فضلائے مدراس سے چند باتیں

فضلائے مدراس سے چند باتیں

دینی مدارس میں تعلیمی سال کااختتام ہورہاہے۔ سالانہ امتحانات کی دن رات محنت ہورہی ہے۔ رَ ت جگے بھی کیے جارہے ہیں۔ کچھ دنوں بعد طلبہ اپنے گھروں کو رخصت ہوجائیں گے۔ یہ معمول سالہا سال سے قائم ہے۔ دارالعلوم دیوبند جہاں سے علم کی یہ نہریں جاری ہوئیں کہ ہرسال اسی طرح شعبان میں تعطیلات ہوتیں، طلبہ رخصت ہوتے، ماہِ رمضان عبادت وریاضت اورذکروتلاوت میں گزرتااورشوال میں دوبارہ تعلیمی مصروفیات شروع ہوجاتیں۔

اس میں بھلاکیاشک ہے کہ مسلمانوں کاظاہری وباطنی، دینی ودنیوی عروج ہمیشہ علم کی آبیاری سے وابستہ رہا۔ جب جب اورجہاں جہاں مسلمانوں نے مدارس کوآباد کیا، علماء کی پیروی کی اورطلبہ کی کفالت کواپنافرض سمجھا تو وہ دنیا پر چھائے رہے۔ کیونکہ مسلمانوںکی کامیابی کاانحصار رجالِ کار مہیا ہونے پرہے اوررجالِ کار انہی تعلیم گاہوں سے پیداہوتے ہیں جہاں اللہ اوررسول کاعلم سکھایاجائے۔ ورنہ وحی کی روشنی کے بغیر علم کے نام پر جہالت اوراخلاق باختگی جنم لیتی ہے۔

برصغیر میں دینی مدارس کا سلسلہ دارالعلوم دیوبند سے شروع ہوا اوراس کے فضلاء نے برطانیہ، امریکا، کنیڈا، جنوبی افریقہ، ماریشیس، اور مدغاسکر جیسے دوردراز غیرمسلم ممالک میں بھی مدارس کی داغ بیل ڈال دی۔ مدارس کا اپنا ایک الگ ہی ماحول ہوتاہے۔ عصری تعلیمی اداروں میں اس ماحول کاتصور بھی نہیں کیاجاسکتا۔ جہاں سے اساتذہ کاادب اٹھ چکاہے اور استاذ کوایک معمولی ملازم سمجھ کر گالم گلوچ توکیا دست درازی جیسے واقعات بھی کیے جاتے ہیں۔ جب کہ دینی مدارس کے طلبہ اب بھی اساتذہ کی جوتیاں سیدھی کر کے ا ن کی دعائیں لیتے ہیں۔ مدارس ہی ہیں جو اسلامی اقدارو اخلاق کی ایسی دلکش یادگاروں کوزندہ رکھے ہوئے ہیں۔ مدارس کی بنیادیں بہت گہری اورمضبوط ہیں۔ یہ قدیم اقداروروایات کاامین ہونے کے ساتھ ساتھ جدید تقاضوں سے بھی واقف ہیں۔ ان کی افادیت کے ثبو ت کی یہی دلیل کافی ہے کہ استعماری طاقتوں کی شدید مخالفانہ کوششوں اورسازشوں کے باوجودا ن کاسلسلہ جاری وساری ہے۔ اسشجرہ طیبہ کی شاخیں دن رات بڑھتی اورپھیلتی جارہی ہیں۔ یہ وہ جماعت ہے جسے کسی حاسد کاحسد روک سکے گا نہ ظالم کاظلم۔ مدارسِ دینیہ کی اس جدوجہد کے نورانی اثراتکفر کے اندھیروں میں بڑی تیزی سے ظاہر ہورہے ہیں۔ اللہ کی مخلوق کہاں کہاں سے اورکس کس طرح سے ان علمی وعملی مراکز سے فیض یاب ہورہی ہے، ظاہری اعدادوشمار سے اس کاپورااندازہ لگانامشکل ہے۔ دینی مدارس میںایک طالب علم جب شرائط وآداب کے مطابق آٹھ دس سال گزارلیتاہے تو اللہ کے فضل وکرم سے وہ ایمان وایقان، علم وعمل اوراخلاق واقدار کے حوالے سے ایک رہنما مقام پر آجاتاہے۔ اب امت کی رہنمائی اس کے سپر دہوتی ہے۔ اللہ ایسے بندوں سے کام بھی خوب لیتاہے بشرطیکہ مدارس میں خلوصِ نیت اورمجاہدے کے ساتھ قواعد وضوابط کے مطابق گزاراجائے۔

اس وقت دینی مدارس کے فضلاء خاص طور پر ہمارے مخاطب ہیں جوا س سال دورۂ حدیث کا امتحان دے رہے ہیں۔ وہ انبیائے کرام کے وارثین بن رہے ہیں۔ ان کو اپنی آیندہ زندگیوں کے لیے کچھ کڑے فیصلے کرنا ہوں گے۔ مدرسے کی چہاردیواری سے باہر نکلتے ہی، دنیا جہاں کے فتنے ان کو نرغے میں لینے کے لیے تیار ہیں۔ کہیں اباحیت و بے دینی ہے تو کہیں دہشت گردی اور تخریب کاری، کہیں مفلسی اور سرمایہ داری کی کش مکش ہے تو کہیں ظلم وجبر اورمظلومیت کا آمنا سامنا۔

ہمارے فضلائے کرام کواس ماحول میں غیرمعمولی احتیاط کے ساتھ چلنا ہوگا۔ اپنے اساتذہ کی ہدایات کو ہر لمحہ یاد رکھنا ہوگا۔ اس وقت ان کاسابقہ کسی علاقائی یا مقامی بے دینی سے نہیں، بلکہ عالمی طاغوت سے ہے جس سے مقابلے کے لیے انہیں کئی چیزیں ہمیشہ پلے سے باندھنا ہوں گی۔

پہلی چیز یہ ہے کہ انہیں سب سے پہلے دینی داری اورتقویٰ وپرہیزگاری میں اپنے قدم مضبوط کرنے ہوں گے۔ خود کواپنے اکابر کی زندگیوں کاجیتاجاگتا نمونہ بناناہوگا۔ اگر یہ نہ ہوسکا توسمجھیں، مدارس کے آٹھ دس سالہ دور سے وہ عالم یا مولانا کہلانے کے قابل توہوجائیں گے، مگران سے معاشرے میں کوئی مثبت تبدیلی آنامشکل ہوگی۔ دوسری چیز یہ ہے کہ ہر کام اپنے بڑوں کے مشورے سے کریں۔ تدریس ہو یا امامت وخطابت، کسی تحریک میں حصہ لینا ہو یا فکرِ معاش دامن گیر ہو، ہر موقع پر اپنے بزرگوں سے پوچھ کرچلیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ خود کوئی تجربہ کرنے بیٹھیں اوراس کی وجہ سے مدارس یا علماء کا کوئی غلط نمونہ دنیا کے سامنے آئے۔ تیسری چیز یہ ہے کہ اپنا مطالعہ بڑھاتے رہیں، علمی استعداد کو پختہ تر کریں۔ مدارس کانصاب فقط ایک خزانے کی چابی ہے۔ اس کااستعمال یہ ہے کہ اکابر واسلاف کے علمی خزانوں کو کھنگال ڈالیں۔ ورنہ جو استعداد بنی ہے، استعمال نہ کرنے سے، ایک دن وہ بھی ختم ہوجائے گی۔

چوتھی چیز یہ ہے کہ معاش میں توکل کابہت زیادہ اہتمام کریں اورکبھی کوئی ایساکام نہ کریں جس سے مدارس، اکابر اورعلماء وطلبہ کاطبقہ بدنام ہو، عزتِ نفس اورمومنانہ آن ہمیشہ آپ کے کردارسے جھلکنی چاہیے۔ اسی طرح آپ اپنے کام کوآگے بڑھاسکیں گے۔ پانچویں چیز یہ ہے کہ آپ معاشرے کوایک مریض سمجھ کرایک ہمدرد طبیب کی طرح اس کی شفایابی کے لیے فکر مند ہو۔ آپ کاانداز وبرتاؤ کسی سخت گیر حاکم جیسانہیں ہوناچاہیے، جوحکم دے دینا کافی سمجھتاہو۔ یاد رکھیں! ہم حاکم نہیں، اللہ کے دین کے خادم ہیں۔ ہمارے ذمے ہے کہ لوگوں کودردمندی اورکڑہن کے ساتھ دین کے قریب لائیں۔ ہمیں برائی سے نفرت ہونے چاہیے، مگر بر ے آدمیوں سے نہیں، انہیں ایمان واخلاق کامجروح سمجھ کر دلی جذبے کے ساتھ ان کے علاج کی فکر ہونی چاہیے۔ اگر ہم نے ایسارویہ اپنایاتو لوگ ہم سے دلی طورپر متاثرہوں گے اورہم پراعتماد کریں گے۔ بصورتِ دیگر لو گ علما ء کے قریب آنے کی بجائے دورہوتے چلے جائیں گے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں