شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید:

نئی کابینہ میں اہل سنت سے استفادہ سب کے مفاد میں ہے

نئی کابینہ میں اہل سنت سے استفادہ سب کے مفاد میں ہے

اہل سنت ایران کے ممتاز عالم دین و سماجی رہ نما نے اپنے اٹھائیس جولائی دوہزار سترہ کے خطبہ میں ایران میں نئی کابینہ کی تشکیل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اہل سنت سے استفادہ کو وقت کا تقاضا اور شیعہ وسنی سمیت تمام اقلیتوں کے مفاد میں قرار دیا ہے۔
خطیب اہل سنت زاہدان مولانا عبدالحمید نے کہا: سنی برادری سے وزیر اور اعلی درجے کے عہدیدار کا انتخاب بارہویں کابینہ اور حکومت کے لیے ایک موقع ہے۔
انہوں نے مزید کہا: ہمارے ملک میں نئی حکومت کی تشکیل کا کام انتہائی حساس اور بحرانی حالات میں جاری ہے۔ صدر محترم نے کئی مرتبہ واضح کیا ہے بارہویں حکومت سابقہ حکومت سے مختلف ہوگی۔ سابق حکومت میں کچھ کمزور وزیر شامل تھے۔ کمزور لوگوں کی وجہ سے ناراضگی پیدا ہوتی ہے ۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے کہا: اعلی حکام سے ہماری درخواست ہے کہ وزیر و مشیر اور گورنر وں کے انتخاب میں اہلیت کو مدنظر رکھیں۔ حکومت اس حوالے سے کسی بھی شخص، گروہ اور جماعت کے دباو میں نہ آئے اور صرف اہلیت، عوام کی رضامندی اور قومی مفادات کا خیال رکھے۔
انہوں نے مزید کہا: اللہ تعالی اور عوام کی رضامندی ہر فرد اور پارٹی کی رضامندی سے بڑھ کر ہے۔
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: ہمارے خیال میں نئی کابینہ میں صرف لوگوں کی اہلیت کو دیکھا جائے سیاسی وابستگی کو نہیں۔ سابق نااہل وزرا کی وجہ سے ملک میں ترقی کی رفتار سست روی کا شکار ہوچکی ہے۔
انہوں نے کہا: عوام نے صدر روحانی کو ووٹ دے کر ان پر اعتماد کا اظہار کیا ہے کہ وہ قابل اور سمجھدار افراد کو کابینہ میں شامل کرکے عوام کی خدمت کریں۔
صدر شورائے ہم آہنگی مدارس اہل سنت سیستان بلوچستان نے مزید کہا: بین الاقوامی، علاقائی اور داخلی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ضرور سنی وزرا سے کام لیں۔ ہمارا مقصد محض سنی برادری کے مفادات نہیں ہے، بلکہ ہم پورے عالم اسلام اور ملکی مفادت کو مدنظر رکھتے ہیں۔ سنی وزیر کا انتخاب شیعہ برادری کے مفاد میں بھی ہے اور ایسے حالات میں جب فرقہ واریت کی آگ ہر سو جل رہی ہے، اس اقدام سے فرقہ واریت کی آگ پر ٹھنڈا پانی گرے گا۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: صدر محترم اور تمام پالیسی ساز حضرات پریشر گروپس کے دباو میں نہ آئیں اور کوتہ فکر لوگوں کے اعتراضات کو خاطر میں نہ لائیں۔ انہی تنگ نظر لوگوں کی وجہ سے اسلامی نظام دنیا میں مقبول نہیں بن چکاہے۔
انہوں نے کہا: جو لوگ مسلک کو اہلیت کی بنیاد قرار دیتے ہیں اور شیعہ وسنی کے درمیان جدائی لاتے ہیں، انہیں قوم کے سمجھدار نہیں کہا جاسکتا۔ ہماری سوچ بین الاقوامی ہونی چاہیے۔ ہم خیرخواہی سے مشورت دیتے ہیں اور ہمارا مقصد پوری امت کا اتحاد ہے۔

قابل لوگوں کو ذمہ داری سونپنا ’دیانتداری‘ کی مثال ہے
مولانا عبدالحمید نے ’امانت‘ کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا: تمام آسمانی مذاہب میں خاص کر اسلام میں امانت اور دیانتداری انتہائی اہم ہے۔ عقل، شریعت، عرف عام اور تہذیب کی رو سے بھی اس بات کی اہمیت واضح ہے۔
انہوں نے مزید کہا: اسلام کی رو سے دیانتداری بہت بڑا اور وسیع قاعدہ ہے جو انسانی زندگی کے تمام گوشوں کو شامل ہے۔ قرآن پاک، اسلامی شریعت اور احادیث مبارکہ سب ہمارے پاس امانت ہیں، ہمیں ان کا خیال رکھنا چاہیے۔
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے مزید کہا: نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: «لا إیمان لمن لا أمانة له و لا دین لمن لا عهد له»؛ اس شخص کا ایمان (مکمل) نہیں جو امانتداری نہیں کرتا اور اس شخص کا دین (مکمل) نہیں جو ایفائے عہد نہیں کرتا. ایمان اور امانت کا مصدر ایک ہی چیز ہے؛ ایمان ’امن‘ اور ازالہ خوف کا معنی دیتاہے۔ امین شخص وہی ہے جس سے کوئی خوف نہ کھائے اور سب اس کے ساتھ امن کا احساس کریں۔ عہدشکنی بہت بڑا گناہ ہے۔
مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب میں ایک دوسری حدیث کوبیان کرتے ہوئے کہا: نبی کریم ﷺ نے قیامت کی نشانیوں میں سے ایک کی نشاندہی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: «‏ إِذَا ضُيِّعَتِ الأَمَانَةُ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ ‏‏‏.‏ قَالَ: كَيْفَ إِضَاعَتُهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:‏ إِذَا أُسْنِدَ الأَمْرُ إِلَى غَيْرِ أَهْلِهِ، فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ»‏‏.‏رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب امانت ضائع کی جائے تو قیامت کا انتظار کرو ۔ پوچھا یا رسول اللہ ! امانت کس طرح ضائع کی جائے گی ؟ فرمایا جب کام نااہل لوگوں کے سپرد کر دئیے جائیں تو قیامت کا انتظار کرو ۔
انہوں نے مزید کہا: لوگوں کو اتھارٹی دینا اور کوئی چھوٹی یا بڑی ذمہ داری سونپنا ’امانت‘ کی مثال ہے۔ اگر نااہل لوگوں کو ذمہ داری دی گئی، یہ قرب قیامت کی نشانی ہوگی۔ مشرق وسطی میں کئی قوموں نے نااہل حکام کے خلاف انقلاب بپا کیا اور سڑکوں پر نکل آئیں۔ ایرانی انقلاب بھی آمر اور نااہل حکام کے خلاف تھا۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: مشرق وسطی کی آزادی پسند قوموں نے ایسے حکام کے خلاف آواز اٹھائی جو عوام کی بات سننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اب بھی کچھ حکام مسلم ممالک میں تخت حکومت پر ہیں اور عوام کی بات سننا دور کی بات ہے، ان کے قتل عام پر مصروف ہیں اور اپنے مخالفین کی گردنیں اڑانے میں لگے ہوئے ہیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں