علماءکی سیاست…. کل اور آج

علماءکی سیاست…. کل اور آج

جمعیت علمائے اسلام کے زیراہتمام صد سالہ تاسیس جمعیت اجتماع پشاور میں منعقد ہونے جارہا ہے جس کی تیاریاں اپنے عروج پر ہیں۔
برصغیر میں علماءکی سیاست پولیٹیکل سائنس کا ایک اہم موضوع ہے جس پر مختلف جہتوں سے بحث ہوتی رہی ہے اور جمعیت علماءاسلام نے صد سالہ اجتماع کا انعقاد کرکے اس موضوع کو پھر سے معرض بحث میں پیش کردیا ہے۔ جمعیت علماءکے قیام کو قمری اسلامی کلینڈر کے حساب سے 100 سال مکمل ہوچکے ہیں اور اس موضوع پر ایک عظیم الشان اجتماع کے انعقاد کا مقصد ماضی سے روشنی حاصل کرکے مستقبل کی نقشہ گری کرنا ہے۔
یہاں یہ امر خاص طور پر ملحوظ رہے جمعیت علماءکی سو سالہ تاریخ محض ایک دینی سیاسی تحریک کے نشیب وفراز کی کہانی نہیں ہے بلکہ یہ برصغیر کے دینی طبقات کی عدم تشدد پر مبنی پرامن سیاسی جدوجہد کے سودوزیاں کے حساب کا بھی ایک اہم موقع ہے۔ جمعیت علماء100 سال بعدآج کہاں کھڑی ہے اور جن مقاصد واہداف کے حصول کی خاطر یہ جماعت تشکیل دی گئی تھی، ان میں کہاں تک کامیابی ہوئی ہے اور وہ کون سے امور ہیں جن توجہ دینے کی ضرورت ہے، یہ اس اجتماع کے موقع پر اجتماعی غوروفکر کا سوال ہے۔
سب سے پہلے اس پس منظر کو ذہن میں تازہ کرنے کی ضرورت ہے جس میں جمعیت العلماءکی تشکیل عمل میں آئی تھی۔ اس وقت کا عالمی منظرنامہ یہ تھا کہ پہلی جنگ عظیم اپنی تمام تر تباہ کاریوں کے ساتھ اختتام کو پہنچی تھی اور دنیا میں زبردست سیاسی وجغرافیائی تبدیلیاں رونما ہورہی تھیں۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران بہت سی قوموں نے نقصان اٹھایا مگر سب سے زیادہ خسارہ عالم اسلام کے حصے میں آیا کہ امت مسلمہ کی وحدت کی علامت خلافت عثمانیہ شکست خوردہ قوتوں کا ساتھ دینے کی پاداش میں اتحادی ممالک کے زیر عتاب آئی اور اس کی ٹوٹ پھوٹ کا عمل اپنے انجام کو پہنچنے لگا۔ ادھر برصغیر کی صورت حال یہ تھی کہ یہاں 1915ءکے آس پاس تحریک ریشمی رومال کی ناکامی اور آزادی کی جدوجہد کی قیادت کرنے والے رہنماو ¿ں کی گرفتاری وجلاوطنی نے مسلمانوں کو سخت بے حوصلہ کردیا تھا۔ ہندوستان میں انڈین نیشنل کانگریس کے نام سے ایک بڑی سیاسی قوت ضرور موجود تھی جس کا مسلمان بھی حصہ تھے مگر اس کی قیادت چونکہ ہندوو ¿ں کے ہاتھ میں تھی، اس لیے اس سے زیادہ توقعات نہیں رکھی جاسکتی تھیں۔ مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کے حوالے سے آل انڈیا مسلم لیگ کے نام سے ایک الگ سیاسی پلیٹ فارم بھی موجود تھا مگر اس وقت وہ بھی کسی ولولہ انگریز قیادت سے محروم تھا اور اس میں زیادہ تر انگریز سرکار سے مراعات یافتہ طبقے کے افراد شامل تھے۔
ان حالات میں ایک ایسی انقلاب آفریں دینی وسیاسی قوت کی تشکیل ناگزیر تھی جو برطانوی استعمار کے قبضے کے خلاف مسلمانوں کی 200 سالہ جدوجہد کے تسلسل کو نئی حکمت عملی، نئے ولولے اور نئے جوش وجذبے کے ساتھ آگے بڑھا سکے۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک بڑا تاریخی لمحہ اور ٹرننگ پوائنٹ تھا جہاں مسلمانوں کی جدوجہد آزادی کی حکمت عملی تبدیل ہوئی اور مسلح بغاوت اور عسکری جدوجہد کی بجائے پرامن سیاسی جدوجہد کا راستہ اپنایا گیا۔ حکمت عملی کی اس تبدیلی کے پیچھے خود مسلمانوں کی 200 سالہ عسکری جدوجہد کے تجربات کا عمل بھی دخل تھا اور نئی دنیا کے لیے حالات ورجحانات کے ادراک کا عنصر بھی کارفرما تھا۔ بنگال، میسور، بکسر، بالاکوٹ، یاغستان اور دہلی کے معرکوں اور آخر میں تحریک ریشمی رومال کی ناکامی کا سبق یہ تھا کہ ایک منظم ریاستی طاقت کا مقابلہ کرنے کے لیے منتشر سماج کا غیرمنظم عسکری محاذ کا رگر نہیں ہے بلکہ اس کے لیے معاشرے کی از سر نو شیرازہ بندی ضروری ہے۔ تحریک ریشمی رومال کے بانی شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ نے مالٹا کی قید کے دوران مسلمانوں کی ذلت و پستی کے اسباب پر غور کیا تو اسی نتیجے پر پہنچے کہ ہندوستانی مسلمانوں کا سماج قرانی تعلیمات سے دور ہوکر خرافات میں کھوچکا ہے اور داخلی انتشار، فرقہ بندی، بے سمتی اوربے عملی کا اشتہار بنا ہوا ہے۔ ذلت و ادبار سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ قرآن و سنت کی حقیقی تعلیمات کا احیاءاور فرقہ وارانہ آویزش کو ختم کرکے امت کے اتحاد کے لیے منظم بنیادوں پر کام کیا جائے۔
اب یہ کام کیسے کیا جائے؟ اس کے لیے انیسویں صدی کی دنیا میں امکانات کے نئے باب کھل رہے تھے۔ پہلی جنگ عظیم کی تباہ کاریوں نے پوری دنیا میں عدم تشدد کی پالیسی کی اہمیت پھر سے اجاگر کردی تھی اور سیاسی و معاشی اہداف و مطالبات کے حصول کے لیے سیاسی پارٹیوں، ٹریڈ یونینز، طلبہ تنظیموں اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی انجمنوں کے قیام کا رجحان بڑھ گیا تھا۔ اس ماحول میں ہندوستان کے جید اور ممتاز علماءنے اس بات کی ضرورت محسوس کی کہ علماءکی بھی ایک جماعت ہونی چاہیے جو ہندوستانی مسلمانوں کے دینی و ملی مفادات کے تحفظ کے ساتھ ساتھ وطن کی آزادی کی جدوجہد کو بھی آگے بڑھاسکے۔ 1919ءمیں جمعیت علماءہند کا قیام عمل میں آیا تو اس میں مولانا مفتی کفایت اللہ، مولانا ثناءاللہ امرتسری، مولانا داو ¿د غزنوی، مولانا معین الدین اجمیری، مولانا عبدا لماجد بدایونی رحمہم اللہ جیسے دیوبندی، اہل حدیث اور بریلوی مکاتب فکر کے جید ترین علماءشامل تھے۔ جمعیت علماءہند کا پہلا سالانہ اجلاس ہوا تو شیخ الہند مولانا محمود حسن نے پیرانہ سالی کے باوجود اس میں شرکت کی اور نہ صرف مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر کو اتحاد کا درس دیا بلکہ مسلمانوں، ہندووںاور سکھوں کویہ تلقین بھی کی کہ وہ اپنے مذہبی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر قابض برطانوی استعمار کے خلاف متحد ہوں۔ شیخ الہند نے دیوبند اور علی گڑھ کے درمیان خلیج کو پاٹنے کی کوبھی کوشش کی اورجامعہ ملیہ کاقیام عمل میں لاکر اور علی گڑھ سے مضبوط رابطے قائم کرکے یہ پیغام بھی دیا کہ مسلمانوں کو ترقی اور کامیابی کا سفر شروع کرنے کے لیے مسٹر اور ملا کی تفریق ختم کرنے پر بھی توجہ دینا ہوگی۔
بد قسمتی سے شیخ الہند کی زندگی نے وفا نہیں کی اور انہیں اپنے اس عزم کی تکمیل کے لیے مزید کام کرنے کا موقع نہ مل سکا تاہم جمعیت علماءہند نے تمام تر نامساعد حالات کے باوجودمسلمانان ہند کی قیادت و رہنمائی کا فریضہ سر انجام دینے کی کوشش کی۔ جمعیت علماءہند وہ پہلی سیاسی جماعت تھی جس نے سب سے پہلے ہندوستان کی مکمل آزادی کا مطالبہ کیا اور اس مطالبے کی تکمیل کے لیے تحریک ترک موالات، تحریک خلافت، ہندوستان چھوڑو تحریک سمیت کئی تحریکوں میں قائدانہ کردار ادا کیا۔ اس سلسلے میں علماءکو قیدو بنداور جبر وتشدد کے روایتی استعماری حربوں کا سامنا کرنا پڑا جس کی پوری ایک تاریخ ہے۔ جمعیت علماءہند محض ایک دینی سیاسی جماعت نہیں تھی بلکہ اس کی خدمات کا دائرہ مختلف رفاہی شعبوں تک پھیلا ہوا تھا۔ جمعیة نے مسلمانوں کے روزمرہ کے معاملات میں ان کی رہنمائی کے لیے صوبوں اور ریاستوں کی سطح پر امرائے شریعت کا ایک نظام قائم کیا جس نے دور غلامی میں مسلمانوں کے لیے آزاد عدلیہ کا کردار ادا کیا۔
دوسری جنگ عظیم کے آغاز کے ہنگام جب دنیا میں نئی سیاسی و جغرافیائی تبدیلیاں آنے لگیں اور یہ نظر آنے لگا کہ سلطنت بر طانیہ اپنی دیگر بہت سی نو آبادیات کے علاوہ بر صغیر پر بھی قبضہ بر قرار نہیں رکھ سکے گی تو ہندوستان کے مستقبل کا سوال پیدا ہوا اور اس سوال نے سب سے زیادہ مسلمانوں کو متاثر کردیا کہ ان کی سوچ اس حوالے سے تقسیم ہوگئی کہ مسلمانوں کومتحدہ ہندوستان کے اندر ہندو اکثریت کے ساتھ عمرانی معاہدہ کرکے رہنا چاہیے یا اپنے لیے ایک الگ وطن کا قیام عمل میں لانا چاہیے۔ یہ دونوں امکانات آسان نہیں تھے لیکن دوسرے امکان میں کشش زیادہ تھی، اس لیے ایک کشمکش کی صورت حال پیدا ہوگئی جس سے علماءبھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ چنانچہ جمعیت علماءہند میں بھی اس مسئلے میں اختلاف ہوا۔ تحریک پاکستان کے حامی علماءنے جن کے سرخیل مولانا شبیر احمد عثمانیؒ تھے، 1944ءمیں جمعیت علماءاسلام تشکیل دی جبکہ تقسیم کے مخالف علماءنے پرانے نام سے ہی مولانا سید حسین احمد مدنی ؒکی قیادت میں اپنی جدو جہد جاری رکھی۔ کہا جاتا ہے کہ شاید علماءکے اس اختلاف تکوینی حکمت پوشیدہ تھی، بعد میں پاکستان کا ساتھ دینے والے علماءکو پاکستان میں اپنا کردار ادا کرنے کا موقع ملا اور تقسیم کے مخالف علماءکے سیاسی کردار نے بھارت میںرہنے والے مسلمانوں کے لیے سر اٹھاکر بات کرنے کی گنجائش برقرار رکھی۔ یہ بات اپنی جگہ بالکل درست ہے مگر یہاں ایک لمحے کے لیے اگر یہ تصور کرلیا جائے کہ اگر جمعیت علماءاس وقت تقسیم کا شکار نہ ہوتی اور تقسیم بر صغیر کے حق یا مخالفت میں علماءکا ایک متفقہ موقف سامنے آتا تو کیا آج بر صغیر کے مسلمانوں کی پوزیشن وہی ہوتی، جو اس وقت ہے؟
جمعیت علماءاسلام اس وقت بھی پاکستان کی ایک بڑی پارلیمانی سیاسی قوت ہے۔وفاق میں جمعیت ایک اہم حکومتی جماعت ہے اورجمعیت علماءاسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا شمار اس وقت پاکستان کی صف اول کی سیاسی قیادت میں ہوتا ہے۔پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار پانچویں بڑے آئینی عہدے( ڈپٹی چیئر مین سینیٹ) پر آج ایک مولوی براجمان ہے۔اسلامی نظریاتی کونسل جیسے آئینی ادارے کی سربراہی بھی کچھ عرصہ قبل تک جمعیت کے پاس تھی۔دو صوبائی اسمبلیوں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں قائد حزب اختلاف کا منصب بھی علماءکے پاس ہے۔ دونوں صوبوں کے کئی اضلاع میں جمعیت اور اس کی اتحادی جماعتوں کی بلدیاتی حکومتیں قائم ہیں ۔ جمعیت علماءاسلام پاکستان کی ان دو تین سیاسی جماعتوں میں سے ایک ہے جس کی آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سمیت پورے ملک میں یونین کونسل کی سطح تک کی بھی تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ سعودی عرب سمیت کئی ممالک میں جمعیت کے اورسیز یونٹ بھی سرگرم ہیں۔اس بناءپر یہ بات بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ جمعیت علماءاسلام محض کوئی کاغذی پارٹی نہیں بلکہ ایک زندہ و جاوید سیاسی حقیقت ہے ۔اس بات کا کریڈٹ جمعیت علماءاسلام کوجاتا ہے کہ اس نے قومی سیاست میں علماءکے کردار کو بہر حال زندہ رکھا ہوا ہے اور پاکستان کو بنگلہ دیش یا مصر بننے سے بچائے رکھا ہے۔بناءبریں جمعیت علماءاسلام آج اگر اپنی تاسیس کے سوسال مکمل ہونے پر تقریبات کاا نعقاد کر رہی ہے تو اس کے پاس یقینا کچھ مایہ ¿ افتخار بھی ہے جو بھی قوم کے سامنے پیش کر سکتی ہے۔
مگر ان کامیابیوں کے ساتھ ساتھ اگر اپنی خامیوں اور کمزوریوں پر بھی نظر رکھنے کا بھی خیال ہو تو ابھی بہت سے میدان ایسے ہیں جن میں کام کرنے کی اشدضرورت ہے۔ مثلا جمعیت علماءہند کے قیام کا ایک بڑا مقصد جیساکہ شروع میں عرض کیا گیا،فرقوں ، مسلکوں اور گروہوں میں بٹے مسلم سماج کو مجتمع کرنا بھی تھا۔ اس وقت برصغیر کا مسلم سماج ایک جانب مسلکی اختلافات کا شکار تھا تو دوسری جانب دینی و عصری تعلیم کو الگ الگ کرنے کے نتیجے میں مسٹر اور ملا کی جو تفریق پیدا ہوگئی تھی ،اس نے بھی مسلم معاشرے کے لیے مستقل خطرے کی شکل اختیار کر لی تھی۔علماءاور سماج کے درمیان خلیج کا حجم بڑھتا جارہا تھا۔شیخ الہند مولانا محمود حسن نے اس خلیج کو ختم کرنے کا پیغام دیا تھا۔جمعیت علماءہند نے یقینا اپنی سطح پر اس کے لیے کوششیں کیں لیکن بد قسمتی سے ان کوششوں کو زیادہ مو ¿ثر اور ثمر آور نہیں بنایا جاسکا۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک جانب جمعیت علماءہند مسلکی لحاظ سے آہستہ آہستہ ایک مکتب فکر تک محدود ہوتی گئی اور دیگر مکاتب فکر کے علماءاس سے دور ہوتے چلے گئے ۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد پاکستان میں ہر مکتب فکر نے اپنی اپنی” جمعیت علمائ“ تشکیل دے دی۔ یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اگر جمعیت علماءمیں تمام مکاتب فکر کی نمایندگی اسی طرح رہتی تو شاید آج پاکستان میں دینی جدو جہد کا سفر اگلی منزلوں میں ہوتا اور شاید ہمارا معاشرہ فکری و مسلکی لحاظ سے اتنا منتشر نہ ہوتا جتنا کہ آج ہے۔
اسی طرح شیخ الہندؒ نے اپنی تحریک میں جہاں وقت کے بڑے اور سرگردہ علماءکو آگے آگے رکھا وہیں ساتھ ہی انہوں نے عصری تعلیم گاہوں سے تعلیم حاصل کرنے والے ممتاز افراد اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے قابل اور ذہین لوگوں کو چن چن کرشامل کیاتھا۔شیخ الہند کی فکر نے جامعہ ملیہ کی صورت میں دینی اور عصری تعلیم کے امتزاج کا ایک نمونہ بھی پیش کیا تھا۔ مگر بد قسمتی سے بعد میں علماءکی سیاست علماءہی تک محدود ہوتی گئی اورعصری تعلیم کا شعبہ بھی علماءکی توجہات سے محروم رہا۔ علماءاور سماج کے درمیان خلاءختم نہیں کیا جاسکا۔ درحقیقت اسی خلاءسے جماعت اسلامی کا نمودہوا،جمعیت علماءہند سے سابقہ وابستگی رکھنے والے مولانا سید ابولا اعلیٰ مودودی نے سماج کی زبان اور نفسیات کے مطابق مواد پیش کیا اور برصغیر کے ایک بڑے طبقے کو متاثر کیا۔
پاکستان بننے کے بعد بہت1969ءمیں شیخ الہند کی فکر کے مطابق مسٹر اور ملا کی تفریق ختم کرنے اور عصری تعلیمی اداروں سے رجال کار پیدا کرنے کی خاطر جمعیت طلبہ اسلا م کا قیام عمل میں لایا گیا جس نے ابتدائی دو عشروں تک تو خاصا اچھا اوراہم کام کیا۔ جمعیت طلبہ اسلام میں ملاوں اور مسٹروں کی کیمسٹری بنی توکئی نامور لوگ قومی سطح پر ابھر آئے جن میں مدارس سے خود مولانا فضل الرحمن، مولانا عبدالغفور حیدری، مفتی نظام الدین شامزئی شہید، مولانا زاہدا لراشدی،مفتی جمیل خان شہید، مولانا شمس الدین شہید اور کالجوں اوریونیورسٹیوں سے ڈاکٹر خالد محمود سومرو شہید، ڈاکٹر سرفراز احمد خان شہید، ملک سکند رخان ایڈوکیٹ، محمدفاروق قریشی و دیگر نمایاں ہیں۔ مگر اسی کی دہائی کے بعد جمعیت طلبہ اسلام بھی آہستہ آہستہ مدارس کی طرف ہی لوٹنے لگی اور اس وقت خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے عصری اداروں میں کہیں اگر اس کا وجود ہے تو ہے ورنہ قومی سطح پر یہ ”ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے“ کا مصداق بنی ہوئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ جمعیت کی قیادت میں تازہ خون شامل ہونے کا سلسلہ عرصہ ہوئے رک گیا ہے اور علماءکی سیاست اور سماج کے مزاج کی ہم آہنگی میں بڑی رکاوٹیں در پیش ہورہی ہیں جن کا نقصان خود جمعیت علماءکو سب سے زیادہ پہنچ رہا ہے۔
دنیا میں پر امن سیاسی جدو جہد کا جو تصور ہے، وہ ایک وسیع مفہوم کا حامل ہے جو زندگی کے تمام شعبوں کا احاطہ کرتا ہے۔ پارلیمانی سیاست اس کا ایک اہم جزو تو ہوسکتی ہے ، اس کا محور اور کل ہر گز نہیں۔ موجودہ دور میںکوئی بھی سیاسی تحریک اسی وقت کامیاب ہوسکتی ہے، جب معاشرے کے تانوں بانوں(Fabrics )تک اس کا اچھا اثرو نفوذ قائم ہوچکا ہو۔ حالیہ تاریخ میں جہاں جہاں بھی کوئی اسلامی تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوئی ہے، تو اس کے پیچھے برسوں کی منظم جدوجہد اور زندگی کے تمام شعبوں پر محنت کا عنصر دکھائی دیتا ہے۔ آپ کوئی بھی تبدیلی اس وقت تک نہیں برپا کرسکتے، جب تک آپ نے اس کے لیے مطلوبہ کوائف کے حامل رجال کار تیار نہ کیے ہوں۔ ترکی کی مثال دینا اس لیے تو شاید درست نہ ہو کہ ترکی کی اے کے پارٹی کوئی ٹھیٹھ دینی جماعت نہیں ہے اور رجب طیب اردوان وہاں کے علماءکی قیادت نہیں کر رہے، تاہم اگر پاکستان اور ترکی کے حالات اور ماحول کے فرق کو ملحوظ رکھا جائے تو ترکی میں ایک مدرسے کے فیض یافتہ قرآن خواںرجب طیب اردوان کی جماعت کا اقتدار میں آجانا بالکل ایسا ہی جیسے پاکستان میں جمعیت علماءاسلام کی حکومت آگئی ہو،لیکن یہ حکومت ایسے ہی نہیں آئی،رجب طیب اردوان اور ان کی جماعت نے گلی محلے کی سطح پر کام کا آغاز کیا،انہوں نے زندگی کے تمام شعبوں میں تگ و دو کی،امانت و دیانت کے ساتھ ساتھ اپنی اہلیت و قابلیت کی بھی دھاک بٹھائی اور ترک عوام کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہوئے کہ مسجد کے میناروں اور اذان کی آوازوں کو اپنی عظمت اور طاقت کی علامت قرار دینے والے یہ راہنما ترکی کے عوام کے بنیادی مسائل کے حل کا بھی عزم اور صلاحیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے لوگوں کے مسائل کے حل بھی پیش کیے اور شہری و سماجی حقوق کے حصول کی جدو جہد میں ان کی قیادت بھی کی۔اس کے بعد ترکی کا سیکولر آئین ان کی راہ کا پتھر بن سکا نہ اس آئین کے محافظ منہ زور جرنیل تمام تر سازشیں کرنے کے باوجود ان کے آگے ٹھہر سکے۔ مصر میں الاخوان المسلمون کی حکومت قائم تو نہیں رہنے دی گئی تاہم وہاں جو انقلاب آیا تھا،اس کے اجزائے ترکیبی میں بھی معاشرے کے تمام طبقات کے عناصر موجود تھے۔ ایران کی مثال شاید ہمیں زیادہ گوارا نہ ہو ،تاہم یاد رکھنے کے لیے اتنی بات کافی ہے کہ ایرانی انقلاب میں جہاںقم کے قبا پوش نمایاں تھے، وہیں تہران ، مشہداور زاہدان کی یونیورسٹیوں کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں نے اس میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا تھا۔پاکستان میں بھی تحریک ختم نبوت سمیت کئی تحریکوں میں نوجوانوں نے علماءکی اپیل پر لبیک کہا اور قربانیاں دیں، لیکن یہاں بدقسمتی سے ان نوجوانوں کی تربیت اور رہنمائی کا کوئی دیرپا اور مستقل بندو بست نہیں کیا جاسکا۔
پھر یہاں علماءکی اب تک کی سیاست زیادہ تر خالص دینی و مذہبی موضوعات کے ارد گرد رہی ہے جوکہ اپنی جگہ درست ہے، تاہم اس کے ساتھ ساتھ عوام کے بنیادی مسائل مثلاً مہنگائی، بے روز گاری، لوڈشیڈنگ اور شہری زندگی کے معاملات کو قرار واقعی اہمیت نہیں دی گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان مسائل کا حل سیکولر اور قوم پرست جماعتوں کا وظیفہ ٹھہرا اور لوگ انہی کی طرف دیکھنے لگے۔یہ ایک حیرت انگیز امر ہے کہ حالیہ عرصے میںغیر ملکی اداروں نے رائے عامہ کے جتنے بھی جائزے پیش کیے ہیں، ان میں ہر جائزے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستان کے 80فی صد سے زائد عوام ملک میں اسلامی نظام کا قیام چاہتے ہیں ،لیکن اس کے باوجود جب الیکشن کا وقت آتا ہے تو دینی جماعتوں کو کل ملنے والے ووٹ 10فی صد بھی نہیں ہوتے۔اس کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے کہ یہاں کے مسلم سماج اور دینی جماعتوں کے درمیان ایک وسیع خلیج حائل ہے جس کو پاٹنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔
2002ءمیں خطے کے مخصوص حالات کے نتیجے میں خیبر پختونخوا میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت جمعیت علماءاسلام کی قیادت میں بنی، اس میں شک نہیں کہ زیادہ تر مدارس کے فیض یافتہ علماءکرام پر مشتمل اس حکومت نے کئی کارہائے نمایاں بھی سر انجام دیے جن کو صوبے کے عوام ا بھی تک یاد رکھتے ہیں، ناتجربہ کار ارکان پر مشتمل اس حکومت کا پانچ سال تک چلنا بھی اس کی ایک بڑی کامیابی ہی تھی،اس دوران کسی بد عنوانی اور بد انتظامی کی کوئی بڑی شکایت سامنے نہیں آئی، مگریہ حکومت صوبے میں کسی ایسی بڑی جوہری تبدیلی کی علامت نہ بن سکی جو دیگر صوبوں کے لیے مثال بن سکتی اور پورے ملک کے عوام اسے دیکھ کر علماءکی طرف کھچ آتے۔اس کی وجہ یہی تھی کہ اس کے لیے پہلے سے تیاری تھی نہ وہ رجال کار دستیاب تھے جو بیوروکریسی پر قابو پاکر انقلابی پالیسیاں بناتے۔
آج کی دنیا میں میڈیا کا کردار ہر شعبے کی طرح سیاست میں بھی نہایت اہم اورکلیدی ہے۔ جو معرکے پہلے بڑے بڑے عوامی جلسوں اوراجتماعات میں لڑے جاتے تھے، اب اخبارات کے صفحات اور میڈیا کے ٹاک شوز میں لڑے جاتے ہیں۔میڈیا جب ایجنڈا سیٹ کرتا ہے تو اس کی مرضی ہے کہ کسی کی رائی کو بھی پہاڑ بنالے اور کسی کے پہاڑ کو بھی رائی کی طرح دکھائے۔ اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے سیاسی جماعتیں میڈیا پر کام کرتی ہیں،اپنے موقف کو میڈیا پر لانے اور اپنے خلاف مواد کو روکنے
یا اس کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے طرح طرح کے جتن کیے جاتے ہیں۔افسوس اور دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ علماءکی سیاست کا یہ باب تاحال خالی ہی دکھائی دیتا ہے۔ ایک دو رہنماو ¿ں کے استثناءکے بعد کوئی تیسرا شخص ہی نہیں ملتا جو میڈیا پر ڈھنگ سے بات ہی کرسکے۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ میڈیا پر سب سے زیادہ ٹرائل بھی علماءکا ہی ہوتا ہے، کیونکہ ان کی طرف سے جواب دینے والا ہی کوئی نہیں ہوتا۔اسی طرح سوشل میڈیا بھی دور حاضر کا ایک بڑا ہتھیار ہے۔کچھ سیاسی جماعتوں کا تو انحصار ہی گویا سوشل میڈیا پر ہے۔اس میدان کوباقاعدہ ہدف بناکر لوگ اس کے ذریعے سے اپنی پروپیگنڈا وار چلا رہے ہیں۔دینی جماعتوں کی جانب سے اول تو اس میدان میں کوئی باقاعدہ اور منظم کام نظر ہی نہیں آتا ،پھر چند ایک کو چھوڑ کر زیادہ تر جوشیلے نوجوان اس میدان میں جو گل کھلارہے ہیں، وہ دینی کاز کے لیے فائدہ مند ہونے کی بجائے الٹا نقصان کا باعث بن رہا ہے۔اس شعبے پر بھی توجہ دینا لازمی ہے۔
اس وقت میرے سامنے ماہنامہ ”الجمعیة “ کا تازہ شمارہ رکھا ہے۔ شمارے کے سرورق پر صدسالہ اجتماع کی تیاریوں کے سلسلے میں پشاور میںمولانا فضل الرحمن کے خطاب کی سرخی جلی حروف میں لکھی ہوئی ہے کہ” علماءکرام دنیا کی ترجیحات کو سمجھیں۔“ میرا خیال ہے کہ یہی فقرہ اس اجتماع کا ایجنڈا اور پیغام ہونا چاہیے۔ علماءکرام نے اگر معاصر دنیا کی ترجیحات اور اپنے سماج کے مزاج اور نفسیات کو سامنے رکھ کر اپنی سیاسی جدوجہد کو آگے بڑھانے کی ٹھان لی تو پاکستان میں نفاذ اسلام اور عالمی سطح پر اسلام کی نشاة ثانیہ کو کوئی نہیں روک سکے گا۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں