جمعیۃ علماء اسلام کا صد سالہ اجتماع

جمعیۃ علماء اسلام کا صد سالہ اجتماع

اپریل کی 7 ، 8، 9 تاریخ کو پشاور میں جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے زیر اہتمام علماء حق کی خدمات کے حوالہ سے صد سالہ عالمی اجتماع کا انعقاد کیا جا رہا ہے جس کے لیے ملک بھر میں تیاریاں جاری ہیں اور جمعیۃ علماء اسلام کی ہر سطح کی قیادت اور کارکن اس کے لیے متحرک نظر آرہے ہیں۔ تیاریوں کے حوالہ سے محسوس ہو رہا ہے کہ یہ بہت بڑا اجتماع ہوگا جو ملک کی دینی جدوجہد اور قومی سیاست میں ایک نئی ہلچل اور تبدیلی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ ’’صد سالہ‘‘ کے لفظ کے بارے میں بعض دوستوں کو الجھن ہو رہی ہے جس کے باعث جمعیۃ علماء ہند اور جمعیۃ علماء اسلام کی تاریخ اور ان کے باہمی تعلق کی بحث چل پڑی ہے مگر ہمارے خیال میں یہ ’’صد سالہ‘‘ کسی جماعت کے نظم کے حوالہ سے نہیں بلکہ برصغیر کے علماء حق کی جدوجہد کے عمومی رخ میں ایک بڑی تبدیلی کے تناظر میں ہے کہ اب سے ایک صدی قبل شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ نے مالٹا کی اسارت سے واپسی پر آزادیٔ وطن اور نفاذِ شریعت کی تحریکات کا رخ مسلح جدوجہد سے پر امن اور عدم تشدد پر مبنی سیاسی محنت کی طرف موڑ دیا تھا۔
اس سے قبل آزادیٔ وطن اور نفاذ شریعت کی تحریکات کا دور مسلح جدوجہد کا دور تھا جس میں نواب سراج الدولہ شہیدؒ، ٹیپو سلطان شہیدؒ، شہدائے بالا کوٹؒ، معرکۂ شاملی، 1857ء کا جہاد آزادی ، حاجی شریعت اللہؒ، تیتومیرؒ، پیر آف پگاراؒ، سردار احمد خان کھرل شہیدؒ، حاجی صاحب ترنگ زئیؒ، فقیر ایپیؒ اور دیگر مجاہدین کے بیسیوں معرکے ہماری تاریخ کا حصہ ہیں ، اور اس کی آخری کڑی خود شیخ الہندؒ کی تحریک ریشمی رومال ہے۔ مگر مالٹا کی اسارت کے بعد حضرت شیخ الہندؒ کی قیادت میں جمہور علماء ہند نے پر امن سیاسی تحریک اور عدم تشدد پر مبنی جدوجہد کے نئے دور کا آغاز کر دیا تھا۔ یہ تبدیلی پہلے طریق کار کی نفی اور تغلیط نہیں تھی بلکہ نئے حالات اور تقاضوں کی روشنی میں جدوجہد کے متبادل طریق کار کو اختیار کرنا تھا جس پر جنوبی ایشیاء کے جمہور علماء ابھی تک قائم ہیں اور اب بھی وہ کسی قومی اور دینی جدوجہد کے لیے پر امن اور عدم تشدد کے راستے کو ہی درست سمجھتے ہیں۔ اس بڑی تبدیلی کو ایک صدی گزر گئی ہے اور غالباً یہ صد سالہ کانفرنس اسی سلسلہ میں اب تک کی صورتحال کا جائزہ لے کر آئندہ کے لیے رخ متعین کرنے کی غرض سے منعقد کی جا رہی ہے۔ چنانچہ ہمارے خیال میں اس ’’صد سالہ‘‘ کو کسی جماعتی نظم کے دائرہ میں نہیں بلکہ پورے جنوبی ایشیا میں علماء حق کی عمومی جدوجہد کے طریق کار میں بنیادی تبدیلی کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے موجودہ حالات میں پشاور ہی سب سے زیادہ موزوں مقام ہو سکتا ہے۔
اسی شہر پشاور میں اب سے نوے برس قبل جمعیۃ علماء ہند کے زیر اہتمام ایک بڑی کانفرنس نومبر 1927ء کے دوران امام المحدثین حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیریؒ کی صدارت میں منعقد ہوئی تھی جس کی منظور کردہ تجاویز حضرت مولانا سید محمد میاں دیوبندیؒ نے ’’جمعیۃ العلماء کیا ہے؟‘‘ میں تفصیل کے ساتھ بیان فرمائی ہیں۔ ان میں سے چند تجاویز یہاں نقل کی جا رہی ہیں، ہمارا خیال ہے کہ ایک صدی گزر جانے کے بعد بھی ان تجاویز کی اہمیت و افادیت موجود ہے اور اپریل 2017ء میں منعقد ہونے والی ’’صد سالہ عالمی کانفرنس‘‘ ان سے بہت کچھ راہنمائی حاصل کر سکتی ہے۔
• جمعیۃ علماء ہند کا یہ جلسہ مدارس عربیہ اسلامیہ کے بانیوں، منتظموں اور کارکنوں کی توجہ اس امر کی طرف منعطف کراتا ہے کہ وہ مسلمانوں کی مشغولیت اور کم فرصتی اور ضروریات زمانہ کا لحاظ رکھتے ہوئے مدارس عربیہ دینیہ کے نصاب کو ایسے طور پر مرتب کریں جو ان کی مذہبی حالت کو درست کرنے اور مذہبی واقفیت بہم پہنچانے کے ساتھ ساتھ زمانہ کی ضرورتوں کو بھی ایک حد تک پورا کر سکے۔ اور تمام مدارس عربیہ دینیہ کا ایک نظام ہو اور سب اسی نظام کی پابندی کریں تاکہ یہ تفرق اور انتشار جو مذہب و قوم کے لئے سب سے زیادہ مضرت رساں ہے دور ہو اور منظم طور پر دینی تعلیم عام ہو جائے اور تعلیم کا حقیقی فائدہ حاصل ہو۔ اس ریزولیوشن کو عملی جامہ پہنانے کے لئے یہ اجلاس مفصلہ ذیل حضرات کی کمیٹی معین کرتا ہے کہ وہ نصاب تجویز کر کے جمعیۃ علماء کے سامنے پیش کرے تاکہ جمعیۃ اسے منظور کر کے مدارس عربیہ میں رواج دینے کی سعی شروع کر دے۔ کمیٹی کے ارکان یہ ہوں گے۔ مولانا سید محمد انور شاہ صاحب، مولانا مفتی محمد کفایت اللہ صاحب، مولانا سید سلیمان صاحب ندوی، مولانا حبیب الرحمان صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند، مولانا محمد سجاد صاحب نائب امیر الشریعہ بہار، مولانا ظفر علی خان صاحب، ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب، مولانا عنایت اللہ صاحب فرنگی محلی، مولانا فضل حق صاحب رام پوری۔ اس کمیٹی کو اختیار ہوگا کہ اگر ضرورت سمجھے تو دوسرے ماہرین تعلیم کا اضافہ کر لے۔
• جمعیۃ علماء ہند کا یہ اجلاس عربی مدارس کے با اختیار کارکنوں سے درخواست کرتا ہے کہ طلباء کی جسمانی صحت کے قیام و ترقی کے لیے جسمانی ورزش لینے کا طریقہ جاری کریں اور تعلیم کے ساتھ ساتھ ورزش بھی لازم کر دی جائے تاکہ طلباء کا بڑھتا ہوا شوق اساتذہ کی نگرانی میں شرعی حدود سے بھی متجاوز نہ ہو اور ان کی صحت و قوت کے بقاء و ترقی کا بھی کفیل ہو۔
• جمعیۃ علماء ہند کا یہ جلسہ مسلمانان صوبہ سرحدی سے عموماً اور علماء کرام صوبہ سرحد سے خصوصاً پرزور استدعا کرتا ہے کہ مذہبی احکام کی تعمیل اور اطاعت کو اپنی مذہبی اور قومی نجات کا واحد ذریعہ سمجھیں اور تمام ان مہلک اور تباہ کن رسوم کی اصلاح کے لئے کھڑے ہو جائیں جنہوں نے مسلمانوں کی دینی اور معاشرتی اور مالی حالت کو تباہ کر رکھا ہے اور مسلمانوں کو تباہی اور بربادی اور افلاس و ہلاکت کے گڑھے میں دھکیل رہی ہیں۔شادیوں میں دعوتوں اور جہیزوں کی حدود معین کر دی جائیں اور ان حدود سے کوئی تجاوز نہ کر سکے۔ اسی طرح غمی کی رسوم میں قوم کی مالی حالت اور احکام مذہبی کے موافق اصلاح کی جائے۔ ان رسوم کی ادائیگی کے لئے سودی اور غیر سودی قرضے لینے کا طریقہ قطعاً بند کر دیا جائے۔ یہ تمام فضول اور لایعنی امور جو محض عار و ننگ کے خیال یا محض نام و نمود کی نمائش کے لئے لازم کر دئے گئے ہیں ترک کر دئے جائیں۔ غیر مشروع تماشوں اور تھیٹروں اور ہر قسم کی بداعمالیوں اور بد اخلاقیوں کے خلاف منظم طور پر جدوجہد کی جائے ۔ان تمام امور کی انجام دہی اور نگرانی اور ضبط قائم رکھنے کے لیے قومی کمیٹیاں مقرر کی جائیں اور مشروعہ اور غیر مشروعہ کے امتیاز کے لئے علماء کرام ان کمیٹیوں میں داخل ہوں اور ان کی رہنمائی کریں۔ کمیٹی کے فیصلے قوم کی متفقہ طاقت سے نافذ کئے جائیں اور اس فیصلے کے خلاف کرنے والے قومی مجرم قرار دئے جائیں۔
• جمعیۃ علماء ہند کا یہ جلسہ اس آسمانی فیصلہ اور احکام الٰہی کا اعلان کرتا ہے کہ خدائے برتر نے میت کے ترکہ میں مردوں اور عورتوں کے جو حقوق معین فرما دئے ہیں ان کی تعلیم اور ادائیگی ہر مسلمان پر فرض ہے۔ ہندوستان کے جن صوبوں میں شرعی قانون میراث کے خلاف اس رواج پر عمل ہو رہا ہے کہ عورتوں کو میراث نہ دی جائے وہاں کے علماء کرام سے جمعیۃ کا یہ اجلاس پرزور طریقہ سے استدعا کرتا ہے کہ مسلمانوں کو اس قانون الٰہی کی خلاف ورزی کے سخت عذاب اور قہر خداوندی سے آگاہ کریں۔ اور تمام مسلمانوں سے درخواست کرتا ہے کہ اس رواج کو مٹانے اور اس کی جگہ شرعی قانون میراث کو جاری کرنے کے لئے متفقہ کوشش شروع کر دیں۔ اور جس قدر جلد ممکن ہو اس ہندوانہ رواج اور دور جاہلیت کے سیاہ داغ کو مسلمانوں کے چہروں سے مٹا دیں۔
• جمعیۃ علماء ہند کا یہ اجلاس مسلمانوں سے پرزور اپیل کرتا ہے کہ لڑکیوں کی شادی پر روپیہ لینے کی رسم کو بہت جلد مٹا دیں۔ اور متفقہ طور پر فیصلہ کر دیں کہ لڑکی کے معاوضہ میں شوہر سے کوئی رقم وصول نہ کی جائے اور شادیوں میں اسلامی سادگی اور شریعت مقدسہ کی پابندی کا پورا لحاظ رکھا جائے۔ ہاں اگر نکاح کے وقت شوہر سے مہر معجل کے طور پر کوئی رقم لی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ مگر اس کا لحاظ رکھا جائے کہ مہر کی رقم لڑکی کا حق اور خالص اس کی ملک ہے۔ لڑکی کے اولیاء کو ہرگز یہ حق نہیں کہ وہ مہر معجل وصول کر کے برادری کو کھلائیں یا لڑکی کی رضامندی کے بغیر کسی دوسرے کام میں لائیں۔ اگر ایسا کریں گے تو یہ صریح ظلم ہوگا۔
• عموماً ہندوستانیوں اور بالخصوص مسلمانوں کی اخلاقی پستی اور مذہب سے بیگانگی اور طرح طرح کے جرائم کے ارتکاب کا بڑا سبب ان کا روز افزوں افلاس ہے۔ اس لئے یہ اجلاس تمام باشندگان ہند سے عموماً اور خصوصاً مسلمانوں سے پرزور استدعا کرتا ہے کہ وہ ملکی اور صرف ملکی تجارت و صنعت کو اپنے ہاتھ میں لیں اور اس کو فروغ دینے کی پوری سعی کریں۔ خصوصاً لباس میں وہ دیسی کپڑا استعمال کریں جس کا سوت ہندوستان کی بوڑھیوں اور بیواؤں اور غرباء کے ہاتھوں کا تیار کیا ہوا ہو تاکہ ان مفلوک الحال ہم وطنوں کی زندگی آرام سے گزرے۔ مسلمانوں کو لازم ہے کہ وہ ایسے تاجروں کی ہمت افزائی کریں جو دیسی تجارت و صنعت کو فروغ دے رہے ہوں۔
• چونکہ مسلمانوں کے بہت سے مذہبی معاملات ایسے ہیں جن میں حاکم مسلم کا فیصلہ ضروری ہے اور غیر مسلم حاکم کا فیصلہ شرعی طور پر نافذ نہیں ہوتا اور حکومت موجودہ نے مسلمانوں کی اس ضرورت کو اب تک پورا نہیں کیا۔ اس بنا پر مسلمان سخت مذہبی مشکلات میں مبتلا ہیں۔ مثلاً ظالم اور جاہل شوہروں سے ان کی مظلوم اور زندہ درگور عورتوں کی گلوخلاصی نہیں ہو سکتی۔ مرتدہ کے نکاح فسخ ہونے میں اس کے شوہر کے حقوق زائل ہو جاتے ہیں۔ خیار بلوغ میں شرعی طور پر حکم فسخ حاصل نہیں ہو سکتا۔ طلاق کے بہت سے مسائل الجھے رہ جاتے ہیں۔ اس لئے یہ جلسہ گورنمنٹ سے مطالبہ کرتا ہے کہ مسلمانوں کی ان مذہبی مشکلات کے حل کے لئے بااختیار شرعی قاضی مقرر کرے جن کے انتخاب کا حق مسلمانوں کو ہو تاکہ ان قضاۃ کی عدالتوں میں ایسے معاملات کا شرعی فیصلہ ہو سکے۔ جمعیۃ علماء کا یہ جلسہ حسب ذیل حضرات کی کمیٹی مقرر کرتا ہے تاکہ وہ اس قسم کے تمام مسائل کو معین کر کے ان قضاۃ کی حد عمل معین کر دیں۔ تاکہ ان مسائل میں گورنمنٹ سے اختیارات دینے کا مطالبہ کیا جائے۔ مولانا حسین احمد صاحب، مولانا ثناء اللہ صاحب، مولانا محمد سجاد صاحب، مولانا سید محمد انور شاہ صاحب، مولانا محمد نعیم صاحب، مولانا قطب الدین صاحب، مولانا عبد الماجد صاحب بدایونی، مولانا شبیر احمد صاحب (عثمانی)، مولانا سید سلیمان صاحب ندوی، مولانا عبد الحکیم صاحب پشاوری۔
• جمعیۃ علماء ہند کا یہ جلسہ علماء صوبہ سرحد کو توجہ دلاتا ہے کہ وہ زکوٰۃ و عشر و صدقات و خیرات کے لیے ایک شرعی بیت المال قائم کرے جس میں مذکورہ بالا مدات کی آمدنی جمع کی جائے اور جمعیۃ صوبہ کی نگرانی میں پورے اہتمام سے اپاہجوں، بیواؤں، یتیموں، لاوارث بچوں، مدارس دینیہ کے طلباء کے وظائف و سامان تعلیم، نو مسلموں کی تربیت و کفالت میں ضرورت اور استحقاق کی رعایت کے ساتھ صرف کی جائے۔ اس سلسلہ میں گورنمنٹ سے استدعا کی جائے کہ لاوارثی ترکہ کو وہ اس قومی بیت المال میں داخل کرنے کی اجازت دے دے تاکہ لاوارث بچوں کی کفالت و تربیت میں خرچ کی جا سکے۔ نیز جمعیۃ صوبہ کو لازم ہے کہ ایک تبلیغی جماعت قائم کرے جس کے ذریعہ سے سرحدی مقامات کے باشندوں کی معاشرت اور اخلاق و اعمال کی اصلاحی خدمت انجام دی جائے۔
• اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ قرآن مجید تمام اسلامی برکات کا سرچشمہ اور دین و مذہب کا اصل الاصول ہے۔ مسلمانوں کا سب سے مقدم فرض اس کی اشاعت و تبلیغ ہے۔ مگر افسوس ہے کہ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کو قرآن مجید کے نشر و تبلیغ کے ساتھ چنداں شغف و اہتمام نہیں ہے۔ ہندوستان میں لاکھوں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں غیر مسلم مطابع کے چھپے ہوئے قرآن مجید ہدیہ ہوتے ہیں جو صرف تجارتی اغراض کے لئے چھاپے جاتے ہیں اور ان کی تصحیح اور احترام و تکریم سے چھاپنے والوں کو کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ جمعیۃ علماء ہند اس معاملہ کو رنج و افسوس کی نظر سے دیکھتی ہے اور مسلمانوں سے توقع رکھتی ہے کہ وہ قرآن مجید کی صحت و صفائی کا پورا لحاظ کر کے صاف و صحیح قرآن مجید چھپوائیں اور مسلمان ان قابل اعتماد صحت شدہ قرآنوں کو تعلیم و تلاوت کے کام میں لائیں۔
نیز جمعیۃ علماء ہند کے اس اجلاس کی رائے میں ضروری ہے کہ قرآن مجید کی تعلیم و تبلیغ کے لئے دنیا کی مختلف زبانوں میں اس کے صحیح و مستند ترجمے شائع کئے جائیں تاکہ اس الحاد و زندقہ کے دور میں لوگ اس آسمانی روشنی سے مستفید ہوں۔ سب سے زیادہ ضروری انگریزی ترجمہ کی ہے جو مسلمان انگریزی خواں نوجوانوں کی تعلیم و تصحیح خیال کے لئے بے حد ضروری ہے۔ جمعیۃ اس مہتمم بالشان کام کو پوری مستعدی کے ساتھ انجام دینے کو تیار ہے اور کلکتہ کے اجلاس میں اپنے اس ارادے کا اظہار کر چکی ہے۔ مگر اس عظیم الشان کام کے لیے بڑے سرمایہ کی ضرورت ہے اور جب تک کم از کم پچاس ہزار روپیہ کے سرمایہ کا اطمینان نہ ہو جائے کام شروع نہیں کیا جا سکتا۔ اگر مسلمان اس نہایت ضروری اور اعلیٰ دینی خدمت کے لئے توجہ کریں تو جمعیۃ اس کا اہتمام کرنے کے لئے تیار ہے۔
• جمعیۃ علماء ہند کا یہ اجلاس اپنی منظور شدہ تجاویز کا اعادہ کرنا ضروری سمجھتا ہے کہ تمام باشندگان ہند بالخصوص مسلمان پر امن طریقہ سے حصول آزادی کی پوری کوشش کریں جو ان کا واقعی اور فطری حق ہونے کے علاوہ ان کے روز افزوں افلاس، غیر منقطع قحط و گرانی، بیکاری و فاقہ کشی، گداگری، کثرت تعداد اموات، پیداوار و تعلیم کی کمی، ٹیکسوں اور قومی قرضوں کی گرانباری، صحت و قوت کے انحطاط، صنعت و تجارت کی بربادی اور ہزاروں قسم کے مالی نقصانوں اور تباہیوں کا واحد علاج ہے۔ مسلمانوں پر تحصیل آزادی کی کوشش نہ صرف وطنی بلکہ مذہبی فریضہ بھی ہے جو ان کو پوری تندہی اور سرگرمی سے انجام دینا چاہئے ۔
• جمعیۃ علماء ہند کا یہ اجلاس تمام مسلمانوں کی خدمت میں نہایت دلسوزی اور اخلاص کے ساتھ عرض کرتا ہے کہ وہ اپنی روز افزوں پستی اور انحطاط کو تیقظ اور عبرت کی نظر سے دیکھیں اور فرصت کا ایک لمحہ ضائع کئے بغیر اپنی نجات کا راستہ تلاش کریں اور یقین کریں کہ ان کی تباہ حالی کے اسباب میں سے جو سبب کہ زیادہ مہلک اور پوری تباہی اور بربادی لا رہے ہیں وہ ان کی مذہبی بے پرواہی بلکہ احکام مذہب کی خلاف ورزی اور بری عادتوں اور بد اخلاقیوں میں مشغولی اور انہماک ہے۔ اور آپس میں بغض و کینہ، دور جاہلیت کے انتقامی جذبات جو پشت ہا پشت تک باقی رہتے اور اصل مجرم سے گزر کر اس کے اعزاء و اقارب تک تعدی اور ظلم کے باعث ہوتے ہیں، آپس میں قتل و خونریزی، جوا کھیلنا، مسکرات کا استعمال کرنا، دوسروں کی جائدادیں غصب کرنے کے لئے عدالتوں میں مقدمات لے جانا، جھوٹی گواہیاں دینا اور جھوٹے گواہ بنانا، اورا سی قسم کے بہت سی خرابیاں ہیں جنہوں نے قوم کے اندر جڑ پکڑ لی ہے اور اندر ہی اندر تباہ کئے ڈالتی ہیں۔ سب سے زیادہ افسوسناک امر یہ ہے کہ بزرگوں کے مزارات پر سالانہ عرسوں میں بد اخلاقیوں بالخصوص قمار کا پورا مظاہرہ کیا جاتا ہے، جیسا کہ زیارت کاکا صاحب کے متعلق معلوم ہوا ہے۔
جمعیۃ علماء ہند کا یہ اجلاس نہایت زور کے ساتھ مسلمانوں کو ان مہلکات کے عواقب بد سے متنبہ کرتے ہوئے درخواست کرتا ہے کہ وہ جلد سے جلد ان تباہیوں اور بربادیوں کے خلاف پوری جدوجہد شروع کر دیں اور اسلامی اخوت و مناصرت کا طریقہ اختیار کر کے قوم کے مفلس افراد کی معاونت کریں اور پیشہ ور مال دار گداگروں کو خیرات و صدقات ہرگز نہ دیں۔ اسقاط کا غیر شرعی طریقہ جو یہاں اکثر مقامات میں رائج ہے موقوف کر دیں۔ ان تمام امور کی انجام دہی کے لئے مؤقر علماء و عمائد کی جماعتیں بنا کر ان کے فیصلوں پر کاربند ہوں۔
• جمعیۃ علماء ہند کا یہ جلسہ تیراہ میں سنیوں اور شیعوں کی باہمی مخاصمت پر اپنے دلی رنج و افسوس کا اظہار کرتا ہے اور دونوں فریق سے درخواست کرتا ہے کہ وہ ان اختلافات کو باہمی صلح سے جلد از جلد رفع کر لیں۔ مسلمان اس امر کو برداشت نہیں کر سکتے کہ بیچ بچاؤ کے لئے گورنمنٹ مداخلت کرے اور تیراہ کی آزادی بھی دوسرے علاقوں کی طرح انگریزی اثر میں آجائے۔
• چونکہ مغربی تہذیب اور تمدن کا سیلاب روزانہ تیزی سے بڑھتا آرہا ہے اور ایشیائی قومیں اپنی شاندار روایات اور مذہبی احکام سے بیگانہ ہوتی جا رہی ہیں، مسلمان بھی اسلامی تہذیب اور قومی وضع چھوڑ کر یورپین تہذیب اور وضع اختیار کرتے جا رہے ہیں، عورتوں کی بے پردگی بے حیائی کے درجہ تک پہنچ رہی ہے۔ ایک طرف انگریزی خواں طبقہ میں یہ باتیں نہایت سرعت کے ساتھ سرایت کر رہی ہیں، دوسری طرف یورپین تجارتی تعلقات نے تجارتی معاملات میں طرح طرح کی الجھنیں پیدا کر دی ہیں جن سے سود اور انشورنس اور اسی قسم کے بہت سے مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔ اس لئے جمعیۃ علماء ہند کا یہ جلسہ علماء کرام سے پرزور استدعا کرتا ہے کہ اس آنے والے خطرہ کا پورا احساس کریں اور اپنی منتشر قوت کو جمعیۃ علماء کے مرکزی دائرہ میں جمع کر کے پوری قوت کے ساتھ دہریت و الحاد کا مقابلہ کریں۔
جمعیۃ علماء ہند کا یہ جلسہ اس اعلان کے ساتھ کہ سود کی حرمت قرآن پاک کی نص قطعی سے ثابت ہے اور کوئی شخص کسی حرام کو حلال نہیں کر سکتا، علماء و واقفین معاملات تجارت کی حسب ذیل کمیٹی منتخب کرتا ہے جو حالات حاضرہ کی تنقیح و تحقیق کرے، شرعی تیسیر کا لحاظ رکھتے ہوئے کتاب و سنت کی روشنی میں جمہور مسلمین کی رہنمائی کرے، اور ظاہر کر دے کہ حوادث جدیدہ میں کتنے امور جائز اور حلال ہیں اور کتنے ناجائز اور حرام۔ کمیٹی کے ارکان یہ ہوں گے۔ حضرت مولانا سید محمد انور شاہ صاحب، مولانا سید حسین احمد صاحب، مولانا شبیر احمد صاحب عثمانی، مولانا سید سلیمان صاحب ندوی، مولانا عبد القہار صاحب (مرت ملا)، مولانا عبد الحکیم صاحب پشاوری، مولانا نعیم الدین صاحب مراد آبادی، مولانا عبد الماجد صاحب بدایونی، مولانا عبد الماجد صاحب دریابادی، مولانا قطب الدین صاحب فرنگی محلی، مولانا نثار احمد صاحب کانپوری، مولانا معین صاحب اجمیری، مولانا محمد علی صاحب، سیٹھ عبد اللہ ہارون صاحب، میاں ہاشم غلام علی مصطفیٰ صاحب۔ جمعیۃ علماء ہند کے صدر اور سیکرٹری اس کمیٹی کے صدر اور سیکرٹری ہوں گے اور کمیٹی کو اضافہ ممبران کا اختیار ہوگا۔
• وقف اسلامی خصوصیات میں سے ہے اور اوقاف مسلمین کے ساتھ مذہب و قوم کے بڑے مصالح وابستہ ہیں اس لئے مسئلہ اوقاف خاص طور پر توجہ کا مستحق ہے۔ شریعت اسلامیہ میں وقف کے احکام پوری صراحت کے ساتھ موجود اور اس کی حدود متعین ہیں۔ مگر افسوس کے ساتھ دیکھا جاتا ہے کہ بہت سے اوقاف متولیوں کی دست برد میں آجاتے ہیں اور ان کی آمدنی حقیقی مصرف میں صرف ہونے کی جگہ متولیوں کے ذاتی مصارف میں صرف ہوتی ہے۔ اس لئے جمعیۃ علماء ہند کا یہ جلسہ جمہور اہل اسلام کو توجہ دلاتا ہے کہ اوقاف کی نگرانی کے لئے عام انتخابات کے ذریعہ سے ایسی کمیٹیاں مقرر کریں جن کے ممبروں میں معتبر علماء اور بااثر اہل الرائے اصحاب شامل ہوں۔ وہ تحقیق کریں اور جس متولی کی خیانت اور نااہلیت ثابت ہو اس کے قبضہ سے وقف کو نکال کر کسی متدین صالح شخص کو متولی مقرر کریں۔ کسی ایسی کمیٹی کو جس میں معتبر علماء و صلحا شامل نہ ہوں اور اس کے فیصلے وقف کے احکام شرعیہ اور شرائط واقف کے موافق نہ ہوں تو اس کو وقف کی نگرانی کا کوئی حق نہ ہوگا ، اور نہ متولیوں کو اس کے احکام کی پابندی ضروری ہوگی۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں