شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید کی علمائے کرام کو نصیحتیں

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید کی علمائے کرام کو نصیحتیں

سنی آن لائن: گزشتہ ہفتہ کے آخر میں جامعہ دارالعلوم زاہدان کے اٹھائیس سال کے فضلا کا اجتماع جامعہ کے احاطے میں منعقد ہوا جس میں دوہزار کے قریب فضلائے کرام نے شرکت کی۔
اس عظیم الشان اجتماع میں رئیس الجامعہ شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے دینی مدارس کے مہتمم حضرات، مدرسین اور مساجد کے ائمہ و خطبا سے خصوصی گفتگو فرمائی جس کے بعض اقتباسات نذر قارئین ہے:

دو تین کتابیں پڑھا کر ہم اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش نہیں ہوتے ہیں۔گھر، مسجد، مدرسہ اور پورے معاشرے کے لیے سوچیں اور منصوبہ بنائیں۔
مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کو دین کی طرف لانے کی کوشش کریں اور اس کے لیے منصوبہ بندی کریں۔
تبلیغی جماعت سے تعاون کریں اور ان کی حمایت کیا کریں۔
جو لوگ کسی بھی شکل میں دین کی خدمت کررہے ہیں، ان کی حوصلہ افزائی کرکے ان کی حمایت کریں۔ ان کے تجربوں سے بھی استفادہ کریں۔
خطیب حضرات اپنی باتوں کو پہلے تولیں۔ عوام کی ضرورتوں کو سامنے رکھیں۔ ہمارے موقف خیرخواہی اور میانہ روی پر مبنی ہوں، تنقید تعمیری اور قابل برداشت ہو۔ کردارکشی پر مبنی نہ ہو۔ بات حکمت سے کریں۔
مدرس حضرات محض شروح پر اکتفا نہ کریں۔ مسائل کے حل کے لیے مطالعہ اچھا ہے، لیکن اپنی سوچ سے زیادہ کام لیں۔ قوت کے ساتھ اسباق میں حاضر ہونے سے پڑھانے میں مزہ آتاہے۔
نماز پڑھانے اور خطاب کرنے سے پہلے سوچیں اور اپنی نیت ٹھیک کرلیں۔
مہتمم حضرات مدرسے میں حاضر ہوں۔ دفتر میں بیٹھے نہ رہیں، بلکہ مختلف شعبوں کی خبر لے لیں اور مسائل خود ہی حل کرائیں۔
عوام اور حکام سے تعاون کریں۔ عوام کی خوشی غم میں شریک ہوں، ان کی آواز حکام تک پہنچائیں۔
عامل بن کر ابطال سحر اور تعویذنویسی کو اپنا مشغلہ نہ بنائیں، ورنہ پریشانی ہوگی ۔ زیادہ تر خواتین تعویذ کے لیے آتی ہیں۔
اختلافات سے پرہیز کریں۔ اگر اختلاف پیش آئے، حکمت و سمجھداری سے اس کو قابو کریں۔ اپنے علاقہ میں اختلافات کو جڑ پکڑنے کی اجازت نہ دیں۔
اپنی مسجد و مدرسہ کو ’دوکان‘ نہ بنائیں۔ دوسروں کی مساجد کو ’مسجد ضرار‘ نہ کہیں۔ دیگر مسجدوالوں کی کردارکشی نہ کریں۔
پرانے اور عمررسیدہ علما کا احترام کریں جو آپ کے لیے والد کی طرح ہیں، اگرچہ ان کا علم اور تعلیم کم ہو۔
آج کا دور ابلاغ کا دور ہے۔ ہمیشہ تیار رہیں اور آج کے دور ہی کی زبان میں بات کیا کریں۔ تقریر ’بلسان قومہ‘ کے مصداق ہوکر نئی نسل کی زبان میں ہو۔
عصری جامعات کے طلبہ و اساتذہ اور سکول اساتذہ سے تعلقات بنائیں۔ ان کو خود سے دور نہ رکھیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں