رسول اللہ ﷺ اور صحابہؓ کے دور میں بہترین عدل و آزادی کا نفاذ ہوا

رسول اللہ ﷺ اور صحابہؓ کے دور میں بہترین عدل و آزادی کا نفاذ ہوا

نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور مبارک میں ’انصاف‘ اور ’آزادی‘ کے راج و نفاذ کو تاریخ میں ‘بے مثال‘ یاد کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے اپنے پانچ مئی کے خطبہ جمعہ میں صحابہ کرامؓ کی انصاف پسندی کو قابل تقلید قرار دی۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے بیان کا آغاز سورت المنافقون کی آخری آیات کی تلاوت سے کرتے ہوئے صحابہ کرام اور منافقین کے درمیان فرق کو واضح کیا۔ انہوں نے کہا: دورنگ لوگ جن کے دل میں کچھ ہوتاہے اور ظاہر میں کچھ اور دکھاتے ہیں، نفاق کا شکار ہیں۔ اللہ تعالی نے منافقین کو ’نادان‘ اور ’عقل سے عاری‘ یاد کیا ہے، چونکہ ان کا نفاق نادانی اور بے وقوفی کا ثبوت ہے۔
نفاق کی اقسام واضح کرتے ہوئے انہوں نے کہا: نفاق کی دو قسمیں ہیں؛ پہلی قسم کا تعلق عقیدے سے ہے کہ منافق دل سے اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ کو نہیں مانتا۔ دوسری قسم عملی نفاق ہے کہ شخص اللہ کو مانتاہے لیکن جھوٹ، خیانت اور گالی گلوچ جیسی منافقانہ بری عادتیں اس میں پائی جاتی ہیں۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: افسوس کا مقام ہے کہ کچھ لوگ مسلمان ہونے کے دعوے کرتے ہیں، عشق الہی اور نبی کریم ﷺ، صحابہ کرامؓ اور اہل بیت ؒ سے والہانہ تعلق کا دعوی کرتے نہیں تھکتے، لیکن پوری طرح ان کی تعلیمات کے خلاف جاتے ہیں۔ یہ ایک قسم کی منافقت ہے۔
نفاق کے اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے کہا: دنیوی مفادات اور مال و اولاد کی وجہ سے لوگ منافقت کی طرف جاتے ہیں۔ بعض اوقات عہدہ اور مقام پانے یا اس کی حفاظت کی خاطر لوگ منافق بن جاتے ہیں۔ حالانکہ اس سے ان کا دین اور ابدی زندگی تباہ ہوجاتی ہے۔
انہوں نے کہا: اللہ تعالی نے تلاوت شدہ آیات میں یاددہانی فرمائی کہ مال و اولاد کی وجہ سے کہیں اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہونا! سچے اور حقیقی مسلمان بن جاو اور دنیا کے پیچھے اتنا مت لگو کہ نماز، تلاوت اور دین کو نقصان ہو۔
صحابہ کرام ؓ کی خصوصیات کی نشاندہی کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: منافقین کے برعکس صحابہ کرام ؓ مخلص تھے؛ وہ ہرگز اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہوئے ۔ مال، اولاد اور دنیا کا اصلی مقام انہیں معلوم تھا۔ انہوں نے اللہ کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کیا۔ ان میں سچائی، دیانتداری اور یکرنگی تھی۔
انہوں نے مزید کہا: شاید کچھ لوگ سمجھتے ہیں اسلام نے دنیا کو بزورِ شمشیر فتح کیا ہے اور ایرانیوں نے تلوار دیکھ کر اسلام قبول کیا۔ یہ غلط سوچ ہے؛ قوموں نے صحابہ کرام ؓ کا اخلاق، ایمان اور عمل دیکھ کر مشرف بہ اسلام ہوئے۔
ممتاز سنی عالم دین نے کہا: صدر اسلام میں ایسا نہیں تھا کہ ’انصاف‘ کی بات ہو لیکن عمل اس کے خلاف ہو۔ سب سے بہترین آزادی، عدل و انصاف اور تہذیب نبی کریم ﷺ اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے دور میں آئی۔ آپﷺ اسلامی تہذیب کے بانی ہیں اور صحابہ کرام ؓ اس تہذیب کے اولین تلامذہ و شاگرد ہیں۔
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا: رسول اللہ ﷺ ہرگز اپنی اولاد، اہل بیت اور اقربا کی سوچ میں نہیں تھے کہ انہیں کوئی خاص مراعات مل جائے، بلکہ آپﷺ ہمیشہ لوگوں کے مفادات کے لیے متفکر رہتے تھے۔
حضرت علی ؓ اور ایک یہودی کے واقعے کا تذکرہ کرتے ہوئے خطیب اہل سنت نے کہا: حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے ہی متعین قاضی کے روبرو حاضر ہوئے اور وہ بھی ایک یہودی کی خاطر۔ پھر جب فیصلہ یہودی کے حق میں گیا تو انہوں نے ہرگز ناراضگی نہ دکھائی۔ حتی کہ قاضی شریح کو معزول کرنے کی دھمکی بھی نہ دی۔ بلکہ فیصلہ مان لیا اور زرہ یہودی کے حوالے کیا۔ وہ شخص مسلمان ہوگیا، حضرت علی کے لشکر میں شامل ہوئے اور پھر ایک لڑائی کے دوران شہید ہوئے۔
اسلامی تہذیب میں ’انصاف‘ کے مقام پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوںنے کہا: یہ اسلامی آزادی اظہارِ رائے اور انصاف ہے کہ حاکم وقت کو عدالت میں حاضر ہونے کا حکم دیاجاتاہے۔ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرامؓ نے ہرگز شاہانہ زندگی نہیں گزاری، ان کی زندگی سادی اور غریبانہ تھی، لیکن انہوںنے دنیا کو بہترین زندگی اور انصاف فراہم کیا۔

ملک چلانے میں اہل سنت کی شرکت اور مذہبی آزادی ایران کی سنی برادی کے اہم مطالبات
اہل سنت ایران کے انتہائی بااثر دینی و سماجی رہ نما نے آنے والے صدارتی و بلدیاتی انتخابات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: انتخابات سے سب کی ذمہ داریاں بھاری ہوجاتی ہیں۔ ہمارا اہم مطالبہ اور خواہش یہی ہے کہ جو شخص صدر مملکت منتخب ہوتے ہیں فراخدلی و دوراندیشی کے حامل ہوں اور ان کا انتخاب ملک و قوم اور عالم اسلام کے مفادات میں ہو۔
انہوں نے مزید کہا: نئے صدر مملکت سے مطالبہ ہے کہ ایرانی قوم، خاص کر اہل سنت کے مسائل پر خصوصی توجہ دے جو زیادہ مشکلات سے نالاں ہیں۔ اس انقلاب سے تقریبا چالیس سال گزرنے والا ہے۔ اب وقت آ پہنچاہے کہ ملک کے بڑے حضرات سنی برادری کے تحفظات دور کریں۔
اہل سنت ایران کے مسائل و مطالبات کی نشاندہی کرتے ہوئے انہوں نے کہا: اہل سنت ایران کا سب سے بڑا مطالبہ یہی ہے کہ میرٹ کی بنیاد پر افراد سے کام لیا جائے۔ تمام قومیتوں، مسالک اور افکار کے لائق افراد کی خدمات کو برابری کی بنیاد پر حاصل کیا جائے۔
انہوں نے مزید کہا: اہل سنت ایران چاہتے ہیں کہ ہر کابینہ میں وزیر، نائب صدر، نائب وزیر، سفیر اور گورنر جیسے عہدوں کے لیے بھی اہل سنت سے کام لیاجائے۔ اس حوالے سے کوئی امتیازی سلوک نہیں ہونا چاہیے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: آئین کے مطابق صرف صدارت کے لیے برابری نہیں ہے، لیکن دیگر عہدوں کے لیے ہر قومیت یا مسلک کے لائق افراد منتخب ہوسکتے ہیں۔ البتہ آئین کی اس شق میں بھی نظرثانی اور اصلاح کی ضرورت ہے۔
انہوں نے انصاف کی فراہمی اور امتیازی پالیسیوں کے خاتمے پر زور دیتے ہوئے کہا: ملک میں برابری و انصاف کا راج ہونا چاہیے۔ قومیتی اور مسلکی امتیاز قانون اور انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ برابری اسلامی جمہوریہ ایران کے مفادات کے مطابق ہے اور اس سے قومی اتحاد اور پائیدار امن کو تقویت ملتی ہے۔ مساوات سے شیعہ برادری کی عزت افزائی ہوجائے گی۔ ہم دنیا کے سامنے، خاص کر اسلامی تحریکوں کے لیے بہترین مثال پیش کرسکتے ہیں۔
اہل سنت کی ’مذہبی آزادی‘ کو ان کا دوسرا مطالبہ قرار دیتے ہوئے نامور سنی عالم دین نے کہا: ایران کے ہر کونے سمیت بڑے شہروں میں اہل سنت کو مذہبی آزادی حاصل ہونی چاہیے۔ جن شہروں میں اہل سنت اقلیت میں ہیں، انہیں نماز قائم کرنے کے سلسلے میں آزادی دی جائے۔ کوئی ادارہ امن کے بہانے پر رکاوٹیں کھڑی نہ کرے۔ ہماری نماز و عبادت سیکیورٹی مسئلہ نہیں بنانا چاہیے۔

اپنے بیان کے ایک حصے میں مولانا عبدالحمید نے سیستان بلوچستان کے صدر مقام زاہدان میں سٹی کونسل کی ترکیب کے حوالے سے کہا: سٹی کونسل کے انتخابات سے پہلے ایک مشترکہ اتحاد بنانے پر کام ہورہاہے۔ زاہدان میں بلوچ برادری کے علاوہ، سیستانی اور دیگر صوبوں کے لوگ بھی آباد ہیں۔ ہم چاہتے ہیںاس کونسل میں تمام قومیتوں کے نمائندے شریک ہوں۔
انہوں نے مزید کہا: ایک ٹیم جس میں ہر طبقے کے لوگ شریک ہیں، نئی کونسل کے بارے میں مشورت کررہے کہ چارسو افراد سے گیارہ افراد کو منتخب کریں جو تخصص کے ساتھ قوت بھی رکھتے ہوں۔ لہذا جن کے نام اتحاد میں نہیں آیا، وہ ناراض نہ ہوں۔ ان کی صلاحیتوں سے کہیں اور استفادہ ہوگا۔

اپنے خطاب کے آخر میں مولانا عبدالحمید نے شمالی صوبہ گلستان کے شہر ’آزادشہر‘ میں ایک کوئلے کی کان میں پیش آنے والے حادثے پر افسوس کا اظہار کیا اور جاں بحق ہونے والے کان کنوں کے اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے ان کی مغفرت کے لیے دعا مانگی۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں