رمضان المبارک میں کرنے کے کام

رمضان المبارک میں کرنے کے کام

حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب مدظلہ العالیٰ ہر جمعہ جامعہ فاروقیہ کراچی کی مسجد میں بیان فرماتے ہیں۔ حضرت کے بیانات ماہ نامہ ”الفاروق“ میں شائع کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے ،تاکہ”الفاروق“ کے قارئین بھی مستفید ہو سکیں۔ (ادارہ)
الحمدلله نحمدہ، ونستعینہ، ونستغفرہ، ونؤمن بہ، ونتوکل علیہ، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا، ومن سیئات أعمالنا، من یھدہ الله فلا مضل لہ، ومن یضللہ فلاھادي لہ، ونشھد أن لا إلہ إلا الله وحدہ لاشریک لہ، ونشھد أن سیدنا وسندنا ومولانا محمداً عبدہ ورسولہ، أرسلہ بالحق بشیرا ونذیرا،وَدَاعِیْاً إِلَی اللَّہِ بِإِذْنِہِ وَسِرَاجاً مُّنِیْراً․

أما بعد! فقد قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: اللھم بارک لنا فی رجب وشعبان وبلغنا رمضان․ أو کما قال علیہ الصلوٰة والسلام․

رجب اور شعبان کے مہینے گزر گئے۔ جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم جب رجب کا چاند دیکھتے تو دعا کرتے: اللھم بارک لنا فی رجب وشعبان ”اے الله! ہمارے لیے رجب اور شعبان میں برکتیں نازل فرما۔ رجب اور شعبان کو ہمارے لیے مبارک بنا۔ وبلغنا رمضان، ”اور اے الله! ہمیں رمضان تک پہنچا۔“

اس دعا میں آپ نے محسوس کیا ہو گا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی طلب اور تڑپ رمضان تک پہنچنے کی ہے کہ خیریت،عافیت اور سہولت کے ساتھ، صحت کے ساتھ ہمیں رمضان تک پہنچا دے۔

اس دعا کا پہلا جملہ ہے:اللھم بارک لنا فی رجب وشعبان‘اے الله! ہمارے لیے رجب اور شعبان میں برکتیں نازل فرما۔

دنیا میں ہم بہت سی دعائیں کرتے ہیں، لیکن ان دعاؤں کی قبولیت کے لیے او ران دعاؤں کے پورا ہونے کے لیے کچھ اسباب اور آداب ہیں، تب وہ دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ ایک آدمی دعا کر رہاہے کہ اے الله! مجھے نیک اور صالح اولاد عطا فرما، تو اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ پہلے شادی کرے۔ شادی تو اس نے کی نہیں ہے اور وہ الله تعالیٰ سے نیک اور صالح اولاد مانگ رہا ہے تو یقینا ایسا ممکن ہے کہ الله تعالیٰ بغیر اسباب کے بھی اولاد عطا فرما دے، لیکن یہ سنت نہیں ہے۔ اللہ کا یہ طریقہ نہیں۔ الله تعالیٰ نے اپنی قدرت کا اظہار بھی فرمایا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو الله تعالیٰ نے بغیر باپ کے پیدا فرمایا۔ یہ اللہ کی قدرت ہے، لیکن یہ اللہ کی سنت نہیں ہے۔ چناں چہ نیک اور صالح اولادکے حصول کے لیے اللہ کی جو سنت ہے وہ یہ ہے کہ وہ اس کے اسباب اختیار کرے یعنی شادی کرے۔

اسی طرح، ایک آدمی کوئی کام نہیں کرتا اور کہتا ہے کہ اے الله! میرے رزق میں برکت عطا فرما۔ تو الله تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ بغیر کسی محنت اور مشقت کے اسے دے، لیکن یہ سنت نہیں ہے۔ رزق کے معاملے میں اللہ کی سنت یہ ہے کہ آدمی کو کچھ کرنا ہو گا۔ محنت کریں گے، مشقت اٹھائیں گے، مزدوری کریں گے، ملازمت کریں گے، تجارت کریں گے، کچھ نہ کچھ کریں گے اور پھر آپ کہیں کہ اے الله! مجھے برکت عطا فرما․․․ الله تعالیٰ برکت عطا فرمائیں گے۔

میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ دعا کی قبولیت کے لیے کچھ اسباب اور آداب ہیں۔ ان اسباب کو جب تک آدمی اختیار نہ کرے تو الله تعالیٰ کی سنت نہیں ہے کہ وہ دعا قبول فرمائے۔

چناں چہ جب ہم نے رجب میں دعا مانگی کہ اے الله! ہمارے لیے رجب اور شعبان میں برکتیں عطا فرما تو اس برکت کے حصول کے لیے کچھ کرنا ہو گا۔ مثال کے طور پر، ہم وہ چیزیں اختیار کریں جو رمضان سے متعلق ہیں۔ رمضان کی اہم ترین شے صوم یعنی روزہ ہے۔ روزہ رمضان کی سب سے بڑی خصوصیت ہے۔ چناں چہ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم خیریت او رعافیت کے ساتھ رمضان تک پہنچیں اور اس سے پہلے کے دو مہینے رجب اور شعبان بھی مبارک ہوں تو ہمیں چاہیے کہ رمضان کا استقبال یوں کریں کہ رجب اور شعبان سے روزے رکھنا شروع کر دیں۔ یہ بہت آسان ہے، کچھ مشکل نہیں۔ آپ پیر اورجمعرات کا روزہ رکھ لیں جو سنت بھی ہے تو اس سے برکت آئے گی۔

رمضان کی دوسری عظیم الشان چیز ہے، قرآن۔ قرآن مجید رمضان میں نازل ہوا۔ لہٰذا، پورے رمضان قرآن کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ تراویح میں تو ہے ہی قرآن۔ اس کے علاوہ بھی قرآن کی تلاوت کا خاص ہتمام کیا جاتا ہے۔ چنانچہ ہم رمضان کی آمد سے پہلے ہی تلاوت کا اہتمام شروع کردیں۔ اگر آپ رمضان سے پہلے ہی تلاوتِ قرآن کا اہتمام شروع کر دیں گے تو آپ کا رجب بھی مبارک، آپ کا شعبان بھی مبارک․․․ اور آپ خیریت اور عافیت کے ساتھ رمضان کے مہتم بالشان مہینے میں پہنچ جائیں گے، جس تک پہنچنے کی تمنا اور دعا آپ صلی الله علیہ وسلم فرمارہے ہیں۔

رمضان کا ایک اور بہت اہم کام انفاق ہے۔ خوب خرچ کرو، صدقہ کثرت سے۔ اس کی بہت ترغیب آئی ہے۔ اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کے بے شمار فضائل و برکات ہیں۔

روزہ، قرآن، انفاق فی سبیل الله․․․ یہ بہت طاقت ور چیزیں ہیں۔

ان میں سب سے منفرد روزہ ہے، کیوں کہ روزہ میں کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ نماز تو پڑھتے ہوئے نظر آرہاہے۔ آدمی نماز پڑھ رہا ہے، رکوع کر رہا ہے، سجدہ کر رہا ہے۔ اسی طرح، قرآن پڑھتے ہوئے نظر آرہا ہے کہ آدمی قرآن پڑھ رہا ہے۔ صدقہ دیتے ہوئے نظر آرہا ہے۔ لیکن روزے میں کچھ نظر نہیں آرہا۔ ایک آدمی کہہ رہا ہے کہ میں روزے سے ہوں۔ آپ کہیں گے، ہاں، آپ روزے سے ہیں، حال آں کہ وہ روزے سے نہیں ہے۔ اس کو جانچنے یاچیک کرنے کا کوئی ظاہری طریقہ نہیں ہے۔ تمام عبادات میں روزہ ایسی عبادت ہے جو نظر نہیں آتی۔

چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، حدیث قدسی ہے الله تعالیٰ فرماتے ہیں: الصوم لي کہ ”روزہ میرے لیے ہے۔“ حالاں کہ نماز بھی تو الله تعالیٰ کے لیے ہے، زکوٰة بھی الله کے لیے ہے، حج بھی الله کے لیے ہے، لیکن بطور خاص الله نے فرمایا کہ روزہ میرے لیے ہے۔ پھر فرمایا: وأنا أجزی بہ”میں اس کا بدلہ دیتا ہوں“، حالاں کہ نماز کی جزا بھی الله دیتا ہے، زکوٰة کی جزا بھی الله تعالیٰ دیتا ہے، حج کی جزا بھی الله تعالیٰ دیتا ہے، لیکن بطور خاص روزے کا ذکر فرمایا۔ بعض روایات میں ہے: وأنا اجزٰی بہ کہ ”میں خود الله اس روزے کا بدل بن جاتا ہوں۔“ آپ سوچئے، یہ بہت بڑی بات ہے۔ روزہ براہ راست نہایت تیز رفتار انداز میں آدمی کی روحانیت بڑھاتا ہے۔

آپ دیکھتے ہیں کہ جیسے ہی رمضان المبارک کا چاند نظر آیا تو مسجدیں بھر جاتی ہیں۔ عشا کی نماز پورے سال فرض ہے، پاکستان میں بھی، افغانستان میں بھی، سعودی عرب میں بھی، حتیٰ کہ غیر مسلم ممالک میں بھی کہ جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں، عشا کی نماز میں بھی مسجد بھری ہوئی، فجر کی نماز میں بھی مسجد بھری ہوئی۔ عجیب روح پرور سما ہوتا ہے۔

اندرونی تبدیلی اور رُوحانی ترقی میں بہت بڑا دخل روزے کا ہے اور ہر مسلمان چاہتا ہے، ہر صاحب ایمان چاہتا ہے کہ اس کی روحانیت ترقی کرے۔ اس کا موثر ترین ذریعہ روزہ ہے۔

رمضان کی دوسری مرکزی خصوصیت قرآن ہے۔ قرآن الله کی کتاب ہے اور وہ محفوظ ہے․․․ ایک ایک زبر ،زیر، پیش۔ آپ نے کبھی غور کیا یا نہیں کیا کہ کتابیں تو اور بھی نازل ہوئیں، تورات بھی نازل ہوئی، زبور بھی نازل ہوئی، انجیل بھی نازل ہوئی، لیکن پوری دنیا میں آپ کو ان کتابوں کا حافظ نہیں ملے گا۔ نیز، گزشتہ کتابوں کے جو نسخے موجود ہیں، وہ بھی تحریف شدہ۔ لیکن قرآن کریم کے کروڑوں حفاظ پوری دنیا میں موجود ہیں۔

ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ اس قرآن کے ایک ایک حرف پر ثواب ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”الم“ ایک حرف نہیں ہے، بلکہ الف ایک حرف ہے، لام دوسرا حرف ہے، میم تیسرا حرف ہے۔ چنانچہ الف پر دس نیکیاں، لام پر دس نیکیاں، میم پر دس نیکیاں۔ آپ نے الم پڑھا تو کتنی نیکیاں ہوئیں؟ تیس نیکیاں۔ اب آپ کیلکولیٹرلے کر بیٹھ جائیے۔ سورہ فاتحہ پر کتنی نیکیاں ملیں گی؟ جو آدمی روزانہ سورہ یسٰ کی تلاوت کرتا ہے، اسے کتنی نیکیاں ملیں گی؟ جو رات کو سونے سے پہلے سورہ ملک کی تلاوت کرتا ہے، اسے کتنی نیکیاں ملیں گی؟ او رجس آدمی نے معمول بنا رکھا ہے کہ وہ ہر روز ایک پارہ تلاوت کرتا ہے تو اسے کتنی نیکیاں ملیں گی؟

قرآن کی رمضان المبارک میں بہت زیادہ اہمیت ہے، اس لیے کہ قرآن رمضان المبارک ہی میں نازل ہوا۔ چناں چہ پورے رمضان میں پورے عالم میں جتنا پڑھا جاتا ہے، جتنا سنا جاتا ہے وہ رمضان کے علاوہ کسی دوسرے مہینے میں نہیں ہے۔

لہٰذا، اس رمضان میں قرآن کریم کی تلاوت کا خاص اہتمام ہو، ناغہ نہ ہو۔ یہ ضروری نہیں کہ آپ بہت زیادہ تلاوت کریں۔ نہیں،بلکہ آپ سہولت سے اپنی ضروریات میں سے وقت نکال کر جتنی تلاوت کرسکتے ہیں، اتنا کیجیے، لیکن وہ مسلسل اور باقاعدہ ہو، اہتمام کے ساتھ ہو۔

رمضان کی خصوصیات میں سے تیسری چیز انفاق فی سبیل الله ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے رمضان میں خرچ کرنے کی ترغیب دی۔ یہ یاد رکھیے کہ اسلام مال جمع کرنے کی ترغیب نہیں دیتا۔ ہم مسلمان ہیں، ہمارا مذہب اسلام ہے۔ ہمارا مذہب ہمیں حکم دیتا ہے کہ خوب خرچ کرو۔ خوب یاد رکھیے کہ خرچ کرنے سے مال کم نہیں ہوتا۔ یہ بہت اہم بات ہے۔مال جمع کرنے سے کم ہوتا ہے۔ مال خرچ کرنے سے کم نہیں ہوتا۔ آپ مجھے بتائیے کہ ایک آدمی مال جمع کرتا ہے، جمع کر رہا ہے، جمع کر رہا ہے، اس کی زندگی اور موت کاکچھ پتا ہے؟ جمع کیا اور شام کو حضرت عزرائیل علیہ السلام آگئے۔ کیا اب یہ مال کام کا ہے؟ ہاں! جو خرچ کیا ہے، وہ مرنے کے بعد ضرور کام آجائے گا۔

آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا مال وہ ہے، جو تم نے کھا لیا، تمہارا مال وہ ہے جو تم نے پہن لیا او رتمہارا مال وہ ہے جو تم نے الله کی رضا کے لیے خرچ کرکے آگے بھیج دیا۔ بس، یہی تمہارا مال ہے۔ باقی جو تم یہاں جمع کر رہے ہو، یہ تمہارا نہیں ہے۔ یہ سب یہیں رہ جائے گا۔ جیسے ہی موت آئی، سب کچھ رہ گیا۔ بلکہ بعض لوگ انگوٹھی کا چھلا پہنتے ہیں تو موت آنے کے بعد کیا یہ چیزیں ساتھ جاتی ہیں؟ بعض اوقات کہتے ہیں، چھلا ہے،نکل نہیں رہا۔کٹر لاکر اس چھلے کو کاٹتے ہیں۔ موت کی وجہ سے ہاتھ پیر اکڑ جاتے ہیں۔ بنیان نہیں اتر رہی تو کہتے ہیں کہ قینچی لاؤ، اس بنیان کو کاٹ کر اتارو۔

لہٰذا، مال تمہارا صرف وہ ہے جو کھا لیا، پہن لیا اور الله کی راہ میں خرچ کر دیا۔ یہ بات یادرکھیے اور تجربہ کرلیجیے کہ آپ مال خرچ کریں گے تو آپ کو روحانی سکون ملے گا، اطمینان ملے گا۔ غریب پر، فقیر پر، بیوہ پر ، یتیم پر خرچ کیجیے۔ مگر دکھانے کے لیے خرچ نہ کیجیے۔ الله کے لیے خرچ کیجیے۔ دینی کاموں میں،طلبہ پر، مسجد پر، مدرسے کی تعمیر میں، الله کے لیے خرچ کیجیے۔

جب آپ اللہ کیلئے خرچ کریں گے تو سب سے پہلا فائدہ یہ ہوگا کہ اطمینان اور سکون حاصل ہوگا۔ ایسے لاتعداد لوگ ہیں جو الله کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ آپ مجھے بتائیے کہ خدانخواستہ کیا وہ لوگ پاگل ہیں کہ بے تحاشا رقم اللہ کے راستے میں خرچ کرڈالتے ہیں۔ کیوں؟ وہ اس لیے ایسا کررہے ہیں کہ انہیں یہ یقین ہے اور انہوں نے اس کا تجربہ کیا ہے کہ خرچ کرنے سے مال کم نہیں ہوتا۔ آخرت میں بھی ملے گا اور دنیا میں بھی کم نہیں ہوتا، بڑھتا ہی ہے۔ یہ تجربہ ہے۔ یہ طے ہے۔

رمضان المبارک میں انفاق کا حکم ہے۔ خرچ کرو، خوب خرچ کرو، لوگوں کے گھروں میں راشن ڈالو، کپڑے دو، پیسے دو، خرچ کرو۔

اسی طرح ایک گزارش اور درخواست میں ہر سال کرتا ہوں کہ رمضان کو ہم صرف عبادت میں گزاریں۔ یہ عید کی تیاریاں، یہ گھر کے خرچے،یہ سب پہلے سے ہوں تاکہ رمضان کی راتیں ان خرافات سے محفوظ ہوں، اس کے دن بازاروں سے محفوظ ہوں۔ تمام رمضان صرف الله کے لیے ہو۔

الله تعالیٰ ہم کو عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔

ربنا تقبل منا إنک أنت السمیع العلیم

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں