ایران کے اہل سنت اپنے جائز حقوق مانگتے ہیں

ایران کے اہل سنت اپنے جائز حقوق مانگتے ہیں

ممتاز سنی عالم مولانا عبدالحمید نے اپنے بارہ مئی دوہزار سترہ کے خطبہ جمعہ میں ایران کے صدارتی و بلدیاتی انتخابات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تمام ایرانی قومیتوں اور سنی برادری کے قابل افراد کو ملک چلانے میں شامل کرنے پر زور دیا ہے۔
’سنی آن لائن‘ کی رپورٹ کے مطابق، مولانا عبدالحمید نے کہا: صدارتی و بلدیاتی انتخابات کے امیدوار اور عوام کی دوطرفہ ذمہ داریاں ہیں؛ عوام کو چاہیے کوشش کریں سب سے قابل ترین فرد کو منتخب کریں اور امیدوار حضرات عوام کے مطالبات پر توجہ دیں۔
انہوں نے مزید کہا: صدارتی انتخابات میں سب سے پہلے ہمیں ایک ایسے امیدوار کو ووٹ دینا چاہیے جو پوری قوم اور ملک کا خیال رکھتا ہو۔ ہم اس قوم کا حصہ ہیں اور سب کے مفادات ہمارے لیے عزیز ہیں۔ ایک ایسے شخص کو تخت صدارت پر بیٹھنا چاہیے جو داخلی و خارجی محافل میں ہمارے لیے عزت کا باعث ہو۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے کہا: ہمیں ایک ایسے امیدوار کو چننا چاہیے جو عقلمندی اور صلاحیت میں دوسروں سے بڑھ کر ہو۔
انہوں نے مزید کہا: اہل سنت ایرانی قوم کا جز ہے جو جسد واحد کی مانند ہے۔ اگر اس جسم کے ایک حصے میں درد ہو، تو پورا جسم درد کا احساس کرتاہے۔ ہمارے نئے صدر ایسے فرد ہونا چاہیے کہ اس جسم کے آلام سے واقف ہو اور جو عضو رنجش اور امتیازی سلوک سے نالاں ہے، اس کے التیام کے لیے محنت کرے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: ہمیں ایک ایسے صدر کی ضرروت ہے جو عملی طورپر ثابت کرے کہ اہل سنت ایران پہلے درجے کے شہری ہیں، صرف نعرہ نہ لگائے اور دعوے نہ کرے۔ ہمیں فلاحی خدمات میں خاص شکایت نہیں ہے، لیکن امتیازی رویوں کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ نئے صدر کو چاہیے پوری قوم کو یکساں نگاہ سے دیکھے۔
انہوں نے مزید کہا:اللہ تعالی اپنے تمام بندوں کو یکساں نگاہ سے دیکھتاہے اور سب کو روزی دیتاہے۔ اللہ تعالی کی رحمت اس حکمران پر نازل ہوتی ہے جو اس کی طرح اپنے شہریوں میں فرق نہیںلاتا اور امتیازی رویے اختیار نہیں کرتاہے۔

حکومت پریشر گروپس کے دباو میں نہ آئے
اہل سنت ایران کی ممتاز دینی شخصیت نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا: یہ اہل سنت کا حق بنتاہے کہ ملک چلانے میں ان کے قابل افراد کی صلاحیتوں سے کام لیاجائے۔ امتیازی سلوک کے خاتمے اور یکساں نگاہ سے قومی اتحاد اور امن کو پائیدار بنایاجاسکتاہے۔ ایران سب کا ہے اور ہم سب ایرانی ہی ہیں۔ ایران صرف شیعہ یا سنی کا ملک نہیں ہے جس طرح یہ صرف فارسی بولنے والوں کا ملک نہیں ہے۔ ایرانی قوم میں ہر مسلک و قومیت کے لوگ ہیں۔
انہوں نے صوبہ سیستان بلوچستان اور پورے ملک میں ’پریشر گروپس‘ کی موجودی پر زور دیتے ہوئے کہا: آنے والے صدر کو چاہیے دباو ڈالنے والوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرے۔ بلکہ قانون کو پوری طرح نافذ کرنا چاہیے۔
مولانا عبدالحمید نے اپنے تازہ ترین دورہ تہران کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: دورہ تہران میں ملک کے مختلف صوبوں سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام اور دانشور حضرات اکٹھے ہوئے جہاں اہل سنت کے مطالبات اور پریشانیوں پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔ یہ ایک بہترین موقع ہے کہ اعلی حکام ہمارے مسائل سے واقف ہوں۔
انہوں نے انتخابات کے دنوں الزام تراشی اور افواہ پھیلانے سے پرہیز پر زور دیتے ہوئے کہا: ووٹ ایک امانت ہے، یہ امانت اور حق نااہل لوگوں کو نہیں ملنا چاہیے۔ افواہوں اور الزام تراشیوں سے سخت اجتناب کرنا چاہیے۔ اگر کوئی ہمیں گالی دیتاہے، اس کا جواب خاموشی سے دیں۔ دشمن کو فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں دینا چاہیے۔

بلدیاتی انتخابات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے زاہدان شہر میں مختلف قومیتوں اور مسلکوں کے اتحاد پر زور دیا۔ انہوں نے کہا: زاہدان میں اہل سنت اور بلوچ قوم کے علاوہ دیگر مسالک و قومیتوں کے لوگ بھی بستے ہیں۔ اسی لیے ہم نے اتحادی بلاک بنانے پر زور دیا ہے تاکہ شہر کے تمام باشندوں کی نمائندگی بلدیاتی انتخابات میں موجود ہو۔
انہوں نے مزید کہا: اتحاد قوموں کی ترقی کی نشانی ہے اور صرف ترقی یافتہ اقوام انتخابات میں متحد ہوکر مذاکرات سے کام لیتی ہیں۔ گذشت اور فراخدلی کے بغیر اتحاد حاصل نہیں ہوسکتا۔

ایمان و عمل صالح ہی سے کامیابی حاصل ہوسکتی ہے
خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے بیان کے پہلے حصے میں ایمان اور نیک اعمال کو کامیابی کا معیار قرار دیا۔
اپنے بیان کا آغاز سورت العصر کی تلاوت سے کرتے ہوئے انہوں نے کہا: سورت العصر کے الفاظ کم مگر اس کا معنی بہت بڑا اور جامع ہے۔ اس سورت میں انسان کی نجات و کامیابی کے معیار بیان ہوچکے ہیں۔ ایمان اور عمل صالح کے بغیر کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔ اس سورت کے مطابق، عقیدہ اور عمل میں معتدل اور عقلمند لوگ ہی کامیابی و نجات پاسکتے ہیں۔
اصلاح معاشرے پر تاکید کرتے ہوئے شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے کہا: اصلاح معاشرہ اور حق گوئی بہت اہم ہے۔ مومنوں کو چاہیے معاشرے سے ظلم اور برائیوں کا صفایا کرنے کی محنت کریں۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہی ایسا کرنا ممکن ہے۔ جو کچھ معاشرے میں ہورہاہے، ہمیں اس حوالے سے غافل و لاتعلق نہیں رہنا چاہیے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں