فلم کا فتنہ

فلم کا فتنہ

’’اہل کتاب! آؤ اس کلمے کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے‘‘۔
’’لبرل‘‘ ڈیموکریٹس تو ممکن ہے غور نہ کریں لیکن ’’قدامت پرست‘‘ ریپبلکنز کیا آزادئ رائے کے اپنے تصورات پر نظرثانی کریں گے؟
یہ فتنہ کس نے اٹھایا، تا دمِ تحریر متحقق نہیں ہوا۔ لوگ ٹیری جونز کا نام لے رہے ہیں اور مصر کے بعض تارکینِ وطن قبطی مسیحیوں کا بھی۔ بعض صیہونی یہودیوں کا ذکر بھی ہورہا ہے۔ تاہم یہ واضح ہے کہ فتنہ امریکی سرزمین ہی سے اٹھا۔ فتنہ سازوں نے ایک عالم کا چین لوٹ لیا۔ لیبیا میں امریکی سفیر کی جان بھی لے لی۔ غصہ اور احتجاج فطری ہے، تاہم بات وہی صحیح ہے جو بہادر شاہ ظفر نے کہی۔ طیش میں خوف خدا اور عیش میں یاد خدا سے بے نیازی، ان کا شیوہ نہیں جو ایمان رکھتے اور خود کو پروردگار کے حضور میں جواب دہ سمجھتے ہیں۔
میرا تجزیہ یہ ہے کہ یہ بین المذاہب اختلافات یا تعصب کا شاخسانہ نہیں، وسیع تر تناظر میں اقدار کا جھگڑا ہے، دو نظام ہائے فکر کا۔ ایک وہ جو خود کو الہامی روایت سے وابستہ کہتا ہے اور دوسرا وہ جو غیرالہامی روایت سے۔ اہل مذاہب میں سے ایک انتہاپسند اقلیت ٹیری جونز کی طرح دیا سلائی دکھاتی ہے اور یوں معرکہ برپا ہوجاتا ہے۔
انسانوں کے مابین غور و فکر کے دوہی ماخذ رہے ہیں۔ آسمانی الہام یا پھر عقل و خرد۔ الہامی روایت میں عقل متروک نہیں ہے۔ تا ہم اس روایت میں الہام یا وحی کو بطور ذریعۂ علم، عقل پر برتری ہے۔ اس کے برخلاف دوسری روایت میں انسانی عقل علم کا تنہا ماخذ ہے۔ ایک الہامی روایت ہے اور دوسری لبرل۔ الہامی روایت یہ ہے کہ اس عالم کا ایک پروردگار ہے اور وہی انسان کا بھی خالق ہے۔ ابن آدم کو زندگی کیسے گزارنی ہے، اس کا فیصلہ تو عالم کا پروردگار ہی کرے گا۔ اس کی ہدایت انبیاء کی معرفت انسانوں تک پہنچتی ہے۔ ’انبیاء‘ کا تصور مذاہب میں مختلف علیہ ہے، لیکن ہر مذہب خدا اور عام انسانوں کے درمیان ایک حوالے کو قبول کرتا ہے جو دراصل منشاء پروردگار کو جاننے کا ماخذ ہے۔ یہ زندگی کی ایک مابعد الطبیعیاتی تعبیر ہے۔ اس کے برخلاف لبرل ازم، فی الجملہ طبیعیات ہی پر یقین رکھتا ہے۔ یوں خالق، الہ، مذہب، نبی، الہام، روح جیسی اصطلاحیں اس کے لیے اجنبی ہیں۔ جب اس کے نزدیک ان کا وجود ہی ثابت نہیں تو پھر کیسی عبادت اور کیسا تقدس؟ یوں زنگی کا الہامی تصوران کے لیے غور و فکر اور استہزا کا محل ہے۔ اس کے مظاہر ہم دیکھتے ہیں جب خاکے بنتے اور ٹیری جونز جیسے فسادی الہامی کتابوں اور شخصیات سے کھلواڑ کرتے ہیں۔
ٹیری جونز کو مسیحی روایت نے مسترد کردیا ہے۔ اس نے پہلی بار جب یہ حرکت کی تو اس کے بلاوے پر صرف چالیس افراد جمع ہوسکے۔ پاکستان کے مسیحیوں نے مسلمانوں کے ساتھ مل کر اس کے خلاف احتجاج کیا۔ مذاہب کا اختلاف تو ہے اور رہے گا، لیکن مذہبی روایت میں انسانوں کا احترام بنیادی اصول ہے۔ اس روایت میں بھی بعض اوقات غیر ذمہ داری کا مظاہرہ ہوتا ہے جیسے کیتھولک کلیسا کے سابق پیشوا نے چند صدیاں پہلے کی ایک کتاب کا حوالہ دے کر ایک بحث اٹھادی تھی۔ تا ہم اس وقت بھی اسے پذیرائی نہیں ملی۔ اب ویٹی کان کے علاقے میں مسجد قائم ہے اور مسلمانوں کا یہ حق تسلیم کیا گیا ہے کہ وہ اپنی دینی روایت کے مطابق عبادت کرسکتے ہیں۔
میرے نزدیک آج مذہبی روایت کو فی نفسہ دو چیلنج در پیش ہیں۔ ایک لبرل ازم کا اور دوسرا انتہا پسندی کا۔ انتہا پسندی ہی در اصل لبرل ازم کے لیے راہ ہموار کرتی ہے جب انتہا پسند مذہب کا تعارف بن جاتے ہیں۔ آج ضرورت ہے کہ مذہبی روایت کو ماننے والے ان دو تصورات کے خلاف جمع ہوں۔ وہ چونکہ ایک نظام اقدار کو مانتے ہیں جس میں الہام کو بنیادی کی حیثیت حاصل ہے، اس لیے وہ اپنے مشترکات کی بنیاد پر ایسا ضابطۂ اخلاق تشکیل دے سکتے ہیں جس میں ٹیری جونز جیسے لوگوں کے لیے کوئی جگہ نہ ہو۔ دنیا کا امن آج ابراہیمی ادیان کے ماننے والوں سے وابستہ ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ آج کے عالمی تنازعات میں، کشمیر کے استثناء کے ساتھ اسی روایت کے پیروکار نبرد آزما ہیں۔ علی وجہ البصیرت، میری رائے یہی ہے کہ ان تنازعات کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ امریکا کو اسلام سے کچھ لینا دینا نہیں، الا یہ کہ اس عنوان سے کوئی تعبیر اس کے سامراجی عزائم میں حائل ہو۔ امریکا سامراج ہے اور سامراج کسی مزاحمت کو گوارا نہیں کرتا۔ کل اس کا ہدف سوویت یونین تھا، حالانکہ اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ آنے والے کل اس ہدف چین ہوگا اور ظاہر ہے کہ اس کا بھی اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ طاقت کا کھیل ہے جسے کبھی ختم نہیں ہونا۔ اہلِ مذہب کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی روایت کو اس کھیل سے الگ کرلیں۔
میرا احساس ہے کہ یہ معاملہ محض قرآن مجید یا رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع کا نہیں ہے۔ لبرل ازم کے نزدیک سیدنا مسیح یا سیدنا ابراہیم علیہما السلام بھی کسی تقدس کے مستحق نہیں۔ اس تصور میں تو ان شخصیات کی تاریخی حیثیت ہی مشتبہ ہے۔ اس لیے آج پھر ایک آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے کہ ’’اے اہل کتاب! آؤ اس کلمہ کی طرف جو تمہارے اور ہمارے درمیان مشترک ہے‘‘۔ اگر مذہب کی نمائندہ شخصیات پر مشتمل ایک عالمی فورم وجود میں آجائے جسے حکومتوں کی تائید بھی میسر ہو تو ٹیری جونز جیسے اہل فساد کا راستہ روکا جاسکتا ہے۔ یہ اگر چہ مشکل کام ہے کہ یورپ اور امریکا میں اس وقت غالب نقطہ نظر لبرل ازم ہے جو اپنے نظام اقدار کے تحت فرد کی بے قید آزادی کا قائل ہے۔ وہ آزادئ رائے کے نام پر ٹیری جونز جیسے لوگوں کو گوارا کرتا ہے۔ تا ہم اب وقت آگیا ہے کہ آزادئ رائے اور دشنام طرازی میں فرق کو نمایاں کیا جائے۔ دنیا کو یہ باور کرایا جائے کہ تنقید اور گالی میں فرق ہے اور دنیا کا ہر مہذب آدمی چاہے کتنا ہی لبرل کیوں نہ ہو، اس فرق کو ملحوظ رکھتا ہے۔
سعودی عرب کے بادشاہ نے اس سمت میں ایک قدم اٹھایا ہے، انہوں نے اسپین میں اسی کام کے لیے بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا۔ ریاض میں اس مقصد کے لیے ایک ادارہ قائم کردیا گیا ہے۔ اس آغاز کو معنی خیز بنایا جاسکتا ہے۔ مسیحیوں کو یہ آسانی ہے کہ ان کا سواد اعظم ایک مذہبی مرکز کیتھولک چرچ کو قبول کرتا ہے۔ تا ہم ان کے بہت سے فرقے اسے نہیں مانتے۔ مسلمان تو پیغمبر کے بعد کسی ایسی مرکزیت کے قائل نہیں البتہ ان کے مسالک کی نمائندہ شخصیات کو جمع کیا جاسکتا ہے۔
اپنا سفیر گنوانے کے بعد مجھے معلوم نہیں امریکیوں کا ردِ عمل کیا ہے، لیکن میرا احساس ہے کہ وہ اس پر سنجیدگی سے غور کریں گے کہ آزادئ رائے، کیا بے مہار آزادی کا نام ہونا چاہیے؟ کوئی مہذب آدمی تشدد کی حمایت نہیں کرتا۔ اس کو کسی صورت روا نہیں رکھا جانا چاہیے۔ پھر یہ بات بھی کسی اخلاقی نظام کے لیے قابل قبول نہیں کہ ایک مجرم کی سزا کسی دوسرے کو دی جائے۔ اسی طرح یہ بھی مذہب اور اخلاق کے خلاف ہے کہ ہر کوئی سر راہ عدالت لگائے۔ خود مدعی ہو، خود منصب اور خود ہی تنقید کا اختیار رکھتا ہو۔ پاکستان میں خالد جدون کا قصہ سامنے آیا تو قانون متحرک ہوگیا۔ امریکا میں ایسا قانون نہیں لیکن کیا ٹیری جونز جیسوں کو فساد فی الارض کا مجرم نہیں ٹھہرایا جاسکتا؟
جب تک امریکی میرا کالم نہیں پڑھتے، مجھے اپنے اہلِ وطن ہی سے ہم کلام ہونا ہے۔ مجھے بتانا ہے کہ فساد کا جواب فساد نہیں ہوتا۔ اس حادثے کو ہم اپنی دعوت کا عنوان بنا سکتے ہیں۔ پرامن احتجاج سے اور ایک ایسی تہذیب کے علمبردار کے طور پر جو انسانوں کا احترام کرتی ہے اور فساد کی مذمت کرتی ہے۔ ہم اپنے ہم وطن مسیحیوں کو یہ پیغام دے سکتے ہیں کہ آپ کی جان و مال کا تحفظ ہمارے دین کا حصہ ہے اور یہ بات ہمیں اس عظیم المرتبت ہستی نے سکھائی جنہیں اللہ نے سارے جہانوں کے لیے رحمت بنایا، ٹیری جونز جیسے بدنصیب جن کی عظمت سے واقف نہیں۔

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں