عمر کے چالیس سالوں میں ’’علم و فکر‘‘ کے ارتقائی اَدوار

عمر کے چالیس سالوں میں ’’علم و فکر‘‘ کے ارتقائی اَدوار

انسان جب دنیا میں آتا ہے سب سے پہلے اُسے صرف اتنا علم ہوتا ہے کہ ماں کی چھاتی سے دودھ کیسے پینا ہے، دنیا میں آکر اُسے کوئی نہیں سکھاتا اور نہ ہی سکھانا ممکن ہوتا ہے، بلکہ پیدائش کے فوراً بعد اسی دن وہ ایسے دودھ پینا شروع کردیتا ہے جیسے اسے اچھا خاصا تجربہ ہے۔ یہ اللہ کی ذات ہے جو اُسے یہ علم و تجربہ دے کر اس دنیا میں بھیجتی ہے، اللہ اکبر۔
اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انسان عمر کے جس حصے میں ہوتا ہے اپنے آپ اور اپنی سوچ و فکر اور علم کو کامل و مکمل سمجھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کے دوسروں سے جھگڑے ہوتے ہیں۔ اگر کوئی انسان یہ سمجھے کہ میری معلومات ناقص ہیں تو کبھی بھی جھگڑا پیدا ہی نہ ہو۔
اللہ تعالی نے سورۃ الحدید کی آیت نمبر: ۲۰ میں ایک انسان کی زندگی میں اس کی فکر، سوچ، علم اور ترجیحات کے مراحل کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
’’ اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا ‘‘(الحديد:20)
ترجمہ: ’’خوب جان لو کہ یہ دنیا کی زندگی اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک کھیل اور دل لگی اور ظاہری ٹیپ ٹاپ اور تمہارا آپس میں ایک دوسرے پر فخر جتانا اور مال و اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک بارش ہوگئی تو اس سے پیدا ہونے والی نباتات نے کاشت کاروں کو خوش کردیا، پھر وہی کھیتی پک جاتی ہے اور تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد ہوگئی، پھر وہ بھس بن کر رہ جاتی ہے۔‘‘
عام طور پر اس آیت کا لفظی ترجمہ کرکے ہم آگے گزر جاتے ہیں اور اس بات میں غور و خوض نہیں کرتے کہ یہاں اللہ تعالی نے پانچ مختلف الفاظ میں انسانی زندگی کے پانچ اَدوار بیان کیے ہیں، جنہیں ہم ایک انسان کا علمی یا ترجیحاتی ارتقاء بھی کہہ سکتے ہیں۔ ’’لَعِب‘‘ پانچ سال سے دس گیارہ سال کی عمر کا دور ہے۔ پھر ’’لَھو‘‘ اٹھارہ انیس سال تک کی عمر کا دور ہے۔ پھر ’’زِینَۃ‘‘ اٹھائیس تیس سال تک کا دور ہے۔ پھر ’’تَفَاخُر‘‘ اَڑتیس چالیس سال تک کا دور ہے اور پھر اس کے بعد ’’تَکاثر فی الأموال و الأولاد‘‘ کا دور ہے۔
ذرا غور کیجیے! فرمایا: جان لو! دنیا کی زندگی ’’لعب‘‘، ’’لھو‘‘، ’’زینت‘‘، ’’تفاخر‘‘، اور ’’مال میں کثرت کی خواہش‘‘ کا نام ہے۔ اب آ پ ہر لفظ کو کسی ڈکشنری کی مدد سے دیکھیں کہ ان کے معانی کیا ہیں۔
۱: مثلاً پہلا لفظ ہے: ’’لعب‘‘ المنجد میں اس کا معنی لکھا ہے: بچے کے منہ سے رال ٹپکنا، کھیلنا، ایسا فعل کرنا جس پر کوئی فائدہ مرتب نہ ہو، چنانچہ بچوں کے اکثر افعال ایسے ہی ہوتے ہیں جن پر کوئی فائدہ مرتب نہیں ہوتا، جیسے ریت کے گھر بنانا، کھلونا گاڑیاں چلانا، و غیرہ وغیرہ، تمام کام بالکل فضول اور کھیل برائے کھیل ہوتے ہیں، جن میں کوئی جسمانی لذت بھی نہیں ہوتی، لیکن وہ بچہ انہیں فضول نہیں سمجھتا، اس کے علم اور فکر کے مطابق یہ بہت بڑے کام ہوتے ہیں، چنانچہ اگر کوئی شخص کسی بچے کی گاڑی توڑدے تو وہ روتا ہے اور اس کو اتنا ہی دکھ ہوتا ہے جتنا دکھ تیس سال کے شخص کو ایک کروڑ کا نقصان ہونے سے ہوگا۔
۲: اس کے بعد پھر دوسری سٹیج آتی ہے (نو دس سال کے بعد) جسے Teen ager stage کہا جاتا ہے۔ یہ نہایت خطرناک دور ہوتا ہے، یہاں انسان صرف کھیلتا ہی نہیں، بلکہ اب اس کے کھیلوں میں لذت کا حصول بھی شامل ہوجاتا ہے، یہ آوارگیوں کا دور ہوتا ہے، اس عمر میں کھیل برائے کھیل نہیں بلکہ کھیل برائے لذت ہوتا ہے۔ اس کے لیے قرآن نے ’’لھو‘‘ کا لفظ استعمال کیا جس کا معنی ’’المنجد‘‘ میں کھیل، بہلاوا، شغل اور غافل کرنے کی چیز کیا گیا ہے۔
۳: اس کے بعد انسان پر تیسرا دور آتا ہے، جسے قرآن نے زینت کے الفاظ سے بیان کیا ہے، اس عمر کے نوجوان خصوصاً لڑکیوں کے ذہن پر جو چیز ہر وقت سوار ہوتی ہے وہ فیشن ہے۔ میں خوبصورت لگوں، خوبصورت پہنوں، بال، چہرہ، لباس، جوتی سمیت ہر چیز خوبصورت ہو۔ گویا ساری سوچ و فکر، احساسات اور نفسیات میں نمایاں چیز یہی زینت ہوتی ہے۔
۴: پھر چھبیس ستائیس سال کے بعد زندگی کا وہ دور آتا ہے جس میں انسان ’’تفاخر‘‘ کا شکار ہوجاتا ہے، وہ فخریہ طور پر دوسروں سے آگے نکلنے کی کوشش کرتا ہے۔ فخر علم پر بھی ہوسکتا ہے اور مال پر بھی، خوبصورتی پر بھی ہوسکتا ہے اور عبادت پر بھی، اپنے کنبے قبیلے پر بھی ہوسکتا ہے اور اپنے مسلک و مذہب پر بھی، گویا اس دور میں آدمی ہرحال میں اپنی مونچھ اونچی رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔
۵: پھر پینتیس چالیس سال کے عمر سے انسانی ذہن پچھلی ساری چیزوں کو فضول سمجھتے ہوئے بس ایک ہی دھن میں لگ جاتا ہے کہ کسی طریقے سے مال زیادہ سے زیادہ جمع ہوجائے، جسے قرآن نے ’’تکاثر فی الأموال و الأولاد‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ یعنی اس عمر میں آدمی سوچتا ہے کہ مونچھ کٹتی ہے تو کٹ جائے لیکن پیسہ آجائے۔ یاد رہے مذکورہ پانچوں ادوار کے ہر دور میں آدمی اسی دور کو سب سے اعلیٰ، حتمی اور کامل و مکمل سمجھتے ہوئے پاگلوں کی طرح اس کام میں لگا رہتا ہے، نہ کسی سمجھانے والے کی نصیحت کا اثر قبول کرتا ہے اور نہ ہی کوئی ڈر اور دھمکی اس کے آڑے آتی ہے۔
علم اور ترجیحات کے اس ارتقاء سے ہر انسان کا گزر ہوتا ہے، علم، عمر اور مشاہدہ جیسے جیسے بڑھتا ہے انسان کو سوچ میں تبدیلی آتی رہتی ہے، پہلے دو اَدوار میں انسان صرف اپنے بارے میں سوچتا ہے۔ تیسرے اور چوتھے دور میں خاندان، پھر برادری اور پھر مسلک اور فرقے کے بارے سوچتا ہے۔ لیکن چالیس سال کی عمر میں جیسا کہ کہہ جاتا ہے کہ عقل مکمل ہوجاتی ہے، انسان اپنے سے باہر نکلتا ہے اور پوری قوم، ساری امت اور پھر تمام انسانیت کے بارے سوچنا شروع کردیتا ہے۔ سوچ کا یہ تغیر جتنا جلدی مکمل ہو اتنی ہی بہتر ہے اپنے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی۔
آپ زندگی کے جس دور سے بھی گزر رہے ہیں آپ اس دور اور اس سے پہلے کے اَدوار کو دیکھیں، یہ حقیقت آپ کو صاف دکھائی دے گی۔ پھر آپ اپنے معاشرے کو دیکھیں، لوگوں کو دیکھیں، تنظیموں اور جماعتوں کو دیکھیں، ان جماعتوں کی عمروں کو دیکھیں، ان کے اندر بھی آپ کو یہی حقیقت نظر آئے گی۔ اگر ایک جماعت کسی وقت اپنی مونچھ اونچی رکھنے کی کوشش کررہی تھی تو اب تیس چالیس سال کے بعد مفاہمت کی پالیسی پر گامزن ہے تو دوسری جماعت ابھی بھی وہی سوچ رکھتی ہے جو چوبیس پچیس سال کے نوجوان کی ہوتی ہے۔

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں