڑھ کر شہادت حاصل کرتا ہے، اس لیے کہ جنت اس کے لیے ایک حقیقت تھی اور وہ حقیقت اس کے سامنے تھی۔ اس کی حقیقت جس کو حاصل تھی وہ قسم کھا کر کہتا تھا کہ مجھے اُحد پہاڑ کے اس طرف سے جنت کی خوشبو آرہی ہے۔ یرموک کے میدان میں ایک صحابی ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ امیر! میں سفر کے لیے تیار ہوں، کوئی پیغام تو نہیں کہنا ہے؟ وہ کہتے ہیں: ہاں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہمارا سلام عرض کرنا اور کہنا کہ آپ نے ہم سے جو وعدے فرمائے تھے وہ سب پورے ہورہے ہیں، یہ ہے یقین کی حقیقت، اس حقیقت پر کون سی قوت غالب آسکتی ہے؟ اور ایسی حقیقت رکھنے والی جماعت پر کون سی جماعت غالب آسکتی ہے؟

صورت اسلام حفاظت کرنے کے لیے کافی نہیں
اُمت میں جو سب سے بڑا انقلاب ہوا‘ وہ یہ کہ اس کی ایک بڑی تعداد اور شاید سب سے بڑی تعداد میں صورت نے حقیقت کی جگہ لے لی۔ یہ آج کی بات نہیں، یہ صدیوں پرانی حقیقت ہے۔ صدیوں سے صورت نے حقیقت کی جگہ حاصل کررکھی ہے۔ عرصہ تک دیکھنے والوں کو صورت پر حقیقت کا دھوکا ہوتا رہا اور حقیقت کے ڈر سے اس صورت کے قریب آنے سے بچتے رہے، لیکن جب کسی نے ہمت کرکے اس صورت کو چھوا تو معلوم ہوا کہ اندر سے پول ہے اور حقیقت غائب ہوچکی ہے۔
آپ نے دیکھا ہوگا کبھی کبھی کاشت کا رکھیت میں ایک لکڑی گاڑ کر اس پر کوئی کپڑا اڈال دیتا ہے جس کو دیکھ کر پرندوں اور جانوروں کو شبہ ہوتا ہے کہ کوئی آدمی رکھوالی کررہا ہے، لیکن اگر کبھی کوئی سیانا کوایا ہوشیار جانور ہمت کرکے کھیت میں جا پڑے تو ظاہر ہے کہ وہ بے جان شبیہ کچھ نہیں کرسکتی، پھر نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جانور اس کھیت کو روند ڈالتے ہیں اور پرندے اس کا ستیاناس کردیتے ہیں۔
مسلمانوں کے ساتھ یہی واقعہ پیش آیا ہے، ان کی صورت حقیقت بن کر برسوں ان کی حفاظت کرتی رہی، قومیں ان کے قریب آنے سے ڈرتی تھیں، حقیقت اسلام کے واقعات ان کے ذہن میں تازہ تھے اور کسی کو مسلمانوں پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں ہوتی تھی، لیکن کب تک؟ جب تاتاریوں نے بغداد پر چڑھائی کی۔ جس پر حملہ کرنے سے وہ برسوں احتیاط کرتے رہے۔ تو اس صورت کی حقیقت کھل گئی اور مسلمانوں کا جھرم جاتا رہا۔ اس وقت صورتِ اسلام حفاظت کرنے کے لیے کافی نہیں ہے، اب صرف حقیقتِ اسلام ہی اس امت کی حفاظت کرسکتی ہے۔

ہماری خطأ
آپ تاریخ اسلام میں مسلمانوں کی ناکامی کی تلخ داستانیں پڑھتے ہیں، یہ حقیقت کی شکست کے واقعات نہیں، یہ سب صورت کی شکست و ہزیمت کے واقعات نے ہم کو ہر معرکہ میں رسوا و ذلیل کیا ہے۔ لیکن خطا ہماری تھی، ہم نے غریب صورت پر حقیقت کا بوجھ رکھنا چاہا، وہ اس بوجھ کو سہار نہ سکی، خود بھی گری اور عمارت کو بھی زمین پر لے آئی۔

حقیقتِ اسلام مدتوں سے میدان میں آئی ہی نہیں
عرصہ دراز سے صورت اسلام معرکہ آزما ہے اور شکست پر شکست کھا رہی ہے اور حقیقتِ اسلام مفت میں بدنام اور دنیا کی نگاہوں میں ذلیل ہو رہی ہے۔ دنیا سمجھ رہی ہے کہ ہم اسلام کو شکست دے رہے ہیں، اس کو خبر نہیں کہ حقیقتِ اسلام تو مدت سے میدان میں آئی ہی نہیں، اس کے مقابلہ میں مسلمانوں کی صرف صورت ہے، نہ کہ اسلام کی حقیقت۔
یورپ کی قوموں کے مقابلہ میں ترکی میدان میں آیا، لیکن اسلام کی ایک نڈھال صورت لے کر، یہ نحیف و نزار صورت مقابلہ میں ٹھہر نہ سکی، فلسطین میں تمام عرب قومیں اور سلطنتیں مل کر یہودیوں کے مقابلہ میں آئیں، لیکن حقیقتِ اسلام ، شوق شہادت، جذبۂ جہاد اور ایمانی کیفیات سے اکثر عاری، عربی قومیت کے نشہ میں سرشار صرف اسلام کے نام و نسب سے آراستہ، نتیجہ یہ ہوا کہ اس بے روح صورت نے یہودیوں کی جنگی قوت و تنظیم و اسلحہ کی حقیقت سے مات کھائی، اس لیے کہ صورت حقیقت کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ یہودی ایک حقیقت رکھتے تھے، اگر چہ سر تا پا مادی۔ عرب صرف ایک صورت رکھتے تھے، اگر چہ مقدس، لیکن صورت صورت ہے اور حقیقت حقیقت ہے۔

رحمت و نصرت، تائید و اعانت کے وعدے حقیقت سے متعلق ہیں
اسلام کی صورت اللہ کے یہاں ایک درجہ رکھتی ہے، اس لیے کہ اس میں مدتوں اسلام کی حقیقت بسی ہوئی رہی ہے اور یہ کہ حقیقت کا قالب ہے۔ اسلام کی صورت بھی اللہ کو پیاری ہے، اس لیے کہ اس کے محبوبوں کی پسندیدہ صورت ہے، اسلام کی صورت بھی اللہ کی ایک بڑی نعمت ہے، اس لیے کہ اس صورت سے حقیقت اسلام کی طرف منتقل ہونا نسبتاً آسان ہے، جہاں صورت بھی نہیں وہاں حقیقت پر پہنچنا بہت مشکل ہے، لیکن دوستو! اللہ تعالی کی رحمت و نصرت کے وعدے دنیا میں اور مغفرت و نجات اور ترقیِ درجات کے وعدے آخرت میں سب حقیقت سے متعلق ہیں، نہ کہ صورت سے، حدیث میں ہے:
’’ان اللہ لا ینظر الی صورکم و أموالکم و لکن ینظر الی قلوبکم و أعمالکم۔‘‘
’’اللہ تعالی تمہاری صورتوں اور مالوں کو نہیں دیکھتا، وہ تمہارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے۔‘‘
(مشکوۃ، کتاب الایمان)

جو لوگ صرف صورت کے حامل تھے اور حقیقت سے یکسر خالی تھے، ان کو وہ ان لکڑیوں سے تشبیہ دیتا ہے جو کسی سہارے رکھی ہوئی ہیں، وہ فرماتا ہے:
’ وَإِذَا رَأَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ أَجْسَامُهُمْ وَإِن يَقُولُوا تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْ كَأَنَّهُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَةٌ ۖ يَحْسَبُونَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ ‘ (المنافقون: ۴)
’’اگر تم ان کو دیکھو تو تم کو ان کے جسم بڑے بھلے معلوم ہوں گے، وہ بات کریں گے تو تم کان لگا کر سنو گے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ وہ لکڑیاں ہیں جو سہارے سے رکھی ہوئی ہیں، ہر آواز کو وہ اپنے خلاف ہی سمجھتے ہیں۔‘‘

دین کے اقتدار اور امن و اطمینان کا وعدہ
دنیا میں بھی فتح و نصرت و تائید و اعانت کے وعدے حقیقتِ ایمان کے ساتھ مشروط ہیں، اللہ تعالی صاف فرماتا ہے:
’’ لَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ‘‘ (آل عمران: ۱3۹)
’’سست و غمگین نہ ہو، تم ہی سربلند ہو، اگر تم (حقیقۃً) صاحبِ ایمان ہو۔‘‘
ظاہر ہے کہ اس آیت میں خطاب مسلمانوں ہی کو ہے، لیکن پھر بھی شرط لگائی ہے کہ اگر تم میں حقیقتِ ایمان پائی جاتی ہے تو پھر تمہاری سربلندی میں شک نہیں۔
دوسری آیت میں بھی صفت ایمان ہی پر اپنی مدد کا وعدہ فرمایا:
’ إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ‘ (المؤمن: ۵۱)
’’ہم ضرور ضرور اپنے پیغمبروں کی مدد کریں گے اور ان لوگوں کی جو صفتِ ایمان سے متصف ہیں دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی، جب اللہ کے گواہ کھڑے ہوں گے۔‘‘
اسی حقیقتِ ایمان پر خلافتِ ارضی، دین کے اقتدار اور امن و اطمینان کا وعدہ فرمایا ہے:
’’ وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ‘‘ (النور: ۵۵)
’’ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان رکھتے ہیں اور جن کے عمل صالح ہیں اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کو زمین کی خلافت سے سرفراز کرے گا جیسے ان لوگوں کو سرفراز کیا جو اُن سے پہلے تھے اور ان کے دین کو جو اللہ کا پسندیدہ ہے اقتدار عطا فرمائے گا اور ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا۔‘‘
لیکن باوجود اس کے کہ یہ سارے وعدے ایمان و عمل صالح کی بنیاد پر تھے، پھر یہ شرط فرمائی کہ یہ ضروری ہے کہ ان میں اسلام کی حقیقت (توحید کامل) پائی جائے: ’’ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا‘‘ (النور)۔۔۔ ’’(اس شرط سے) کہ میری عبادت کریں گے، میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے۔‘‘

امت کی سب سے بڑی خدمت
پس اس وقت سب سے بڑا کام اور اُمت کی سب سے بڑی خدمت یہ ہے کہ اس کے عوام اور سوادِ اعظم کو صورت سے حقیقت کی طرف سفر کرنے کی دعوت دی جائے۔ صورتِ اسلام میں روحِ اسلام اور حقیقتِ اسلام پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس وقت اُمت کی سب سے بڑی احتیاج یہی ہے کہ اسی سے اس کے حالات اور اس کے نتیجہ میں دنیا کے حالات بدلیں گے۔ دنیا کے حالات اس امت کے حالات کے اور اس امت کے حالات اس حقیقت کے تابع ہیں۔ یہ امت حضرت مسیح علیہ السلام کے الفاظ میں زمین کا نمک ہے، دیگ کا مزا نمک کے تابع ہے اور نمک کا مزا اس کی نمکینی پر موقوف ہے، اگر نمک کی نمکینی ختم ہوجائے تو وہ نمک کس کام کا؟ اور پھر کھانے کو خوش ذائقہ بنانے والی چیز کہاں سے آئے گی؟ آج ساری زندگی بے کیف اور بے روح ہے، اس لیے کہ اس امت کی بڑی تعداد حقیقت سے عاری اور روح سے خالی ہے، پھر زندگی میں روح اور حقیقت کہاں سے آئے گی؟

اقوامِ عالم کی جڑیں خشک ہوچکی ہیں
دنیا کی اور قومیں بھی ہیں جو ہزاروں برس سے اپنے مذہب اور روح سے خالی ہوچکی ہیں اور ان میں صرف چند بے روح رسمیں اور چند بے حقیقت صورتیں رہ گئیں ہیں، لیکن ان قوموں کی دینی و روحانی زندگی ختم ہوچکی ہے، ان کی زندگی کے سوتے خشک ہوچکے ہیں۔ آج دنیا کی کوئی طاقت، کوئی شخصیت، کوئی اصلاح ان میں دینی زندگی اور حقیقی روح پیدا نہیں کرسکتی۔ ایک نئی قوم کا بن جانا ان قوموں کی دوبارہ زندگی سے آسان ہے۔ جن لوگوں نے ان قوموں میں از سر نو دینی زندگی اور اخلاقی روح پیدا کرنے کی انتہائی جد و جہد کی، وہ زمانہ حال کے وسائل اور سہولتوں کے باوجود سخت ناکام رہے، اس لیے کہ درحقیقت ان میں ایمان و یقین اور دینی روح پیدا کرنے کا سرچشمہ عرصہ ہوا خشک ہوچکا ہے، زندگی کا سرا اور راشتہ کٹ چکا ہے، جب کسی درخت کی جڑ خشک ہوچکی ہو اور اس کی رگیں زمین چھوڑ چکی ہوں تو اس کی پتوں کو پانی دینے سے کچھ نہیں ہوتا۔

مسلمان کے لیے حقیقت کی طرف ترقی کرنے کی ضرورت
لیکن اس امت کی زندگی کا سرچشمہ موجود ہے، اس امت کی زندگی کا سرا موجود ہے اور یہ امت اس سے وابستہ ہے، وہ ہے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان، آخرت اور حساب کتاب کا یقین ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ کا اقرار اس اُمت کا اس گئی گزری حالت میں بھی اللہ اور اس کے رسول سے جو تعلق ہے وہ دوسری قوموں کے خواص کو بھی نصیب نہیں، اس انحطاط کے زمانہ میں بھی جتنی حقیقت اس میں پائی جاتی ہے وہ دوسری قوموں میں مفقود ہے۔ اس کی کتابِ آسمانی (قرآن مجید) محفوظ ہے اور اس کے ہاتھوں میں ہے، اس کے پیغمبر کی سیرت اور زندگی جو آج بھی ہزاروں لاکھوں دلوں کو گرما دینے اور زمانے کے خلاف لڑا دینے کی طاقت رکھتی ہے، مکمل طریقہ پر موجود ہے اور آنکھوں کے سامنے ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگی اور ان کی زندگی کا انقلاب اور ان کی کوششوں سے دنیا کا انقلاب نظر کے سامنے موجود ہے۔ یہ سب زندگی کے سرچشمے ہیں، یہ حرارت اور روشنی کے مرکز ہیں، صرف اس کی ضرورت ہے کہ اس امت میں صورت سے حقیقت کی طرف ترقی کی ضرورت کا عام احساس پیدا ہو، زندگی کے ان مرکزوں سے تعلق پیدا ہو اور مادی و معاشی انہماک سے ان کو مرکزوں سے اکتسابِ فیض کی فرصت ملے اور وہ اپنی اصلی زندگی کے چند دن گزار کر اپنی زندگی میں انقلاب اور اپنی پوری زندگی میں ایمان و احتساب اور اللہ کے وعدوں پر یقین اور اس کی رضا کے شوق میں کام کی روح پیدا کرے۔ ہماری دعوت صرف یہ ہے کہ: ’’ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا آمِنُوا‘‘۔۔۔ ’’اے مسلمانو! صورت اسلام سے حقیقت ایمان کی طرف ترقی کرو۔‘‘
ہمارے مستقل ہفتہ وار اجتماعات جن کی ہم شہر شہر اور قصبہ قصبہ دعوت دیتے ہیں، اسی لیے ہیں کہ ہر آبادی میں ایسے مرکز قائم ہوں جہاں مسلمان جمع ہو کر اپنی زندگی کا بھولا ہوا سبق یاد کریں، جہاں سے انہیں حقیقتِ اسلام کا پیغام ملے، جہاں سے ان کو اپنی کھوئی ہوئی زندگی کا سراغ لگے، جہاں سیرتِ نبویہ (علی صاحبہا الصلوۃ و السلام) اور اصلی اسلامی زندگی کے واقعات اور دین کی بنیادی و اصولی دعوت کے ذریعہ ان میں دینی انقلاب کی خواہش پیدا ہو، اگر یہ مرکز اور اس طرح کے اجتماعات نہ ہوئے تو بڑے پیمانے پر اور طاقتور اور مؤثر طریقہ پر اُمت کی اکثریت میں ’’حقیقتِ اسلام‘‘ اور روح اسلام پیدا ہونے کی کیا توقع ہے؟
پھر ہم مسلمانوں کو اس کی دعوت دیتے ہیں کہ وہ کچھ دن حقیقتِ اسلام کو حاصل کرنے اور اس کو اپنے میں راسخ کرنے کے لیے اپنے اوقات فارغ کریں اور اس ماحول سے نکل کر جس میں حقیقتِ اسلام پنپنے اور ایمانی کیفیات اُبھرنے نہیں پاتیں۔ ایک ایسے ماحول میں وقت گزاریں جہاں اصلی زندگی کی جھلک موجود ہو، جہاں علم و ذکر، دعوت و تبلیغ، خدمت و ایثار، تواضع و خُلُق، محنت و جفاکشی کی زندگی ہو، ہم اس وقت مسلمانوں کو اس مقصد کے لیے جماعتوں کی شکل میں نکلنے کی دعوت دیتے ہین۔ اگر مسلمانوں کی بڑی تعداد اس کو جزء زندگی بنالے اور اس کا رواج پڑجائے تو ہم کو اللہ کی ذات سے امید ہے کہ کروڑوں مسلمانوں تک حقیقتِ اسلام کا یہ پیغام پہنچ جائے گا اور لاکھوں مسلمانوں کی زندگی میں دینی روح، ایمان و اسلام کی حقیقت اور اس کی صفات و کیفیات پیدا ہوجائیں گی۔

حقیقتِ اسلام دوبارہ پیدا ہوسکتی ہے
حضرات! ہم اس سے بالکل مایوس نہیں ہیں کہ اس زمانہ میں حقیقتِ اسلام پیدا نہیں ہوسکتی، ہم کسی ایسے زمانہ اور انقلاب کے قائل نہیں جس میں حقیقتِ اسلام دوبارہ پیدا نہیں کی جاسکتی۔ آپ پیچھے مڑ کر دیکھئے! تاریخ کے سمندر میں آپ کو حقیقتِ اسلام کے جزیرے بکھرے ہوئے نظر آئیں گے۔ بارہا حقیقت اسلام اُبھری اور ایمانی کیفیات پیدا ہوئیں، وہی اللہ اور رسول پر یقین و اعتماد، وہی شہادت کا ذوق، جنت کا شوق، وہی دنیا پر آخرت کی ترجیح، جب کبھی اور جہاں کہیں حقیقتِ اسلام پیدا ہوگئی اس نے ظاہری قرائن و قیاسات کے خلاف حالات اور مخالف طاقتوں پر فتح پائی ہے، تمام گزرے ہوئے واقعات کو دہرا دیا ہے اور قرنِ اول کی یاد تازہ کردی ہے۔

حقیقتِ اسلام میں آج بھی طاقت ہے
حقیقتِ اسلام اور حقیقتِ ایمان میں آج بھی وہی طاقت ہے جو ابتدائے اسلام میں تھی۔ آج بھی اس سے وہ تمام واقعات ظاہر ہوسکتے ہیں جو اس سے پہلے ظاہر ہوئے ہیں، آج بھی اس کے سامنے دریا پایاب ہوسکتے ہیں، سمندر میں گھوڑے ڈالے جاسکتے ہیں، درندے جنگل چھوڑ کر جاسکتے ہیں، بھڑکتی ہوئی آگ گلزار بن سکتی ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ حقیقتِ ابراہیمی موجود ہو:
آج بھی ہو جو ابراہیم کا ایمان پیدا آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا

انتخاب: مولانا فصیح الرحمن


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں