شام، عالمی طاقتوں کی بے حسی، عالم اسلام کیلئے لمحۂ فکریہ

شام، عالمی طاقتوں کی بے حسی، عالم اسلام کیلئے لمحۂ فکریہ

شام میں حکومت مخالف عوامی اتحاد کے زیر اثر شہر ادلب میں بشار الاسد اور ان کے حلیف ملک روس نے ایک بار پھر کیمیائی حملہ کردیا، جس کے نتیجے میں ۲۵ ننھے معصوم بچوں سمیت ۱۰۰ سے زائد افراد شہید اور ۴۰۰ سے زیادہ شدید متاثر ہوگئے، جن میں سے بیشتر کی حالت نازک ہے، جس کے باعث اموات میں اضافے کا خدشہ ہے۔
اطلاعات کے مطابق ادلب شہر میں ہر طرف قیامت صغری کا عالم ہے، جنگی طیاروں نے اسپتالوں پر بھی راکٹ برسائے ہیں۔
شام ۲۰۱۱ء سے عرب بہار کی بادِ صرصر کے جھلسا دینے والے تھپیڑوں کی زد میں ہے، یہ وہ لہر تھی جس نے شمالی افریقی عرب ملک تیونس سے اٹھد کر لیبیا، مصر، یمن اور شام سمیت پوری عرب دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور اس سے پوری عرب دنیا میں زبردست سیاسی ہیجان برپا رہا۔ تیونس، لیبیا اور مصر میں اس لہر کے دوش پر سیاست و اقتدار کے ایوانوں میں ناقابل یقین انقلاب واقع ہوا، جبکہ یمن اور شام اب تک تبدیلی کی خواہش کی اس منہ زور لہر کے نتیجے میں شروع ہونے والی بدترین انارکی اور خانہ جنگی کے زیر اثر حالات کی کروٹ کے منتظر ہیں۔ ان دو ملکوں میں جاری بدامنی اور کشت و خون میں عالمی قوتوں اور خطے کے بعض با اثر شاطر کھلاڑیوں کے گوناگوں مفادات شامل ہونے کے باعث امن و امان کے قیام کی کوششیں مشکل سے مشکل تر ہوتی چلی جارہی ہیں۔ در اصل عرب بہار کے دوران عالمی طاقتوں نے جن ملکوں میں اقتدار کی تبدیلی کو اپنے مفاد میں بہتر سمجھا، وہاں سیاست کے سمندر میں اٹھنے والی اس لہر کو ساحل مراد سے ہمکنار کرنے میں آگے بڑھ کر کردار ادا کیا اور جہاں اقتدار کے ایوانوں میں تبدیلی ان کے مفاد کے منافی معلوم ہوئی، وہاں تا حال جنگ کی آگ بھڑکی ہوئی ہے اور چار انسانیت کا قتل عام جاری ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے یمن اور شام میں جنگ کی بھٹی کو دہکائے رکھنا اور اس میں مسلم دنیا کے افرادی اور تزویراتی وسائل کی تباہی و بربادی کا تماشا دیکھنا ہی عالمی طاقتوں کی حکمت عملی ہے۔
اس وقت بشار الاسد کے آبائی شہر اور دارالحکومت دمشق کے چند پوش علاقوں کے سوا پورا شام ایک ایسے قبرستان کا منظر پیش کررہا ہے، جہاں ہر طرف، تباہی، بربادی اور حسرت و ویرانی برس رہی ہے۔ لاکھوں لوگوں کو قتل، معذور اور دربدر کرکے بشار الاسد کا اصرار ہے کہ وہ اس قبرستان نما ملک کا صدر ہے اور رہے گا۔ لیبیا میں معمر القذافی گو چالیس برس سے بر سر اقتدار تھے، تا ہم وہاں عوامی سطح پر بظاہر کوئی بڑی بے چینی نہیں تھی۔ لیبیا سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے افریقہ کا ایک مستحکم ملک تھا۔ اس کی معیشت اور عوام کا معیار زندگی ارد گرد کے بہت سے ملکوں کے لیے قابل رشک تھے اور لیبیا کے پاسپورٹ کو یورپی یونین میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ پڑوسی ملک تیونس میں آنے والے سیاسی انقلاب سے شہ پاکر یہاں کے کچھ سیاسی لوگوں نے احتجاجی مظاہرے کیے تو مغربی ذرائع ابلاغ نے انہیں بالکل اس انداز میں بڑھا چڑھا کر پیش کرنا شروع کردیا، جیسے چند سال قبل ترکی کے شہر استنبول میں ایک پارک کے تنازعے پر ہونے والے عوامی مظاہرے کو حکومت کے خلاف اعلان جنگ بنا کر ’’ماحول‘‘ بنانے کی ناکام کوشش کی تھی۔ مغربی میڈیا پر مبالغہ آرائی کے ساتھ قذافی کے خلاف ’’عوامی بغاوت‘‘ کی رپورٹنگ کے ساتھ ہی عالمی طاقتوں کی عوام کے ساتھ ’’ہمدردی‘‘ جاگ اٹھی، چنانچہ انہوں نے سیاسی مظاہروں کو گود لیا اور چند ہی دنوں میں جنگ کا جواز بنا کر لیبیا پر حملہ آور ہوگئے۔ شام میں حالات اس کے برعکس تھے، یہاں بشار الاسد کا خاندان دہائیوں سے ایسے لوگوں کی اکثریت کی گردنوں پر طاقت کے زور پر مسلط ہے، جو ان کے اقتدار سے خوش نہیں ہے۔ عالمی طاقتوں کو عوام کے ساتھ واقعی ہمدردی ہوتی تو شام کے عوام کی محض اخلاقی حمایت ہی بشار الاسد کے خونی پنجے سے ان کی نجات کے لیے کافی ہوتی، مگر شام کے عوام کی نسبت عالمی کھلاڑیوں کو خطے میں اپنے مفادات زیادہ عزیز تھے، چنانچہ تب سے اب تک شام کے عوام پر ایک نہ ختم ہونے والی جنگ کا عذاب مسلط ہے۔
باخبر تجزیہ کاروں کے مطابق شام کے مسئلے کی طوالت کے پس پردہ اسرائیل کے تحفظ سے جڑے ہوئے احساسات ہیں، جن کا خیال رکھنا عالمی طاقتیں اپنا فریضہ سمجھتی ہیں۔ انہیں بشار الاسد کی موجودگی میں ہی اسرائیل کی عافیت نظر آتی ہے اور بشار الاسد کے مقابلے میں کوئی دوسرا شخص بھی انہیں اس وقت ہی قابل قبول ہوسکتا ہے، جو انہیں اسرائیل کی سلامتی اور بقا کے بارے میں ٹھوس ضمانت فراہم کرے اور اس ضمانت پر اسرائیل مطمئن بھی ہو، تا حال چونکہ بشار الاسد کا ایسا کوئی متبادل انہیں نہیں مل سکا ہے، اس لیے ان کی خواہش ہے کہ بشار الاسد کا اقتدار محفوظ رہے ، خواہ اس کی قیمت پورے شام کو کھنڈر بنا کر ادا کرنی پڑے۔ حالات کے اس پس منظر میں حد درجہ افسوس ناک امر یہ ہے کہ مذہبی اور فرقہ وارانہ بنیاد پر اپنے نظریات کی سیاسی توسیع اور غلبے کی خواہش میں خطے کا ایک مسلم تشخص والا ملک بھی عراق کے بعد شام، لبنان اور یمن میں عالمی طاقتوں کے کھیل کے لیے میدان ہموار کررہا ہے۔
۲۰۱۱ء سے اب تک شام میں جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے، اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی طاقتوں کو شام کے عوام سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے تو اپنی پیشرو اوباما انتظامیہ کے برعکس کھل کر کہا ہے کہ اسے بشار الاسد کو ہٹانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، جس کے بعد اس بات کی ذرہ بھر گنجائش نہیں رہتی کہ عالم اسلام شام کے مسئلے کے حل کے لیے عالمی طاقتوں سے کوئی امید رکھے۔ حالات و واقعات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ عالمی کھلاڑیوں کو اس سے کچھ غرض نہیں کہ بشار الاسد اپنے مخالف عوام، جو ان کے حامیوں سے کئی گنا زیادہ ہیں، کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے۔ ادلب میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کوئی پہلی کارروائی نہیں، گزشتہ چھ سالوں میں بارہا بشار الاسد نہتے عوام پر کیمیائی مواد کے ذریعے موت مسلط کرچکا ہے۔ ۲۰۱۳ء میں الفوطہ نامی بستی میں اس ممنوع ترین انسانیت کش ہتھیار کو آزما کر بیسیوں لوگ کو موت کی وادی میں پہنچا دیا گیا۔ اس واقعے کے بعد عالمی سیاسی بساط پر کچھ ہلچل نظر آئی اور متعلقہ عالمی ادارے کی نگرانی میں شامی حکومت سے تمام کیمیائی اسلحہ لے تلف کرنے کی نوید سنائی گئی، مگر ادلب کے تازہ واقعے نے ان کھوکھلے دعوؤں کا پول کھول کر رکھ دیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم دنیا اپنی صفوں میں اتحاد قائم کرے اور اس بات کا عزم کرے کہ اپنی مسائل خود حل کرے گی اور اس ضمن میں کسی عالمی طاقت کی طرف نہیں دیکھے گی، ورنہ شام اور یمن ہی نہیں مسلم دنیا کے تمام مسائل لاینحل ہی رہیں گے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں