مولانا عبدالحمید:

اسلامی جمہوریہ ایران کی بعض پالیسیاں نظرثانی کے محتاج ہیں

اسلامی جمہوریہ ایران کی بعض پالیسیاں نظرثانی کے محتاج ہیں

خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے چھبیس مئی دوہزار سترہ کے خطبہ جمعہ میں معاشرے میں مساوات و برابری اور انصاف پر زور دیتے ہوئے اسلامی جمہوریہ ایران کی بعض پالیسیوں کی تبدیلی اور اصلاح پر زور دیا۔
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے حالیہ صدارتی و بلدیاتی انتخابات میں ایرانی عوام کی والہانہ شرکت پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا: گزشتہ جمعے کو ایرانی قوم نے مثال قائم کرتے ہوئے وسیع پیمانے پر انتخابات میں حصہ لیا۔ اس انتخابات میں تمام لسانی و مسلکی برادریوں نے اپنے حق رائے دہی استعمال کیا۔ اہل سنت برادری نے بھی اتحاد و یکسوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس انتخابات میں حصہ لیا۔
انہوں نے مزید کہا: سنی برادری بشمول بلوچ، کرد، فارس، عرب، ترکمن، ترک و دیگر قومیتوں نے اپنے حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے سب کو انگشت بدہان چھوڑدیا۔ صدر روحانی کو فیصد کے حساب سے سب سے زیادہ ووٹ بترتیب صوبہ سیستان بلوچستان، کردستان اور تہران سے ملا۔ بلاشبہ اہل سنت کا اتحاد اور انتخابات میں ایک ہی امیدوار پر اتفاق ان کے حقوق و مطالبات کی پیروی میں موثر ثابت ہوگی۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے اپنے حالیہ دورہ تہران اور وزارت داخلہ میں ایک قومی کانفرنس میں شرکت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: چند دن قبل تہران میں ایک کانفرنس میں شرکت اور خطاب کا موقع ملا جہاں اہل تشیع کے بہت سارے ہم وطنوں نے اپنے محبت بھرے جذبات کا اظہار کیا۔ بندہ خود کوان کے والہانہ استقبال اور سچے جذبات کے مستحق نہیں سمجھتا۔ البتہ شیعہ بھائیوں کے اظہارِ جذبات دراصل آپ کے اتحاد و اتفاق کا ثمرہ ہے جس نے انتخابات میں ہماری عزت میں اضافہ کیا۔
بات آگے بڑھاتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے روزگار کی فراہمی اور پبلک سروسز کی تقسیم میں ’قومیت و مسلک‘ کو نظرانداز کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا: بندہ نے تہران کانفرنس میں صدر روحانی سمیت دیگر اعلی حکام کی موجودی میں اس بات پر تاکید کی کہ ایران کی سنی برادری کا سب سے بڑا مطالبہ یہ ہے کہ عہدوں اور مناصب کی تقسیم میں قومیت، زبان اور مسلک کے بجائے ’ایرانیت‘ اور وطن کو مد نظر رکھا جائے۔
انہوں نے کہا: تمام ایرانی قومیتیں اور مسالک جو ایران کے باشندے ہیں، سب اسی وطن کے فرزند ہیں اور ان میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ اس حوالے سے تمام لسانی و مسلکی اکائیوں کے لائق افراد کی صلاحیتوں سے کام لیا جائے۔ صوبائی و ملکی عہدوں میں بیلنس لانے کے لیے اہل سنت برادری سے کام لیا جائے۔

پبلک سروسز کے فارمز پر ’مسلک‘ کا خانہ قومی اتحاد کے خلاف ہے
نامور سنی عالم دین نے ایران میں پبلک سروسز اور روزگار کے فارمز پر مسلک کے حوالے سے سوال قومی اتحاد اور تقریب مسالک کے خلاف ہے۔ لوگوں کو روزگار فراہم کرتے ہوئے ان کا وطن اور قومیت پوچھ لیں، زیادہ سے زیادہ دین معلوم کرنا پڑتاہے کہ بندہ مسلمان ہے یا غیرمسلم۔
انہوں نے مزید کہا: کسی بھی اسلامی ملک میں نوکری کی تقسیم میں فارمز پر لسانی و مسلکی برادری سے سوال نہیں ہوتا۔ صرف قومیت ہی کے حوالے سے سوال ہوتاہے۔ ایرانی قوم جو ایک انقلابی قوم ہے، اسے چاہیے دیگر ملکوں سے آگے ہو، پیچھے نہ ہو۔
انہوں نے مزید کہا: گزشتہ اڑتیس سالوں میں جب سے اسلامی انقلاب کا راج ملک میں نافذ ہے، یہ اہل سنت برادری کے لیے تکلیف دہ اور پریشانی کا باعث رہا ہے کہ اسپتال کے فارمز سے لے کر عدالتوں اور مختلف محکموں کے فارمز پر پوچھا جاتاہے کہ تم شیعہ ہو یا سنی! ایسے سوالات قومی اتحاد کے خلاف ہیںجس کے نعرے ایران میں بہت لگائے جاتے ہیں لیکن افسوس کا مقام ہے کہ عمل بہت کمزور ہے۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے مزید کہا: ایران صرف ایک لسانی گروہ کا نہیں، اس کا تعلق کسی مخصوص مسلک سے نہیں ہے۔ شیعہ وسنی دونوں برادریوں میں کچھ ذیلی شاخیں بھی ہیں؛ یہ مسالک کسی فرد اور اس کے خالق کے درمیان کا معاملہ ہے، اسپتال میں علاج یا کہیں نوکری کرنے کا تعلق مسلک سے کیا ہے؟!سنی برادری کا مطالبہ ہے اس مسئلے کا حل نکالاجائے۔
انہوں نے کہا: تمام حکام کو چاہیے قوم کے افراد کو ایک ہی نگاہ سے دیکھیں؛ لسانی و مسلکی بنیادوں پر برتاو سے ملک کو نقصان پہنچتاہے۔ مجھے یقین ہے کہ محض ’اتحاد‘ کے رٹ لگانے سے اور کانفرنس منعقد کرانے سے اتحاد حاصل نہیں ہوسکتا۔ عمل ہی سے اتحاد کا حصول ممکن ہے جس کے اخراجات بھی کافی کم ہیں۔

سیاسی جماعتیں اپنی افکار میں نظرثانی کریں
بعض قوانین میں نظرثانی پر زور دیتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: دنیا میں رائج یہی ہے کہ جب ایک قانون، پالیسی یا منصوبہ ناکام ہوجاتاہے، تو اس کی اصلاح کرکے اس میں تبدیلی لائی جاتی ہے۔ ہمیں بھی اپنی اب تک کی پالیسیوں پر نظرثانی کرنی چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا: اصلاح پسند اور قدامت پسند جماعتوں کو چاہیے اپنے پروگراموں، پالیسیوں اور افکار میں نظرثانی کریں۔ آج یہ بات عیاں ہوچکی ہے کہ تنگ نظری، سخت گیر موقف رکھنا اور دباو ڈالنا ہرگز کارگر نہیں ہوسکتا۔ سب کو اپنی نگاہیں بلند کرنی ہوگی۔ ماضی پر نظرثانی کرکے اپنے خیالات و کردار میں مناسب تبدیلی لائیں۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: ایران کا اسلامی انقلاب چالیس سال کی عمر میں داخل ہونے والا ہے؛ چالیس سال میں انسان کمال تک پہنچ جاتاہے۔ لہذا اب وقت آ پہنچاہے کہ مملکت کے بڑے حضرات پوری طرح قومی اتحاد کی طرف آگے بڑھیں۔ ایسے رویے اختیار کریں کہ سرحد کی نگرانی اور سکیورٹی کے اخراجات میں کمی لائیں اور امن کے لیے عوام ہی سے کام لیں۔

شیعہ و سنی علمائے کرام اسلام کے اعلی ظرف سے فائدہ اٹھائیں
اپنے بیان کے ایک حصے میں شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے شیعہ و سنی علمائے کرام، شخصیات اور مراجع کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: علمائے کرام اور شیعہ و سنی کی شخصیات و مراجع کو میرا پیغام ہے کہ اعلی ظرفی کا مظاہرہ کریں اور اپنے آس پاس صرف ہم خیال لوگوں کو اکٹھا نہ کریں۔
انہوں نے مزید کہا: علما اور ملک کے بڑوں کے اردگرد مختلف خیالات کے لوگ موجود ہونے کا فائدہ یہ ہے کہ معاشرے کے حقائق سمجھنے اور فیصلہ کرنے میں انہیں آسانی ہوتی ہے اور فیصلے بھی صحیح ہوں گے۔ اگر کوئی شخص ہمارا کوئی عیب بتاتاہے اور تنقید کرتاہے، ہمیں اس فرد سے زیادہ خوش ہونا چاہیے بجائے اس کے کہ ہم تعریف کرنے والوں کی تعریف و تمجید پرخوش ہوجائیں۔
ممتاز سنی عالم دین نے کہا: اسلام کا ظرف بہت زیادہ ہے اور ہمیں اس اعلی ظرف کی نمائندگی کرنی چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ، صحابہ کرامؓ اور اہل بیتؓ کا ظرف بہت زیادہ تھا۔ اہل بیت کو ہم اہل سنت ہی سمجھتے ہیں اور اہل تشیع انہیں اپنے امام مانتے ہیں۔ ان کی پیروی کرتے ہوئے ہم وسعت ظرفی کا بھی مظاہرہ کریں۔

نماز پر پابندی ناقابل قبول ہے
بعض بڑے شہروں میں اہل سنت کی نماز اور تراویح پر پابندی یا رکاوٹیں کھڑی کرنے پر تنقید کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: اپنی برداشت بڑھاکر دوسروں کو بھی دیکھ لیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ ہمارے سنی بھائی اپنی نمازیں قائم کرنے کے حوالے سے مشکلات اور رکاوٹوں سے دوچار ہوں۔
شیعہ شہریوں اور حکام کو پیغام دیتے ہوئے صدر دارالعلوم زاہدان نے کہا: اپنے سنی بھائیوں کا خیال رکھیں۔ بعض شہروں میں ان کی مسجدیں نہیں ہیں اور کچھ لوگ تنگ نظری کرکے انہیں نماز قائم کرنے کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔ جو لوگ اقامہ نماز کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں، قیامت کو اللہ تعالی کے سامنے کیا جواب دیں گے؟
انہوں نے کہا: کسی بھی ادارے یا فرد کے لیے جو اسلام کا دعویدار ہے، جائز نہیں ہے کہ نماز سے منع کرے۔ چاہے نماز پڑھنے والا شیعہ ہو یا سنی؛ نماز ایک عبادت ہے یہ کوئی سیاسی مسئلہ نہیں ہے۔ جن شیعہ حضرات نے مجھ سے محبت و ارادت کا اظہار کیا ہے، ان سے میری درخواست ہے کہ اپنے سنی ہم وطنوں کے لیے گھروں کا دروازہ کھلا رکھیں تاکہ ان کے تعاون سے وہ نماز پڑھ سکیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں