حیات و خدمات

مولانا عبدالعزیز پرہاڑوی رحمہ اللہ

مولانا عبدالعزیز پرہاڑوی رحمہ اللہ

نام و نسب
حضرت علامہ اپنی تصنیف ’’الزمرد‘‘ کے ص: ۳ پر اپنے نام اور نسب کے متعلق لکھتے ہیں:
’’ابوعبدالرحمن عبدالعزیز بن ابی حفص احمد بن حامد القرشی۔‘‘ (۱)
موصوف کے والد محترم متقی، صوفی اور بعض علوم شریعہ کے عالم تھے، علم ریاضی میں انہیں خاص درک تھا۔ (۲)
موصوف کا تعلق قبیلہ قریش سے تھا، کہا جاتا ہے کہ یہ خاندان ’’کابل‘‘ سے ’’پنجاب‘‘ آیا تھا، لیکن ان کے نزول کی حتمی تاریخ معلوم نہیں ہوسکی۔ (۳)

تاریخ ولادت، جائے ولادت
حضرت علامہ مرحوم کے سن پیدائش اور جائے پیدائش میں مؤرخین کا کافی اختلاف ہے، بعض نے سن پیدائش ۱۲۰۶ھ؍۱۷۹۲ء، بعض نے ۱۲۰۷ھ اور بعض نے ۱۲۰۹ھ کہا ہے، اسی طرح جائے ولادت میں بعض نے ’’احمد پور شرقیہ‘‘، بعض نے علاقہ ’’غزنہ‘‘ (مضافات افغانستان) اور بعض نے ’’پرھاڑ‘‘ نامی بستی کہا ہے، اور تیسرا قول راجح ہے۔ (۴)

بستی ’’پرھاڑ‘‘ کا محل وقوع اور آب و ہوا
موصوف اپنی کتاب ’’الزمرد‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’بیرھیار‘‘ ۔جعلھا اللہ دار القرار۔ و ھو موضع عذب الماء، طیب الھواء، بقرب الساحل الشرقی لنھر السند من مضافات قلعۃ أدّو علی نحو أربعۃ و عشرین میلا من دار الامان ملتان الی المغرب مائلا الی الشمال۔‘‘ (۵)
ترجمہ: ’’بستی پرھاڑ میٹھے پانی اور خوشگوار ہوا کی حامل بستی ہے، جو کوٹ ادُّو کے مضافات میں دریائے سندھ کے مشرقی ساحل کے قریب ملتان سے ۲۴؍ میل دور شمال مغربی جانب واقع ہے۔‘‘

ابتدائی تعلیم اور اساتذہ
موصوف کے بچپن کے تفصیلی حالات معلوم نہ ہوسکے، جس کے تین اسباب کی طرف ڈاکٹر ظہور احمد اظہر (پروفیسر بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی، ملتان) نے اشارہ کیا ہے۔
۱: علامہ ایسے پسماندہ علاقہ میں رہائش پذیر تھے، جہاں نہ اہل علم کو اور نہ ان کے سوانح کو اہمیت دی جاتی تھی۔
۲: ان کا نہایت کم عمری انتقال ہوگیا تھا۔
۳: موصوف کی بود و باش جس علاقے میں تھی، وہاں چاروں طرف ان کے حاسدین تھے، جو ہر وقت ان کی تحقیر و تذلیل میں لگے رہتے، اور یہی ان کی تالیفات کے ضیاع کا سبب بنا۔ (۶)
ڈاکٹر ظہور صاحب کی یہ باتیں ہمیں چند وجوہات کی بناپر ناقابل قبول ہیں:
۱: مرحوم کا زمانہ علم دوست زمانہ تھا، جس میں وقت کا ولی عہد شاہ نواز اُن سے کتب لکھنے کی فرمائش کرتا ہے، اور بہت سی سوانح عمریاں اس دور کی یادگار ہیں، جب کہ ڈاکٹر صاحب کے قول کے مطابق علماء اور ان کی سوانح سے عدم اعتناء کا زمانہ تھا۔
۲: دوسری بات جو ڈاکٹر صاحب نے کم عمری کی لکھی، یہ امر بھی راقم کو ہضم نہیں، اس لیے کہ تاریخ ایسے حضرات سے بھری پڑی ہے کہ ان حضرات کا نہایت کم عمری میں انتقال ہوا اور ان کی سوانح عمریاں آج ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔
۳: اور تیسرا سبب تو انسان کی شہرت کا ذریعہ ہے، نہ کہ اُسے پردۂ خفاء میں بھیجنے کا، خصوصاً جب محسود سلسلۂ چشتیہ کا پیر طریقت اور عارف باللہ بھی ہو، اور محاورہ ہے: ’’تعرف الاشیاء بأضدادھا‘‘۔
راقم کے خیال میں علامہ مرحوم کی سوانح کی عدم دستیابی مرحوم کی وہ للہیت اور تقوی تھا، جس کی وجہ سے وہ شہرت اور ناموری سے کوسوں دور بھاگتے تھے، اور ان کے علم کے ضیاع کا سبب یہ ہوا کہ اُنہیں ایسے شاگرد نصیب نہیں ہوئے، جو ان کے علوم کو آگے پھیلا سکیں، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے متعلق خود حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ (جو ایک کثیر الروایۃ صحابی ہیں) سے منقول ہے کہ ان کے پاس مجھ سے زیادہ حدیثیں تھیں، مگر ان کی کثرت عبادت اور ذی استعداد طلبہ کی عدم دستیابی کی وجہ سے ان کی صرف (۷۰۰) احادیث منقول ہیں، جبکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مرویات (۵۳۷۴) ہیں، اور لیث بن سعد رحمہ اللہ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ حضرت امام مالک رحمہ اللہ سے زیادہ فقیہ تھے، مگر اُنہیں شاگرد ایسے میسر نہ ہوئے، جو ان کے علم کو مدوّن کرسکیں۔ (۷)
اور اسی طرح ہمارے استاذ محترم حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالحلیم چشتی صاحب ۔أطال اللہ بقاۂٗ و متعنا اللہ بعلومہ، آمین۔ نے اپنے مقالے (بنام مولانا انور شاہ) میں علامہ ابن الھمام رحمہ اللہ کا ایک قول نقل کیا ہے، جو انہوں نے علامۃ الدہر شیخ محمد بن محمد الشدالی کے متعلق کہا تھا: ’’ھذا الرجل لاینتفع بکلامہ و لاینبغی أن یحضر درسہٗ الا حذاق العلماء۔‘‘ (۸)
یہی قول یہاں بھی صادق آتا ہے، کیونکہ خود مصنِّف اور مصنَّف اس بات کی گواہی دیتے ہیں، مصنِّف تو اپنی مصنَّف کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’فان لنا مؤلفات کثیرۃ فیما ذکرنا، و لکن لم نجد من یفھمھا فضلا عن من یستحسنھا‘‘۔ (۹)
اور یہی وجہ ہے کہ مرحوم پر پی، ایچ، ڈی، کرنے والے حضرات میں سے کسی نے بھی ان کے شاگردوں کی فہرست تو درکنار ایک شاگرد کا نام بھی نہیں گنوایا۔

استاذہ
موصوف کے صرف تین اساتذہ کا علم ہوسکا ہے:
۱: موصوف کے والد حافظ احمد صاحب۔ (۱۰)
۲: حافظ جمال اللہ ملتانی: (المتوفی: ۱۲۲۶ھ)۔ (۱۱)
۳: حضرت محبوب اللہ خواجہ خدابخش ملتانی چشتی (۱۲۵۱ھ)۔ (۱۲)
اول الذکر سے صرف قرآن مجید حفظ کیا، اور بعض ابتدائی کتب اور علم الحساب حاصل کیا۔ (۱۳)
اس کے بعد تقریباً دس سال کی عمر میں اپنی بستی سے رختِ سفر باندھا اور حضرت خواجہ نورمحمد مہاروی رحمہ اللہ کے خلیفہ حافظ جمال اللہ ملتانی چشتی رحمہ اللہ کی خدمت میں پہنچ کر بقیہ علوم و فنون ان سے حاصل کیے۔ (۱۴) اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ: موصوف کے علم کا یہ شرف انہیں اول تا آخر حضرت خواجہ خدابخش رحمہ اللہ کی شاگرد میں نصیب ہوا۔ (۱۵)

موصوف اور ملاقات حضرت خضر علیہ السلام
بعض حضرات نے حضرت مرحوم کی تمام علوم و فنون پر دسترس کو دیکھ کر کہا کہ: ان کی حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ مرحوم نے ان سے اپنی غباوت کا اظہار کیا تو حضرت حضرت علیہ السلام نے ان کے لیے دعا کی۔ یہ اسی دعا کا نتیجہ و ثمرہ تھا کہ انہیں (۲۷۰) علوم میں کمال حاصل تھا، جس کی تصریح خود انہوں نے بھی کی ہے۔ (۱۶)
مگر اس واقعہ کا انکار علامہ رحمہ اللہ اپنی زندگی میں ہی کرچکے تھے، چنانچہ ایک واقعہ لکھا ہے:
’’ایک موقع پر حضرت پرہاڑوی رحمہ اللہ کے ایک ہم مکتب نے ان سے سلطان المشایخ خواجہ خدابخش رحمہ اللہ کی موجودگی میں پوچھا: ’’تمہیں خضر علیہ السلام مل گئے ہیں کہ دنیا کا کوئی علم ایسا نہیں، جس میں آپ کو مہارت حاصل نہ ہو؟۔‘‘ مولانا پرہاڑوی رحمہ اللہ نے حضرت خواجہ خدابخش رحمہ اللہ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: ’’ان کی موجودگی میں مجھے کسی خضر کی ضرورت نہیں۔ ‘‘ (۱۷)
اور تاریخ میں یہ بات ثبت ہے کہ حضرت خواجہ خدابخش رحمہ اللہ کا انتقال ۲؍صفر ۱۲۵۱ھ کو ہوا ہے، اور تقریباً ۱۲؍سال پیشتر صاحب ترجمہ اس دارِفانی کو داغ مفارقت دے گئے تھے، یعنی جب تک حضرت پرہاڑوی رحمہ اللہ زندہ تھے، انہیں حضرت خضر علیہ السلام کی ضرورت نہیں پڑی۔
اسی طرح یہ بھی لکھا گیا ہے کہ انہوں نے اپنی غباوت کی شکایت اپنے استاذ و شیخ حافظ جمال اللہ چشتی سے کی، ان کی دعا کی برکت سے علم و حکمت کے دروازے آپ پر کھل گئے۔ غالباً اسی واقعہ کی طرف انہوں نے اپنے ان اشعار میں اشارہ کیا ہے:
علم ایشاں نظری و کسبی بود
علم ما اشراقی و وھبی بود

من کیم امداد فضل ایزد است
بعد از اں فیض نبی و مرشد است (۱۸)

حضرت علامہ رحمہ اللہ اور ذوق سخن
حضرت علامہ کی کتب کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ عربی اور فارسی کے قادر الکلام شاعر تھے، ان کی اکثر کتب کے شروع اور آخر میں ان کا کلام مذکور ہے، جن کا ذکر ان کی تصانیف کے تذکرہ میں آئے گا۔ باقی اس صنف میں مستقل ان کی کسی تصنیف کا ہمیں علم نہیں، البتہ کتاب ’’معدل الصلاۃ‘‘ میں ان کے ۲۲؍اشعار درج ہیں، جس میں وہ علمائے ہند پر کافی برہم دکھائی دیتے ہیں۔
أیا علماء الھند طال بقاء کم
و زال بفضل اللہ عنکم بلاء کم

رجوتم بعلم العقل فوز سعادۃ
و أخشی علیکم أن یخیب رجاء کم

فلا فی تصانیف الاثیر ھدایۃ
و لا فی اشارات ابن سینا شفاء کم

و لا طلعت شمس الھدی من مطالع
فأوراقھا دیجور کم لاضیاء کم

و ماکان شرح الصدر للصدر شارحا
بل ازداد منہ فی الصدور صداء کم

و بازغۃ لاضوء فیھا اذا بدت
و أظلم منھا کاللیالی ذکاء کم

و سلمکم مما یفید تسفّلا
و لیس بہ نحو العلو ارتقاء کم

فما علمکم یوم المعاد بنافع
فیا ویلتی ماذا یکون جزاء کم

أخذتم علوم الکفر شرعا کانما
فلاسفۃ الیونان ھم أنبیاء کم

مرضتم فزدتم علۃ فوق علۃ
تداووا بعلم الشرع فھو دواء کم

صحاح الحدیث المصطفی و حسانہ
شفاء عجیب فلیزل منہ داء کم (۱۹)

فارسی نمونۂ کلام
روزے کہ نظر در ساعت طامع گردد
روزے کہ موافق ہمہ واقع گردد

با سعد نکو کن و با نحس بدی
تا عملہائے تو نافع گردد (۲۰)
اس کے علاوہ موصوف نے ایک کتاب ’’الایمان الکامل‘‘ عقائد پر فارسی نظم میں لکھی ہے۔ (۲۱)

علامہ پرہاڑوی رحمہ اللہ علماء و محققین کی نظر میں
۱: نبراس کے محشِّی مولانا محمد برخوردار صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ھذہ تعلیقات علی مواضع متفرقۃ من کتاب النبراس للحافظ العلامۃ والحبر الفھامۃ حامل لواء الشریعۃ محقق المسائل الاعتقادیۃ صاحب تصانیف الجلیۃ کالیاقوت۔۔۔ مولانا عبدالعزیز الفرھاروی کان محدثا، مفسرا، جامعا للمعقول و المنقول، ماھرا للفروع و الاصول۔‘‘ (۲۲)

۲: علامہ عبدالحئی لکھنوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’الشیخ العالم المحدث عبدالعزیز بن أحمد بن الحامد القرشی الفریھاری الملتانی ابو عبدالرحمن کان من کبار العلماء، لہ مصنفات کثیرۃ فی المعقول والمنقول‘‘۔ (۲۳)

۳: امام المحدثین، نجم المفسرین، زبدۃ المحققین، مولانا محمد موسی روحانی البازی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ھو العلامۃ الکبیر بل ذو الشان العظیم، نادرۃ الزمان، سلطان القلم و البیان، کان آیۃ من آیات اللہ بلا فریۃ و نادرۃ من نوادر الدھر بلامریۃ۔
ھیھات لا یأتی الزمان بمثلہ
ان الزمان بمثلہ لبخیل
داھیۃ من الدواھی، و باقعۃ من البواقع، کم من عوارف ھو ابن بجدتھا، و کم من فنون ھو ابو عذرتھا، و ان أقسم أحد أن أرض اقلیم فنجاب من باکستان لم یولد فیھا مثلہ منذ خلق اللہ ھذہ الارض و دساھا لکان بارا حسب ما نعلم من التاریخ۔‘‘ (۲۴)

۴: شیخ عبدالفتاح ابوغدہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’العلامۃ النابغۃ الشیخ عبدالعزیز الفرھاروی الھندی ذو التآلیف المحققۃ‘‘۔ (۲۵)

تصانیف
مولانا محمد موسی روحانی بازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: انہوں نے ہر علم و فن میں تصنیف کی۔
لکھتے ہیں: ’’صنّف کتبا فی کل فن ما یحیر الالباب۔‘‘ (۲۶)
اور موصوف خود لکھتے ہیں: ’’فان لنا مؤلفات کثیرۃ۔‘‘ (۲۷)
حضرت علامہ علوم ظاہری و باطنی میں یگانہ روزگار تھے، علماء و فقراء سے بے حد الفت کرتے، مطالعہ میں بڑا انہماک تھا، رشد و تدریس کے سلسلے کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کا ذوق کامل بھی رکھتے تھے۔ (۲۸)
کم قسمتی سے آپ کی اکثر کتب حوادثات زمانہ کی نذر ہوگئیں، ان کی چند تصانیف مطبوعہ ہیں، اور ان کی طرف منسوب بعض کتب کے ناموں کی بازگشت چلی آرہی ہے، چند مطبوعہ تصانیف کا تعارف حسب ذیل ہے:
۱: السلسبیل
کتاب کے سرورق پر اس کا پورا نام ’’السلسبیل فی تفسیر التنزیل‘‘ لکھا ہے، یہ کل اُنتیس (۲۹) پاروں کی تفسیر ہے، جسے کاتب عبدالتواب نے ۶؍ ذوالقعدہ بروز جمعرات ۱۳۰۷ھ میں لکھا۔
کتاب کی ابتدا ان الفاظ سے ہوتی ہے: ’’باسمک مصلیاً و مسلماً و آلہ و أصحابہ۔‘‘ اور آخر اس طرح ہے: ’’و ھذا قیل: (فی الدنیا)، ارکعوا (صلوا) بعدہٗ (بعد القرآن)۔‘‘
اس کے بعد کاتب مرحوم لکھتے ہیں:
’’الی ھنا وجد التفسیر، لعلہٗ لم یتیسر للمصنف اتمامہ لدرک الموت او لغیرہ، و اللہ اعلم۔‘‘
اس کتاب کی ڈاکٹر شفقت اللہ خان نے تحقیق کرکے جامعہ پنجاب، لاہور سے پی، ایچ، ڈی کی ڈگڑی حاصل کی ہے۔

۲: الصمصام
کتاب کے سرورق پر اس کا پورا نام ’’الصمصام فی اصول تفسیر القرآن‘‘ درج ہے، جبکہ علامہ عبدالحئی لکھنوی رحمہ اللہ کی تصریح کے مطابق یہ تاویل کی مذمت پر ہے۔ (۲۹)
اس کی کتابت عظمت اللہ صاحب نے بروز ہفتہ ۱۸؍رجب ۱۳۰۵ھ کو مکمل کی، درمیان میں یہ رسالہ ناقص ہے۔ یہ رسالہ موصوف کی کتاب ’’نعم الوجیز‘‘ کے حاشیہ پر مکتبہ سلفیہ محلہ قدیر آباد ملتان سے شائع ہوا تھا، سن طبارت درج نہیں۔

۳: نعم الوجیز
یہ کتاب بروز جمعہ ۱۷؍ صفر ۱۲۳۶ھ کو مکمل ہوئی۔
اس کا پورا نام کتاب کے سرورق پر یوں درج ہے: ’’نعم الوجیز فی البیان و البدیع‘‘
جبکہ اسی کتاب کے دوسرے صفحہ پر خود مصنف لکھتے ہیں: ’’نعم الوجیز فی اعجاز القرآن العزیز‘‘
یہ کتاب مکتبہ سلفیہ محلہ قدیر آباد ملتان سے شائع ہوئی تھی، سن طباعت درج نہیں۔
اس کتاب کی سن ۱۹۹۲ء میں حبیب اللہ صاحب نے تحقیق کرکے بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی، پھر ڈاکٹر ظہور احمد اظہر نے اس میں ایک قیمتی مقدمہ کا اضافہ کیا، اور ۱۹۹۴ء میں ’’المجمع العربی الباکستانی‘‘ نے شائع کی۔

۴: السر المکتوم مما اخفاہ المتقدمون
علامہ روحانی بازی رحمہ اللہ نے اس کا نام ’’السر المکتوم فی علم النجوم‘‘ لکھا ہے۔ (30)
جبکہ مطبوعہ کتاب کے سرورق پر وہی نام ہے جو ہم نے لکھا ہے۔
یہ کتاب ’’العزیز اکیڈمی‘‘ کوٹ ادو، ضلع مظفر گڑھ نے ’’رسالۃ الاوفاق‘‘ کے ساتھ غالباً ۱۳۹۷ھ میں شائع کی۔

۵: رسالۃ الأوفاق
یہ رسالہ علم نجوم پر ہے، ۴؍ صفر ۱۲۳۳ھ بروز اتوار، وقت زوال اس کی تصنیف سے مصنف فارغ ہوئے۔ شاید کہ یہ رسالہ مصنف کے رسالہ فی فن الالواح کی تلخیص ہے، جسے ڈاکٹر شریف سیاولی صاحب نے ان کا رسالہ شمار کیا ہے۔ (31) اس میں مصنف لکھتے ہیں: ’’أما بعد! فھذا تلخیص من الألواح۔۔۔‘‘

۶: الزمرد الأخضر
اس کا پورا نام ’’الزمرد الأخضر و یاقوت الأحمر‘‘ ہے، چنانچہ دوسرے صفحہ پر لکھتے ہیں:
’’و بعد! فھذا زمرد أخضر و یاقوت أحمر، ینور العیون و یفرح المحزون۔۔۔‘‘
اور یہ کتاب ان کی اپنی تصنیف ’’الاکسیر‘‘ کی تلخیص ہے، جس کی صراحت وہ تیسرے صفحہ پر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’و تعجلت الی مختصر ملخص من معالجات الاکسیر۔۔۔‘ یہ کتاب انہوں نے ایک مہینہ میں لکھی ہے۔ تیسرے صفحہ پر لکھتے ہیں: ’’ و کان ھذا فی شوال سنۃ ثمانیۃ و عشرین و مئتین و ألف ھجریۃ۔‘‘ (۱۲۲۷ھ) اور ص: ۱۳۵ پر لکھتے ہیں:
’’ھذا ما تیسر من الرسالۃ، علی حسب العجالۃ، فی شھر ذی القعدۃ من سنۃ الثمانیۃ و عشرین و مئتین و الف ھجریۃ (۱۲۲۸ھ)‘‘۔
یہ کتاب ۱۳۴۵ھ حاجی چراغ الدین سراج الدین تاجرانِ کتب بازار کشمیری لاہور، مطبع رفاہِ عام بابو نورالحق کے اہتمام سے ’’عنبر أشہب‘‘ رسالہ کے ساتھ طبع ہوئی۔

۷: عنبر أشھب
یہ رسالہ علم طب میں ہے، اُسے مصنف نے ۱۲۳۴ھ ربیع الاول، وقت عصر مکمل کیا، اور اُسے تین ابواب پر تقسیم کیا ہے۔ باب اول میں نظریات و کلیات کی بحث کی ہے، باب ثانی معالجات میں ہے اور باب ثالث میں ادویات کا ذکر ہے۔

۸: الناھیۃ عن طعن أمیر المومنین معاویۃ رضی اللہ عنہ
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دفاع میں لکھی ہے۔ علامہ روحانی بازی رحمہ اللہ نے (32)، اور مولانا لکھنوی رحمہ اللہ نے (33)، اور مکمل اسلامی انسائیکلوپیڈیا والے نے (34) اس کتاب کا نام: ’’الناھیۃ عن ذم معاویۃ‘‘ لکھا ہے، حالانکہ خود مصنف حمد و صلاۃ کے بعد لکھتے ہیں:
’’فیا صاح! خذ ’’الناھیۃ عن طعن امیر المومنین معاویۃ۔‘‘
یہ کتاب رمضان المبارک، نماز جمعہ کے وقت ۱۲۳۲ھ مکمل ہوئی۔ یہ کتاب پہلے ادارۃ الصدیق ملتان میں شائع ہوئی، اس کے بعد ۱۴۰۰ھ میں استنبول ترکی سے چھپی، پھر اسی کتب خانے نے ۱۴۲۵ھ دوبارہ شائع کی۔

۹: مرام الکلام فی عقائد الاسلام
عربی زبان میں عقائد پر تصنیف ہے، اس کتاب کا ایک خطی ناقص نسخہ، ۲۴ اوراق پر مشتمل فی صفحہ: ۳۱ سطور، خط نستعلیق، سندھ آرکائیوز کے کتب خانہ کے خزانہ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ میں موجود ہے، جس کی کتابت عبداللہ سندھی ولہاری نے فاضل شمس الدین کے مدرسہ بہاولپور میں ۱۲۹۹ھ میں ان کے نسخے سے مکمل کی اور انہوں نے مؤلف کے نسخے سے کی۔

۱۰: معجون الجواھر
یہ مصنف نے اپنی کتاب ’’الیاقوت‘‘ کی تلخیص کی ہے، جناب خورشیدہ صاحبہ نے اس مخطوطہ کی تحقیق و دراسہ کرکے ۱۹۹۸ء میں جامعہ پشاور سے ایم، اے کی ڈگری حاصل کی ہے۔

۱۱: کوثر النبیؑ
اُصول حدیث پر نہایت عظیم الشان کتاب ہے، اس کا پورا نام ’’کوثر النبی و زلال حوضہ الروی ‘‘ ہے، جیسا کہ مصنف نے لکھا ہے:
’’اما بعد! فھذا کوثر النبی و زلال حوضہ الروی، أطیب من المسک الاذفر، و أحلی من العسل و السکر، أعدہٗ لیوم الحساب و أرجو منہ جزیل الثواب۔‘‘
اس کتاب کے دو حصے ہیں، پہلا حصہ اصول حدیث اور دوسرا موضوعات اور اسماء الرجال سے متعلق ہے۔ (35) دوسرے حصہ کے متعلق مولانا روحانی البازی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’و أسماء الرجال و ھو کتاب عجیب طبع فی سنۃ ۱۳۸۳ھ‘‘ ۔ فی الحال راقم کو صرف پہلا حصہ میسر ہے، جس کی انتہاء شہادت اور روایت میں دس (۱۰) فرق بیان کرنے پر یوں کرتے ہیں:
’’التاسع: لا تقبل شھادۃ المحدود فی القذف و تقبل روایتہٗ، و ھذا کل ما ذکرناہ فی الاشباہ و النظائر من الفقہ الحنفی، العاشر: لا یقبل شھادۃ الاعمی و تقبل روایتہٗ۔‘‘
حصہ اول مکتبہ قاسمیہ نزد سول ہسپتال فوارہ چوک ملتان سے ’’مناظرۃ الجلی فی علوم الجمیع‘‘ کے ساتھ ۱۳۸۳ھ کے اوائل میں چھپی۔
مصنف نے یہ کتاب ۱۲۲۴ھ میں لکھی، اس نسخہ میں اغلاط بہت ہیں۔
۱۹۹۴ء میں حمیدہ مظہر صاحبہ نے اس کتاب کی تحقیق و دراسہ کرکے جامعہ پنجاب سے پی، ایچ، ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ اس کتاب کے چند نسخے پاکستان کے مختلف کتب خانوں میں ہیں، جن میں خانقاہ سراجیہ کندیاں شریف، کتب خانہ پیرجھنڈ و سندھ اور مکتبہ شیخ الحدیث محمد یاسین صابر ملتان شامل ہیں۔ اور اس کا ایک ناقص مخطوطہ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کے کتب خانہ میں ہے، اس کے کاتب عبداللہ ولہاری نے اُسے ۱۲۸۳ھ میں لکھا۔
اس کتاب کے نسخے پاکستان کے علاوہ ’’مرکز الملک فیصل للبحوث و الدراسات الاسلامیۃ، المملکۃ العربیۃ السعودیۃ الریاض‘‘ اور ’’مرکز جمعۃ الماجد دبی‘‘ میں بھی ہیں۔ اس کتاب کا اختصار محمد جی نامی کسی شخص نے کیا ہے، اور اس کا نام ’’منتخب کوثر النبی‘‘ رکھا ہے، اس کا خطی نسخہ جامعہ پنجاب میں ہے۔

۱۲: مناظرۃ الجلی فی علوم الجمیع
یہ موصوف کے معاصر شیخ احمد دیروی کی طرف سے کئے گئے چھ سوالات مع جوابات اور پھر حضرت شیخ کی طرف سے ان پر کیے گئے اشکالات پر مشتمل ایک چھوٹا سا رسالہ ہے۔
مولانا موسیٰ روحانی بازی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’بغیۃ الکامل‘‘ میں پورا رسالہ نقل کیا ہے، اور اُن کے بقول یہ رسالہ مولانا غلام رسول صاحب رحمہ اللہ کے پاس موجود قلمی نسخہ سے لیا ہے۔ (36)

۱۳: النبراس
یہ کتاب ۱۲۳۹ھ میں لکھی، کہا گیا ہے: اس تصنیف کے بعد کچھ عرصہ زندہ رہے، اور اس تصنیف کے متعلق لکھا گیا ہے: عقائد پر اُن کی کتاب ’’النبراس‘‘ اس وقت بھی جامعۃ الازہر کے نصاب میں داخل ہے، جو اس وقت دنیا کی سب سے بڑی اسلامی یونیورسٹی تسلیم کی جاتی ہے، مولانا عبدالعزیز رحمہ اللہ کی یہ تصنیف ایک زندہ و جاوید کتاب کی حیثیت سے آج تک باقی ہے۔ (۳7)
اس کتاب کے شروع میں مصنف نے ۶۹ اشعار کی طویل نظم کہی ہے، جس میں براعتِ استہلال کی رعایت کے ساتھ، شرح لکھنے کی وجہ اور طرزِ تحریر و غیرہ بیان کی ہے، لکھتے ہیں:
أسبحک اللہ ثم أھلل
و انک أعلی کل شئ و أکمل

و أنت القدیم الدائم الفرد واحد
تدوم علی کل مجد لا تتحوَّل

و بعد من أن یدرک الغفل ذاتہٗ
و مظھر عن کل ما یتخیَّل

سمیع بصیر عالم متکلم
قدیر مرید واجب الذات أول

کچھ اشعار کے بعد وجہ تصنیف اور طرز ذکر کرتے ہیں:
و بعد فھذا شرح شرح عقائد
یحلل منہ ما کان یشکل

و قد کتب الأعلام فی کشف سرہ
حواشی تفشی سرہٗ و تفصل

و لکننی حاولت تسھیل فھمہٖ
علی المبتدی و ھو المعین المسھل

و طولت و التطویل لم یک عادتی
لما أنہٗ للمستفیدین أسھل

و کم نکتۃ أوردتھا لغرابۃ
و لیس فی ساحۃ الشرح مدخل

کتاب کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
و سمیتہٗ نبراس اذ ھو نیر
و فی لیلۃ الظلماء یھدی و یوصل

کتاب کے اختتام پر ۱۸۳ اشعار پر ایک طویل نظم کہی ہے، جس کے آخری چند اشعار نذرِ قارئین ہیں:
و صل علی خیر البرایا محمد
کریم السجایا لاتعد فضائلہٗ

و أصحابہ الأخیار طرا و آلہٖ
و سلم بتسلیم یجود ھو اطلہٗ

اس شرح کو القسطاس حاشیہ کے ساتھ مطبع خضر مجتبائی شہر ملتان نے شائع کیا تھا، یہ نسخہ کثیر الاغلاط ہے۔ اس کتاب کا ایک خطی نسخہ مدرسہ شمس العلوم، واں بچراں میانوالی میں ہے، جس کی کتابت گل محمد سندھی صاحب نے ۱۳۰۹ھ میں (۳8) ، اور ایک ناقص نسخہ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کے کتب خانہ میں بھی ہے۔ (۳9)

۱۴: رسالۃ فی رفع سبابۃ (منظومۃ)
یہ رسالہ ’’نزھۃ الخواطر‘‘ اور ’’کتاب معدل الصلوۃ‘‘ میں کچھ اشعار کے فرق کے ساتھ منقول ہے۔ ’’کتاب معدل الصلوۃ‘‘ میں اشعار اس طرح ہیں:
حمداً لک اللھم حمدا سرمداً
و علی محمدک السلام مؤبداً

و علی صحابتہ الکرام جمیعھم
و العترۃ الأطھار دام مخلدا

عبدالعزیز یقول نظما فاتبعوا
حکما صحیحا بالحدیث مؤیدا

أن الاشارۃ سنۃ مأثورۃ
فاعمل بھذا الخبر حتی ترشدا

بحدیث خیر الخلق صح بیانہٗ
قد جاء عن جمع الصحابۃ مسندا

و بالاتفاق عن الأئمۃ کلھم
کأبی حنیفۃ صاحبیہ و أحمدا

و الشافعی و مالک فاتبعھم
اذ من یخالفھم فلیس بمقتدا

اس کے آخری اشعار یہ ہیں:
قلنا لہٗ ان التردد باطل
اذ مذھب التحریم لیس مؤیدا

و أدلۃ استحبابھا لک قد بدت
کالشمس مشرقۃ فلاتترددا

ھذاک تلخیص المقالۃ مجملا
و لنا کتاب مستقل مفردا

۱۵ : البنطاسیا
اس کی ابتداء ان اشعار سے ہوتی ہے:
یا ذا الجلال الاعظم المترفع
و الکبریاء الاکبر المتمتع

یا رب! قد صنف علما وفرا
و العون منک و اننی أدعی

فاحفظ بحفظک کلما صنفتہٗ
فی حرزک المامون غیر مضیع

و انشرہ فی أھل العلم معطرا
و مفرحا مثل الشذی المتضوع

۱۶: تعلیقات علی تھذیب الکلام للتفتازانی رحمہ اللہ
اس کی ابتداء ان اشعار سے ہوتی ہے:
فردت یا من یستحیل مثالہ
و لا یتناھی مجدہٗ و جلالہ

و أخرس نطق الواصفین نعوتہ
و أبر عین الناظرین جمالہ

۱۷: حب الأصحاب ورد الروافض
اس کی ابتداء ان اشعار سے ہوتی ہے:
تبارک رب العرش جل جلالہٗ
جواد عظیم المن عم نوالہٗ

فلم یرجہ راج فخاب رجاؤہٗ
و لم یدعہ داع فرد سوالہٗ

یہ تین کتابیں مخطوط ہیں۔ (40)
مذکورہ بالا تصانیف کے علاوہ مصنف کے درج ذیل تصانیف کا بھی پتہ چلتا ہے:
۱۸: سدرۃ المنتھی
۱۹: الایمان الکامل (فارسی میں)
۲۰: الحاشیہ العزیزیۃ، منطق کے متن ایسا غوجی پر ہے، ڈاکٹر شریف صاحب کے بقول یہ مخطوطہ ہے۔ (41)
۲۱: الاکسیر، تین جلدوں میں ہے، ڈاکٹر شریف صاحب کے بقول یہ مخطوط ہے۔ (42)
۲۲: التریاق، عربی زبان میں ۱۲۳۷ھ میں لکھی، ڈاکٹر شریف صاحب کے بقول دو جلدوں میں ہے۔ (43)
۲۳: فرھنگ مصطلحات طیبۃ، یہ کتاب فارسی میں ہے، اور مذکورہ تینوں کتابیں طب میں ہیں۔
۲۴: الیاقوت، عربی میں تقلید کی مذمت پر ایک رسالہ ہے۔
۲۵: العتیق
۲۶: الدر المکنون، ڈاکٹر شریف صاحب نے اس کا پورا نام یہ لکھا ہے: ’’الدر المکنون و الجوھر المصون‘‘ یہ کتاب مخطوط ہے۔
۲۷: الأوقیانوس
۲۸: الیواقیت فی علم المواقیت
۲۹: رسالۃ فی الجفر
۳۰: سیرالسماء، ڈاکٹر شریف صاحب کے بقول یہ مخطوطہ ہے (44)، علامہ روحانی اور سیالوی صاحب نے اس کا نام ’’سر السماء‘‘ لکھا ہے۔ (45)
۳۱: تسھیل السیارات
۳۲: الیاقوت، اس کتاب کی تحقیق و دراسہ کرکے محمد شریف سیالوی صاحب نے ۱۹۹۴ھ میں پی، ایچ، ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔
۳۳: رسالۃ فی الکسوف
۳۴: اللوح المحفوظ، ڈاکٹر شریف صاحب کے بقول یہ تفسیر میں ہے۔ (46)
۳۵: منتھی الکمال، ڈاکٹر شریف صاحب کے بقول یہ مخطوطہ ہے۔ (۴7)
۳۶: کتاب الایمان، مخطوطہ
۳۷: جواھر العلوم، اس میں مختلف علوم کے مختلف مسائل بیان کیے ہیں۔
۳۸: أسطرنومیا الکبیر، اپنی اس کتاب کا تذکرہ ’’مناظرۃ الجلی‘‘، ص: ۱۰۸ پر کیا ہے۔
۳۹: أسطرنومیا الصغیر
۴۰: رسالۃ فی الخسوف، ان کتابوں کا تذکرہ علامہ محمد موسی روحانی بازی رحمہ اللہ نے کیا ہے۔ (۴8)
۴۱: الخصائل الرضیۃ، مطبوعہ
۴۲: رسالۃ فی السماع، مخطوطہ
۴۳: التمییز بین الفلسۃ و الشریعۃ، مخطوط
۴۴: رسالۃ فی فن الالواح، مخطوطہ
۴۵: رسالۃ فی علم المثال، مخطوطہ
۴۶: رسالۃ فی رفع السبابۃ عند التشھد، مخطوطہ
۴۷: شرح حصن حصین، مخطوطہ
۴۸: ماغاسطن فی الریاضیۃ
۴۹: منطق الطیر
۵۰: کمال التقویم
۵۱: تسھیل الصعودۃ
۵۲: الانموذج
۵۳: ملخص الاتقان فی علوم القرآن
۵۴: اعجاز التنزیل فی البلاغۃ
۵۵: دستور فی العروض و البحور، عربی اور فارسی
۵۶: ألماس
۵۷: میزان فی عروض العرب و قوافیہ
۵۸: تخمین التقویم فی النجوم
۵۹: رسالۃ الخضاب
۶۰: الوافی فی القوافی
۶۱: التلخیص للمتوسطات فی الھندسۃ
۶۲: تفسیر سورۃ الکوثر
۶۳: رسالۃ أفعلۃ
۶۴: حاشیۃ مدارک
۶۵: صرف عزیزی
۶۶: نحو عزیزی
۶۷: حاشیۃ صدرا
۶۸: حاشیۃ شرح جامی
۶۹: غرائب الاتقیاء
۷۰: تسخیر أکبر
۷۱: أسطرنومیا متوسط
۷۲: یاقوت التأویل فی أصول التفسیر
۷۳: الیواقیت و المواقیت
۷۴: جامع العلم الناموسیۃ و العقلیۃ
۷۵: عماد الاسلام و عمدۃ الاسلام
۷۶: سلسلۃ الذھب
۷۷: کتاب الدوائر
۷۸: اختصار تذکرۃ طوسی
۷۹: کنز العلوم، ان کتابوں کا تذکرہ ڈاکٹر شریف سیالوی صاحب نے کیا ہے۔ (۴9)
۸۰: فضائل رضیۃ، اس کتاب میں اپنے شیخ کے ملفوظات ذکر کئے ہیں۔ (50)
۸۱: الیواقیت فی معرفۃ المواقیت، علامہ عبدالحی رحمہ اللہ نے اس کتاب کا نام ’’ الیواقیت فی علم المواقیت‘‘ لکھا ہے (51) جبکہ مصنف خود لکھتے ہیں: ’’و ألفنا فیھا رسالۃ سمیناھا الیواقیت فی معرفۃ المواقیت‘‘۔ (52)

علامہ پرہاڑوی رحمہ اللہ کا فقہی مسلک
بعض حضرات نے موصوف کی سوانح عمری بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: انہوں نے تقلید کا دامن چھوڑ کر فرقہ لامذہبیہ کی چادر تان لی تھی، جیسا کہ علامہ عبدالحی رحمہ اللہ نے لکھا ہے: ’’و کان شدید المیل الی اتباع السنۃ السنیۃ و رفض التقلید‘‘۔ (53)
ان کا استدلال موصوف کی اس عبارت سے ہے، وہ ناقل ہیں: ’’قال فی الیاقوت: و بالجملۃ لایرتاب مسلم فی أن اللہ سبحانہٗ أمر باتباع رسولہ، فلانترک الیقین بالشک، و من لامنا فلیلم‘‘۔
یہ عبارت مصنف کے رسالہ ’’الیاقوت‘‘ کی ہے، جس کے متعلق لکھنوی صاحب کا یہ خیال ہے کہ یہ رسالہ تقلید کی مذمت میں ہے، اسی طرح موصوف کی کتاب ’’کوثر النبی‘‘ کی ایک طویل عبارت کو اپنا مستدل بنایا ہے، لیکن موصوف کی یہ بات کئی وجوہات کی بناپر درست نہیں ہے۔
پہلے تو ہمیں یہ تسلیم نہیں کہ موصوف نے تقلید کی مذمت پر رسالہ لکھا، کیونکہ جس رسالہ ’’الیاقوت‘‘ کا ذکر علامہ لکھنوی رحمہ اللہ کررہے ہیں، ان کے علاوہ کسی تذکرہ نگار نے ان کی سوانح میں اس رسالہ کا تذکرہ نہیں کیا۔ ’’یاقوت‘‘ نامی جن کتب کا ہمیں علم ہوسکا، وہ تصنیفات کے ذیل میں آگئیں ہیں، جن میں سے ایک کتاب ’’الیاقوت‘‘ جس کی تحقیق و دراسہ ڈاکٹر شریف سیالوی صاحب نے کی ہے، ہمیں اس کتاب کے مطالعہ کا اتفاق نہیں ہوا، مگر اس کتاب میں اس طرح کا کوئی مسئلہ ہوتا تو ڈاکٹر صاحب اس کی ضرور گرفت کرتے، حالانکہ ڈاکٹر صاحب نے اپنے مقالہ میں موصوف کے مسلک کے تحت رقم طراز ہیں: ’’و رغم کونہ علی مذھب أبی حنیفۃ ۔رحمہ اللہ۔ کانت لدیہ النزعۃ القویۃ الی الاجتھاد و ترک التقلید الأعمی۔‘‘ (54)
علامہ رحمہ اللہ نے جس عبارت کو بطور دلیل پیش کیا ہے، وہ ’’کتاب معدل الصلوۃ‘‘ میں اس طرح درج ہے:
’’اختلف الفقھاء فیما یجد المقلد حدیثا صحیحا یخالف فتویٰ امامہٗ، فعن أبی یوسف محمول علی العامی الصرف الذی لایعرف معنی الحدیث، و عن أبی حنیفۃ قیل لہ: اذا قلت قولا و خبر الرسول یخالفہٗ، قال: اترکوا قولی بخبر الرسول و شنع صاحب الفتوحات المکیۃ علی من یترک الحدیث بقول امامہٖ و قال: ھذا نسخ الشریعۃ بالھویٰ مع ان صاحب المذھب قال: اذا عارض الخبر کلامی فخذوا بالخبر، فلیس احد من ہؤلاء المقلدین علی مذھب امامہ، و لیت شعری کیف یترک ہؤلاء حدیثا صحیحا علی زعم ان امامہ أحاط علما بالسنن، فرجع بعضھا علی بعض مع أن الاحاطۃ غیر معلومۃ بل یرد علی مدعیھا قول الأئمۃ: اترکوا أقوالنا بقول رسول اللہ ﷺ وبالجملۃ لایرتاب مسلم فی أن اللہ سبحانہٗ أمر باتباع رسولہٖ، فلانترک الیقین بالشک و من لامنا فلیلم نفسہ۔‘‘ (55)
اس عبارت میں مرحوم واضح اور صریح حکم میں صرف اپنے امام کے قول کی وجہ سے چھوڑنے کی تردید کررہے ہیں، نہ کہ مذۃب حنفی سے برائت کا اظہار، ورنہ موصوف کا یہ ذکر کرنا کہ: ’’عن أبی حنیفۃ: قیل لہٗ: اذا قلت قولا و خبر الرسول یخالفہ؟ قال: اترکوا قولی بخبر الرسول‘‘ کا یہ کیا مطلب؟ کیا اس سے وہ مذہب حنفی کی تردید کررہے ہیں؟ نہیں، بلکہ موصوف یہ بتانا چاہتے ہیں کہ مذہب حنفی میں اس کی گنجائش ہے، اسی وجہ سے اپنی عبارت کی ابتدا میں جو اقوال پیش کیے، وہ احناف ہی کے اختلاف سے پیش کیے ہیں، البتہ اس عبارت ’’اترکوا قولی۔۔۔۔‘‘ میں احناف کے ایک گروہ کے قول کو علامہ رحمہ اللہ نے اختیار کیا، جس سے وہ مذہب حنفی سے نلکے نہیں ہیں۔
مرحوم نے جو ’’کوثر النبی‘‘ کی عبارت کو دلیل بنایا ہے، ہم اس عبارت کو نقل کرتے ہیں:
’’و الی اللہ المشتکی من المعاصرین، و من علماءھم المتعصبین القاصرین، اتخذوا علم الحدیث ظھریاً، و نبذوا التخریج نسیا منسیا، فأوعظھم ألھجھم بالأکاذیب، و أعلمھم أکذبھم فی الترغیب و الترھیب، و لیس ھذا أول قارورۃ کسرت فی الاسلام، بل ھذہ الشنیعۃ متقادمۃ من سالف الأیام، فان الأبالسۃ أفسدوا بالوضع و التزویر، فانخدع لھم مدونوا المواعظ و التفسیر، و لم یزل خلف یتلقاھا من سالف و یھلک بتدوینھا تالف بعد تالف، و اللہ الناصر الموفق للمحدثین، و موکلھم عن نفی الکذب فی الدین، و لما رأیت ھذا العلم منطمسۃ، و مدارسہ بلاقع و مندرسۃ، أردت تجدید الاظلال، مستعینا بذی الجلال۔‘‘
فن تاریخ کے طالب علم اس بات سے بخوبی واقف ہیں، کہ علم حدیث کا ارتقاء متحدہ ہندوستان میں کب ہوا، اور اس کے اصول پر کتنے رسائل و کتب منظر عام پر آئے (56)، اس پیرایہ میں مصنف یہ شکوہ و شکایت کررہے ہیں کہ ہمارے زمانہ کے علماء نے علم حدیث کو پس پشت ڈال دیا ہے، علم حدیث اور اس کی تخریج کے اصول نیساً منسیاً ہوچکے ہیں، واعظین و علماء ترغیب و ترہیب کی من گھڑت حدیثیں سناتے ہیں، یہ سب اصول حدیث سے ناواقفی کی بناپر ہورہا تھا۔
کیا اس قسم کے شکوہ کی بنا پر کوئی حنفیت سے نکل سکتا ہے؟ نہیں! بلکہ اس عبارت میں صرف فن حدیث سے بے اعتنائی کا ذکر ہے، نہ کہ فقہ حنفی سے بیزاری کا۔
اب ہم وہ دلائل ذکر کریں گے جن سے موصوف کے حنفی ہونے کی گواہی ملتی ہے۔
پہلی دلیل: حضرات غیرمقلدین امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تابعیت کا انکار کرتے ہیں، غیرمقلدین کے مشہور عالم میاں نذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ (متوفی: ۱۳۱۰ھ) نے اپنی کتاب ’’معیار الحق‘‘ میں امام صاحب رحمہ اللہ کے تابعی ہونے کی تردید کی ہے۔ (۵7)
جبکہ علامہ پرہاڑوی رحمہ اللہ ان کی تابعیت کے قائل ہیں، چنانچہ موصوف نے اپنی کتاب ’’کوثر النبی‘‘ میں ان کی تابعیت کے بارے میں اختلاف کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا:
’’اختلف فی أن الامام أبی حنیفۃ من التابعین أو أتباعھم، الجمھور علی الظانی، الجزری و التوربشتی و الیافعی علی الاول، و ھو الصحیح۔‘‘ (58)
یہاں امام صاحب رحمہ اللہ کے بارے میں اپنے مؤقف کی تصریح کردی کہ وہ تابعی ہیں۔
دوسری دلیل: غیرمقلدین حضرات کہتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو صرف سترہ احادیث یاد تھیں، جیسا کہ صادق سیالکوٹی نے لکھا ہے۔ (۵9)
اس کے برعکس علامہ پرہاڑوی رحمہ اللہ امام صاحب کو کثیر الحدیث اور چار ہزار اساتذہ سے حدیث کا سماع کرنے والا بتاتے ہیں، چنانچہ موصوف نے لکھا ہے: ’’و کان أبوحنیفۃ کثیر الحدیث، سمع أربعۃ آلاف رجل۔۔۔۔‘‘ (60)
تیسری دلیل: پھر اس پر یہ اعتراض ہوتا کہ کثیر الحدیث تھے تو کثیر الروایۃ بھی ہونے چاہیے تھے، تو اس کا جواب دیتے ہوئے علامہ مرحوم فرماتے ہیں:
’’لاشک أن اللفظ أفضل، و یشبہ أن یکون فی ھذا الزمان واجبا، بضعف معرفۃ أنباۂٖ بأسالیب الحدیث، و کان المتورعون من السلف یلتزمونہٗ احتیابا، و لعلہ السبب فی قلۃ الروایۃ عن أبی بکر الصدیق وامامنا ابی حنیفۃ۔‘‘ (61)
دوسری جگہ بعض شافعیہ کے اشکال (کہ حنفیہ اصحاب الرائے اور شافعیہ اصحاب الحدیث ہیں) کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’أن أصحاب ھذا المذھب ’’الحنفیۃ‘‘ لم یجمعوا أحادیث مذھبھم: فان امامھم کان لا یری الروایۃ الا من الحفظ و کان یتورع الروایۃ بالمعنی، فلم یشتھر عنہ الا المسند الصحیح۔‘‘ (62)
اس عبارت میں اگر غور کیا جائے تو سابقہ اعتراض کے دفعیہ کے ساتھ موصوف نے امام صاحب رحمہ اللہ کی مسند کو صحیح بھی کہا، بلکہ مرحوم کی اپنی کتاب میں اختیار کردہ روش سے پتہ چلتا ہے کہ وہ امام صاحب رحمہ اللہ کی مسند کو صحاح ستہ کے درجہ پر رکھتے ہیں، کیونکہ حدیث ’’من مات یوم الجمعۃ وقی عذاب القبر‘‘ کے ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ’’رواہ من الصحابۃ أبوھریرۃ، و عائشۃ، و جابر، و من المحدثین أبوحنیفۃ الامام، و الطبرانی، و أبونعیم، و أحمد، و الترمذی، و ابن ماجۃ، واللفظ لأبی حنیفۃ عن أبی ھریرۃ۔‘‘(63)
اس عبارت میں پہلے امام صاحب رحمہ اللہ کو انہوں نے محدثین میں شمار کیا، اور پھر جس طرح دیگر حضرات صحاح ستہ سے حدیث اپنی کتاب میں لاتے ہیں، تو مصنف امام صاحب رحمہ اللہ کے الفاظ لائے، بلکہ بات صرف امام صاحب رحمہ اللہ کو محدث اور ثقہ ماننے کی نہیں، بلکہ جہاں کہیں امام صاحب رحمہ اللہ پر کسی نے اعتراض کیا تو اپنی تصانیف میں اس کا جواب بھی دیا، چنانچہ ایک اعتراض جو امام ابوعبداللہ حاکم نیشاپوری رحمہ اللہ نے کیا کہ:
’’أخبرنا أبویحیی السمرقندی قال: حدثنا محمد بن نصر، قال: حدثنا أحمد بن عبدالرحمن بن وھب قال: حدثنا عمی، قال: أخبرنی اللیث بن سعد عن یعقوب بن ابراھیم عن النعمان بن ثابت عن موسی بن أبی عائشۃ عن عبداللہ بن شداد عن ابی الولید عن جابر قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ’’من صلی خلف امام فان قراء ۃ الامام لہ قراء ۃ‘‘ قال أبوعبداللہ: عبداللہ بن شداد ھو بنفسہ أبو الولید، و من تھاون بمعرفۃ الاسامی أورثہ مثل ھذا الوھم۔‘‘ (64)
علامہ پرہاڑوی رحمہ اللہ اس عبارت کو نقل کرنے کے بعد تین جوابات دیتے ہیں:
’’أولا: و یجب أن لاینسب ھذا الوھم الی الامامین، بل أملی من بعدھما من الرواۃ۔
ثانیا: و قد یجاب باحتمال أن یکون أبوالولید فی الاسناد غیر عبداللہ المکنی بأبی الولید۔
ثالثا: أو بأن یکون قولہ: ’’عن أبی الولید‘‘ بدلاً باعادۃ الجار۔‘‘ (65)
اور اپنی سب سے آخری تصنیف ’’نبراس‘‘ میں بھی امام صاحب رحمہ اللہ کا دفاع کیا ہے، مسئلہ رؤیت باری تعالی کے تحت کہ ’’جنوں کو رؤیت حاصل ہوگی یانہیں؟‘‘ امام صاحب رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے:
’’لا رؤیۃ للجن، بل نسب الی الامام الأعظم أنہٗ قال: لایدخل الجن الجنۃ، و غایۃ ثوابھم النجاۃ من النار، و لعل ھذہ النسبۃ غیر صحیح۔‘‘ (66)
چوتھی دلیل: غیرمقلدین صوفیاء اور اتقیاء کا نام تک سننا گوارہ نہیں کرتے، جبکہ موصوف اپنی کتب میں صوفیاء پر اعتراضات کے نہایت شد و مد سے جواب دیتے ہیں:
’’قلت: ھذا التعصب کثیر فی أصحاب الظواھر، فان عقولھم قصرت عن ادراک حقائق الصوفیۃ، فأنکروا علیھم حتی کفروھم، و من نظر فی مؤلفات الصوفیۃ ظھر أنھم منصورون منصبغون بصبغۃ النبی ﷺ و لذلک اعتراف کثیر من العظماء العلماء المتشرعین بکمال مراتب الصوفیۃ وتقربھم الی اللہ سبحانہ۔‘‘ (۶7)
اصحاب ظواہر سے یہی غیرمقلدین مراد ہیں کہ ان میں تعصب بہت ہوتا ہے۔
پانچویں دلیل: لامذہبیت (غیرمقلدیت) بیعتِ طریقت کو شرک بتلاتی ہے، جبکہ علامہ خود سلسلہ چشتیہ نظامیہ کے جلیل القدر شیخ ہیں، آپ کا مختصر شجرۂ طریقت ہدیۂ ناظرین ہے:
مولانا عبدالعزیز پرہاڑوی رحمہ اللہ خلیفہ مولانا نظام الدین اورنگ آبادی خلیفہ شاہ کلیم اللہ خلیفہ مولانا یحییٰ مدنی، مولانا مدنی سے یہ سلسلہ ان کے خاندان سے ہوتا ہوا علامہ کمال الدین تک پہنچتا ہے، اور وہ شاہ نصیرالدین چراغ دہلوی کے اور وہ سلطان المشایخ نظام الدین اولیاء اور وہ بابا فرید شکر گنج اور وہ حضرت قطب الدین بختیار کاکی اور وہ شاہ معین الدین چشتی اجمیری کے خلیفہ تھے، اور یہ سلسلہ چشتیہ آگے چل کر حضرت ممشاد دینوری، حذیفہ، ابراہیم بن ادہم، عبدالواحد، حسن بصری (رحمہم اللہ)، پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے واسطے سے سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم سے جاملتا ہے۔ (۶8)
چھٹی دلیل: علامہ رحمہ اللہ اپنی مشہور اور آخری تصنیف ’’النبراس‘‘ میں غیر مجتہد کے متعلق لکھتے ہیں:
’’ثم من لم یکن مجتھدا وجب علیہ اتباع المجتھد ۔۔۔ پھر چند سطور کے بعد تحریر فرماتے ہیں: ’’فاتفق العلماء علی الزام المقلد مجتھدا واحدا، و نظروا فی عظماء الجمتھدین فلم یجدوا فی أھل التدوین منھم کالعلماء الأربعۃ۔۔۔‘‘ (۶9)
ساتویں دلیل: اس سے بھی بڑھ کر مولانا کی وہ عبارت دلیل ہے، جو اسی کتاب میں مذکور ہے، مقلد کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’و المقلد من لایستدل علی الحکم، و لکن یعتقدہ کاتباعنا فی الفقہ أبا حنیفۃ۔‘‘ (70)
اس سے بڑھ کر موصوف کے حنفی اور کٹر حنفی ہونے کی اور کیا دلیل پیش کی جاسکتی ہے؟!ْ
آٹھویں دلیل: اور تقریبا آٹھ (۸) جگہ اپنی کتاب ’’کوثر النبی ‘‘ میں امام صاحب رحمہ اللہ کو ’’امامنا الأعظم‘‘ اور ’’امامنا أبی حنیفۃ‘‘ کہا۔ (71)، اور اپنی کتاب ’’الناھیۃ‘‘ میں بھی ’’امامنا الأعظم‘‘ لکھا ہے۔ (72)
تو بحث کا خلاصہ یہ نکلا کہ اولاً تو یہ رسالہ اور مسئلہ مصنف کی طرف غلطی سے منسوب ہوا ہے، اگر بفرض و محال یہ تسلیم بھی کیا جائے کہ اس مسئلہ کی ان کی طرف نسبت صحیح ہے، تب اس کی وہ توجیہ ہوگی، جو اس مسئلہ کے تحت ہم بیان کرچکے، اگر کسی کو وہ توجیہ بھی ناقابل قبول ہو، تب اس کے لیے چند موٹے موٹے دلائل ذکر کیے ہیں۔

وفات
موصوف علوم دینیہ کی تدریس، بیعت و ارشاد اور طب کا کام بیک وقت کرتے تھے، تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی جاری رکھا، اور حیرت یہ ہے کہ عمر صرف تیس ۳۰ برس تھی، ۱۲۳۹ھ میں انتقال فرمایا، (73) مولانا موسیٰ روحانی بازی رحمہ اللہ نے مولانا غلام رسول دیروی صاحب کا بیان نقل کیا ہے کہ مرحوم کے معاصر شیخ احمد دیروی نے علامہ پر سحر کرادیا تھا، پہلے پہل مولانا اُسے عام مرض سمجھے، جب حقیقت کھلی تو وقت گزر چکا تھا، تو موصوف کہنے لگے: ’’کاش کہ مجھے پہلے پتہ چلتا تو میں اس کا توڑ کردیتا۔‘‘ (74)
مولانا محمد برخوردار بن مولوی عبدالرحیم ملتانی لکھتے ہیں: ’’و ألف ھذا الکتاب ’’النبراس‘‘ فی ۱۲۳۹ھ، و عاش بعدہٗ قلیلاً ۔رحمہ اللہ۔۔‘‘ (75)
مولانا محمد موسی روحانی بازی رحمہ اللہ نے بھی یہی لکھا ہے: ’’مات بعد سنۃ ۱۲۳۹ھ بقلیل‘‘۔ (76)
’’کتاب معدل الصلوۃ‘‘ پر ان کی تاریخ وصال کے بارے میں لکھا ہے: ’’عبدالعزیز بن أحمد الفریھاری الملتانی المتوفی الی رحمہ اللہ قبل الأربعین سنۃ بعد مضی مئتین و ألف ھجرۃ‘‘ (۷7)
ڈاکٹر سیالوی صاحب نے بھی اسی قول کو ترجیح دی ہے۔ (۷8)
اور علامہ عبدالفتاح ابوغدہ رحمہ اللہ نے ان کی تاریخ وفات ۱۲۴۱ھ بعمر ۳۲ سال لکھی ہے۔ (۷9)
صاحب ’’نزھۃ الخواطر‘‘ نے ان کی تاریخ و سن وفات سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔ (80)
واللہ اعلم بالصواب

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
۱: دیکھئے: الزمرد از مؤلف، طبع: حاجی چراغ الدین سراج الدین تاجران کتب بازار کشمیری لاہور، مطبع رفاہ عام بابو نور الحق، سن طباعت: ۱۳۴۵ھ؍۱۹۲۶ء۔
۲: القلم: جلد: ۵، شمارہ: ۵: صفحہ: ۲۵۵۔ ڈاکٹر محمدشریف سیالوی: ادارہ علوم اسلامیہ، جامعہ پنجاب، لاہور۔
۳: القلم: جلد: ۵، شمارہ: ۵: صفحہ: ۲۵۵۔ ڈاکٹر محمدشریف سیالوی: ادارہ علوم اسلامیہ، جامعہ پنجاب، لاہور۔
۴: القلم: جلد: ۵، شمارہ: ۵، ص: ۲۵۲۔ اور دیکھئے، مکمل اسلامی انسائیکلوپیڈیا، ص: ۱۰۴۰۔
۵: دیکھئے: الزمرد از مؤلف ، ص: ۱۳۵، طبع: حاجی چراغ الدین سراج الدین تاجران کتب بازار کشمیری لاہور، مطبع رفاہِ عام بابو نورالحق، سن طبارت: ۱۳۴۵ھ؍۱۹۲۶ء۔
۶: القلم: جلد: ۵، شمارہ: ۵، ص: ۲۵۶۔
۷: تفصیل کے لیے دیکھئے: تہذیب الکمال للمزی: ۱۵؍۴۴۴، ترجمہ لیث بن سعد: قول امام شافعی، طبع: دارالفکر بیروت، سن طباعت: ۱۴۴۴ھ؍۱۹۹۴ء۔
۸: دیکھئے: مولانا ڈاکٹر محمد عبدالحلیم چشتی، مقالہ بنام مولانا انورشاہ صاحب، معارف اعظم گڑھ، ص: ۳۴۱، شمارہ نمبر: ۵، جلد نمبر: ۱۰۰، طبع: اعظم گڑھ۔
۹: مناظرۃ الجلی فی علوم الجمیع للفرھاروی، ص: ۱۰۹، کوثرالنبی کے ساتھ مکتبہ قاسمیہ نزد سول ہسپتال چوک فوارہ ملتان سے (۱۳۸۳ھ) میں شائع ہوئی۔
۱۰: بحوالہ مکمل اسلامی انسائیکلوپیڈیا، ص: ۱۰۴۰۔
۱۱: بحوالہ مکمل اسلامی انسائیکلوپیڈیا، ص: ۱۰۴۰، اور القلم: ۵، شمارہ: ۵، ص: ۲۵۶۔
۱۲: بحوالہ سوانح محبوب اللہ حضرت خواجہ خدابخش، مرتب: مختاراحمد پیرزادہ، طبع: اردو اکیڈمی بہاولپور، ص: ۴۶، و ص: ۴۸ و ص: ۶۸ تا ۶۹۔
۱۳: بحوالہ مکمل اسلامی انسائیکلوپیڈیا، ص: ۱۰۴۰، اور القلم: ۵، شمارہ: ۵، ص: ۲۵۶ تا ۲۵۷۔
۱۵: بحوالہ سوانح محبوب اللہ حضرات خواجہ خدابخش، مرتب: مختار احمد پیرزادہ، طبع: اردو اکیڈمی بہاولپور، ص: ۴۶۔
۱۶: مناظرۃ الجلی فلی علوم الجمیع للفرھاروی، ص: ۱۰۵، کوثر النبی کے ساتھ مکتبہ قاسمیہ نزد سول ہسپتال چوک فوارہ ملتان سے (۱۳۸۳ھ) شائع ہوئی۔
۱۷: بحوالہ سوانح محبوب اللہ حضرات خوابہ خدابخش، مرتب: مختار احمد پیرزادہ، طبع: اردو اکیڈمی بہاولپور، ص: ۴۶۔
۱۸: القلم: جلد: ۵، شمارہ: ۵، ص: ۲۵۷۔
۱۹: معدل الصلاۃ از علامہ محمد بن پیرعلی المعروف ببرکلی (المتوفی: ۹۸۱ھ)، ص: ۱۶، طبع: مکتبہ سلفیہ قدیر آباد ملتان، سن طباعت: ۱۳۲۸ھ۔
۲۰: السرالمکتوم مما أخفاہ المتقدمون للفرھاروی، حاشیہ صفحہ: ۱۴، طبع: العزیز اکیڈمی، کوٹ ادّو، ضلع مظفر گڑھ، مصنف کی کتاب ’’رسالۃ الأوفاق‘‘ کے ساتھ غالباً ۱۳۹۷ھ میں شائع ہوئی۔
۲۱: القلم: جلد: ۵، شمارہ: ۵، ص: ۲۵۷۔
۲۲: القسطاس: ۲، مطبع خضر مجتبائی، ملتان، سن طباعت: ۱۳۱۸ھ۔
۲۳: نزھۃ الخواطر: ۷؍۲۸۳، طبع دوم، سن طباعت: ۱۳۹۹ھ مجلس دائرۃ المعارف العثمانیہ، حیدرآباد دکن، ھند۔
۲۴: حاشیۃ الطریق العادل الی بغیۃ الکامل علی بغیۃ الکامل السامی شرح المحصول و الحاصل للجامی للروحانی البازی ص: ۲۲۷، الطبعۃ السابعۃ، سن طباعت: ۱۴۲۷ھ، ادارۃ التصنیف و الادب، لاہور، پاکستان۔
۲۵: تعلیمات الرفع و التکمیل از شیخ عبدالفتاح ابوغدہ، ص: ۲۸۹، قدیمی کتب خانہ کراچی۔
۲۶: حاشیۃ الطریق العادل الی بغیۃ الکامل علی بغیۃ الکامل السامی شرح المحصول و الحاصل للجامی للروحانی البازی، ص: ۲۲۷، الطبعۃ السابعۃ، سن طباعت: ۱۴۲۷ھ ، ادارۃ التصنیف و الادب، لاہور، پاکستان۔
۲۷: مناظرۃ الجلی فی علوم الجمیع للفرھاروی، ص: ۱۰۹، کوثر النبی کے ساتھ مکتبہ قاسمیہ نزد سول ہسپتال چوک فوارہ ملتان سے (۱۳۸۳ھ ) میں شائع ہوئی۔
۲۸: بحوالہ مکمل اسلامی انسائکلوپیڈیا، ص: ۱۰۴۰۔
۲۹: نزھۃ الخواطر: ۷؍۲۸۳، طبع دوم، سن طباعت: ۱۳۹۹ھ، مجلس دائرۃ المعارف العثمانیہ، حیدرآباد دکن، ھند۔
۳۰:حاشیۃ الطریق العادل الی بغیۃ الکامل علی بغیۃ الکامل السامی شرح المحصول و الحاصل للجامی للروحانی البازی، ص: ۲۲۷، الطبعۃ السابعۃ، سن طباعت: ۱۴۲۷ھ، ادارۃ التصنیف و الادب، لاہور، پاکستان۔
۳۱: القلم: جلد: ۵، شمارہ: ۵، ص: ۲۶۹۔
۳۲: حاشیۃ الطریق العادل الی بغیۃ الکامل علی بغیۃ الکامل السامی شرح المحصول و الحاصل للجامی للروحانی البازی، ص: ۲۲۷، الطبعۃ السابعۃ، سن طباعت: ۱۴۲۷ھ، ادارۃ التصنیف و الادب، لاہور، پاکستان۔
۳۳: نزھۃ الخواطر: ۷؍۲۸۳، طبع دوم، سن طباعت: ۱۳۹۹ھ، مجلس دائرۃ المعارف العثمانیہ، حیدرآباد دکن، ھند۔
۳۴: بحوالہ مکمل اسلامی انسائکلوپیڈیا، ص: ۱۰۴۰۔
۳۵: کوثر النبی: ۱۱۲، مکتبہ قاسمیہ نزد سول ہسپتال چوک فوارہ ملتان سے (۱۳۸۳ھ) میں شائع ہوئی۔
۳۶: بغیۃ الکامل علی بغیۃ الکامل السامی شرح المحصول و الحاصل للجامی للروحانی البازی، ص: ۲۵۱، الطبعۃ السابعۃ، سن طباعت: ۱۴۲۷ھ، ادارۃ التصنیف و الادب، لاہور، پاکستان۔
۳۷: بحوالہ سوانح محبوب اللہ حضرت خواجہ خدابخش، مرتب: مختار احمد پیرزادہ، طبع: اردو اکیڈمی بہاولپور، ص: ۴۶و ۷۲۔
۳۸: جائزہ مدارس عربیہ مغربی پاکستان، مؤلف: حافظ نذراحمد، ناشر: مسلم اکیڈمی، نذر منزل ۲۹؍۱۸، محمدنگر، علامہ اقبال روڈ لاہور، تاریخ اشاعت: محرم ۱۳۹۲ھ۔
۳۹: دیکھئے: فہرست مخطوطات سندھ آر کائیوز، ج: ۱، ص: ۱۴۷، خزانہ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ، مرتب: ڈاکٹر مولانا سومرو محمد ادریس سندھی، اشاعتِ اول، سن طباعت: ۲۰۱۲ء، انفارمیشن اینڈ آر کائیوز ڈپارٹمنٹ گورنمٹ آف سندھ، کراچی۔
۴۰: القلم: جلد: ۵، شمارہ: ۵، ص: ۲۲۵ اور ۲۶۶۔
۴۱: القلم: جلد: ۵، شمارہ: ۵، ص: ۲۶۹۔
۴۲: القلم: جلد: ۵، شمارہ: ۵، ص: ۲۶۹۔
۴۳: القلم: جلد: ۵، شمارہ: ۵، ص: ۲۶۸۔
۴۴:القلم: جلد: ۵، شمارہ: ۵، ص: ۲۶۹۔
۴۵: حاشیۃ الطریق العادل الی بغیۃ الکامل علی بغیۃ الکامل السامی شرح المحصول و الحاصل للجامی للروحانی البازی، ص: ۲۲۷، الطبعۃ السابعۃ، سن طباعت: ۱۴۲۷ھ۔ اور دیکھئے: القلم: جلد: ۵، شمارہ: ۵، ص: ۲۶۹۔
۴۶: القلم: جلد: ۵، شمارہ: ۵، ص: ۲۶۹۔
۴۷: القلم: جلد: ۵، شمارہ: ۵، ص: ۲۶۸، اور دیکھئے: نزھۃ الخواطر: ۷؍۲۸۳، طبع دوم، سن طباعت: ۱۳۹۹ھ، المجلس دائرۃ المعارف العثمانیہ، حیدرآباد دکن، ھند۔
۴۸: حاشیۃ الطریق العادل الی بغیۃ الکامل علی بغیۃ الکامل السامی شرح المحصول و الحاصل للجامی للروحانی البازی، ص: ۲۲۷، الطبعۃ السابعۃ، سن طباعت: ۱۴۲۷ھ۔ ادارۃ التصنیف و الادب، لاہور، پاکستان۔
۴۹: القلم: جلد: ۵، شمارہ: ۵، ص: ۲۶۸ اور ۲۶۹۔
۵۰: تاریخ مشایخ چشت، خلیق احمد صاحب نظامی، ندوۃ المصنفین اردو بازار دہلی، طبع اول: ۱۳۷۲ھ، رمضان المبارک، ۱۹۵۳ء مئی۔
۵۱: نزھۃ الخواطر: ۷؍۲۸۴، طبع دوم، سن طباعت: ۱۳۹۹ھ، مجلس دائرۃ المعارف العثمانیہ، حیدر آباد دکن، ھند۔
۵۲: مناظرۃ الجلی فی علوم الجمیع للفرھاروی، ص: ۱۰۹، کوثر النبی کے ساتھ مکتبہ قاسمیہ نزد سول ہسپتال چوک فوارہ ملتان سے (۱۳۸۳ھ) میں شائع ہوئی۔
۵۳: نزھۃ الخواطر: ۷؍۲۸۴، طبع دوم، سن طباعت: ۱۳۹۹ھ، مجلس دائرۃ المعارف العثمانیہ، حیدر آباد دکن، ھند۔
۵۴: دیکھئے : القلم: جلد: ۵، شمارہ: ۵، ص: ۲۶۰۔
۵۵: معدل الصلاۃ از علامہ محمد بن پیرعلی المعروف ببرکلی (المتوفی: ۹۸۱ھ) ص: ۱۶، طبع: مکتبہ سلفیہ قدیرآباد ملتان، سن طباعت: ۱۳۲۸ھ۔
۵۶: تفصیل کے لیے دیکھئے: المقدمات البنوریہ علی المؤلفات العربیۃ و الفارسیۃ و الأردیۃ للمحدث الکبیر علامۃ العصر الشیخ محمدیوسف البنوری: ۲۸، ط: المکتبۃ البنوریۃ بنوری تاؤن کراتشی سنۃ: ۱۴۰۰ھ، باکستان۔
۵۷: معیار الحق از میاں نذیر حسین دہلوی، ص: ۱۴۔
۵۸: کوثرالنبی: ۸۱، مکتبہ قاسمیہ نزد سول ہسپتال چوک فوارہ ملتان سے (۱۳۸۳ھ) شائع ہوئی۔
۵۹: بحوالہ حقیقت فقہ از صادق سیالکوٹی، ص: ۱۸۔
۶۰: کوثر النبی: ۵۴، مکتبہ قاسمیہ نزد سول ہسپتال چوک فوارہ ملتان سے (۱۳۸۳ھ) میں شائع ہوئی۔
۶۱: کوثر النبی: ۷۳، مکتبہ قاسمیہ نزد سول ہسپتال چوک فوارہ ملتان سے (۱۳۸۳ھ) میں شائع ہوئی۔
۶۲: کوثر النبی: ۵۳، مکتبہ قاسمیہ نزد سول ہسپتال چوک فوارہ ملتان سے (۱۳۸۳ھ) میں شائع ہوئی۔
۶۳: کوثر النبی: ۵۰، مکتبہ قاسمیہ نزد سول ہسپتال چوک فوارہ ملتان سے (۱۳۸۳ھ) میں شائع ہوئی۔
۶۴: معرفۃ أنواع علوم الحدیث للحاکم النیسابوری: ۱۷۸، ط: دارالکتب العلمیۃ بیروت، لبنان، الطبعۃ الثانیۃ: ۱۳۹۷ھ۔
۶۵: کوثر النبی: ۹۰ اور ۹۱، مکتبہ قاسمیہ نزد سول ہسپتال چوک فوارہ ملتان سے (۱۳۸۳ھ) میں شائع ہوئی۔
۶۶: النبراس از مؤلف، ص: ۲۸۹، یہ شرح القسطاس حاشیہ کے ساتھ مطبع خضر مجتبائی شہر ملتان سے شائع ہوئی۔
۶۷: کوثر النبی: ۱۰۱، مکتبہ قاسمیہ نزد سول ہسپتال چوک فوارہ ملتان سے (۱۳۸۳ھ) میں شائع ہوئی۔
۶۸: تاریخ مشایخ چشت، خلیق احمد صاحب نظامی، ندوۃ المصنفین اردو بازار دہلی، طبع اول: ۱۳۷۲ھ رمضان المبارک، ۱۹۵۳ء مئی۔
۶۹: النبراس از مؤلف، ص: ۱۰۹، یہ شرح القسطاس حاشیہ کے ساتھ مطبع خضر مجتبائی شہر ملتان سے شائع ہوئی۔
۷۰: النبراس از مؤلف، ص: ۱۰۹، یہ شرح القسطاس حاشیہ کے ساتھ مطبع خضر مجتبائی شہر ملتان سے شائع ہوئی۔
۷۱: کوثر النبی: مکتبہ قاسمیہ نزد سول ہسپتال چوک فوارہ ملتان سے (۱۳۸۳ھ) میں شائع ہوئی۔
۷۲: الناھیۃ عن طعن امیرالمومنین معاویۃ از مولف، ص: ۷۰، طبع: استانبول ترکی، سن طباعت: ۱۴۰۰ھ، پھر اسی کتب خانے نے ۱۴۲۵ھ دوبارہ شائع کی۔
۷۳: بحوالہ مکمل اسلامی انسائکلوپیڈیا، ص: ۱۰۴۰۔
۷۴: حاشیۃ الطریق العادل الی بغیۃ الکامل علی بغیۃ الکامل السامی شرح المحصول و الحاصل للجامی للروحانی البازی ص: ۲۲۸، الطبعۃ السابعۃ، سن طباعت: ۱۴۲۷ھ ادارۃ التصنیف و الادب، لاہور، پاکستان۔
۷۵: حاشیۃ القسطاس علی النبراس از مولوی محمد برخوردار بن مولانا عبدالرحیم، ص: ۲، طبع: مطبع خضر مجتبائی شہر ملتان۔
۷۶: حاشیۃ الطریق العادل الی بغیۃ الکامل علی بغیۃ الکامل السامی شرح المحصول و الحاصل للجامی للروحانی البازی ص: ۲۲۷، الطبعۃ السابعۃ، سن طباعت: ۱۴۲۷ھ، ادارۃ التصنیف و الادب، لاہور، پاکستان۔
۷۷: معدل الصلاۃ از علامہ محمد بن پیرعلی المعروف ببرکلی (المتوفی: ۹۸۱ھ)، ص: ۱۵، طبع: مکتبہ سلفیہ قدیرآباد ملتان، سن طباعت: ۱۳۲۸ھ
۷۸: دیکھئے: القلم: جلد: ۵، شمارہ: ۵، ص: ۲۶۰۔
۷۹: تعلیقات الرفع و التکمیل از شیخ عبدالفتاح ابوغدہ، ص: ۲۸۹، قدیمی کتب خانہ کراچی۔
۸۰: نزھۃ الخواطر: ۷؍ ۲۸۵، سن طباعت: ۱۳۹۹ھ مجلس دائرۃ المعارف العثمانیہ، حیدر آباد دکن، ھند۔

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں