حضرت مولانا ریاست علی بجنوری رحمہ اللہ کی رحلت

حضرت مولانا ریاست علی بجنوری رحمہ اللہ کی رحلت

دارالعلوم دیوبند کے استاذِ حدیث، جمعیت علمائے ہند کے نائب صدر، ترانۂ دارالعلوم دیوبند کے تخلیق کار، محدث عصر، استاذ العلماء حضرت مولانا ریاست علی بجنوری اس دنیائے رنگ و بو میں ۷۷؍بہاریں گزار کر ۲۳؍شعبان ۱۴۳۸ھ مطابق ۲۰؍مئی ۲۰۱۷ء بروز ہفتہ سحری کے وقت رحلت فرمائے عالم آخرت سدھار گئے، انا للہ و انا الیہ راجعون، ان للہ ما اخذ و لہ ما أعطی و کل شیء عندہ باجل مسمّیٰ۔
حضرت مولانا ریاست علی بجنوری ۹؍مارچ ۱۹۴۰ء کو علی گڑھ میں پیدا ہوئے، آپ کا آبائی وطن موضع حبیب والا ضلع بجنور ہے۔ ابتدائی تعلیم کی تکمیل کے بعد اپنے پھوپھا مولانا سلطان الحق بجنوری رحمہ اللہ (ناظم کتب خانہ دارالعلوم دیوبند) کے ہم راہ ۱۱؍برس کی عمر میں ۱۹۵۱ء میں دارالعلوم دیوبند پہنچے۔ ۷ سال تک تعلیم حاصل کرکے ۱۹۵۸ ء میں دورہ حدیث سے فراغت حاصل کی، اس کے بعد بھی حضرت مولانا فخرالدین صاحب مرادآبادی رحمہ اللہ کی آغوشِ تربیت میں رہ کر برسوں استفادہ کیا اور اپنے استاذ محترم کے درسِ بخاری کی تقریروں کو مرتب کرکے ’’ایضاح البخاری‘‘ کے نام سے شائع کرنا شروع کیا۔ ۱۹۷۲ء میں دارالعلوم میں مدرس مقرر ہوئے۔ کچھ برسوں تک تدریس کے ساتھ ساتھ ماہنامہ دارالعلوم کی ادارت کی ذمہ داری بھی انجام دی۔ ۱۴۰۵ھ میں مجلس شوریٰ نے آپ کو مجلس تعلیمی کا ناظم مقرر کیا۔ ۱۴۰۸ھ میں آپ کو شیخ الہند اکیڈمی کا نگراں مقرر کیا گیا۔
نمازِ جنازہ میں بڑی تعداد میں دیوبند و بیرون دیوبند کے علماء، طلبہ و عوام نے شرکت کی۔ مولانا ریاست علی بجنوری تقریباً گزشتہ ۴۵؍سال سے دارالعلوم دیوبند میں بحیثیت مدرس اپنی علمی، اصلاحی اور تربیتی خدمات انجام دے رہے تھے۔ مولانا کا شمار دارالعلوم دیوبند کے قدیم اساتذہ میں تھا۔ ۱۹۸۰ء کے بعد ادارہ کی علمی و انتظامی ترقی میں آپ کا زبردست کردار رہا ہے۔
دارالعلوم دیوبند کے تحریری اُمور کے ذمہ داریوں کے ساتھ مولانا مرغوب الرحمن رحمہ اللہ کے دور میں ادارہ کے کلیدی عہدوں پر فائز رہے اور طویل مدت تک شعبہ تعلیمات کے ناظم کی ذمہ داریاں انجام دیں۔مرحوم کا اردو ادب سے بھی کافی گہرا رشتہ تھا۔ آپ ترانۂ دارالعلوم دیوبند کے تخلیق کار ہیں اور اپنے استاذ حضرت مولانا فخرالدین رحمہ اللہ کے درسِ بخاری ’’ایضاح البخاری‘‘ کے مرتب بھی ہیں، جس کی تقریباً ۱۰ جلدیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ تصنیف و تالیف کا زبردست شوق رکھتے تھے اور اپنے سے چھوٹوں کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کرتے تھے۔
گزشتہ نصف صدی پر محیط آپ کی دینی، علمی، اصلاحی اور تربیتی خدمات کے سبب آج پورے عالم میں آپ کے ہزاروں شاگرد ’’قال اللہ و قال الرسول‘‘ کے نعرے بلند کر رہے ہیں۔ عام سا رہن سہن اور سادہ زندگی مولانا کا خاصہ تھی۔ مرحوم عہد حاضر کے پائے کے بزرگ اور معتبر ادیبوں میں صف اول کی حیثیت رکھتے تھے۔ ’’ترانہ دارالعلوم دیوبند‘‘ کے علاوہ ’’نغماتِ سحر‘‘ کے نام سے آپ کا ایک مجموعۂ کلام بھی منظر عام پر آچکا ہے۔ دارالعلوم دیوبند کی خدمات کے ساتھ ’’جمعیۃ علماء ہند‘‘ کے پلیٹ فارم سے بھی آپ کی اعلیٰ خدمات ہیں اور فی الوقت ’’جمعیۃ علماء ہند‘‘ کے ’’نائب صدر‘‘ کے طور پر آپ نمایاں طور پر سماجی و اصلاحی کاموں میں حصہ دار تھے۔
قابل ذکر امر یہ ہے کہ فی الوقت دارالعلوم دیوبند کے اکثر اساتذہ کا آپ کے شاگردوں میں شمار ہوتا ہے۔ مولانا مرحوم ویسے کافی عرصہ سے مختلف امراض میں مبتلا تھے، مگر علاج و معالجہ کے سہارے وہ مسلسل دارالعلوم آکر درس و تدریس کی خدمات نمایاں طور پر انجام دے رہے تھے۔ مرحوم کا انتقال دارالعلوم دیوبند اور جمعیۃ علماء ہند کے ایک باب کا خاتمہ ہے۔ پسماندگان میں چار بیٹے ہیں۔ نماز جنازہ بعد نماز ظہر احاطہ مولسری میں جمعیۃ علماء ہند کے صدر قاری محمدعثمان منصور پوری دامت برکاتہم نے ادا کرائی۔ بعد ازیں ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں قبرستان قاسمی میں تدفین عمل میں آئی۔
اس موقع پر جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی دامت برکاتہم نے مولانا ریاست علی بجنوری رحمہ اللہ کے سانحہ ارتحال پر مدینہ منورہ سے گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے ان کی موت کو ’’موت العالِم موت العالَم‘‘ قرار دیا ہے۔
مولانا مدنی نے کہا کہ: مولانا بجنوری مرحوم کی وفات سے علمی دنیا میں جو خلاء پیدا ہوا ہے اس کا پر ہونا ناممکن نہ سہی، لیکن مشکل ضرور ہے۔ مولانا مدنی نے مرحوم کے ورثاء، اقرباء اور متعلقین سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے بارگاہ رب العزت میں مولانا مرحوم کی مغفرت اور ترقی درجات کی دعا کی ہے۔ نیز جماعتی رفقاء، ارباب مدارس، طلبہ عزیز اور عام مسلمانوں سے مولانا کے لیے زیادہ سے زیادہ ایصال ثواب کی اپیل کی ہے۔
جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے رئیس حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر صاحب، نائب رئیس حضرت مولانا سید محمد سلیمان یوسف بنوری صاحب، ناظم تعلیمات حضرت مولانا امداداللہ صاحب، جامعہ کی شوریٰ، تمام اساتذہ اور ادارہ بینات حضرت مولانا ریاست علی بجنوری کی وفات کو علمی دنیا کے لیے عظیم سانحہ قرار دیتا ہے اور دعا گو ہے کہ اللہ رب العزت مرحوم کے پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازے اور مرحوم کی جملہ حسنات کو قبول فرما کر انہیں جنت الفردوس کا مکین بنائے۔ آمین
افادہ عام کی غرض سے ترانۂ دارالعلوم دیوبند نقل کیا جارہا ہے:

ترانۂ دارالعلوم دیوبند
* یہ علم و ہنر کا گہوارہ تاریخ کا وہ شہ پارہ ہے
ہر پھول یہاں اِک شعلہ ہے ہر سرو یہاں مینارہ ہے

*خود ساقی کوثر نے رکھی مے خانے کی بنیاد یہاں
تاریخ مرتب کرتی ہے دیوانوں کی روداد یہاں

*جو وادیِ فاراں سے اٹھی گونجی ہے وہی تکبیر یہاں
ہستی کے صنم خانوں کے لیے ہوتا ہے حرم تعمیر یہاں

*برسا ہے یہاں وہ ابرِ کرم اٹھا تھا جو سوئے یثرب سے
اس وادی کا سارا دامن سیراب ہے جوئے یثرب سے

*کہسار یہاں چھپ جاتے ہیں طوفان یہاں رُک جاتے ہیں
اس کاخ فقیری کے آگے شاہوں کے محل جھک جاتے ہیں

*ہر بوند ہے جس کی امرت جل یہ بادل ایسا بادل ہے
سو ساگر جس سے بھر جائیں یہ چھاگل ایسا چھاگل ہے

*مہتاب یہاں کے ذروں کو ہر رات منانے آتا ہے
خورشید یہاں کے غنچوں کو ہر صبح جگانے آتا ہے

*یہ صحن چمن ہے برکھادت ہر موسم ہے برسات یہاں
گلبانگ سحر بن جاتی ہے ساون کی اندھیری رات یہاں

*اسلام کے اس مرکز سے ہوئی تقدیس عیاں آزادی کی
اس بام حرم سے گونجی ہے سو بار اذان آزادی کی

*اس وادی گل کا ہر غنچہ خورشید جہاں کہلایا ہے
جو رِند یہاں سے اُٹھا ہے وہ پیر مغاں کہلایا ہے

*جو شمع یقین کی روشن ہے یہاں وہ شمع حرم کا پرتو ہے
اس بزم ولی اللہی میں تنویر ثبوت کی ضوء ہے

*یہ مجلس مے وہ مجلس ہے خود فطرت جس کی قاسم ہے
اس بزم کا ساقی کیا کہیے جو صبح ازل سے قائل ہے

*جس وقت کسی یعقوب کی لے اس گلشن میں بڑھ جاتی ہے
دَھاڑوں کی ضیاء خورشیدِ جہاں کو ایسے میں شرماتی ہے

*عابد کے یقین سے روشن ہے سادات کا سچا صاف عمل
آنکھوں نے کہاں دیکھا ہوگا اخلاص کا ایسا تاج محل

*یہ ایک صنم خانہ ہے جہاں محمود بہت تیار ہوئے
اس خاک کے ذرّے ذرے سے کس درجہ شرر بیدار ہوئے

*ہے عزم حسین احمد سے بپا ہنگامۂ گیر و دار یہاں
شاخوں کی لچک بن جاتی ہے باطل کے لیے تلوار یہاں

*رومیؒ کی غزل رازیؒ کی نظر غزالیؒ کی تلقین یہاں
روشن ہے جمال انورؒ سے پیمانۂ فخرالدینؒ یہاں

*ہر رند ہے ابراہیم یہاں ہر مکیش ہے اعجاز یہاں
رِندانِ ہدیٰ پر کھلتے ہیں تقدیس طلب کے راز یہاں

*ہیں کتنے عزیز اس محفل کے انفاسِ حیات افروز ہمیں
اس ساز معانی کے نغمے دیتے ہیں یقین کا سوز ہمیں

*طیبہ کی مئے مرغوب یہاں دیتے ہیں سفالِ ہندی میں
روشن ہے چراغ نعمانی اس بزم کمالِ ہندی میں

*خالق نے یہاں ایک تازہ حرم اس درجہ تمہیں بنوایا ہے
دل صاف گواہی دیتا ہے یہ خلد بریں کا سایہ ہے

*اس بزمِ جنوں کے دیوانے ہر راہ سے پہنچے یزداں تک
ہیں عام ہمارے افسانے دیوارِ چمن سے زنداں تک

*سو بار سنوارا ہے ہم نے اس ملک کے گیسوئے برہم کو
یہ اہل جنوں بتلائیں گے کیا ہم نے دیا ہے عالم کو

*جو صبح ازل میں گونجی تھی فطرت کی وہی آواز ہیں ہم
پروردۂ خوشبو غنچے ہیں گلشن کے لیے اعجاز ہیں ہم

*اس برقِ تجلی نے سمجھا پروانۂ شمع نور یہیں
یہ وادیِ ایمن دیتی ہے تعلیم کلیم طور یہیں

* دریائے طلب ہوجاتا ہے ہر مے کش کا پایاب یہاں
ہم تشنہ لبوں نے سیکھے ہیں مے نوشی کے آداب یہاں

*بلبل کی دعا جب گلشن میں فطرت کی زباں ہوجاتی ہے
انوارِ حرم کی تابانی ہر سمت عیاں ہوجاتی ہے

*امدادؒ و رشیدؒ و اشرفؒ کا یہ قلزم عرفاں پھیلے گا
یہ شجرۂ طلبؒ پھیلا ہے تا وسعتِ امکاں پھیلے گا

* خورشید یہ دین احمد کا عالم کے اُفق پر چمکے گا
یہ نور ہمیشہ چمکا ہے یہ نور برابر چمکے گا

* یوں سینۂ گیتی پر روشن اسلاف کا یہ کردار رہے
آنکھوں میں رہیں انوارِ حرم سینہ میں دلِ بیدار رہے

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں