صد سالہ کانفرنس

صد سالہ کانفرنس

پشاور میں جمعیت علمائے اسلام کی طرف سے منعقد کی جانے والی صد سالہ کانفرنس کو مختلف اعتراضات کا سامنا ہے۔
خصوصاً پی ٹی آئی کے جیالے الیکٹرونک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر اس اجتماع کو طرح طرح سے ہدفِ تنقید بنا رہے ہیں۔ بعض اعتراضات محض ضد کا شاخسانہ معلوم ہوتے ہیں، ان کی غیرمعقولیت عام شخص پر بھی بہت واضح ہے، اس لیے ان پر توجہ دینے کی کوئی ضرورت نہیں، البتہ کچھ اعتراضات ایسے ہیں کہ عام لوگ ان کی وجہ سے پریشان ہیں۔
ایک اشکال یہ ہے کہ جمعیت علمائے ہند کی تاسیس ۱۹۱۹ء میں ہوئی تھی، صدی پوری ہونے میں دو سال باقی ہیں، اس لیے صد سالہ اجتماع کا عنوان درست نہیں بیٹھتا۔ اس کا مناسب جواب موجود ہے کہ یہ علماء کا اجتماع ہے جو ہجری تقویم کو ترجیح دیتے ہیں اور ہجری لحاظ سے سو سال پورے ہوچکے ہیں۔ ایک سوال یہ ہے کہ آیا یہ جمعیت علمائے ہند کا اجلاس ہے یا جمعیت علمائے اسلام کا۔ اور جمعیت علمائے اسلام میں سے بھی کون سی جمعیت کا ہے؟ اگر یہ اس جمعیت علمائے جس کی تاسیس کلکتہ میں مولانا ظفراحمد انصاری، مولانا آزاد سبحانی، مولانا ظفراحمد عثمانی، مولانا شبیر احمد عثمانی اور قاری طاہر قاسمی (برادرِ حضرت قاری طیب قاسمیؒ ) نے کی تھی تو اس کا سالِ تاسیس ۱۹۴۵ء ہے، اس لحاظ سے اس کے قیام کو زیادہ سے زیادہ ۷۲ سال گزرے ہیں، تو پھر یہ صد سالہ اجتماع کس بنیاد پر کیا جارہا ہے؟ اور اگر یہ اس جمعیت علمائے اسلام کا اجتماع ہے، جو قیام پاکستان کے بعد ۱۹۵۲ء میں وجود میں آئی اور جس کے بانی مولانا احتشام الحق تھانوی اور مفتی محمدشفیع صاحب تھے اور جسے بعد میں مولانا غلام غوث ہزاروی اور مفتی محمود رحمہ اللہ نے آگے بڑھایا تو اس کی تاسیس کو ابھی ۶۵ گزرے ہیں۔ اس کا بھی صد سالہ اجتماع نہیں بنتا۔
ہم ان اعتراضات کا جواب دینے کی کوشش اس لیے کررہے ہیں کہ یہ اپنی جگہ معقولیت رکھتے ہیں اور جو لوگ برصغیر پاک و ہند میں علماء کرام کی تحریکوں اور جماعت سازی سے واقف ہیں، وہ لازماً اس قسم کی تشویش کا شکار ہیں۔
جہاں تک ہم نے اس مسئلے کو دیکھا ہے یہ در حقیقت اجتماعِ علمائے دیوبند ہے، چاہے وہ جمعیت علمائے ہند سے تعلق رکھتے ہوں یا جمعیت علمائے اسلام کی کسی بھی شکل سے۔ رہی یہ بات کہ اسے صد سالہ اجتماع کا عنوان کیوں دیا گیا، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ علمائے دیوبند کی سیاسی و آئینی جد و جہد کا نقطۂ آغاز سو سال پہلے ۲۲ نومبر ۱۹۱۹ء (ربیع الاول ۱۳۳۸ھ) کو ہوا۔ برصغیر کے علماء کی جد و جہد آزادی میں یہ ایک اہم موڑ تھا۔ اس سے پہلے سید احمد شہید کی تحریکِ مجاہدین، ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی اور تحریکِ ریشمی رومال میں تمام کوششیں عسکری تھیں۔ مگر جب ترکی کے حصے بخرے ہونے کے بعد مسلمانانِ برصغیر کے پاس عسکری مدد کے ذریعے ہندوستان پر اسلامی حکومت قائم کرنے کا کوئی بیرونی سہارا نہ رہا تو وہ مروجہ طرزِ سیاست کو اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے۔ علماء کے طرزِ سیاست کو اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے۔ علماء کے طرزِ سیاست میں اس اہم تبدیلی کو ایک صدی ہورہی ہے۔ پشاور کے اس اجتماع علماء پر ’’صد سالہ‘‘ کا اطلاق اسی پسِ منظر میں ہورہا ہے اور اسی لیے اجتماع کو ’’جمعیت العلماء‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے یہ ایک مشترکہ عنوان ہے اور علمائے دیوبند کی ایک صدی میں ابھرنے والی تمام سیاسی جماعتیں اس عنوان کے تحت کسی نہ کسی طرح جمع ہوسکتی ہیں۔ یعنی یہ علمائے پاک و ہند کی صد سالہ فکری کانفرنس ہے نہ کہ خاص جمعیت علمائے ہند کی۔ بہر حال اہل علم کے نزدیک مقصود اہم ہوتا ہے نہ کہ عنوان۔ الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا۔
اس پسِ منظر میں اس اعتراض کی بھی کوئی خاص اہمیت نہیں رہتی کہ جمعیت علمائے ہند قیام پاکستان کی مخالف تھی۔ پاکستان ایک جیتی جاگتی حقیقت ہے۔ اگر کوئی اس کا انکار کرتا ہے تو اپنے آپ کو دنیا کی نگاہوں میں گراتا ہے۔ اصل قابلِ توجہ سوال یہ ہے کہ بھارت سے ہزار اختلاف کے باوجود کیا بھارتی مسلمانوں سے ہمارے رشتے ختم ہوگئے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ اس معاملے کو مثبت انداز میں دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ تقسیمِ ہند کے بعد مسلم لیگی اور کانگریسی کے تنازعات کو بالکل ختم ہوجانا چاہیے تھا۔ مسلمانوں کو الحمدللہ! الگ وطن مل گیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ جس قدر بھارتی مسلمانوں کو پاکستان سے پیار ہے، اتنا کسی دور دراز کے مسلمان باشندوں کو نہیں ہوسکتا۔ وہ ہمارے لیے بالکل اسی طرح فکرمند ہوتے ہیں، جس طرح ہم ان کے لیے بے تاب اور پریشان ہوتے ہیں۔ حضرت مولانا حسین احمدمدنی رحمہ اللہ کا وہ ارشاد تو مشہور ہے ہی جسے میں وہ پاکستان کو مسجد سے تشبیہ دیتے ہیں، مگر مولانا ابوالکلام آزاد جنہوں نے تقسیمِ ہند کی سب سے زیادہ مخالفت کی تھی (اور ظاہر ہے اس نکتے پر مسلمانانِ پاکستان کی ان سے ناراضی بجا ہے) پاکستان بننے کے بعد نجی مجالس میں منقول گفتگو کے حوالے سے پاکستان کے خیرخواہ تھے۔ ڈاکٹر برکت علی قریشی مرحوم، کانگریس کے اہم کارکنوں میں سے تھے، تقسیم ہند کے فسادات کے دوران پاکستان آگئے، کچھ مدت بعد وہ رشتہ داروں سے ملنے بھارت گئے تو وہیں رہنے کا عزم کرلیا۔ جب اپنا ارادہ مولانا ابوالکلام آزاد کو بتایا تو انہوں نے مخالفت کی۔ ڈاکٹر صاحب کا بیان ہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد نے انہیں کہا: ’’میرے بھائی! ہم نے تقسیمِ ہند کی مخالفت اس لیے کی تھی کہ اس تقسیم کے ساتھ ہندوستان کی ملتِ اسلامیہ بھی تقسیم ہوجائے گی اور اس کی طاقت گھٹ جائے گی، مگر ملت کی اکثریت نے ہماری رائے خلاف فیصلہ دیا۔ ہم ہار گئے اور پاکستان معرضِ وجود میں آگیا۔ اب ہر دوسرے اسلامی ملک کی طرح یہ ملک بھی مجھے عزیز ہے۔ بلکہ دوسرے ممالک سے بڑھ کر عزیز ہے۔ اب اسے باقی رہنا چاہیے۔ اس کا بن کر بگڑ جانا، سارے عالم اسلام کی شکست کے برابر ہوگا۔ اس کا وجود میں آکر ناپید ہوجانا سارے عالم اسلام کی توہین ہوگا۔ اب آپ لوگ بھارت کی طرف نہ دیکھیں۔ اب آپ پاکستان کو مضبوط بنائیں، ہم یہاں آپ لوگوں کی بہتری کے لیے دعا کرتے رہیں گے۔ آپ پاکستان کی خدمت کریں۔‘‘ (بروایت پروفیسر محمد منور مرزا، اردو ڈائجسٹ: اگست ۲۰۰۲ء)
غرض تحریکِ پاکستان کے مخالف علماء بھی بعد میں زمینی حقائق کے مطابق سیاسی معاملات کو دیکھتے رہے اور پاکستان کو ایک اسلام مملکت کی حیثیت سے مضبوط بنانے کے خواہش مند رہے۔ اگر چہ ہم اپنی تاریخ سے الگ نہیں ہوسکتے، اس لیے ان تاریخی قضیوں کا معروضی مطالعہ ضرور کرنا چاہیے، مگر اس وقت معاملہ مسلم لیگ اور کانگریس کے پُرانے جھگڑے کا نہیں، اس بین الاقوامی ایجنڈے کا ہے، جسے علمائے پاک و ہند مل کرنا کام بناسکتے ہیں۔ یہ مسئلہ مسلمانوں پر کیے جانے والے نظریاتی، ثقافتی اور تہذیبی حملے کا ہے۔ انہیں باہم لڑانے، پر تشدد راستے اختیار کرنے اور خانہ جنگی تک لے جانے کا ہے۔ علماء کا اتحاد یقیناًایسی سازشوں کو ناکام کرنے کا پہلا قدم ہے۔ اس لحاظ سے ’’صد سالہ اجتماع‘‘ نہایت اہمیت کا حامل ہے اور اس کی ہر ممکن تائید و تصویب کرنی چاہیے۔ یہاں ایک اہم مسئلہ پاک بھارت تعلقات کا بھی ہے۔ ہم مسئلہ کشمیر سمیت کسی بھی ایشو پر پاکستان کی حق تلفی گوارا نہیں کرسکتے اور بھارتی عوام پاکستان دشمن نہیں ہیں، خصوصاً بھارتی مسلمانوں سے تو ہمارے رشتے بہت قریبی ہیں۔ انہیں مزید قریب کرنا چاہیے اور اُمت مسلمہ کے بین الاقوامی دھارے میں انہیں خوش آمدید کہنا چاہیے۔ یہ طرزِ فکر پاکستان اور بھارت میں جاری کشیدگی دور کرنے مؤثر ثابت ہوسکتا ہے۔ صد سالہ اجتماع اس مثبت پیش قدمی میں ایک سنگ میل ثابت ہوسکتا ہے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں